داعیانِ دین کا کردار

مولانا سید جلال الدین عمری

اللہ کا دین پوری نوعِ انسانی اور اس کے ہر فرد کے لیے ہے۔ وہ ’یا ایھاالناس‘ اور ’یا ایھاالانسان‘ کے الفاظ سے خطاب کرتا ہے۔ اس کے پیش نظر روئے زمین پر بسنے والا ایک ایک شخص ہوتا ہے۔ آدمی دنیا میں آتا ہے اور اپنی مہلتِ حیات پوری کرکے یہاں سے چلا جاتا ہے۔ اسی سلسلۂ موت و حیات میں اس کا امتحان ہے۔ کام یابی کا انحصار اس کے حسن عمل پر ہے۔
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُورُ۔ الملک:۲
اللہ نے موت اور حیات کو پیداکیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اپنے عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہ غلبہ والا اور بڑامعاف کرنے والا ہے۔
یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ اس کار گاہِ حیات میں امتحان انسان کے حسنِ عمل کا ہے۔ عمل میں حسنِ شریعت کی پابندی اور اخلاص سے پیدا ہوتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی فقدان، عمل کے حسن کو داغ دار کردیتا ہے اور وہ اللہ کے دربار میں ناقابلِ قبول قرار پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت دیکھے گا کہ کون حسنِ عمل کا سرمایہ لے کر حاضر ہوا ہے اور کس کا دامن اس دولت سے خالی ہے اور وہ غلط روی اور بدعملی کا بوجھ اپنے کندھوں پر لادے ہوئے پہنچا ہے۔ ہرایک کا انجام اس کے سامنے ہوگا۔
فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُ۔ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ۔ الزلزال:۷۔ ۸۔
جس نے ذرہ برابر خیر کا عمل کیا ہوگا اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی اسے بھی دیکھ لے گا۔
انسان کی کم زوری یہ ہے کہ وہ بسا اوقات بھول جاتا ہے کہ یہ صورت حال دوسروں کی طرح خود اس کے ساتھ بھی پیش آنے والی ہے۔ قیامت میں اعمال کا وزن کرنے والی میزان کھڑی کی جائے گی اور دیکھا جائے گا کہ اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہے یا بدی کا؟اس کے مطابق معاملہ کیاجائے گا۔
فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُمُّہُ ہَاوِیَۃٌ وَمَا أَدْرَاکَ مَا ہِیَہْ نَارٌ حَامِیَۃٌ۔ القارعۃ:۶تا ۱۱۔
پس جس کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ پسندیدہ زندگی میں ہوگا اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، تم کو کیا خبر کہ وہ کیا ہے؟دہکتی ہوئی آگ ہے۔
اس وقت ساری دنیا فکر و عمل کے فسادمیں مبتلا ہے۔ خدا بے زاری اور اس کی معصیت نے پورے نظامِ حیات کو غلط رخ پر ڈال رکھا ہے، انسان کے قدم تیزی سے دنیا اور آخرت کی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اللہ کا دین انسانوں کو اس تباہی سے بچاتا ہے۔ اس کامطالبہ ہے کہ انسان اپنی مفسدانہ روش بدلے اور صالح اقدارِ حیات کا پابند ہو۔ اللہ کی زمین کو فتنہ و فساد سے پاک ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اللہ سے امید و رجا کے تعلق کا پایا جانا ضروری ہے۔ اسی سے وہ اس کی رحمت کا مستحق ہوگا۔
وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا وَادْعُوہُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللّہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْن۔ الاعراف:۵۶۔
زمین میں فساد نہ مچاؤ اس کی اصلاح کے بعد اور اسے پکارو خوف و طمع سے۔ بے شک اللہ کی رحمت محسنین سے قریب ہے۔
موجودہ دور میں جو فساد فی الارض پایاجاتا ہے اور جس کے ثمراتِ بد سے کوئی محفوظ نہیں ہے، اسے صحیح سمت دینے کی لازماً فکر ہونی چاہیے۔ یہ دین و ایمان کا تقاضا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ دنیا کے فساد اور بگاڑ پر ہمارے درمیان گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ اس کے لیے جو کچھ ہم کرسکتے ہیں، وہ کرتے بھی ہیں۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس دین کو ہم ساری دنیا کے لیے راہِ نجات سمجھتے ہیں، مسائل کے حل کے لیے خدا ترسی اور آخرت کی باز پرس کو لازم قرار دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے قول و عمل سے، بلکہ پوری زندگی سے اس کا ثبوت فراہم کرناہوگا۔ اللہ کے رسولﷺ سب سے بڑے داعی الی اللہ تھے۔ آپ سے کہاگیا:
