تلنگانہ :سرکاری اسکولس میں’مڈڈے میل‘ اسکیم کا معاملہ

منتظمین کو بقایاجات کی عدم ادائیگی کی شکایت۔ مہنگائی کے باوجود پرانی قیمتوں کے مطابق بلوں کی ادائیگی

ڈاکٹرمحمدکلیم محی الدین، حیدرآباد

سرکاری اسکولوں میں دوپہر کے کھانے کی اسکیم بہت پرانی ہے۔ مڈڈے میل کی مرکزی ویب سائٹ کے مطابق 1925 میں اس اسکیم کی شروعات مدراس کے سرکاری اسکولوں سے ہوئی تھی۔ اس طرح کی اسکیم ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی شروع کی گئی تھی۔ 1990-91 تک ملک کی مختلف ریاستوں میں یہ اسکیم کارکرد تھی۔ 15 اگست 1995 کو ملک گیر سطح پراس اسکیم کا آغاز ہوا۔ اسکیم کے تحت مرکز کی امداد کے علاوہ ریاستی حکومت کی جانب سے بھی منتظمین کو اسکیم چلانے کا خرچ دیا جاتا ہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے کئی فلاحی اسکیموں کوکامیابی سے چلانے کے دعوے کیے جاتے ہیں جب کہ ان کی کامیابی اور شفافیت پر اکثر سوالات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ ریاستی سطح پر چلائی جارہی سرکاری اسکولوں میں دوپہر کے مفت کھانے (مڈڈے میل) کی اسکیم بھی ان دنوں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ ریاست تلنگانہ میں گزشتہ یکم ستمبر کو اسکول کھل گئے۔ یہ اسکولس مارچ 2020 سے بند تھے ۔ تلنگانہ کے 27541 اسکولوں میں مڈڈے میل اسکیم چلائی جارہی ہے ۔
یوں تو دوپہر کے کھانے کی اسکیم کو بہت سراہا گیا۔ اس اسکیم وجہ سے غریب اور سرکاری مدارس میں پڑھنے والوں بچوں کو راست فائدہ پہنچایا گیا۔ بچوں کو بھرپور دوپہر کا کھانا کھلانے کا انتظام کیاگیا۔ حکومت چاول تقسیم کرتی ہے، آرگنائزر (منتظم) انڈے اور دیگر اشیا فراہم کرتا ہے اور باورچی پکاتا ہے۔ اس طرح بچوں کے دوپہر کے کھانے کاانتظام ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں میڈیا میں مڈڈے میل کے تعلق سے خبریں چھائی رہیں۔بعض منتظمین نے بتایا کہ ان کے بقایا جات ادا نہیں ہوئے ہیں اور وہ قرض لے کر اسکیم چلانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
مختلف تنظیمی ماہرین اور اسکولوں سے وابستہ افراد نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں اپنے ملے جلے ردعمل کااظہار کیا۔
ٹی آر ایس کے ایک مقامی قائد نے بتایا کہ چونکہ اسکولس تقریباً ڈیڑھ سال سے بند تھے ۔مڈڈے میل سے متعلق تمام ترسرگرمیاں روک دی گئی تھیں۔ بجٹ وغیرہ کے معاملے میں بھی کچھ کمی وبیشی کہیں ہوئی ہوگی لیکن محض صرف اس کی بنیاد پر اسکیم کو ناکام قرار دینا سراسر غلط ہے۔ انہوں کہا کہ حکومت کو سب کچھ ٹھیک ٹھاک کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔اسکول کھلتے ہی آرگنائزرس اور باورچی حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہیں اگر کوئی کمی پائی جاتی ہےتواس جانب موثراقدامات اٹھائے جائیں گے۔
سینئر صحافی اوربی جے پی اقلیتی مورچہ سکندرآباد کے نائب صدر محمد نصیر الدین قادری نے بتایا کہ ٹی آر ایس حکومت مختلف اسکیموں کو صحیح طریقے سے چلانے سےقاصر ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لیے بجٹ کی کمی کابہانہ بنایا جاتا ہے جب کہ انتخابی مفادات کے تحت لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ حکومت تلنگانہ کے پاس مڈ ڈے میل کارکنوں کے بقایاجات ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔کئی مقامات پر دوپہر کا کھانا تیار کرنے والے آرگنائزر نہایت پریشانی میں گھر گئے ہیں۔ انہوں نے حکومت کی اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے قرض لیا تھا جس کو وہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومت غریب منتظمین اور باورچیوں کو مزید غریب بنارہی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت اس طرح کی حرکتوں سے باز آئے اور فوری اقدامات کرتے ہوئے منتظمین اور باورچیوں کے بقایاجات کو ادا کرے۔ یہ بات اخبارات میں بھی آچکی ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں کے بلز باقی ہیں جن میں 50 ہزار سے لے کر 3 لاکھ روپے کے بلز واجب الادا ہیں۔ ایک اسکول کا انتظام چلانے والے آرگنائزر نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے انہیں 50 ہزار روپے قرض لینا پڑا تھا جو سود کے ساتھ 75000 روپے ہوگیا ہے۔
