نوپورشرما:پھٹکار کے بعد بھی گرفتاری کا انتظار!
خاطیوں پر کرم فرمائی اور بے قصوروں پر شکنجہ؟ دلّی پولیس کا رسواکن کردار
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
اظہار رائے کے تحفظ کے لیے G7 سے معاہدے کے دن محمد زبیر کی گرفتاری سے منافقت آشکار
سپریم کورٹ نے نوپور شرما کی ذلت و رسوائی میں چار چاند لگا کر خود اپنا وقار بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ پچھلے دنوں جسٹس اے ایم کھنوِلکر، دنیش مہیشوری اور سی ٹی روی کمار پر مشتمل ایک بنچ نے کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے جو تبصرہ کیا اس سے عدالتِ عظمیٰ کے وقار پر حرف آیا اور ’گودی میڈیا‘ کے طرز پر ’گودی عدلیہ‘ کا بھی چرچا ہونے لگا۔ حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے کورٹ نے سماجی کارکن تیستا سیتلواد کے خلاف الزامات کی جانچ کا راستہ کھول دیا۔ اس فیصلے کے خلاف چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک احتجاجی مکتوب میں مجموعی طور پر 304 وکلاء اور دیگر نامور ہستیوں نے جہد کار تیستا سیتلواد‘ سابق اے ڈی جی پی آر بی سری کمار اور دیگر کی قید پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا چونکہ انہوں نے فروری 2002میں گجرات فسادات کے دوران ہلاک ہونے والے زائد از 2000افراد کے لیے انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد کی تھی اس لیے ان کا پیچھا کیا جارہا ہے۔
نوپور شرما کے معاملے میں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا کی تعطیلاتی بنچ نے سخت ریمارکس کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ عدلیہ کے اندر اب بھی نڈر اور دو ٹوک فیصلہ کرنے والے جج موجود ہیں ۔
اپنے فیصلے میں جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ایک ٹی وی پروگرام کے دوران پیغمبر اسلام کے بارے میں اس (نوپور) کو اپنے ریمارکس کی وجہ سے کئی ریاستوں میں پھوٹنے والے فسادات اور پرتشدد واقعات کے لیے ٹیلی ویژن پر آکر پورے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔بنچ نے کہا کہ ہم نے بحث کے دوران قوم کو بھڑکانے والے تبصرے دیکھے ہیں۔ ایک منہ پھٹ عورت نے پورے ملک میں آگ لگا دی ہے۔ جج صاحب نے اُودے پور میں پیش آنے والے افسوسناک واقعہ کے لیے بھی نوپور شرما کو ذمہ دار ٹھہرا تے ہوئے کہا کہ اس کی ذمہ دار صرف وہی اکیلی عورت ہے۔ایک وکیل ہونے کے ناطے اسے جس طرح اکسایا گیا وہ اور بھی شرمناک ہے ۔‘‘
عدالت کو اس پر بھی اعتراض تھا کہ گیانواپی مسجد تنازعہ ٹرائل کورٹ میں زیر التوا ہے اس کے باوجود نوپورشرما نے متنازع پروگرام کے مباحثے میں حصہ لیا۔ سپریم کورٹ نے اس ٹی وی بحث کا مقصد عوام کے جذبات کو بھڑکانا بتایا۔ ایسے میں چینل اور اینکر دونوں کو سزا ملنی چاہیے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس دوران دہلی پولیس کے رویہ پر سوال اٹھا تے ہوئے پوچھا کہ نوپور شرما کے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد بھی اس کی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی؟ نوپور شرما کے وکیل منندر سنگھ نے جب کورٹ کو بتایا کہ ان کے موکل کی جان کو خطرہ ہے تو جسٹس سوریہ کانت نے پوچھا انہیں خطرہ ہے یا وہ سیکیوریٹی کے لیے خطرہ بن گئی ہیں؟ عدالت نے کہا کہ نوپور شرما کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن ان کے بیانات ضرور ملک کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ نوپور شرما کے خلاف مغربی بنگال کے علاوہ ممبئی ، دہلی، حیدرآباد اور سری نگر میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس بابت ممبئی اور کولکاتا پولیس نے نوپور شرما کو پوچھ تاچھ کے لیے دو بار نوٹس جاری کیے لیکن وہ پیش نہیں ہوئیں۔
