ناکامی، اکتساب و تحریک عمل کی کلید

جاوداں، پیہم دواں، ہردم جواں ہے زندگی

فاروق طاہر، حیدرآباد

 

ایڈون سی بلس کے مطابق ’’کامیابی سے مراد ناکامیوں کی عدم موجودگی نہیں بلکہ مقاصد کا حصول ہے۔ اس کا مطلب جنگ میں فتح پانا ضرور ہے لیکن ہر جنگ میں نہیں‘‘۔(Success does not mean the absence of failures.It means the attainment of ultimate objectives.It means winning the war,not every battle.W.C.Bliss) اس قول کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ناکامی تعلیمی عمل میں پائی جانے والی ایک ناگوار شئے نہیں بلکہ اکتسابی (سیکھنے کے) عمل کا اٹوٹ حصہ ہے۔ماہرین تعلیم و نفسیات کے مطابق ناکامی اکتساب و تحریک عمل میں معاون ومددگار ہوتی ہے۔ ہر دور میں طلبہ کی ایک قابل قدر تعداد ناکامی کے خوف سے ڈری سہمی رہی ہے۔ اکثرسیکھنے میں پیچھے رہ گئے یا ناکام طلبہ خود کو ذہنی طور پر کم زور اور کم تر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جب کہ درس واکتساب کی دنیامیں ناکامی ایک عام بات اور فطری عمل ہے۔ماہرین تعلیم ناکامی کو اکتسابی عمل بلکہ فروغ اکتساب کا ایک کارگر وسیلہ مانتے ہیں۔
ناکامی، سیکھنے میں کیسے سہولت بخش ہے؟
کولمبیا یونیورسٹی کے ادراکی محقق (Cognitive Researcher) ژاؤ ڈونگ لن سیگلر، ناکامی کے تعلیمی مقاصد جیسے اختراعی موضوع پر آج بھی تحقیقی کام میں مصروف ہے۔محترمہ نے 2016 میں شائع شدہ اپنی مطالعاتی اٹلانٹک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ’’ہائی اسکول کے طلبہ جنہوں نے آئن اسٹائن، میری کیوری جیسے سائنس دانوں کی نہ صرف کامیابیوں اور حصولیابیوں (Achievements) کی معلومات بلکہ سائنس دانوں کی فکر ی جد وجہد اور مشکلات سے بھی آگہی پیدا کی ان کے سائنس سبجیکٹ کے گریڈس میں بہتراور نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جب کہ ایسے طلبہ جنہوں نے خود کو صرف سائنسدانوں کے کارناموں و کامیابیوں (Achievements) کے علم و معلومات ہی تک محدود رکھا تھاان کے گریڈ میں کمی اور تنزلی واقع ہوئی۔‘‘ لن سیگلر اپنی تحقیق ’’ناکامی کے تعلیمی مقاصد‘‘ کے ذریعے طلبہ کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ اکتسابی (سیکھنے کے) عمل میں ناکامی کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ سیکھنے کے دوران ناکامیوں سے دوچار ہونا ایک عام اور فطری بات ہے۔سیکھنے کے دوران حاصل ہونے والی ناکامی بھی ہمیں درجہ ذیل امور کا علم، ادراک اور احساس فراہم کرتی ہے۔ان نکات سے شعوری آگہی پیدا کرتے ہوئے ناکامی کو کامیابی کا زینہ بنایا جاسکتا ہے۔
1۔تجربہ (Experience)
ناکامی سے سب سے پہلا حاصل ہونے والا اہم سبق ’’ تجربہ‘‘ ہوتا ہے۔جب کوئی ناکام ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ زندگی کے سفر میں اس کے ساتھ اس کے تجربات بھی محو سفر رہتے ہیں۔ تجربے کامیاب ہوں یا ناکام، انسان کو زندگی کا گہرا فہم و معنویت عطا کرتے ہیں۔ آدمی تجربات کی روشنی میں اپنے فیصلوں میں رد وبدل کرتا رہتاہے۔جس طرح سے کامیاب تجربات انسان میں آسودگی کو فروغ دیتے ہیں بالکل اسی طرح کسی چیز میں ناکام ہونے کا تجربہ بھی انمول ہوتا ہے۔ان تجربات کی روشنی میں آدمی اپنی کمیوں اور کوتاہیوں پر قابو پاتے ہوئے ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرسکتا ہے۔ناکامی کے درد کی تہہ کے نیچے کامیابی اور آسودگی کے سرچشمے چھپے رہتے ہیں۔ناکامی پرمایوسی کا شکار ہونے کے بجائے اس کے اسباب کا پتا لگاکر ناکامی کو کامیابی کا پہلا زینہ بنا سکتے ہیں۔اس طرح کا شعوری عمل اشیاء کی اصل نوعیت اور ہماری زندگی میں ان کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ناکامی کے اسباب پر غور وخوض سے ہمارے اندر مثبت ،صحت مند اور خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔
2۔ علم و آگہی(Knowledge)
ناکامی سے ہم اپنی کمیوں،کوتاہیوں اور خرابیوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ناکامی سے حاصل ہونے والی حیرت انگیز معلومات وتجربات سے ہم مستقبل میں ناکامیوں پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔دوسروں کے تجربات سے فیض اٹھاتے ہوئے خود کو مزید تکالیف ،مصائب ،پریشانیوں اور الجھنوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ناکامی سے حاصل ہونے والا علم بہت ہی بیش قیمت ہوتا ہے اس کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔ناکامی وقتی طور پر بے چینی اور اضطراب کی وجہ ضرور بن سکتی ہے لیکن اس میں پوشیدہ حقائق سے آگہی پیدا کرتے ہوئے بے چینی و اضطراب کو آسودگی و اطمینان میں بدلا جاسکتا ہے۔تھامس ایلوا ایڈیسن الکٹرک بلب کی ایجاد کے دوران 10000مرتبہ ناکام ہوا۔جب اس کی بیوی نے کہا کہ دس ہزار مرتبہ کوشش کے باوجود تم بلب کی ایجاد میں ناکام رہے تو بہتر ہے اب اسے چھوڑدو۔ ایڈیسن نے کہا کہ میں 10000مرتبہ ناکام نہیں ہوا بلکہ ان تجربات سے مجھے معلوم ہواہے کہ یہ دس ہزار طریقے الکٹرک بلب بنانے میں کارگر نہیں ہیں۔ ناکامیاں چاہے طالب علمی کے زمانے کی ہوں یا زندگی کے سفر کی یہ بے حد ناگزیر ہوتی ہیں۔ ناکامی سے ہمیں اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور زندگی میں آگے بڑھنے کی تحریک ملتی ہے۔ ناکامی سے آدمی میں عجز و انکسار پیدا ہوتا ہے۔ ناکامی کا صدمہ ہی ہمیں اس پر غلبہ پانے کی جرات فراہم کرتا ہے۔
3۔لچک، ابھرنے کی قوت(Resilience)
ناکامی کے باوجود پھر سے کامیابی کی تیاری کا نام ہی لچک (Resilience)ہے۔جب بھی آپ ناکامی سے دوچار ہوں پھر سے کامیابی کی تیاری میں لگ جائیں۔تیاری کا مطلب صرف ناکامی کو برداشت کرنا ہے اور نہ دل برداشتہ ہوکر میدان سے بھاگ جانا ہے بلکہ ناکامی کواپنی زندگی کا خاتمہ نہ تسلیم کرتے ہوئے پھر سے کامیابی کی طرف قدم بڑھانا ہی اصل تیار ی کہلاتی ہے۔ناکامی و نامرادی پر اشک شوئی کے بجائے حوصلہ و ہمت سے محاذ پر ڈٹ جانا تیاری ہے۔حالات کی سختی سے خمیدہ گردن کو اونچا اٹھا کر مسائل و نامرادی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھنے کا نام ہی لچک اور ابھرنے کا نام ہے۔جس طرح پودے ہواؤں کے سخت جھکڑ پر جھک جاتے ہیں اور بعدمیں پھر اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ گر کر پھر سے اٹھنے کا لچک دار رویہ و حوصلہ ہی انسان کی ہر ہار کو جیت میں بدل دیتا ہے۔ لچک دار رویہ آدمی میں حوصلہ اور امید پیدا کرتا ہے۔ ہر کسی سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔غلطیاں کرنا بالکل غلط نہیں ہے لیکن غلطیوں کو دہرانا غلط ہے اور بے وقوف انسان غلطی کو باربار دہراتا ہے۔ناکامیوں سے سیکھنے والے آخر کارکامیاب ہو جاتے ہیں۔بڑی کامیابیوں کے خواہش مند افراد کو چاہیے کہ اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں۔ آپ خوش نصیب ہیں اگر آپ کی پہلی یا ابتدائی چند کاوشیں کامیابی سے ہمکنار ہوگئی ہیں لیکن آپ کو ان خوشیوں سے زیادہ اس تکلیف (ناکامی)کا سامنا کرنے کا اپنے اندر حوصلہ پیدا کرنا چاہیے جس سے آپ کا کبھی نہ کبھی سامنا ہوسکتا ہے۔ لچک زندگی میں ہر گھڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔لچک منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والی ایک بیش قیمت کلید ہے۔لچک کے سہارے انسان میں استقامت اور استقلال کا جذبہ باقی رہتا ہے۔اونچی توقعات کے حصول میں لچک دار رویہ بہت کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
4۔ترقی و نشوونما(Growth)
یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ ہم جب بھی ناکام ہوتے ہیں تو بحیثیت انسان ہماری بالیدگی و شعور ی میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔انسان میں جب بالیدہ فکر پیدا ہوجاتی ہے تب وہ زندگی کے حقائق اس کے معنی و مفاہیم تک رسائی پیدا کرلیتا ہے اور اپنے ہر کام میں جواز تلاش کرنا شروع کردیتا ہے کہ وہ یہ کام کیوں اور کس لیے کررہا ہے۔ذہنی بالیدگی کی اس نشوونما و ترقی کی بدولت انسان مصائب و مسائل اور تکلیف دہ حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کی سعی و کوشش کرتا ہے۔ناکامی انسان کو تجزیے کی صلاحیت سے ممیز کرتی ہے۔ایک بالیدہ فکر کا حامل انسان تجزیہ کرتا ہے اور وہ کبھی اپنی ناکامی کے جواز نہیں تراشتا ہے۔جواز ترشنا تو ناکام لوگوں کا شیوہ ہے۔ناکام افراد کے پاس اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرنے کے لیے جوازوں سے بھری ہمیشہ ایک کتاب موجود رہتی ہے۔ہر کسی کو اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ زندگی ہمیشہ رواں دواں رہنے کے لیے بنائی گئی ہے۔یہ کبھی ساکت و جامد نہیں رہ سکتی۔
تو اسے پیمانہء امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں،پیہم دواں،ہردم جواں ہے زندگی
سائنسی مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر انسانی جینیاتی ریشے معاشرے کے تانے بانے بنتے ہوئے آدمی کو ایک انفرادی حیثیت عطا کرتے ہیں ۔اس انفرادی حیثیت میں ترقی ایک بنیادی جزو تصور کی جا تی ہے۔ترقی کے بغیر انسان، زندگی کے کسی محاذ پر کامیابی حاصل کرسکتا ہے اورنہ ہی ایک بہتر زندگی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتا ہے۔
سمجھ لیں کہ ناکامی کوئی غیرمناسب فعل نہیں
جب کبھی ہم ناکامی سے ابھرنے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ناکام ہونا کوئی برا فعل نہیں ہے۔زندگی کے سفر میں ناکامی ایک عام بات ہے۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو لوگ رکاوٹوں کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں وہ رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنے والے لوگوں سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں۔دنیا میں ہر انسان مسائل سے دوچار ہے۔بعض اوقات خود کو بے حوصلہ اور نا امیدی کی دہلیز پر کھڑا پانا ایک فطری اور بشری تقاضاہے۔ ہر کوئی مایوسی سے دوچار ہوتا ہے لیکن جیتنے والے کبھی حوصلہ نہیں ہارتے اور نہ بے ہمت ہوتے ہیں۔ مستقل مزاجی ہر مسئلے کا حل اور کامیابی کی کلید ہے۔ناکام ہونا ٹھیک ہے، ہمت ہارنا ٹھیک نہیں ؛۔ خدا نخواستہ اگر آپ ناکام ہوگئے ہیں اور ناکامی آپ کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے تب بھی ہار مان لینا اور ہمت ہارنامناسب نہیں ہے۔اگر آپ بارہا ناکام ہوجاتے ہیں تب بھی اس وقت تک کوشش کرتے رہنا ضروری ہے جب تک کہ آپ کامیاب نہیں ہوجاتے ۔جہدمسلسل کے بعد کامیابی کا پھل جب آپ کے ہاتھ آئے گا وہ بہت ہی لذیذ اور شیریں ہوگا۔آگے بڑھنا اور ہارنہ ماننا ناکامی سے نجات کا سب سے بہترین ممکن طریقہ ہے۔کوئی ناکامی حقیقی اور ابدی نہیں ہوتی ۔اپنے دل سے ناکامی کا خیال جڑسے نکال پھینکیے اور عزم و ہمت کے ساتھ اپنے سفر پر روانہ ہوجائیے۔انگریزی کا مقولہ ہے’’غیر متلاطم (پرسکون)سمندر کبھی کسی کو ماہر ملاح نہیں بناتا۔‘‘
