نئے مسائل کا حل تلاش کرنا شریعہ کونسل کا تاسیسی مقصد

مولانا جلال الدین عمری اور ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی سے گفتگو

وسیم احمد، دلی

 

’’ آج کے سائنسی دور میں نئے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ ان مسائل کا حل قرآن و حدیث کی روشنی میں تلاش کیا جاتا ہے لیکن جب ان سے متعلق کوئی صراحت قرآن و حدیث میں نہ ہو اور صحابہ کے قول و عمل میں بھی اس کی توضیح نہ مل رہی ہو تو ایسی صورت میں وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق تمام ائمہ فقہ کے اقوال میں غور وخوض کرکے وقت سے ہم آہنگ نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اگر ایک مسلک میں اس کا کوئی حل نہ ہو تو دوسرے ائمہ کے مسلک میں اس کی راہ تلاش کرنی چاہیے‘‘۔ یہ کہنا ہے جماعت اسلامی ہند کی شریعہ کونسل کے صدر و سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا جلال الدین عمری کا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس سلسلے میں مسلکی تنگ نظری سے گریز کرتے ہوئے جس مسلک میں حل ملتا ہو، اس پر علماء کرام کو اتفاق رائے بنا کر فتویٰ دینا چاہیے کہ یہی وقت کا تقاضہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ تقریباً ایک سال قبل جماعت اسلامی ہند کی شریعہ کونسل کی تشکیل کی گئی تھی۔ یہاں جدید دور کے مسائل اور نئی صورت حال پیش آنے پر شریعت کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کیا جاتاہے۔ ملک میں متعدد دارالافتاء پہلے سے موجود ہیں جہاں سے فتاویٰ جاری کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود مزید ایک ادارہ شریعہ کونسل کے نام سے قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سوال پر کونسل کے سکریٹری ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے کہا کہ ’جماعت اسلامی ہند کسی مسلک کی پابند نہیں ہے، اس کے وابستگان میں حنفی مسلک کے لوگ بھی ہیں اور شافعی اور اہل حدیث مسلک کے افراد بھی۔ جماعت نے اپنے وابستگان کو آزادی دے رکھی ہے کہ وہ جس مسلک پر چاہیں عمل کریں۔ البتہ جماعت کے ارکان و کارکنان بسا اوقات مرکز جماعت سے رجوع کرتے ہیں اور ذمہ داروں سے رہنمائی چاہتے ہیں، اس لیے کونسل قائم کی گئی ہے اور اس کے ذریعہ وابستگان جماعت کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ اس سوال پر کہ کونسل کس طرح کام کرتی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ کونسل کسی مسلک کی پابند نہیں ہے۔ اگرچہ بیشتر فتاوٰی میں فقہ حنفی کی رعایت کی جاتی ہے لیکن ماحول و حالات کے سیاق و سباق کا لحاظ رکھ کر اور بسا اوقات اس سے ہٹ کر بھی استفتاء کے جوابات دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مسائل جن پر بڑے ادارے قدیم روایت پر قائم ہیں اور نیا رخ اختیار کرنے سے بچتے ہیں، ان پر یہاں نئے سرے سے غور وخوض کرکے قرآن و حدیث اور مقاصد شریعت کی روشنی میں جدید دور سے ہم آہنگ حل تلاش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص اپنی بہو کو شہوت کے احساس کے ساتھ چھو لے تو تمام دارالافتاء قدیم روایت پر برقرار رہتے ہوئے بیٹے کے لیے اس کی بیوی کو حرام قرار دیتے ہیں لیکن شریعہ کونسل نے دیگر ائمہ کی آراء کی روشنی میں نکاح کے عدم فسخ ہونے کا فتویٰ دیا ہے‘‘۔ سکریٹری فقہ کونسل نے مزید کہا کہ ’’اسی طرح دیگر کئی مسائل ہیں جن پر شریعہ کونسل نے شریعت کی روشنی میں نیا پہلو مشتہر کیا ہے مثلاً تراویح میں مصحف دیکھ کر پڑھنے کا مسئلہ۔ اس موضوع پر احناف نے عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ ایسی صورت میں جو حافظ قرآن نہیں ہیں اور کوئی حافظ بھی دستیاب نہیں ہے جس کے پیچھے قرآن سن سکیں تو اس اس صورت میں کیا کریں۔ اس مسئلے پر دیگر دارالافتاء کا کہنا ہے کہ وہ سورہ تراویح سے کام چلائیں جبکہ کونسل کا کہنا ہے کہ وہ اس حالت میں مصحف دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں‘‘۔ چونکہ نئے مسائل کا پیش آنا اور انہیں حالات حاضرہ کے مطابق حل کرنا جن میں امت کی دشواریوں کا خاص لحاظ رکھا گیا ہو، علماء کرام کو اپنا دینی فریضہ سمجھنا چاہیے اور کہیں نہ کہیں اس میں کمی محسوس ہو رہی تھی چنانچہ اسی کمی کو دور کرنے کے لیے اس کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ کونسل کو قائم ہوئے تقریباً ایک برس ہوا ہے لیکن اس قلیل عرصے میں ڈیرھ ہزار سے زیادہ مسائل کا استفسار کونسل سے کیا جا چکا ہے۔ کونسل کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے مسلک کے مطابق مسئلہ معلوم کرنا چاہتا ہے تو اسے اسی کے مسلک کے مطابق جواب دیا جاتا ہے لیکن اگر وہ اس پر اصرار نہیں کرتا تو اس کے سامنے تمام مسالک کا تذکرہ کرتے ہوئے موجودہ دور میں جو رائے بہتر ہے اس کا تذکرہ کر دیا جاتاہے۔
اس استفسار پر کہ نئی صورت حال اور نئے طرح کے مسائل پیش آنے پر کونسل کے غورو خوض کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟ ڈاکٹر ندوی نے کہا ’’دراصل قرآن و سنت میں کچھ احکام صراحت سے بیان کیے گئے ہیں اور کچھ اصولی ہدایات دی گئی ہیں جن کی روشنی میں نئے پیش آمدہ مسائل کا حل دریافت کیا جا سکتا ہے۔ علمائے امت نے قیاس اور دیگر شرعی اصولوں کو کام میں لا کر بے شمار احکام مستنبط کیے ہیں۔ہندوستان میں فقہ اسلامی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہاں ہزاروں فقہاءپیدا ہوئے ہیں جنہوں نے ملت اسلامیہ ہند کی شرعی رہنمائی کی۔ ملک کے بیشتر حصوں میں فقہ حنفی کا رواج ہے۔ جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں اور بعض دیگر مقامات پر فقہ شافعی پر عمل کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ اہلِ حدیث بھی قابلِ لحاظ تعداد میں ہیں۔ ان مسالک میں تصنیف و تالیف کا خاطر خواہ کام انجام پایا ہے اور فتاویٰ کی بھی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مستفتی جس مسلک کا ہوتا ہے کونسل کے اراکین اسی کے مطابق جواب دیتے ہیں‘‘۔
جب ڈاکٹر ندوی سے پوچھا گیا کہ نئے دور سے ہم آہنگ شرعی جوابات کی ضرورت تو برسوں سے ہے تو پھر اچانک ایک سال قبل قائم کی گئی کونسل سے امت کی یہ ضرورت کیسے پوری کی جا رہی ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’اب تک فقہی معاملات میں جو ارکان و وابستگان مرکز جماعت سے رجوع کرتے رہے ہیں انہیں شعبہ اسلامی معاشرہ کی طرف سے جواب دیا جاتا تھا۔ بعض اجتماعی معاملات میں ریاستی حلقوں کی طرف سے مرکز سے رجوع کیا جاتا تھا تو محترم امیر جماعت، جماعت کے اصحابِ علم سے مشورہ کرکے جواب دیتے تھے۔ جماعت کی میقاتِ رواں (اپریل۲۰۱۹ء تا مارچ ۲۰۲۳ء) میں فیصلہ کیا گیا کہ ارکان و وابستگان کی شرعی رہ نمائی کے لیے ایک مستقل ادارہ قائم کیا جائے، تاکہ اجتماعی غور وخوض اور مشاورت کے بعد مسائل کا حل تجویز کیا جاسکے۔ اس کے لیے’ شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند‘ کا قیام عمل میں آیا‘‘۔
