نبی کریم ﷺ اندرون خانہ

جاویدہ بیگم ورنگلی

 

آج دکھاوا انسان کی فطرت ثانیہ بن گیا ہے۔ وہ اپنی شخصیت پر ایک خوبصورت پردہ ڈالے ہوئے ہوتا ہے تاکہ لوگ اس سے مرعوب ہوں ،سماج میں اس کی عزت ہو۔ بعض مرتبہ ظاہر میں انسان کی شخصیت جس قدر خوبصورت نظر آتی ہے اندر اتنی ہی گھناونی ہوتی ہے۔ باہر لوگوں کے ساتھ جس خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے گھر والوں کے ساتھ اس کا رویہ بڑا ظالمانہ ہوتا ہے کیونکہ اخلاقی خوبیوں کو مستقل اپنانا ایک مشکل ترین کام ہے۔ اس کے لیے اپنے نفس اور جذبات پر کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کے بارے میں جو واضح سوچ رکھتے ہیں جو سوچ سمجھ کر اخلاقی خوبیوں کو اپناتے ہیں وہ ہر وقت ہر موقع ہر جگہ یکساں اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کی زندگی میں دو رنگی نہیں ہوتی۔ گھر اور باہر کی زندگی میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔ اپنے پرائے، غریب و امیر ہر ایک ساتھ ان کا سلوک یکساں ہوتا ہے۔ دین اسلام کی امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ یکساں طور پر ظاہر و باطن کا دین ہے وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ظاہر صاف ستھرا ہو باطن گندا ہو۔ اس دین کے داعی حضرت محمدؐ کی زندگی اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ آپؐ کی حیات طیبہ کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ آپ گھر کے باہر جیسے نظر آتے ویسے ہی گھر کے اندر تھے۔ آپ کی زندگی پرائیویٹ اور پبلک دو حصوں میں تقسیم نہ تھی۔ آپؐ کی گھریلو زندگی بیرونی زندگی میں حد درجہ مطابقت تھی۔ آپؐ کی نجی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے تھی کسی فرد کی عظمت و بزرگی جانچنے اور پرکھنے کی بہترین جگہ اس کی اندرون خانہ زندگی ہوتی ہے آپؐ کی جلوت کی زندگی کی طرح خلوت کی زندگی بھی رہنما ہے۔
منصب رسالت کی ذمہ داریاں و فرائض ، دعوت و تبلیغ ،تعلیم و تربیت اور رشد و ہدایت کی بے انتہا مصروفیتوں نے آپؐ کو خشک مزاج بنایا تھا نہ آپؐ میں چڑچڑا پن پیدا ہوا تھا۔ آپؐ کی گھر میں آمد موسم بہار کی طرح ہوتی تھی۔ گھر والے محسوس کرتے جیسے بہار ہر طرف رقصاں ہو۔ آپؐ اندرون خانہ نہایت خوش مزاج تھے۔ گھر میں آپؐ کی موجودگی سب کے لیے راحت کا سامان ہوا کرتی تھی۔ آپؐ اپنی بیوی کے دکھ درد میں ہر طرح شریک رہتے۔ انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرتے۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ آپؐ نے کبھی ازواج مطہرات کو یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ نبوت کی عظیم ذمہ داریاں ادا کرنے سے آپ تھکے ہوئے ہیں۔ اس لیے حقوق زوجیت ادا نہیں ہو پا رہے ہیں۔ آپؐ گھر کی فضا کو خشک و بوجھل ہونے نہیں دیتے تھے۔ خواتین بڑی بے تکلفی سے آپؐ سے گفتگو کرتیں۔ مسائل پوچھتیں۔ آپؐ سے مشورہ کرتیں اپنے مشکلات پیش کرتیں۔ ایک مرتبہ خاندان کی بہت سی خواتین جمع تھیں آپؐسےبڑھ بڑھ کر باتیں کررہی تھیں۔ اتنے میں حضرت عمرؓ آگئے سب خواتین اٹھ کر ادھر اُدھر ہوگئیں۔ اس پر حضورؐ ہنس پڑے۔ حضرت عمرؓ نے دیکھا تو پوچھا ’’خدا آپ کو ہمیشہ خنداں رکھے۔ آپؐ کس بات پر ہنسے ہیں؟‘‘۔ آپؐ نے فرمایا، مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا کہ تمہاری آواز سنتے ہی سب آڑ میں ہوگئیں۔ حضرت عمرؓ نے ان خواتین کو مخاطب ہوکر کہا ’’اپنی جان کی دشمنو! مجھ سے ڈرتی ہو! رسولؐ خدا سے نہیں ڈرتیں‘‘۔ سب نے کہا ’’تم رسولؐ خدا کی نسبت زیادہ سخت مزاج ہو‘‘۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی کو بھی اپنے خاندان والوں سے اس قدر محبت کرتے نہیں دیکھا۔ حضرت انسؓ وہ ہیں جو دس سال کی عمر سے دس سال تک آپؐ کے پاس رہے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے گھر والوں کے ساتھ آپؐ کے حسن سلوک کو دیکھا ہے۔ نبوت کی ذمہ داری اس سلسلے کی بے انتہا مصروفیت کا آپؐ نے گھریلو زندگی کی خوش گواری پر اثر نہیں ہونے دیا۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے اپنے گھر والوں کو ایک قصہ سنایا۔ ایک عورت نے کہا یہ عجیب و غریب قصہ بالکل خرافہ کے قصے کی طرح ہے۔ آپ نے پوچھا تم کو خرافہ کا صحیح قصہ معلوم ہے اور پھر آپؐ نے خرافہ کا قصہ تفصیل سے سنایا۔ اس طرح ایک مرتبہ آپؐ نے بی بی عائشہ کو گیارہ عورتوں کی دلچسپ کہانی سنائی۔ ایک مرتبہ عید کے موقع پر حبشی پہلوانی کے کرتب دکھارہے تھے۔ بی بی عائشہ نے کرتب دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ اپنی آڑ میں بی بی عائشہؓ کو لے کر کھڑے ہوئے اور بی بی عائشہ آپؐ کے کندھے مبارک پر تھوڑی رکھ کر اس وقت تک دیکھتیں رہیں جب تک ان کا دل نہ بھر گیا۔ آخر وہ خود ہٹ گئیں۔ دو مرتبہ آپؐ اور بی بی عائشہ میں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ پہلی مرتبہ بی بی عائشہؓ آگے نکل گئیں، دوسری مرتبہ آپؐ آگے نکل گئے۔ آپؐ اور بی بی عائشہ ایک دستر خوان پر ہی نہیں بلکہ ایک برتن میں کھایا کرتے ہیں۔ کھانے میں بھی محبت کا یہ عالم تھا آپؐ وہی ہڈی چوستے جو بی بی عائشہ چوستی تھیں۔ پیالے میں وہیں منہ رکھ کر پانی پیتے جہاں بی بی عائشہؓ منہ لگاتی تھیں۔ ایک دفعہ بی بی عائشہؓ آپؐ سے بڑھ بڑھ کر بول رہی تھیں۔ اتفاق سے اسی وقت حضرت ابوبکرؓ آگئے انہوں نے بیٹی کی یہ کیفیت دیکھی تو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ حضورؐ فور اً ڈھال بن گئے جب حضرت ابوبکرؓ چلے گئے تو آپؐ نے فرمایا ’’عائشہؓ میں نے تم کو کیسے بچالیا‘‘۔
آپؐ بیویوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے تھے۔ سفر میں جانا ہوتا تو بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے تھے جس بیوی کا نام آتا ان کو اپنے ہمراہ لے جاتے ان کے مزاج کا خاص خیال رکھا کرتے۔ حضرت صفیہؓ ذرا پست قد تھیں جب وہ اونٹ پر سوار ہوتیں آپؐ اپنا گھٹنا آگے بڑھادیتے تھے بی بی صفیہ آپ کے گھنٹے پر پیر رکھ کر اونٹ پر سوار ہوا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ بی بی صفیہؓ رو رہی تھیں آپ نے رونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگیں۔ عائشہ اور حفصہ کہتی ہیں کہ وہ آپؐ کی رشتے کی بہنیں بھی ہیں اس لیے مرتبہ میں بڑی ہیں‘‘۔ اس پر آپؐ نے کہا تم نے یہ کیوں نہ کہا۔ حضرت ہارون میرے باپ ہیں حضرت موسیٰ میرے چچا ہیں اور محمدؐ میرے شوہر ہیں۔ بی بی خدیجہ سے آپؐ کو بہت محبت تھی۔ بی بی خدیجہؓ کے انتقال کر جانے کے بعد بھی اس محبت میں کمی نہیں آئی۔ جب بھی کاشانہ نبوی میں بکری ذبح ہوتی آپ ؐ بی بی خدیجہ ؓکی سہیلیوں کو یاد کرکے ان کے پاس گوشت بھجوایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بی بی خدیجہؓ کی بہن ہالہؓ نے آنے کی اجازت مانگی ان کی آواز سن کر آپ ؐ کو بی بی خدیجہ یاد آئیں۔ کچھ توقف کے بعد آپؐ نے فرمایا یہ ہالہ ہوں گی۔ جب جنگ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لیا جارہا تھا آپ کی صاحبزادی بی بی زینت کے شوہر جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے فدیہ میں وہ ہار دیا جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی زینب کو ان کی شادی کے موقع پر دیا تھا۔ ہار کو دیکھ کر آپؐ کو بی بی خدیجہؓ یاد آگئیں۔ آپؐ نے ہار واپس کر دینے کی خواہش کا اظہار کیا کہ یہ ایک ماں کا تحفہ ہے۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں میں آپؐ کی خدمت میں حریرہ (گھی آٹے دودھ سے تیار کیا ہوا) لے کر آئی جس کو میں نے خود آپؐ کے لیے خاص طور پر تیار کیا تھا۔ اس وقت بی بی سودہؓ بھی وہیں تھیں۔ آپؐ ہم دونوں کے درمیان تشریف فرما تھے۔ میں نے سودہؓ سے کہا کہ کھاؤ۔ انہوں نے انکار کیا۔ دوبارہ کہا کھاؤ۔ انہوں نے انکار کیا تو میں نے کہا ۔ کھاؤ، ورنہ حریرہ تمہارے چہرے پر مل دوں گی۔ اس پر بھی انہوں نے انکار کیاتو پھر میں نے حریرہ ہاتھ میں لے کر ان کے چہرے پر مل دیا۔ آپ ؐ ہنستے رہے آپ ؐ نے حضرت سودہؓ سے کہا تم بھی ان کے چہر ے پر حریرہ تھوپ دو۔ آپ نے اپنا گھٹنا نیچے کر دیا تاکہ سودہؓ مجھ سے بدلہ لیں۔ پھر سودہؓ نے حریرہ میرے چہرے پر لگادیا آپؐ ہنستے رہے۔
حضرت ام سلمی ؓکا بیان ہے کہ وہ رسول اللہ کے ساتھ جنابت کا غسل ایک برتن کے پانی سے کرتی تھیں ۔ آپ ؐ کی زندگی میں ایک موقع ایسا آیا کہ آپ صحابہ کی جانب سے رنجیدہ خاطر ہوئے۔ حدیبیہ کے معاہدے کی وجہ سے صحابہ کرام بہت زیادہ رنجیدہ تھے۔ وہ مدینہ سے طواف کعبہ کے بعد قربانی کے جذبے سے آئے تھے۔ مگر جب حکم دیا گیا کہ وہ اپنی اپنی قربانیاں حدیبیہ میں کریں تو صحابہ کرام کی زندگی کا پہلا موقع تھا آپؐ کے حکم کی تعمیل میں کوئی نہیں اٹھا۔ اس پر آپؐ رنجیدہ اپنے خیمہ میں جاتے ہیں اس صورت حال کا اپنی موجہ محترمہ ام سلمیؓ سے ذکر کرتے ہیں تو وہ کہتی ہیں۔ اے اللہ کے رسولؐ آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ آپؐ آگے بڑھ کر قربانی کریں تو وہ بھی کریں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ آپ نے اپنے بیویوں کے سامنے اپنے احساسات کا اظہار کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتے تھے۔ آپؐ فرماتے ہیں جب میں مکہ والوں کی ایذا رسانیوں سے ملول و رنجیدہ گھر آتا تو خدیجہؓ مجھے اس انداز سے تسلی دیا کرتیں تھیں کہ میرا سارا رنج جاتا رہتا۔ آپؐ پہلی وحی کے تجربہ سے پریشان گھر آتے ہیں تو بی بی خدیجہ ؓتسلی دے کر کہتی ہیں ۔ آپؐ جیسے خوبیوں کے مالک کو اللہ ضائع نہیں کرےگا۔ پھر آپؐ کی تسلی کے لیے اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر جاتی ہیں جو توریت کے جاننے والے تھے۔ جس سال بی بی خدیجہؓ کا انتقال ہوا اس سال کو آپؐ غم کا سال کہا کرتے تھے۔ حضرت ام سلمیؓ کہتی ہیں کہ ایک رات آپؐ سوکر اٹھے اور فرمایا: سبحان اللہ آج رات کس قدر خزانے نازل ہوئے اور کس قدر فتنے نازل ہوئے کوئی ہے جو حجرے والیوں کو (ازواج مطہرات) جگادے تاکہ تہجد پڑھیں اور خزانے سمیٹیں۔ بہت سے لوگ ہیں جن کے عیب دنیا میں چھپے ہوئے ہیں آخرت میں ان کا پردہ ہٹ جائے گا۔ (بخاری) گھر والوں کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ حضورؐ جس طرح باہر تبلیغ و تعلیم میں مصروف رہتے تھے۔ اس طرح گھر میں بھی اس فریضے کو انجام دیا کرتے تھے۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن آپؐ کی بیویوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے ’’اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سکھائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو‘‘۔