سید احمد علی سرکاری مدرس کا کہنا ہے کہ حکومت اس اسکیم کے شروع میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی تھی اور اچھی غذا فراہم کی جاتی تھی۔ آرگنائزرس اور باورچیوں کے بقایاجات فوری ادا کردیے جاتے تھے جس کی وجہ سے یہ لوگ بخوشی خدمات انجام دیتے تھے لیکن آج حالات خراب ہو چکے ہیں اس کام کے لیے لوگوں کا ملنا مشکل ہورہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس اسکیم کو جاری رکھنے کے موثر اقدامات کرے۔
یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ ایک طرف مہنگائی بڑھ گئی ہے تو دوسری جانب حکومت پرانی قیمتوں کے مطابق بلوں کی ادائیگی کر رہی ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں دو روپے فی انڈا فراہم کیا جاتا تھا اب اسی قیمت پر بچوں کو انڈے فراہم کرنا ناممکن ہے کیوں کہ اب انڈے کی قیمت 5 روپے ہوگئی ہے۔ حکومت کو اپنی قیمتوں کی فہرست پرنظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
تلنگانہ ہائی کورٹ نے اسکولوں کے کھلنے کے بعد بچوں کو کلاسس میں حاضری کو لازمی قراردینے سے انکار کردیا ہے اس لیے اسکولوں میں 50 فیصد سے بھی کم حاضری درج کی جارہی ہے۔کہیں کہیں تو بچوں کی حاضری صرف 22 فیصد درج کی گئی ہے۔
آل انڈیا دلت مسلم او بی سی ویلفیر اسوسی ایشن کے قومی صدرمحمد رفیق نے بتایا کہ حکومت کو فلاحی اسکیموں پر موثر عمل آوری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ حکومت اسکیموں کو شروع تو کر دیتی ہے لیکن اس پرعمل آوری کے تعلق سے زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ اس کی مثال حکومت کی جانب سے دوپہر کے کھانے کی اسکیم کے منتظمین کے بقایاجات کی عدم ادائیگی ہے۔ تلنگانہ کے بعض اضلاع میں یہ اسکیم بہت کامیابی سے جاری ہے لیکن بعض اضلاع سے یہ شکایتیں آرہی ہیں کہ حکومت کی جانب سے ان کے بلز کی ادائیگی نہیں ہورہی ہے جس کی و جہ سے وہ بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے قرض لے کر اس اسکیم کو روبعمل لایا تھا اور اب وہ قرض ادا کرنے کے لیے اپنے مویشی بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جبکہ یہ اسکیم دیگر ریاستوں میں کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ ریاستی حکومت ایک اسکیم کو کامیابی سے چلانے سے کیوں قاصر ہورہی ہے؟ الیکشن اور انتخابات میں بے حساب دولت خرچ کی جاتی ہے لیکن غریب بچوں کے کھانے کی اسکیم کو موثر طور پر چلانے میں حکومت کیوں پیچھے ہٹ رہی ہے؟ بلز کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے منتظمین پریشان ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ اسکیم تلنگانہ میں بند ہونے کے قریب ہے۔
ضلع کھمم سے ملی ایک خبر کے مطابق وہاں کے ایک اسکول میں کھانا پہنچانے والے منتظمین نے کوویڈ-19 کے آغاز سے قبل قرض لیا تھا لیکن اچانک لاک ڈاون لگا دیا گیا اور حکومت نے ادائیگی روک دی جبکہ قرض کو 24 فیصد شرح سود کے ساتھ واپس کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اس جانب فوری توجہ دے۔
حکومت تلنگانہ کی جانب سے مرکزی اسکیمات کو کامیابی سے چلانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے جبکہ حقائق کچھ اور ہی سامنے آتے ہیں۔ تلنگانہ کے سرکاری اسکولوں کے غریب اور معصوم بچوں کو دوپہر کا کھانا کھلانا بلا شبہ ایک بہترین کام ہے، اس کام کو شفافیت کے ساتھ جاری رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آج اس میں کوتاہی افسوسناک امر ہے۔ کمیوں اور کوتاہیوں کو دور کرتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس اسکیم کو کامیابی سے ہمکنار کرے تاکہ اچھی غذا کھا کر سرکاری مدارس کے بچے صحت مند رہیں اور ملک کی ترقی و تعمیر میں بھرپور حصہ ادا کر سکیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021