امت کی اس تشنگی کو سابق میں مختلف طریقوں سے بجھانے کی کوشش ہوتی رہی ہے مثلاً: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی نگرانی میں جاری ہونے والے ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ میں ’رسائل و مسائل‘ کے عنوان کے تحت ایک طویل عرصے تک اسلام کے مختلف پہلوؤں پر قارئین کے سوالات کے جوابات دیے جاتے تھے۔ یہ سوالات عقائد و ایمانیات، عبادات، قرآنیات، تاویل احادیث، سماجیات، سیاسیات، معاشیات، تعلیم، تصوف و اخلاق، اسلام اور سائنس، جدید فقہی مسائل اور دیگر موضوعات پر ہوتے تھے۔ ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد جماعت اسلامی ہند کی تشکیل ہوئی اور اس کے ترجمان ماہ نامہ’ زندگی نو‘ کا اجرا ہوا تو اس میں بھی فقہی استفسارات کا کالم ’رسائل و مسائل‘ کے عنوان سے شروع کیا گیا اور تقریباً ربع صدی تک مولانا سید احمد عروج قادری اس خدمت کو انجام دیتے رہے۔ ان کے جوابات ’احکام و مسائل‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند و پاک کے دیگر اصحاب علم نے بھی یہ خدمت انجام دی ہے اور مذکورہ رسالوں کے ذریعہ اب تک وابستگان جماعت اور دیگر قارئین کی شرعی رہنمائی کی جا رہی ہے مگر اب کام میں توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی تو شریعہ کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے ذریعے امت کے بہت سے مسائل حل کیے جا رہے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کی نگرانی میں قائم شریعہ کونسل کے بارے میں یہ بنیادی بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کسی فقہی مسلک کی پابند نہیں ہے۔ جماعت سے وابستہ افراد میں حنفی مسلک پر عمل کرنے والوں کے علاوہ شوافع اور اہلِ حدیث مسلک سے وابستہ لوگ بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ فقہی توسع کے مقصد سے ہی سوالات کا جواب دینے میں حنفی مسلک کے ساتھ دیگر مسالک کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے تاکہ قارئین کو دیگر مسالک کا بھی علم رہے اور عمل کی آزادی بھی برقرار رہے۔ نیز جماعت کے ارکان، کارکنان اور وابستگان کو یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے ذاتی معاملات میں فقہی رہنمائی کے لیے مقامی علماء سے رجوع کریں۔ اس مشورے کے باوجود استفسار کرنے والوں کی بڑی تعداد مرکز سے رابطہ قائم کرتی ہے۔ اس کے لیے وہ کبھی مرکز تشریف لاتے ہیں اور کبھی رابطہ کے دیگر ذرائع، مثلاً خط، فون، واٹس ایپ اور ای میل وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ شریعہ کونسل کے ذریعہ حتیٰ الامکان ان تمام کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

آج کے سائنسی دور میں نئے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ ان مسائل کا حل قرآن و حدیث کی روشنی میں تلاش کیا جاتا ہے لیکن جب ان سے متعلق کوئی صراحت قرآن و حدیث میں نہ ہو اور صحابہ کے قول و عمل میں بھی اس کی توضیح نہ مل رہی ہو تو ایسی صورت میں وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق تمام ائمہ فقہ کے اقوال میں غور وخوض کرکے وقت سے ہم آہنگ نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اگر ایک مسلک میں اس کا کوئی حل نہ ہو تو دوسرے ائمہ کے مسلک میں اس کی راہ تلاش کرنی چاہیے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020