نوپور کے وکیل نے جب اس کی معافی اور پیغمبر اسلامؐ پر کیے گئے تبصرہ کو واپس لینے کا تذکرہ کیا تو سپریم کورٹ نے کہا کہ اس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی۔ عدالت نے نوپور کی درخواست کو رعونت پر محمول قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے آگے مجسٹریٹ کی حیثیت بہت کم سمجھتی ہیں ۔ سپریم کورٹ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی شکایت پر تو ایک شخص کو گرفتار کیا جا چکا ہے لیکن کئی ایف آئی آر درج کیے جانے کے باوجود دہلی پولیس نے اسے ابھی تک چھوا بھی نہیں ہے۔ دہلی پولیس کی کارکردگی سے متعلق عدالت نے پوچھا اس نے اب تک کیا کیا ہے؟ اس پر ہماری زبان نہ کھلوائیں۔ آپ جب (زبیر جیسے ) کسی عام آدمی کے خلاف ایف آئی آر درج کرتے ہیں تو فوراً گرفتاری ہوجاتی ہے لیکن نوپور شرماکو گرفتار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ عدالت نے سوال کیا کہ کوئی کسی پارٹی کی ترجمان ہو تو کیا یہ سمجھے کہ اس کے پیچھے اقتدار کی طاقت ہے اور ملک کے قانون کے احترام کو بالائے طاق رکھ کر اپنی مرضی کے مطابق بیان دیا جاسکتا ہے؟ اس طرح ملک کی مختلف ریاستوں میں نوپور شرما کے خلاف درج کردہ مقدمات دہلی منتقل کرنے کی عرضی سپریم کورٹ نے خارج کردی ۔اس رسوائی کے بعد نوپور شرمانے درخواست واپس لے لی لیکن بہتر ہوتا کہ عدالتِ عظمیٰ گرفتاری کا واضح حکم دے دیتی۔
سپریم کورٹ نے جس دہلی پولیس پر تبصرہ کرنے سے اپنے آپ کو بمشکل تمام روکا اس کے امتیازی سلوک کا اندازہ محمد زبیر کے ساتھ معاندانہ رویہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ محمد زبیر کے خلاف مہم کی ابتداء 15؍جون سے ہوئی جب حقائق کی تفتیش کرنے والی ویب سائٹ آلٹ نیوز اور اس کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والے کو ایک ہزار روپے کے انعام کا اعلان کیا گیا ۔ یہ مہم ٹویٹر پر چلائی گئی اور اس میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی ریاست یا مرکز کے زیر انتظام خطے میں پہلی ایف آئی آردرج کروانے والے کو ایک ہزار روپئے اور گرفتار کروا کر سزا دلوانے والے کو 50 ہزارانعام ملے گا۔ مہم چلانے والوں کو توقع تھی کہ 28 ریاستوں اور 8 مرکز کے زیر انتظام خطوں میں کئی ایف آئی آر درج کی جائیں گی مگر صرف دو درج ہوئیں ۔ اس کے جواب میں محمد زبیر کی حمایت میں زبردست مہم چل پڑی اور ایف آئی آر کی مخالفت شروع ہوگئی ۔ لوگوں نے محمد زبیر کو جمہوریت کی آواز قرار دیا اور یہاں تک لکھا کہ اگر آپ سچ کا ساتھ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو زبیر کا ساتھ دینا ہوگا۔ ریڈیو مرچی کی آر جے صائمہ نے زبیر کو حقیقی محب وطن قرار دیانیز بالی ووڈ اداکارہ سوارا بھاسکر نے بھی زبیر سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
دہلی کی چاپلوس پولیس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اس نے 28؍جون کے دن محمد زبیر پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگا کر گرفتار کرہی لیا۔ دہلی پولیس کی ایف آئی آر میں کہا گیا ’محمد زبیر نے اپنے الفاظ اور تصاویر سے انتہائی اشتعال انگیز اور نفرت کے جذبات بھڑکانے کا کام کیا ہے‘ حالانکہ جس ہنومان اور ہنی مون والی پوسٹ پر اعتراض کیا گیا وہ 1983 میں بنی فلم ‘کسی سے نہ کہنا‘ سے لی گئی تھی ۔ رشی کیش مکرجی کی اس فلم کو سنسربورڈ کا سرٹیفکیٹ حاصل ہے اور برسوں سے دکھائی جارہی ہے۔ دوسال پرانے اس ٹویٹ کو پوسٹ کرکے بھکت balajikijai@ نے ہنومان جی کا ہنی مون سے موازنہ کرنے کو ہندوؤں کی توہین قرار دیا کیونکہ وہ برہمچاری ہیں۔ اس سے معاشرے میں نفرت پیدا کرنے کے الزام پرکارروائی کرتے ہوئے پولیس نے زبیر کے خلاف آئی پی سی 153 اے اور 295 کے تحت ایف آئی آر درج کرکے نوٹس دیے بغیر گرفتار کر لیا جو سراسر غیر قانونی حرکت تھی لیکن امیت شاہ کے تحت کام کرنے والوں کو اس کی پروا نہیں ۔
