نئی تعلیمی پالیسی اور دینی مدارس، میرا مطالعہ

مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی

زندگی نو ماہ نومبر کےمضمون ’’ نئی تعلیمی پالیسی اور دینی مدارس ‘‘ کا میں نے مطالعہ کیا۔ مضمون میں دینی مدارس کی مدت تعلیم، مراحل تعلیم اور نصاب تعلیم کو نئی پالیسی کے مطابق مرتب کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں نئی تعلیمی پالیسی کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے اور دینی مدارس کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی حکومت کی جانب سے مرتب کی گئی ہے۔ اس کا خاکہ پہلے سے بھی موجود تھا۔ پرانی پالیسی کے تناظر میں نئی تعلیمی پالیسی کو مرتب کیا گیا ہے، اس لیے اس میں کچھ جامعیت بھی ہے، پھر بھی اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں، جن پر بحث جاری ہے۔
مضمون میں پیش کردہ خیالات مناسب ہیں، البتہ مضمون میں مذکورہ تجویز کے سلسلے میں تجربات کی روشنی میں کچھ ضروری باتیں تحریر ہیں۔
موجودہ وقت میں ہندوستان میں مدارس دو طرح کے ہیں: ■ آزاد مدارس ■ مدارس ملحقہ۔
آزاد وہ مدارس ہیں جہاں درس نظامی کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے، ان میں ابتدائی درجات بھی ہیں جن میں مادری زبان فارسی اور ابتدائی عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ابتدائی درجات کے نصاب تعلیم میں وہ نصاب شامل کئے گئے ہیں جو عصری اداروں میں پڑھائے جاتے ہیں، ان میں اردو فارسی کے ساتھ ہندی، انگریزی، سائنس وغیرہ مضامین کی بھی تعلیم دی جاتی ہے، ان کا انتظام عوامی تعاون کے سے کیا جارہا ہے۔
مدارس ملحقہ وہ مدارس ہیں جو کسی بورڈ سے ملحق ہیں، ان میں اردو، فارسی، عربی اور اسلامیات کے علاوہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے تمام مضامین شامل ہیں۔ ان مدارس کے نصاب تعلیم اور مراحل تعلیم مرتب ہیں، اس میں الگ الگ درجات کے لیے اسناد بھی جاری کی جاتی ہیں۔یہ مدارس ہمارے موضوع بحث سے خارج ہیں۔ ابھی میرے بحث کا موضوع آزاد مدارس یعنی مدارس نظامیہ ہیں، جن کی تعداد ملک میں بہت ہیں، لیکن ان میں مدت تعلیم، نصاب تعلیم اور مراحل تعلیم میں یکسانیت نہیں ہے۔ ان مدارس میں ابتدائی درجات تو ہیں، لیکن یہ ابتدائی درجات کہیں چار سال ہیں، تو کہیں پانچ سال۔اس کے علاوہ ان کے نصاب تعلیم میں بھی یکسانیت نہیں ہے، مراحل تعلیم اور درجات معین نہیں ہیں۔اکثر مدارس میں فراغت کے بعد فضیلت کی سند دی جاتی ہے۔ ان کی اسناد کسی بورڈ ویونیورسٹی سے منظور نہیں ہیں۔اس طرح طلبا وفارغین کو طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مدارس نظامیہ کے ابتدائی درجات پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے۔جیسا کہ مضمون میں مذکورہ مدارس نظامیہ کے ابتدائی درجات کے خاکہ سے واضح ہے۔
