وبائی فضا میں جمعہ وجماعت: شرعی نقطہ نظر

ہنگامی تقاضوں اور وباوں میں مکمل نظام حیات کی کیا ہیں تعلیمات؟ اسلام ایک آفاقی مذہب۔ اس کے احکام مصالح پر مبنی۔ ہر زمانہ کے ساتھ چلنے کی صلاحیت کے حامل

مولانا اشہد جمال ندوی
(سکریٹری، ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی)

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے ، اس میں دین ومذہب اور جان ومال کی ہر پہلو سے رعایت کی گئی ہے، اس میں جہاں اسلامی قدروں پر محافظت کا حکم دیا گیا ہے وہیں انسانی جان کا تحفظ اور انسانی مصالح کی رعایت کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ موجودہ حالات میں پوری دنیا ایک وبا Corona Virus کی وجہ سے اضطراب میں مبتلا ہے۔ یہ وائرس Virus پوری دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے، بعض ممالک نے اس پر قابو پانے کا دعویٰ کیا ہے تو بعض ممالک میں اس کا قہر تیزی بڑھتا جارہا ہے۔ سائنسدانوں، ڈاکٹروں، اداروں، تنظیموں اور حکومتوں کی طرف سے اس وبائی مرض سے محفوظ رہنے کے تدابیر اور Precautions بتائے جارہے ہیں جنہیں برتنے میں ہمارا فائدہ ہے۔ بتائی گئی تدابیر میں سے ایک اہم تدبیر یہ ہے کہ اژدھام اور بھیڑ بھاڑ میں جانے سے گریز کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر اژدھام کے مقامات بند کردیے گیے ہیں۔ مقامات اژدھام کے ضمن میں عبادت گاہیں بھی آتی ہیں۔حکومت ھند نے کئی بڑے مذہبی مقامات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ مگر مساجد میں جمعہ وجماعت کے سلسلے میں افہام وتفہیم سے کام لے رہی ہی اور ترغیب وترہیب سے اس حساس مسئلے کا حل نکالنا چاہتی ہے۔ علماء امت کو سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور وخوض کرنا چاہیے اور فوری طور متوازن حل پیش کرنا چاہیے۔ جب سے یہ وباء ظہور پذیر ہوئی ہے۔ سربراہان مملکت، علماء امت اور دانشوران مسائل کے حل میں سرگرداں ہیں اور حالات کے لحاظ تطبیق دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ زیر بحث مسئلہ میں اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا ایسے حالات میں مساجد میں جماعت وجمعہ کا اہتمام ہوتے رہنا چاہیے یا انھیں بھی مقفل کر دینا چاہیے؟ بعض مسلم ممالک میں احتیاطی تدابیر کے طور پر مساجد میں نماز وجمعہ کو عارضی طور پر موقوف کر دیا گیا ہے جیسے کویت، سعودی عربیہ، دبئی ،ملائیشا ایران وغیرہ۔ مذکورہ مسئلہ کے حوالے سے مولانا موصوف نے بتایا کہ حالات کی شدت اور جغرافیائی تفاوت کی وجہ سے علماء امت دو طبقوں میں بٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ذیل میں ان دلائل کا مکمل جائزہ پیش ہے
1۔ ایک طبقہ کا نقطہ نظریہ ہے کہ مساجد بہر حال کھلی رکھنی چاہئیں۔ اندیشہائے دور دراز کی وجہ سے مساجد کو برضا ورغبت مقفل نہیں کیا جا سکتا۔
2۔ دوسرے طبقہ کے نزدیک حالات کی نزاکت اور انسانی جان ومال کی حفاظت کے پیش نظر عارضی طور پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔
پہلے طبقے کے دلائل یہ ہیں :
1۔ وبائی امراض اللہ تعالی کی طرف سے مومنوں کے لیے آزمائش ہوتے ہیں اور بوقت آزمائش اللہ تعالیٰ نے صبر وصلاۃ کے ذریعہ اپنی استعانت طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا فرمان ہے:’’یا أَیہَا الَّذِینَ آمَنُواْ اسْتَعِینُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ‘‘۔
(مومنو!صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ رب العزت کی مدد طلب کرو۔)