اس بابت آلٹ نیوز کے بانی پرتیک سنہا نے یہ دلچسپ انکشاف کیا کہ زبیر کو 2020 سے ایک الگ معاملے میں پوچھ گچھ کے لیے دہلی پولیس نے بلایا تھا ۔ اس معاملہ میں عدالت نے انہیں پیشگی ضمانت دے رکھی ہے اس لیے لازمی معلومات فراہم کیے بغیر ایک نئے کیس میں گرفتار کر لیا گیا نیز بار بار کی درخواست کے باوجود ایف آئی آر کی کاپی تک نہیں دی گئی۔ نوپور شرما کی گرفتاری سے نظریں چرانے والی دہلی پولیس نے محمد زبیر کو جس ہنومان بھکت کی شکایت پر گرفتار کیا وہ فی الحال ٹویٹر پلیٹ فارم سے غائب ہو گیا ہے۔ زبیر کی گرفتاری کے دن اس ٹویٹر اکاؤنٹ سے صرف ایک ٹویٹ ہوئی تھی اور اس کا صرف ایک فالوور تھا لیکن چند ہی دنوں میں اس کے 1200 فالوورز ہو گئے لیکن ان جعلی فالوورز کے ساتھ یہ اکاؤنٹ اب پر اسرار طور پر ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔ یہ تفریق و امتیاز کی انتہا ہے کہ پولیس نے محمد زبیر کو تو گرفتار کرلیا مگر شکایت کنندہ سے رابطہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور ڈھٹائی سے یہ بھی کہا کہ اس سے تفتیش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ فی الحال پولیس شکایت کرنے والے شخص کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہی تاکہ شکایت کے بارے میں پوچھ گچھ کرسکے لیکن اس پر کارروائی پہلے ہی شروع ہوگئی۔ اس کو کہتے ہیں مدعی سست( بلکہ غائب) اور گواہ چست۔ پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ اس نے خوف کی وجہ سے اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا ہو۔یہ عجیب منطق ہے کہ جسے وزیر داخلہ کی پشت پناہی حاصل ہو وہ خوف سے روپوش ہوجائے۔
دہلی پولیس کوجب محمد زبیر کے خلاف نفرت انگیزی کے ٹھوس ثبوت نہیں ملے تو اس نے بیرون ملک سے چندہ لینے کا الزام لگا کر 35 FCRAکے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ اس کے ساتھ آئی پی سی 201,120 (B)کے تحت شواہد کو تباہ کرنے (فون فارمیٹ اور ٹویٹس کو حذف کرنا) کی سازش کرنے سے جڑی نئی دفعات بھی لگادی گئیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ دہلی پولیس کو زبیر کا موبائل فون اور ہارڈ ڈسک کے کھنگالنے سے کوئی خاص چیز نہیں ملی اس لیے اس نے اسے مزید14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا حالانکہ ضمانت ہوجانی چاہیے تھی۔ زبیر کی ضمانت خارج ہونے سے ملی بھگت کا راز کھل گیا کیونکہ شام ۷؍ بجے جاری ہونے والے حکمنامہ کی اطلاع ڈی سی پی نے دوپہر ڈھائی بجے ٹوئٹر کے ذریعہ دے دی۔ اب دہلی پولیس نے زبیر کے بینک کی تفصیلات ای ڈی کو سونپ دی ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس کے اکاؤنٹ میں پچھلے تین ماہ کے اندر 56 لاکھ روپے آئے ہیں۔ یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے اتنا تو مہاراشٹر کے باغی ارکان اسمبلی کے عیش و عشرت پر ایک ہفتے میں خرچ ہوگیا ۔ محمد زبیر کو اگر کچھ چھپانا ہوتا تو وہ رقم اپنے بنک میں کیوں منگواتا؟