مدارس نظامیہ میں ابتدائی درجات کی تعلیم پر توجہ کم ہے، مدرسہ میں مدت تعلیم چار سال ہے، تو کہیں پانچ سال تو کہیں چھ سال ہے۔ چھوٹے چھوٹے مدارس میں تو ابتدائی درجات کی تعلیم کا اہتمام نہیں کے برابر ہے۔دوتین سال کچھ پڑھا دیتے ہیں، پھر طلبا عربی درجات میں داخلہ لے لیتے ہیں، اس کے لیے پچھلے درجات کے ٹرانسفر سرٹیفکیٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، اس کی وجہ سے طلبا ابتدائی تعلیم اور عصری مضامین میں کم زور ہوتے ہیں، بلکہ بہت سے ناواقف رہ جاتے ہیں، نیز مدارس میں ایک مرتبہ فاضل کی سند دی جاتی ہے۔ درمیان میں کوئی سرٹیفکیٹ نہیں دی جاتی ہے، جس سے طلبا کو مزید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح جن مدارس میں ابتدائی درجات چارسال یاپانچ سال پر مشتمل ہے، ان جملہ مدارس نظامیہ کے ابتدائی مراحل تعلیم میں اضافہ کرکے۸؍سال یا ۱۰؍سال کردیا جائے، تاکہ مڈل اور میٹرک کے برابر ہوجائے۔ پھر طلبا کو اختیار دیا جائے کہ وہ اوپن اسکول بورڈ سے مڈل کا امتحان دے یا خود مدرسہ مڈل کی سرٹیفکیٹ فراہم کرائی جائے۔
عربی درجات سے پہلے ابتدائی درجات ۱۰؍سال پر مشتمل ہو تاکہ ابتدائی تعلیم میں پختگی پیدا ہوجائے اور میٹرک معیار کی تعلیم بھی ہوجائے۔جہاں تک درجہ نہم ودہم کو ابتدائی تعلیم میں شامل کرنے کی بات ہے تو اس سے فائدے تو بہت ہیں، البتہ اس کی وجہ سے نصاب تعلیم ۱۸؍سال کا ہوجائے گا۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ اچھی تعلیم اور ایک اعلیٰ مقصدکو حاصل کرنے کے لیے اگر دو تین سال زیادہ لگ جائیں تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔آخر کالج اور یونیورسٹی کے طلبا کیسے تعلیم حاصل کرتے ہیں، اسی طرح مدارس میں بھی پریشانی نہیں ہوگی۔ درجہ دہم تک تعلیم حاصل کرنے کےبعد طلبا اپنے لیے راہ عمل اختیار متعین کرسکتے ہیں، اگر وہ دینی تعلیم حاصل کرنا چاہیں گے تو وہ عربی درجات میں داخلہ لیں گے، اگر وہ عصری علوم حاصل کرنا چاہیں گے تو کالج میں داخلہ لیں گے، اگر وہ پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنا چاہیں گے تو وہ اس پیشہ وارانہ کورس میں داخلہ لیں گے۔ غرض تمام راستے کھل جائیں گے۔ اس طرح مدارس کی تعلیم کی اہمیت ہمہ جہت ہوجائے گی۔
مدارس نظامیہ میں درمیان میں کوئی سند نہیں دی جاتی، جبکہ ملک کے نئے ماحول میں تو اس کی اور سخت ضرورت ہے۔ اسکول کا سرٹیفکیٹ شہریت کے ثبوت کے لیے ایک اہم دستاویز ہے۔ نئے شہریت قانون کے مطابق آدھار کارڈ، ووٹر کارڈ قابل قبول نہیں ہے، اس کے لیے دیگر دستاویزات کے ساتھ اسکول کی سرٹیفکیٹ بھی قابل قبول ہے۔شہریت ثابت کرنے کے لیے پاسپوٹ کی ضرورت ہے۔ پاسپورٹ بنانے کے لیے تاریخ ولادت کے ثبوت کے لیے ایم اے، بی اے کی سرٹیفکیٹ قابل قبول نہیں ہے، اس کے لیے میٹرک یا اس کے مساوی منظور شدہ سرٹیفکیٹ ہی قابل قبول ہے۔مدارس نظامیہ میں اب تک سرٹیفکیٹ جاری نہیں کی گئی، وہ وقت گزر گیا، آئندہ نسل کی حفاظت کے لیے اب سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ غریب فیملی کے فارغین جن کے پاس موروثی زمین جائیداد نہیں، وہ جہاں سے تعلیم حاصل کئے ہیں، ان کے پاس وہاں کی سرٹیفکیٹ ہوتی تو اس کو ثبوت میں دکھاتے مگر مدارس نظامیہ سے سرٹیفکیٹ جاری نہیں کی گئی تو کیا دکھائیں گے، یہ تو پرانے فارغین کا معاملہ ہے، ان کا وقت تو گزرگیا، اب نئی نسل کی ضرورت اور حفاظت پر غور کیا جائے، سی اے اے قانون بن چکا ہے، یہ کسی وقت نافذ ہوسکتا ہے۔ شہریت کے ثبوت کے لیے سرٹیفکیٹ کو خاص اہمیت حاصل ہے، اس لیے مدارس نظامیہ کے ذریعہ سرٹیفکیٹ کا جاری کیا جانا بھی نہایت ضروری ہے۔
