والدین بچوں میں تناؤ پیدا کررہے ہیں

سید تنویر احمد ۔بنگلورو

پیرنٹنگ کلاس Parenting Class کے بعد ایک ماں نے یہ سوال پوچھا کہ ’’میرا بیٹا کلاس تھری میں ہے اسکول سے لوٹتے ہی گھر میں بیاگ پھینک کر پڑوس میں چلا جاتا ہے۔ اس مسئلہ پر پڑوسن سے تلخ کلامی بھی ہوئی ہے لیکن بچہ اس عمل سے باز نہیں آرہا ہے‘‘۔
ایسی شکایت اکثر والدین کرتے ہیں۔ اسی سے ملتا جلتا ایک اور عمل بھی بچوں سے ہوتا ہے جس کی بھی شکایت کی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ بچہ گھر کا کام نہیں کرتا لیکن پڑوسن کا کام کرتا ہے، بچہ میری بات نہیں سنتا لیکن پڑوسن آنٹی کی بات بڑی دلچسپی سے سننا ہے وغیرہ۔
بچوں کے اس رویہ کے پیچھے دراصل والدین کا رویہ کار فرما ہوتا ہے۔ بچہ اسکول جانا شروع کرتے ہی والدین بالخصوص ماں کا رویہ یوں ظاہر ہوتا ہے:
(۱) بچے کی زندگی کا اہم کام اسکول جانا سمجھا جاتا ہے۔ کم عمر میں کھیل کود، حدود میں شرارت بچے کا حق ہے۔ اس حق کو والدین سلب کرلیتے ہیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ اسکول کا آغاز ہوتے ہی بچہ بہت زیادہ سنجیدہ ہو جائے۔ پابندی سے اسکول جائے، اسکول سے آتے ہی ہوم ورک میں مصروف ہوجائے وغیرہ۔ والدین بچے کے شب و روز سے متعلق Idealism (آئیڈیل ازم) کا شکار ہوجاتے ہیں چنانچہ وہ اس تصور کے تحت اپنے بچے میں ایک مثالی اور نمونے کا انسان دیکھنا چاہتے ہیں۔ کئی والدین اپنے بچے میں وہ کردار دیکھنا چاہتے ہیں جو وہ اپنے آپ میں دیکھنا چاہتے تھے لیکن وہ ان کی ذات میں ممکن نہیں ہو سکا۔
میں یہاں ایک حقیقی واقعہ آئیڈیل ازم کے تعلق سے بیان کر رہا ہوں تاکہ والدین آئیڈیل ازم کے بجائے Realism حقیقت پسندی سے کام لیں۔
بنگلور کی ایک فیملی سعودی عرب میں رہتی تھی۔ انہیں اکلوتا بیٹا تھا۔ اکلوتا ہونے کی وجہ سے والدین بہت زیادہ آئیڈیل ازم کا شکار تھے۔ والدین دین دار تھے۔ سعودی عرب کے ماحول نے انہیں اور بھی زیادہ دین دار بنا دیا تھا۔
بچہ گریڈ VIII (آٹھویں جماعت) تک سعودی عرب میں تعلیم حاصل کیا۔ آٹھویں کے بعد والدین نے چاہا کہ بچے کو بھارت منتقل کر دیں تاکہ بچہ NEET میں اچھے نمبرات حاصل کرے اور میڈیکل میں داخلہ لے۔ اس کے ساتھ والدین کی خواہش یہ بھی تھی کہ بچہ حافظ قرآن بنے اور دینی سرگرمیوں میں حصہ لے۔ بچے کو نویں جماعت میں داخل کر دیا گیا۔ اسکول میں ہاسٹل کی سہولت تھی۔ لاڑوں میں پلا بچہ تھا، ایک دو ہفتے بعد ہی ہاسٹل کے کھانے کی شکایت کرنے لگا۔ بچے کو کھانا پسند نہیں آ رہا تھا۔ بچے کی شکایت اور اس کی بے چینی دیکھ کر ماں بنگلور منتقل ہوئی۔ بچہ نویں جماعت سے دسویں میں آگیا۔ والدین کا دباؤ بچے پر بڑھ گیا۔ ماں صبح فجر بچے کو جگا دیتی۔ پھر حفظ کلاس جانا ہوتا، پھر اسکول، اسکول سے آتے ہی ہوم ورک، کوچنگ کلاس، حفظ کی مشق، اتوار کو اجتماع وغیرہ وغیرہ۔ ماں اور باپ بچے کو روبوٹ تصور کر رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا بچہ ڈاکٹر بنے، حافظ قرآن بنے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسا داعی و مقرر بنے۔ بچہ تناؤ برداشت نہیں کرسکا۔ نشہ کی گولیاں لینا شروع کیا۔ زیادہ سونے لگا۔ اپنی والدہ پر بھڑکنے لگا۔ ایک دفعہ تو وائیر کے ذریعے اس نے اپنی والدہ کا گلا گھونٹنے کی بھی کوشش کی تھی۔ بچہ تناؤ برداشت نہیں کرسکا۔ بچہ دسویں میں ناکام ہوگیا۔ نہ وہ حافظ قرآن بن سکا نہ ڈاکٹر اور نا ہی داعی بلکہ وہ ایک ذہنی مریض بن گیا۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ والدین بچوں میں تناؤ پیدا نہ کریں بلکہ بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے سہولت فراہم کریں۔ اچھا ماحول فراہم کریں۔
(۲) بچہ گھر آتے ہی ماں کا رویہ ہوتا ہے کہ بچے سے اس کا ہوم ورک پوچھا جاتا ہے۔ بچہ اسکول میں پش آئے واقعات کو بیان کرنا چاہتا ہے۔ ہاں! یہ واقعات آپ کے لیے غیر اہم ہوتے ہیں لیکن بچوں کے لیے اتنے ہی اہم ہوتے جس طرح آپ کے لیے بش کا عراق پر بمباری کرنا ہوتا ہے۔ والدین انہیں نہیں سنتے ہیں لیکن پڑوس کی آنٹی بڑی دلچسپی سے بچے کی باتوں کو سنتی ہیں۔ دوران گفتگو مزید تفصیلات بھی سنتی ہیں۔ اس پر بچہ بہت خوش ہوتا ہے۔ آنٹی سے ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ آنٹی کو چاہنے لگتا ہے۔ اس لیے بچہ اسکول کا بیاگ رکھتے ہی پڑوس کے گھر چلا جاتا ہے۔ اس کے سینے میں وہ باتیں ہیں جنہیں اسے بیان کرنا ہے تاکہ وہ راحت محسوس کرسکے۔ وہ راحت اپنے گھر میں نہیں آنٹی کے گھر میں محسوس کر رہا ہے۔ اس لیے جب بچہ اسکول سے گھر لوٹتا ہے تو آپ کو چاہیے کہ اس کی سنیں۔
(۳) بچہ گھر آتے ہی اکثر والدین کا ایک اور رویہ یہ ہوتا ہے کہ بچے سے فوری پوچھنے لگتے ہیں کہ آج کلاس میں کیا پڑھایا گیا۔ والدین کی یہ چاہت ہوتی ہے کہ بچہ وہ سب کچھ بیان کرے جو اس نے کلاس میں پڑھا تھا۔ ایسا تصور غیر واجبی ہے۔ اس لیے والدین اس سے پرہیز کریں۔
(۴) بچہ اسکول سے گھر آنے پر کیا کیا جائے؟
بچہ اسکول سے گھر آنے پر بچے کو سنیں۔ اسے راحت پہنچائیں۔ اگر وہ آرام کرنا چاہتا ہو تو آرام کرنے دیں۔ آرام کے بعد اگر بچہ کھیلنا چاہتا ہو تو کھیلنے کی اجازت دیں۔ بہتر ہے کہ وہ Out Door (میدان میں کھیلے جانے والے) گیمس کھیلے۔ کھیل کے ذریعے بچہ بہت ساری سماجی صلاحیتیں Social Skills سیکھتا ہے۔ اس کے اندر موجود تناؤ کم ہوتا ہے۔ دوستوں سے ملنے کی اجازت دیں۔ بچے کے دوستوں کو آپ گھر بلائیں۔
اکثر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کے دوست اس کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ دوستوں کے ذریعے بچہ بری عادتیں سیکھتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بچہ صحبت کے ذریعے بہت کچھ سیکھتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بچوں کی متوازن شخصیت کے لیے دوست ضروری ہیں۔ لہذا بچوں کے دوستوں کا صحیح انتخاب کریں۔ بچوں کی اس کے دوستوں کی دلچسپیاں معلوم کریں۔ ان کی نگرانی کرنے سے آپ کے بچے پر مثبت اثر ہوتا ہے۔ اس طرح والدین اگر اپنی اولاد کو گھر میں ایک مثبت ماحول فراہم کرتے ہیں تو بچے کی نشو نما اور بچوں کے اندر مثبت اقدام کا فروغ ہوتا ہے۔