آلٹ نیوز کے شریک بانی پرتیک سنہا نے اس الزام کو سفید جھوٹ قرار دیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس آلٹ نیوز کے ذریعہ حاصل کردہ چندے کو محمد زبیر سے جوڑ رہی ہے۔ان کے مطابق آلٹ نیوز کو حاصل ہونے والا سارا پیسہ کسی شخص کو نہیں بلکہ تنظیم کے بینک کھاتے میں جاتا ہے، ۔ محمدزبیر کے ذاتی اکاؤنٹ کا بینک روزنامچہ اس جھوٹ کو خارج کرتا ہے۔محمد زبیر کے نام پر ہواّ کھڑا کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ امریکہ میں ہندوراشٹر کےنظریہ کو پھیلانےکے لیے جو 24 تنظیمیں کام کرتی ہیں ان کی کل مالیت کم از کم97.7 ملین ڈالرہے۔ بی جے پی کی حکومت کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے 2001 سے 2019 تک ان میں سے سات خیراتی گروپوں نے کم از کم158.9 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس رقم کا تقریباً نصف، 85.4 ملین ڈالر، 2014 اور 2019 کے درمیان خرچ کیا گیا تھا ۔کہاں 1200کروڑ اور کہاں 56 لاکھ روپیہ ، اس کے باوجود اس قدر خوف ! ایسے ڈرپوک لوگوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق ہی نہیں ہے۔
نوپور شرما کے معاملہ میں جس طرح حکومت کی قومی اور عالمی سطح پر رسوائی ہوئی وہی معاملہ محمد زبیر کے ساتھ بھی ہونے جارہا ہے۔ پریس کلب آف انڈیا نےمحمد زبیر کی گرفتاری پر سوال اٹھائے ہیں۔ اس کے مطابق یہ ستم ظریفی ہے کہ دہلی پولیس کے ذریعہ محمد زبیر کی گرفتاری ایک ایسے دن ہوئی ہے جب ہندوستان نے آن لائن اور آف لائن اظہار رائے اور رائے کے دفاع کی خاطر G7 اور دیگر چار ممالک کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس طرح مودی جی کی منافقت جگ ظاہر ہوگئی ۔ پریس کلب نے محمد زبیر کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا ۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے محمد زبیر کی گرفتاری کو’’انتہائی تشویشناک‘‘ اور’’بے شرمی ‘‘قرار دیا ۔اس موقر ادارے نے اپنے بیان میں کہا کہ زبیر اور ان کی ویب سائٹ آلٹ نیوز نے برسوں تک جعلی خبروں کی نشاندہی کرنے اور پروپیگنڈہ مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت ہی معروضی اور حقائق پر مبنی مثالی کام کیا ہے۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ صحافی برادری کی متحد ہ حمایت کے باوجود حکومت کی پشت پناہی میں انتظامیہ محمد زبیر کو پریشان کررہا ہے۔
نوپورشرما کی بدزبانی کی طرح محمد زبیر کی گرفتاری کا معاملہ بھی ملک کی سرحدوں کے پار اقوام متحدہ تک پہنچ چکا ہے۔ یو این او کے سربراہ انتونیو گوٹیرس کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو ان کی تحریر، ٹویٹ اوربیان پر جیل میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ہراسانی کے خطرات سے بےخوف اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے۔ صحافی زبیر کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا ،’’ دنیا بھر میں لوگوں کو آزادی سے اظہار خیال کرنے کی اجازت بہت ضروری ہے کہ ۔ صحافیوں کے لیے آزادانہ طور پر اظہار خیال کا موقع ہونا چاہیے – ان کے ساتھ دھونس دھمکی یا ہراسانی کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ زبیر کی گرفتاری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’صحافی جو کچھ لکھتے ہیں، جو ٹویٹ کرتے ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں اس کے لیے انہیں جیل میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ اور وہ اس کمرے سمیت دنیا میں کہیں بھی جا سکتے ہیں۔‘‘ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ادارے نے اس سے قبل تیستا سیتلواد کی گرفتاری پر بھی تشویش کا اظہار کرکے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا لیکن موجودہ حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔وہ تو نوپور شرما کو گرفتاری سے بچانےکی کوشش میں غرق ہے۔