2۔ وبائی امراض گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں، ہمیں چاہئے کہ ان حالات میں اللہ کی طرف رجوع کو بڑھائیں، مسجدوں کا رخ کریں اور کثرت سے استغفار اور نوافل کا اہتمام کریں۔
3۔ موت وحیات اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، اگر مشیت الہی س اس وبا کے ذریعہ موت آنی ہوگی تو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ایسے حالات میں ایک اہم فریضہ کو ترک کرنے سے بہتر ہے کہ نماز کو ادا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوں۔
4۔ بنی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ’’من صلی صلاۃ الصبح فھو فی ذمۃ اللہ‘‘
(جس نے صبح کی نماز پڑھی تو وہ اللہ کی امان میں ہے) لہذا مساجد میں نماز کا اہتمام کرکے اللہ کی محافظت میں آیا جائے۔
5۔ حالت جنگ میں بھی جماعت ترک کرنے کی رخصت نہیں دی گئی اور نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو ایک وبا کی وجہ سے کیسے یہ حکم موقوف کیا جاسکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’ ’وَإِذَا کُنتَ فِیہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلاَۃَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِّنْہُم مَّعَکَ وَلْیأْخُذُواْ أَسْلِحَتَہُم۔‘‘(اے نبی، جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور (حالت جنگ میں) انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہو تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اپنے اسلحہ لیے رہے)
دوسرا طبقہ ان دلائل کے وزن کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے۔ البتہ حالات کی مخصوص نوعیت کی وجہ سے بعض دوسرے دلائل تعطل کے حق میں پیش کرتا ہے۔
1۔ اللہ تعالی نے اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے سے روکا ہے، اسے کسی طرح سے پریشانی میں مبتلا کرنے کو منع کیا ہے۔’’وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ‘‘ ۔(اپنے نفس کو قتل نہ کرو)۔ ’’وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃ‘‘(اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) پھیلی ہوئی وبا کی خطرناکی جگ ظاہر ہے۔ ایسے وقت میں احتیاطی تدابیر نہ اختیار کرنا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
2۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ’’لا ضرر ولاضرار‘‘(خود پریشانی میں پڑو نہ دوسروں کے لیے پریشانی کا سبب بنو)۔ اس وقت مساجد میں اکٹھا ہونا نہ صرف فرد واحد کے لیے باعث ضرر ہوسکتا ہے بلکہ دوسرے افراد بھی اس کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ لہذا احتیاط برتنا روح شریعت کے عین مطابق ہے۔
3۔ اسلامی احکام انسانی مصالح پر مبنی ہیں، اسلام دینی اقدار کے تحفظ کے ساتھ انسانی جان کا تحفظ بھی ضروری قرار دیتا ہے۔ موجودہ حالات میں نمازوں کو گھروں میں ادا کرنے سے اسلامی اقدار پر کوئی فرق نہیں پڑتا جب کہ مساجد میں اکٹھا ہو کر نماز ادا کرنے کی صورت میں انسانی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ، چناں چہ احتیاط کے پیش نظر مساجد بند رکھنا مناسب ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ مساجد سے روکے جانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ نماز ترک کردی جائے، بلکہ پابندی کے ساتھ گھر میں نماز باجماعت ادا کی جائے، نبی کریم ﷺ نے حالات وضروریات کے لحاظ سے مسجد، گھر، صحراء جنگل اور مختلف جگہوں میں نماز باجماعت ادا کی ہے۔ ہمارے لیے رہنمائی ہے کہ ہم بھی حالات و ضروریات کے لحاظ سے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں۔ایک محتاط جائزے کے مطابق آج صرف زیادہ سے زیادہ %5 مسلمان پنجوقتہ نماز پڑھتے ہیں، بقیہ %95 آبادی نماز جیسے اہم فریضے سے غافل ہے۔ یاد رہے یہ آفات اور وبائیں اللہ تعالی کی طرف سے تنبیہ ہیں۔ جس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ہر ایک کو اللہ تعالی کی طرف رجوع ہونے کی کوشس کرنی چاہئے۔ اس وبائی فضا میں100 فی صد آبادی نماز کا اہتمام کرے۔