درجات کے نام اس انداز پر رکھے جائیں جیسا کہ مدارس میں رائج ہیں، تو بہتر ہوگا، ویسے درجہ اول، دوم، سوم وغیرہ سے بھی موسوم کیا جاسکتا ہے۔ بہار کے مدارس میں جو نام رائج ہیں وہ یہ ہیں تحتانیہ، وسطانیہ، فوقانیہ، مولوی، عالم، فاضل، یہ نام مدارس کے اعتبار سے بہتر معلوم ہوتے ہیں اور ان سے مدارس کی شناخت بھی واضح ہوتی ہے۔ یہ بات درجہ اول، دوم سوم وغیرہ میں نہیں ہے۔
مدارس اسلامیہ کی اسناد کو ثانوی سطح تک NIOSیعنی مرکزی اوپن اسکول سسٹم سے منظورکرادیا جائے یا طلبا کو پرائیویٹ طور پر اس ادارہ سے امتحان دلا دیا جائے تو میٹرک کی منظور شدہ سرٹیفکیٹ حاصل ہوجائے گی اور اس کی وجہ سے آئندہ مراحل میں آسانی ہوجائے گی۔اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی اوپن یونیورسٹی وغیرہ قائم ہیں، جیسے مولانا آزاد اوپن یونیورسٹی، نالندہ اوپن یونیورسٹی، ان یونیورسٹیوں کے امتحانات میں شرکت کرکے اعلیٰ ڈگری بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ملک میں نئی تعلیمی پالیسی کا نفاذ کیا گیا ہے، گرچہ موجودہ وقت میں مدارس اسلامیہ اس سے مستثنیٰ ہیں، لیکن ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اس کی تیاری سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے مدارس کی مدت تعلیم، مراحل تعلیم اور نصاب تعلیم کو نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق بنانے کے لیے ابھی سے تیاری شروع کردیں۔ نئی تعلیمی پالیسی کے سلسلے میں کچھ ضروری باتیں پیش ہیں۔
■ نئی تعلیمی پالیسی میں بھی داخلہ ایسے طلبا ؍ طالبات کا لیا جائے جن کی عمرچھ سال مکمل ہوگئی ہو۔
■ تعلیم کی ابتدا نرسری اور کے جی سے ہوگی اور یہ تین سال پر مشتمل ہوگا، اس کے بعد درجہ اول اور دوم ہوگا۔ اس طرح دونوں ملاکر پانچ سال بنیادی تعلیم کے ہوں گے۔
■ بنیادی تعلیم کے بعد تین سے پانچ درجات تک یعنی تین سال پری مڈل کہلائیں گے، پھر اس کے بعد درجہ چھ سے آٹھ تک یعنی تین سال مڈل اور درجہ نو سے بارہ تک یعنی چار سال سیکنڈری کہلائیں گے۔ اس کی ترتیب اس طرح ہوگی۔۵+۳+۳+۴ ۱۵یعنی ۱۴سے ۱۸سال کی عمر میں طلبا سیکنڈری امتحان پاس کریں گے۔ اس طرح نئی تعلیمی پالیسی کے تحت مدارس اسلامیہ کی مدت تعلیم، مراحل تعلیم اور نصاب تعلیم کو مرتب کریں گے تو اس کا خاکہ حسب ذیل ہوگا۔
۵+۳+۳+۴+۲+۳+۲یعنی درجۂ اطفال کو چھوڑ کر مدت تعلیم ۱۷ سال ہوگی۔یہی عصری اداروں میں بھی جاری ہے۔جہاں تک نصاب تعلیم کی بات ہے تو فوقانیہ تک میں نے تیار کی ہے، جس میں جملہ امور کی رعایت موجود ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہوگی، تو اس نصاب تعلیم کو دستیاب کرایا جائے گا۔
بہرحال مدارس اسلامیہ دین کے قلعے ہیں، موجودہ وقت میں اس کی سخت ضرورت ہے۔اس کے بنیادی ڈھانچے میں بغیر تبدیلی لاتے ہوئے اس کے نصاب تعلیم کو مفید سے مفید بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ ہمارے طلبا وفارغین کسی میدان میں پیچھے نہ رہیں اور مدارس کی افادیت میں تنوع پیدا ہوسکے۔■