عدالت عظمیٰ میں نوپور شرما کی سخت پھٹکار کا ملی تنظیموں اور علمائے دین نے خیرمقدم کیا اور ساتھ ہی معافی کے ساتھ قانونی سزا کا بھی مطالبہ کیا تاکہ مستقبل میں کوئی دوسرا شخص اس طرح کی حرکت سے ماحول خراب نہ کرے۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر محمد سلیم انجینئر نے سپریم کورٹ کے تبصرہ کو امید کی کرن بتا کر اس کا خیرمقدم کیا۔ ان کے مطابق نوپور شرما کی معافی سے اس کا جرم کم نہیں ہو جاتا اس لیے سزا توملنی ہی چاہیے تاکہ کوئی اور مستقبل میں ایسی غلطی نہ کرے۔ دہلی کی فتح پور سیکری مسجد کے شاہی امام مفتی مکرم احمد نے بھی سپریم کورٹ کے تبصرےکا خیرمقدم کیا ۔ ان کے مطابق عدالتی تبصرہ سے پہلے ہی نوپور شرما معافی مانگ لیتی تو ملک کا ماحول خراب نہیں ہوتا۔ شیعہ عالم دین مولانا محسن نقوی نے کہا کہ عدالت کا تبصرہ بہت مناسب ہے۔ نوپور شرما اگر معافی مانگتی ہے تو مسلمانوں کو معاف کر دینا چاہیے کیونکہ اسلام میں معاف کرنے کا جذبہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ نوپور شرما نے پیغمبر اسلامؐ کی زندگی پر لکھی کتابیں پڑھی ہوتی تو وہ ہرگز ایسا بیان نہیں دیتی۔ اس پیغام میں یہ تلقین پوشیدہ ہے کہ دشمنانِ اسلام تک بھی دین کی دعوت پہنچانا اہل ایمان کی ذمہ داری ہے۔ امید ہے نوپور شرما کو عدالت عظمیٰ میں جو پھٹکار ملی وہی کہانی محمد زبیر کے معاملہ میں بھی دوہرائی جائے گی۔
ملک کے اندر عدلیہ کی دگرگوں حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بہت صحیح کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں عدالت کے ذریعہ اپنے اقدامات کی حمایت چاہتی ہیں ۔ جسٹس رمنا کے مطابق عدلیہ آئین کے تئیں جواب دہ ہیں۔ سی جے آئی کو یاددلانا پڑا کہ عدلیہ ایک آزاد ادارہ ہے جو کسی سیاسی پارٹی یا نظریہ کے آگےنہیں بلکہ صرف آئین کو جواب دہ ہے ۔ امریکہ کے اندر سان فرانسسکوکی ایک تقریب میں انہوں نے کہا کہ ہم ملک کی آزادی کے 75 ویں سال میں ہیں۔ ہماری جمہوریہ 72 سال کی ہو گئی ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے ابھی تک آئین کی طرف سے ہر ادارے کو تفویض کردہ کردار اور ذمہ داری کی مکمل تعریف نہیں سیکھی۔ یہ کھلا اعتراف اگر راہل گاندھی یا اسدالدین اویسی کرتے تو ملک کی توہین کے بہانے ہنگامہ کھڑا کردیا جاتا لیکن سپریم کورٹ کے آگے جعلی دیش بھکت بے بس ہیں ۔ سی جے آئی نے کہا کہ یہ عوام میں پھیلی ہوئی جہالت ہے جو ان قوتوں کی مدد کے لیے آگے آرہی ہے جن کا مقصد واحد آزاد ادارے یعنی عدلیہ کو تباہ کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ قوتیں کون سی ہیں ؟ اور وہ ایسا کیوں چاہتی ہیں ؟ ان سوالوں پر اشاروں کنایوں کے بجائے کھل کر بحث کا ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ورنہ نوپور کے بجائے تیستا سیتلواد اور محمد زبیر جیسے بے قصور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجے جاتے رہیں گے اور ریاض انور کا یہ شعر دوہرایا جاتا رہے گا؎
عدالت سے یہاں روتا ہوا ہر مدعی نکلا
کرم فرمائی سے منصف کی ہر مجرم بری نکلا
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
عدالت کو اس پر بھی اعتراض تھا کہ گیانواپی مسجد تنازعہ ٹرائل کورٹ میں زیر التوا ہے اس کے باوجود نوپورشرما نے متنازع پروگرام کے مباحثے میں حصہ لیا۔ سپریم کورٹ نے اس ٹی وی بحث کا مقصد عوام کے جذبات کو بھڑکانا بتایا۔ ایسے میں چینل اور اینکر دونوں کو سزا ملنی چاہیے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس دوران دہلی پولیس کے رویہ پر سوال اٹھا تے ہوئے پوچھا کہ نوپور شرما کے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد بھی اس کی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی؟
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 جولائی تا 16 جولائی 2022