آپؐ اپنی بیٹی بی بی فاطمہؓ سے بڑی محبت کرتے تھے۔ جب وہ آپؐ کی خدمت میں آتیں تو کھڑے ہوجاتے ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے اپنی جگہ سے ہٹ کر ان کو بٹھاتے۔ آپ ؐ جب بھی مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں بی بی فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے جب باہر سے مدینہ تشریف لاتے تو سب سے پہلے بی بی فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لے جاتے ۔ آپؐ کو بی بی فاطمہؓ کے جگر گوشوں سے بے حد محبت تھی فرمایا کرتے تھے یہ میرے گلدستے ہیں۔ اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں ایک رات میں ایک ضرورت سے آپؐ کی خدمت میں پہنچا آپؐ اپنے دولت کدہ سے اس حال میں آئے کہ چادر میں کوئی چیز لپٹے ہوئے ہے میرے پوچھنے پر کہ آپؐ چادر میں کیا لپیٹے ہوئے ہیں۔ آپ ؐ نے چادر ہٹائی تو میں نے دیکھا کہ حسنؓ اور حسینؓ آپ کے پشت سے لٹکے ہوئے ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے ہیں پھر نواسے ہیں۔
ایک دفعہ حسن یا حسین آپؐ کے قدم مبارک پر پیر رکھے کھڑے تھے۔ آپؐ نے فرمایا اور اوپر کی طرف چڑھو وہ سینے مبارک تک پہنچ گئے۔ آپؐ نے ان کا منھ چوم کر فرمایا اے خدا! میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی رکھ۔ آپؐ بی بی فاطمہؓ کے گھر جاکر فرماتے ’’میرے بچوں کو لاؤ، وہ لاتیں تو ان کو سونگھتے اور اپنے سینے سے چمٹالیتے۔ بعض اوقات نماز کے دوران ان دونوں میں سے ایک کو اپنے باز و میں بٹھالیتے۔ جب سجدے میں جاتے تو پاس کھڑا کرلیتے اور سجدے سے اٹھ کر پھر گود میں اٹھالیتے۔ آپؐ کے صاحبزادے موضع موالی میں جو مدینہ سے تین چار میل دور ہے پرورش پارہے تھے۔ آپؐ نے ان کو دیکھنے پیدل تشریف لے جاتے۔ اس گھر میں دھواں ہوتا تھا لیکن آپ وہیں بیٹھ جاتے اور ان کے گود سے بچہ کو لے کر پیا ر کرتے پھر واپس آجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تمام انسانوں کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کیا۔ تمام لوگوں کے سامنے نمونہ اس وقت پیش کیا جاتا ہے جبکہ ہر لحاظ سے ہر طرح کامل و مکمل ہو۔ آپؐ کی زندگی کا ہر ورق روشن و تابناک ہے وہ باہر کی زندگی ہویا گھر کے اندر کی زندگی ہو غیروں میں ہویا اپنوں میں، دوستوں میں ہویا دشمنوں میں حالت جنگ میں یا حالت امن میں ہو۔
آج کے اس دو رخے ماحول میں انسان کے ظاہر و باطن گھر کی زندگی اور باہر کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہوگیا ہے۔ آج کا انسان گھر کے سکون سے محروم ہوگیا ہے اور گھر کے باہر سکون تلاش کررہا ہے۔ یہ نائٹ کلب وغیرہ۔ اس کا زندہ ثبوت ہے۔
آج جبکہ شوہر اور بیوی کے درمیان محبت و الفت کا وہ تعلق باقی نہیں رہا جس کا قرآن میں ذکر ہے۔ ’’اس نے تمہاری جنس سے تمہاری بیویاں بنائی ہیں تاکہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان رحمت و محبت پیدا کردی۔ اس میں بہت سی نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں(روم ۱۲) آج میاں بیوی میں محبت و رحمت کا نہیں صرف شرعی تعلق باقی رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپؐ کی زندگی کا وہ گوشہ جو ازدواجی گھریلو زندگی سے تعلق رکھتا ہے لوگوں کے سامنے مسلسل پیش کیا جاتا رہے تاکہ لوگ اس کی روشنی میں اپنی گھریلو زندگی کو خوش گوار بناسکیں۔ میاں بیوی کے خوش گوار تعلقات ہی ماحول کو خوش گوار بنائے رکھتے ہیں۔ اس کا اثر خاندان اور معاشرے پر پڑتا ہے اور ایک صالح معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021