(A smoothsea never made a skilled sailor.Franklin D.Roosevelt) ناکامی کامیابی کی شاہراہ عظیم ہوتی ہے۔تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی کی تمام داستانیں ناکامی کی ہی کہانیاں ہیں۔ہماری نظریں کامیاب افراد کی اکثران ناکامیوں کا جائزہ لینے سے قاصر رہتی ہیں جن کی بدولت انہیں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ناکامی کا احسا س بھی مناسب ہے؛۔اگرچہ کہ ناکامی درد سے عبارت اور تکلیف کی علامت ہے لیکن ہمیں اس درد کا خوش دلی اور خندہ پیشانی سے سامنا کرنا چاہیے۔ہم میں یہ احساس جاگزیں ہونا ضروری ہے کہ زندگی میں ترقی و فروغ کا راستہ ناکامیوں سے ہوکر ہی گزرتا ہے۔ہمیں اس بات کا شعوری ادراک ہونا چاہیے کہ کامیاب افراد کی زندگیوں میں ناکامی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ناکامی کی ظلمتوں سے انہوں نے کامیابی کے روشن سورج طلوع کیے ہیں۔ انسان میں جب یہ احساس بیدار ہوجاتا ہے تو عزم وحوصلے کی ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ ان راستوں پر چل پڑتا ہے جس پر کبھی وہ ناکامی کے خوف سے قدم رکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔عزم و حوصلے کا یہ سفر آدمی کو تراش کر ایک بہتر اور اولوالعزم انسان بناتا ہے ۔ہمیشہ ایک فاتح کی طرح سوچیں۔ ناکامی کے ملبے کے نیچے خود کو دفن نہ کریں۔خوف اور شک ذہنوں کو جلاکر راکھ کردیتے ہیں۔ہرناکامی کے بعد خود سے پوچھیں ’’میں نے اس ناکامی سے کیا سیکھا ہے؟‘‘ اسی فکر کی بدولت آدمی راستے کے ہر وزنی پتھر کو اونچائی پر پہنچانے والے زینے کی طرح استعمال کرنے کا قابل ہوتاہے۔
ناکامی سے بازیابی، منصوبے کی تشکیل؛۔ناکامی کے قعر مذلت سے باہر آنا چاہتے ہوتو ایک جامع لائحہ عمل (ایکشن پلان) تشکیل دیں۔اپنے اہداف اور ترجیحات کا انتخاب کریں ان کے حصول میں مددگار منصوبے بھی ترتیب دیں۔جامع مبسوط منصوبہ بندی کے باوجود اگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تب اپنے اہداف کے حصول کے لیے دوسرا منظم متبادل منصوبہ بھی تیار رکھیں۔اہداف اور منصوبہ بندی سے ہم اپنے کام کو آسان بنا سکتے ہیں اگر اہداف کے حصول میں مشکل پیش آرہی ہو تب اسے طویل مدتی اور مختصر مدتی زمروں میں بانٹ کر یکسوئی سے مقاصد کے حصول میں مصروف ہوجائیے۔ منصوبہ ایسا ٹھوس ہو کہ وہ آپ کو زندگی کے ٹھوکروں سے بچانے میں مددگار ثابت ہو۔ مناسب منصوبہ بندی، اہداف کے تعین اور بہتر لائحہ عمل کے ذریعے ناکامی سے بازیابی حاصل کرنامشکل نہیں ہے۔
کامیابی کے اہم اجزاء
ناکامی کے خوف سے سیکھنے اور کامیابی کے اہم اجزا جیسے تجربات و جدت طرازیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔کسی بھی کام کو نئے طریقے سے انجام دینے سے بالکل نہ گھبرائیں خواہ آپ کو ناکام ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔اس بات پر مسرت اور فخرمحسوس کریں کہ آپ نے مسائل کے حل میں رواجی طریقوں کو استعمال نہ کرتے ہوئے ایک نیا طریقہ اپنایا ہے۔
