جنسی بے راہ روی کے خلاف مہم کو مزیدتیز کرنے کی ضرورت

امریکہ میں اسقاط حمل اور جاپان میں ہم جنس پرستوں کی شادی پرپابندی

ڈاکٹر جاوید جمیل

راقم الحروف ربع صدی سے زائد عرصے سے اسقاط حمل، ہم جنس پرستی اور جنسی بے راہ روی کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ چناں چہ گزشتہ ہفتے کچھ اچھی خبریں آئی ہیں، پہلے جاپان اور پھر امریکہ سے۔ سب سے پہلے جاپان کی حکومت نے ہم جنسوں کے مابین شادیوں پر پابندی عائد کی اور ملک کی سپریم کورٹ نے اسے برقرار بھی رکھا۔ اب امریکہ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ اسقاط حمل کو قانونی حیثیت نہیں دی جا سکتی ہے۔
یہ سنہ 1995 کی بات ہے جب میں نے اپنی پہلی کتاب ’’اسلامک ماڈل فار کنٹرول آف ایڈز‘‘ شائع کی تھی جس میں، میں نے یہ دلیل دی تھی کہ ایچ آئی وی/ایڈز اور دیگر تمام جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں پر اس وقت تک قابو نہیں پایا جا سکتا جب تک کہ ہم جنس پرستی اور ہر قسم کی جنسی بے راہ روی نیز، جنسی کاروبار پر مکمل پابندی نہ لگا دی جائے۔ اس سے قبل سنہ 1993 میں، میری کتاب ’’اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی‘‘ نے اسقاط حمل کو برتھ کنٹرول پروگرام کے ایک حصے کے طور پر شامل کرنے کی پالیسی کے خلاف سخت تنقید کی گئی تھی۔ 1997 میں، میں نے قومی ایڈز کنٹرول پروگرام، صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت، حکومت ہند کے تعاون سے دہلی میں ایڈز پر ایک قومی سیمینار کا انعقاد کیا، جس میں ایک بار پھر جنسی بے راہ روی، جسم فروشی، ہم جنس پرستی، ہر طرح کے جنسی کاروبار اور اس کی لت اور اس کے تئیں بڑھتے ہوئے رجحانات کے خلاف ایک بین الاقوامی مہم کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ دنیا نے میری ایک نہ سنی!۔ یہاں تک کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (عالمی ادارہ صحت) اور یو این ڈی پی سے وابستہ کچھ لوگوں نے مجھے یہ سمجھانے بجھانے کی خوب کوشش کی کہ ان تمام چیزوں کے خلاف مہم چلانے کے بجائے مجھے ’سیوو سیکس‘ (محفوظ جنسی عمل) کے فروغ کی بات کرنی چاہیے۔ صحت کے شعبے پر معیشت کی بالا دستی کے غلبہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلے تیس برسوں میں 48 ملین سے زیادہ لوگ ایڈز کی وجہ سے مر چکے ہیں۔ اور تمام بین الاقوامی ایجنسیوں کی طرف سے جاری اعداد و شمار سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہم جنس پرستی، جسم فروشی کے بعد (ایڈز کے پھیلاؤ میں) سب سے بڑا عنصر رہا ہے۔ شراب اور منشیات کی لت کے ساتھ اس کا تعلق بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔
اگر چہ جنس اور خوبصورتی کی تجارتی نقطہ نظر سے کی جانے والی بے تحاشہ تشہیر کی وجہ سے ہونے والی تباہی نے پورے معاشرے کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے، لیکن سب سے زیادہ خوف ناک معاملہ بچوں کا ہے ان کے پاس وہ آواز نہیں ہے جو ان کے گھروں کی دیواروں یا ان کی ماؤں کی سایہ عاطفت سے باہر سنی جا سکے۔ ان کے پاس صرف چیخیں ہیں جو اندر ہی اندر دفن ہو جاتی ہیں۔ وہ جسمانی طور پر اس قابل نہیں ہیں کہ وہ اپنا دفاع کر سکیں۔ نہ تو ان کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں نمائندگی ہے اور نہ ہی میڈیا میں۔ سوئے قسمت کہ ہمارے بچے مکمل طور پر دوسروں کے رحم و کرم پر زندہ ہیں۔ اس لیے ان کی ہلاکت، انہیں نظر انداز کیے جانے اور ان پر حملہ کیے جانے کا امکان کسی اور کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ بے شک سب سے زیادہ کمزور وہ بچے ہوتے ہیں جن کی آواز ان کی ماؤں کے سایہ عاطفت سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔
نئے جنسی اخلاقیات کی حمایت اور اس کی ترویج و فروغ میں بڑے کاروباروں، خاص طور پر جنس کے عالمی سوداگروں نے آزاد جنسی تعلقات کی راہ میں تمام رکاوٹوں کو ختم کر دیا ہے۔ شادی یا کوئی اور روایتی رسم، عمر، جنس، جگہ، وقت اور سابقہ رشتے—ان سب کو جنسی تصادم کے مقصد کے حصول کے لیے اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ واحد پابندی جو قانونی فریم ورک نے لگا رکھی ہے، جنسی تعلقات کے خواہاں دو افراد کی باہمی رضامندی ہے۔ اگر دونوں راضی ہو جائیں تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ تاہم انہیں مشورہ دیا جائے گا کہ جہاں تک ممکن ہو احتیاط برتیں تاکہ ان کی پر جوش محبت نا پسندیدہ نتائج کی طرف نہ چلی جائے۔ ان سے کہا جائے گا کہ یہ روش ان کے اپنے کیریئر اور ملک کی معیشت کو بھی تباہ کر سکتی ہے۔ اعتراض کیسا بلکہ پریشان ہونے کی بھی کوئی بات نہیں — اگر احتیاط کے باوجود عورت حاملہ ہو جائے تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ریاست محفوظ اسقاط حمل کے لیے ہر وہ چیز فراہم کرنے کے لیے موجود ہے جس کی اسے ضرورت ہو گی مثلا: قانونی اجازت، سماجی تحفظ اور مفت خدمات۔ پرائیویٹ کلینک، اپنے طریقے سے، بہترین سہولتیں وغیرہ۔ اس طرح اسقاط حمل کے ساتھ ہی بچوں کو ان کے کسی جرم کے بغیر ہلاک کر دیے جانے اور زیادتی کا نشانہ بنانے کی افسوسناک کہانی شروع ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً پانچ تا سات کروڑ بچے اپنی پیدائش سے پہلے ہی ہلاک کر دیے جاتے ہیں۔ کئی اطراف سے جو اعداد و شمار آ رہے ہیں وہ انتہائی حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان کن بھی ہیں۔ وہ اعداد و شمارجو پوری انسانیت کو شرمندہ کر دیں گے اور ہر با ضمیر کو سر سے پاؤں تک جھنجھوڑ کر رکھ دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ انسانیت کہاں ہے اور با ضمیر افراد کہاں بستے ہیں؟ تلخ سچائی یہ ہے کہ آج ہم بنی نوع انسان کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ انسان کے بھیس میں حیوان یا درندے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں، جو جنسی لذت کی تلاش میں ہے اور اسے اپنی خوشی (نا ہنجار ہوس کی تکمیل) کے سوا کچھ نہیں چاہیے، خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ یہ انسانوں میں سے مضبوط لوگوں کی تسکین کے لیے ہے جنہوں نے ان تمام چیزوں کو ختم کرنے کی سائنس میں مہارت حاصل کر لی ہے جو ایک نہ رکنے والی تفریح اور تسکین میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ پھر کیا ہو گا اگر اس شان دار منصوبے کے لیے ہر ماہ چند ملین جزوی طور پر بنے ہوئے انسانی گوشت کو ضائع کر دیا جائے۔ وہ یقیناً انسانوں کی طرح ہی ایک تخلیق ہیں، بجز انسان کے۔ اور یقیناً وہ سب سے کمزور رکاوٹیں بھی ہیں۔ پھولوں کی حفاظت کی جانی چاہیے، اسقاط حمل کے حامی اس طرح کی بحثیں کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اگر بنی نوع انسان کو "ناپسندیدہ نتائج” سے "بچانے” کے لیے کلیوں کو مسل دیا جائے تو آنسو کیوں بہائے جائیں؟ جانوروں کے قتل اور نایاب نسلوں کے ناپید ہونے، پودوں کی بیخ کنی اور جنگلات کی کٹائی کے خلاف اور تاریخی یادگاروں اور مقامات کی تباہی کے خلاف بھی بڑی تحریکیں چلائی جاتی ہیں۔ یہ انسان نہیں ہیں لیکن پھر بھی انہیں اقتدار کے کسی دوسرے عناصر کی پشت پناہی اور حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف لاکھوں انسانوں کی ناگہانی موت ( قتل بے نوا) کے خلاف ایک قابل ذکر عالمی مہم کو تیز کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بڑے کاروبار کی پشت پناہی کرنے والے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جو اس طرح کی کسی بھی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے "نفیس” منطق اور خطیر رقومات کے ہتھیاروں سے پوری طرح لیس ہوتے ہیں۔ پھر بھی ہمیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ہم ایک مہذب دنیا میں جی رہے ہیں جو انسانی حقوق کا خیال رکھتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو لوگ انسانی حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کرتے ہیں وہی ان میں سے زیادہ تر ہلاکتوں کی خاموش حمایت کرتے ہیں۔
جیسے ہی سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا، امریکی مرد و خواتین اس فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اس فیصلے کی وجہ سے یقیناً ان کی جنسی تسکین (بے راہ روی پر قدغن) پر لگام لگے گی اور ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گا۔ مارکیٹ اس نقصان کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ اسقاط حمل اربوں روپے کا بہت بڑا بازار ہے۔ اور اگر اسقاط حمل کی قانونی حیثیت کو کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے تو بہت سے دوسرے بازار بھی اس کی وجہ سے متاثر ہوں گے اور یقیناً ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں ان کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ صدر بائیڈن پہلے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کرنے کا عہد کر چکے ہیں۔
ایک ذمہ دار اور حساس فرد کے طور پر میں جاپان اور امریکہ کی خبروں کو اپنے لیے تھوڑی سی اخلاقی جیت سمجھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ تمام صحیح اور اس تناظر میں مثبت سوچ رکھنے والی تنظیمیں، خاص طور پر اسلامی تنظیمیں ان کریہہ برائیوں کے خلاف ایک بین الاقوامی مہم چلائیں گی جو پوری بنی نوع انسانیت اور انسانی صحت کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ یہ اٹھ کھڑے ہونے اور عمل کے لیے کمر کسنے کا صحیح وقت ہے۔
(ڈاکٹر جاوید جمیل مفکر، محقق اور مصنف ہیں جن کی بیس سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ وہ فی الحال ینیپویا یونیورسٹی منگلورو میں کرسی صدارت پر فائز ہیں)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 جولائی تا 16 جولائی 2022