مسائل کی تطبیق کی دین میں تین حالتیں ہیں۔
1۔ عام حالات : جن میں تمام اسلامی احکام نافذ ہوتے ہیں۔
2۔تنگی کے حالات: اس میں اللہ تعالی نے آسانیاں رکھی ہیں، رخصتیں فراہم کی ہیں، اللہ تعالی انسانوں کے ساتھ آسانیاں چاہتا ہے، تنگی کو ناپسند کرتا ہے، ارشاد ہے:’’یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر‘‘ یہی وجہ ہے پورے دین کو آسان کر دیا اور کسی طرح کی سختی کو ناروا قرار دیا’’الدین یسر ولایشاد الدین‘‘ (دین سراپا سہولت ہے، اس میں سختی کی گنجائش نہیں ہے)۔
3۔ تیسری صورت اضطرار کی ہے جس میں حرام چیزیں بھی حلال ہوجاتی ہیں۔ آگے کہا کہ ابھی مساجد کے اختیارات ہمارے ہاتھ میں ہیں، علماء کرام اور وارثین نبوت غور و خوض کریں کہ اس وقت ہمارا ملک کس حالت اور پوزیشن میں ہے، اس کے مطابق شرعی نقطہ نظر سے مسئلہ کی وضاحت کریں اور عوام الناس کی رہ نمائی کریں۔ ساتھ ہی اس وبائی فضا میں دین اسلام جو کہ انسانیت کے لیے رحمت اور انسانی مصالح کا محافظ ہے لوگوں کے لیے کیا رہنمائی فراہم کرتا ہے اور کیا ہدایات دیتا ہے، اس سے عوام کو روشناس کرائیں۔ اس موقع پر اگر ہم نے شریعتِ اسلامیہ کی زمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت کو دلائل سے ثابت نہیں کیا اور اپنی تنگ نظری پر اصرار کرتے رہے تو نعوذ بااللہ ہماری کم علمی اور تنگ نظری کو شریعت اسلامیہ کی ضیق وتنگی پر محمول کیا جائے گا۔ جو کہ بہت بڑا خسارہ ہے۔
جب تک اختیارات ہمارے ہاتھ میں ہیں، مساجد بلاشبہ کھلی رہنی چاہئیں اور جمعہ وجماعت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ لیکن اس صورت میں بھی احتیاطی تدابیر ضرور بروئے کار لائی جانی چاہئیں۔ مساجد میں صفائی کا خاص اہتمام کیا جائے، نمازی خود اپنی صفائی کا خیال رکھے، نماز مختصر ہو، نوافل گھروں میں ادا کی جائیں، گھر سے باوضو آئیں، بزرگ، بچے اور ایسے امراض کے شکار افراد جن سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے ( جیسے نزلہ، زکام اور کھانسی وغیرہ) کو چاہیے کہ گھر میں نماز ادا کریں۔ ان شاء اللہ وہ اضافی ثواب سے نوازے جائیں گے۔ کسی کو اس کا گمان میں نہیں رہنا چاہیے کہ وبا اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی قوت مدافعت مضبوط ہو جس کی وجہ سے اس کو کسی طرح کا نقصان نہ ہو لیکن بہت ممکن ہے یہ وبا اس کے ذریعہ اس کے بزرگ والدین یا چھوٹے بچوں میں منتقل ہو جائے اور ان کی قوت مدافعت وبا کا مقابلہ نہ کرسکے، نتیجتاً وہ خود اور اہل خانہ پریشانی میں مبتلا ہوجائیں۔
حکام، اطباء اور ماہرین کی طرف سے بتائے گئے احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا چاہیے، اسلام ہمیں اس کی رہنمائی کرتا ہے۔
(لفظ بندی: سراج کریم سلفی)

دین اسلام جو کہ انسانیت کے لیے رحمت اور انسانی مصالح کا محافظ ہے،اس وبائی فضا میں لوگوں کے لیے کیا رہ نمائی فراہم کرتا ہے اور کیا ہدایات دیتا ہے اس سے عوام کو روشناس کریں۔ اس موقع پراگر ہم نے شریعتِ اسلامیہ کی زمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت کو دلائل سے ثابت نہیں کیا اور اپنی تنگ نظری پر اصرار کرتے رہے تو نعوذ بااللہ ہماری کم علمی اور تنگ نظری کوشریعت اسلامیہ کی ضیق وتنگی پر محمول کیا جائے گا۔