اپنی غلطیوں سے سیکھیں
اکثر طلبہ(مکتسب) اکستاب کو نتیجے کے ترازو میں تولتے ہیں۔ نتائج بدلتے رہتے ہیں جب کہ سیکھناایک مستقل عمل ہے اور غلطیاں و ناکامیاں جس کا ایک اہم حصہ ہے ۔غلطیوں کے سیکھنے کے عمل میں حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے جو غلطی پہلی بار کی تھی وہ آپ کی آخری غلطی ہوگی۔ جب آپ اپنی ناکامیوں پر غور و فکر کرتے ہیں تب ٹرائیل اینڈ ایرر(Trail and Error) کے ذریعے غلطیوں سے سیکھنے کا عمل دائمی طور پر جاری و ساری رہتا ہے۔اسی غور وفکر کی عادت سے آپ کو علم ہوجاتا ہے کہ آپ نے کیا کِیا اور کیا کرنا تھا۔یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص کسی آدمی کو اس کے کرئیر اور زندگی میں سیکھنے سے بازنہیں رکھ سکتا۔ زندگی ہر لمحہ اور ہر موڑ پر اسے سیکھنے اور غلطیوں کو درست کرنے کے مواقع فراہم کرتی رہتی ہے۔
ناکامی سے ترغیب لیں
جی ہاں ناکامی کی کرچیوں کوسمیٹ کر آگے بڑھنا سہل نہیں ہے۔ بے شک ہر ناکامی انسان کے لیے جذباتی ہیجان اور دل گرفتگی کا سبب ہوتی ہے۔ایسی صورت میں ماضی کی تمام ناکامیوں کو فراموش کرنے کا مشورہ میں آپ کو بالکل نہیں دوں گا بلکہ میری تجویز ہے کہ آپ اپنی ماضی کی ناکامیوں کے تلخ تجربات سے خود کو مضبوط و مستحکم کریں۔ مستقبل میں چوکنا رہیں اور مستعدی سے کام لیں۔ ماضی کی ناکامی بالکل ایسی ہے جیسے کوئی بچپن میں سائیکل یا موٹر بائیک سے گرنے کو دل سے نہیں لگاتا۔ گر کر اٹھتا ہے اور ناکامی پر شرمندہ اور غمگین نہیں ہوتا اور پیہم رواں دواں رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کسی مضمون کی پیش کش میں آپ کو ناکامی کا سامنا کرنے پڑے جس کی اور زیادہ سخت محنت و مطالعہ کی ضرورت پیش آئے ہرگز ملول و مایوس نہ ہوں۔انہماک اور دل جمعی سے اپنے کام کو انجا م دیتے رہیں۔ناکامی مستقل طور پرکبھی کسی کو روک نہیں سکتی ۔ناکامی پر ذاتی ترغیب و تحریک کے ذریعے وار کریں۔ ناکامی کوتاہیوں، غفلت اور بے پروائی کے جائزہ کا موقع فراہم کرتی ہے۔ بے شک زندگی میں بہت زیادہ رکاوٹیں ہوتی ہیں لیکن ہمارا رویہ منفی ہوتو ہم خود اپنے راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔کامیابی کے حصول کے لیے ناکامیوں پر غلبہ
پانا ضروری ہے ۔اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اپنی ناکامیوں پرآپ کیسے غلبہ حاصل کرتے ہیں۔
ناکامیوں کے اسباب کا اشتراک کریں
اکثر لوگ اپنی ناکامیوں کو چھپانا چاہتے ہیں۔ دوسروں کو اپنی ناکامیاں بتانے سے کتراتے ہیں۔یہ بالکل ایک ناقص سوچ ہے۔ دوسروں کے ساتھ اپنی ناکامی پر روشنی ڈالتے اور گفتگو کرتے ہوئے حیرت انگیز طور پر نہ صرف ہم کامیابی کے گُر سیکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی حصول کامیابی کے موثر طریقے بتاتے ہیں۔اپنی ناکامیوں کو بیان کریں احساس محرومی و کمتری کے خول سے باہر نکلیں۔ نہ صرف اپنی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لیں بلکہ دوسروں کی غلطیوں، خامیوں اور ناکامیوں کے مطالعے سے اپنی کامیابی کے راستے ہموار کریں۔
[email protected]
***

جس طرح پودے ہواؤں کے سخت جھکڑ پر جھک جاتے ہیں اور بعدمیں پھر اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ گر کر پھر سے اٹھنے کا لچک دار رویہ و حوصلہ ہی انسان کی ہر ہار کو جیت میں بدل دیتا ہے۔ لچک دار رویہ آدمی میں حوصلہ اور امید پیدا کرتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020