قُلْ إِنِّیْ أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّہَ مُخْلِصاً لَّہُ الدِّیْنَ وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَکُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ قُلْ إِنِّیْ أَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۔ الزمر:۱۱ تا۱۳۔
کہو مجھے حکم دیاگیا ہے کہ اللہ کی عبادت کروں دین کو اس کے لیے خالص کرکے اور مجھے حکم ہے کہ میں سب سے پہلے فرماں بردار بن جاؤں، کہو اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔
یہی بات سورۃ الانعام:۱۴۔ ۱۵میں کہی گئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس فرمانِ خداوندی کا اعلان کیا تو کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ اس کی تردید کرسکیں۔ اس لیے کہ آپ کی سیرت اور روش حیات قدم قدم پر اس کا ثبوت پیش کررہی تھی۔
دنیا ہماری دعوت کے ساتھ ہمارے عمل کو دیکھ رہی ہے۔ افسوس کہ ہمارا عمل ہمارے دعوے کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ ہم اس موقف میں نہیں ہیں کہ کہہ سکیں ہماری پاکیزہ دعوت اور ہمارا کردارایک دوسرے سے ہم آہنگ ہے۔ ان میں کوئی دوری اور فاصلہ نہیں ہے۔ ہم شب و روز دنیا کے حالات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ہمارے درمیان اس پر مستقل گفتگو ہوتی رہتی ہے، کیا ہم شب کے سکوت میں، دن کے مشاغل میں، اپنے گوشۂ تنہائی اور اپنی مجلسوں میں، اپنے کردار اور عمل کا اس طرح جائزہ بھی لیتے ہیں کہ ہماری یہ ناپائیدار زندگی اللہ کی ہدایات کی کس حدتک تابع ہے؟کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ موضوع ہمارے لیے غور طلب ہی نہیں ہے پھر ’حسن عمل‘ کی راہیں کیسے کھلیں گی؟حضرت شعیبؑ اپنی قوم اہلِ مدین سے کہتے ہیں :
وَمَا أُرِیْدُ أَنْ أُخَالِفَکُمْ إِلَی مَا أَنْہَاکُمْ عَنْہُ إِنْ أُرِیْدُ إِلاَّ الإِصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ إِلاَّ بِاللّہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیْب۔ ھود:۸۸۔
میں نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تمہیں منع کرتاہوں اس کے خلاف کروں (اس کا ارتکاب کرنے لگوں ) میں اپنے استطاعت کی حد تک اصلاح چاہتا ہوں۔ مجھے توفیق اللہ ہی سے مل سکتی ہے۔ میرا اسی پر بھروسا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتاہوں۔
داعی کو اسی بلند کردار کے ساتھ اپنے مخاطبین کے درمیان کھڑاہونا چاہیے کہ وہ اس کی دعوت اور کردار میں کسی قسم کا تضاد نہ محسوس کریں۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ ہم ان کو ایک عمومی بیان سمجھتے ہیں۔ ان کا مطالعہ اس طرح کرتے ہیں جیسے ہم براہ راست اس کے مخاطب نہیں ہیں۔ حالاں کہ ان کا تعلق فرد اور جماعت دونوں سے ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی اور جماعت کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال پیش کی جارہی ہے۔ سورۃ المومنون کا آغاز اس طرح ہوتا ہے: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (بے شک ایمان والے فلاح پاگئے)
اس کے بعد ان کی چھ صفات بیان ہوئی ہیں :۱۔ خشوع کے ساتھ نماز،۲۔ لغویات سے اعراض،۳۔ زکوٰۃ پر عمل۔ (اللہ کی راہ میں انفاق)۴۔ جنسی خواہش کی صرف جائز حدود میں تکمیل،۵۔ امانت اور عہد و پیمان کی نگہ داشت، ۶۔ نمازوں کی ان کی حدود شرائط کے ساتھ پابندی۔ آخر میں کہاگیا ہے کہ ان اوصاف کے حامل جنت الفردوس کے وارث ہوں گے۔ ان اوصاف کا تعلق تمام اہل ایمان سے ہے۔ فرد سے بھی جماعت سے بھی۔ کوئی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ بات کا آغاز اس سے ہوتا ہے : قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ دنیا اہل ایمان کو ناکام سمجھتی ہے۔ حالاں کہ کام یابی اور ناکامی کا تعلق خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بلندیٔ کردار سے ہے۔ یہ اوصاف جن میں پائے جائیں ان کی فلاح و کام رانی ہرشک و شبہ سے بالاتر ہے۔
کام یاب اہل ایمان کا پہلا وصف یہ ہے کہ وہ نماز کے پابند ہی نہیں ہوتے، بلکہ ان کی نمازوں میں خشوع پایا جاتا ہے۔ خشوع کے معنی ہیں جھک جانا،پست ہوجانا۔ قیامت میں کسی کو زبان کھولنے اور دم مارنے کی ہمت نہ ہوگی۔ اسے خشوع سے تعبیر کیاگیا ہے:
خَشَعَت الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا ہَمْساً۔ طہ:۱۰۸۔
تمام آوازیں رحمان کے خوف سے دب جائیں گی اور تم نہیں سنوگے مگر پیروں کی آہٹ۔
ایک جگہ اہل ایمان سے خطاب ہے:
أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللَّہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ۔ الحدید:۱۶
کیاابھی وہ وقت نہیں آیا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور جو حق نازل ہوا ہے اس کے سامنے جھک جائیں۔
اہل ایمان کی صفت’ الخاشعین والخاشعات‘ (الاحزاب:۳۵)بیان ہوئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے نماز تہجد کی کیفیت حضرت علیؓ نے ایک حدیث میں تفصیل سے بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں جب رکوع میں جاتے تو زبان مبارک پر یہ کلمات ہوتے:
اللهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي، وَبَصَرِي، وَمُخِّي، وَعَظْمِي، وَعَصَبِي۔ صحیح مسلم:حدیث۲۰۱
اے اللہ میں نے تیرے لیے رکوع کیا۔ (اپنی پشت خم کردی) تجھ پر ایمان لایا، تیرے سامنے سر جھکایا، میرے کان، میری آنکھیں، میری ہڈیاں، ہڈیوں کا گودا، میرے اعصاب سب تیرے سامنے جھک گئے۔
کیا اس طرح کی نماز ہم نے کبھی پڑھی ہے؟
سورہ توبہ میں ان خوش قسمت انسانوں کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ نے جن کے جان اور مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں۔ اس بیع پر انھیں فوز عظیم کی بشارت دی گئی ہے کہ اس سے کام یاب بیع کوئی نہیں ہوسکتی۔ پھر ان کے اوصاف بیان ہوئے ہیں کہ وہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، حمدو ثنا کرنے والے، اس کی راہ میں سیاحت کرنے والے، رکوع اور سجدہ کرنے والے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینے والے اور اللہ کے حدود کے پابند رہنے والے ہیں۔ (التوبۃ:۱۱۲)
کیا یہ اعلیٰ صفات ہمارے اندرہیں۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان صفات کے حاملین ہی جنت کے مستحق ہوں گے۔ اور انھیں کی جد و جہد سے دنیا میں مطلوبہ تبدیلی آئے گی۔ یہ آیات ہم سے سوال کر رہی ہیں کہ تم بھی یہاں کے نظام حیات میں تبدیلی چاہتے ہو، کیا یہ اوصاف تمہارے اندر ہیں؟ اس کا ہمارے پاس کیاجواب ہے!
ان صفات کا تذکرہ ان کی اس خوبی کے بیان پر ختم ہورہا ہے: ’والحافظون لحدود اللہ‘ ہے۔ یہ بہت ہی جامع صفت ہے، جو مذکورہ تمام اوصاف اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے جو بیع کی ہے اسے پوری کرتے ہیں۔ اللہ کے قائم کردہ فرائض کی ہر حال میں نگہداشت کرتے ہیں کہ وہ چھوٹنے نہ پائیں اور جن امور سے منع کیاگیا ہے ان کا ارتکاب نہیں کرتے۔ آیت کے آخری الفاظ ہیں :وبشرالمومنین۔ مطلب یہ کہ اہل ایمان کو جس بیع پر جنت کی بشارت دی گئی تھی وہ انھیں حاصل ہوگئی۔
ہمارا بھی دعویٰ ہے کہ ہم نے بھی جنت کے عوض اپنی جان و مال فروخت کردیے ہیں۔ کیاہم اپنے عمل سے اس کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اللہ کے خاص بندوں کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہ۔ البقرۃ: ۲۰۷۔
لوگوں میں سے بعض وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو اللہ کی خوش نودی کے لیے فروخت کردیتے ہیں۔
ہمارے اندر یہ جذبہ اور تڑپ ہونی چاہیے کہ ہم اللہ کے ان جاں نثار بندوں میں شامل ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے جو رسول دنیا میں آئے وہ اس کے محبوب ترین بندے تھے۔ اس کے دین کے لیے ان کی جد و جہد اور قربانیوں کا قرآن نے بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ایک جگہ خانوادۂ ابراہیمؑ کا ذکر ہے۔ ان کے اوصاف بیان ہوئے ہیں :
إِنَّہُمْ کَانُوا یُسَارِعُونَ فِیْ الْخَیْْرَاتِ وَیَدْعُونَنَا رَغَباً وَرَہَباً وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِیْنَ۔ الانبیاء:۹۰۔
وہ امور خیر میں تیزی دکھاتے تھے اور ہمیں امید و بیم کے ساتھ پکارتے تھے اور ہمارے سامنے جھک جاتے تھے۔
ہم ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ کیا یہ پیغمبرانہ اوصاف یا ان کا پرتو ہی ہمارے اندرہے۔ کیا خیر کے کاموں کی طرف ہماری سبقت ہے۔ کیااللہ کے انعامات کی امید اور اس کے عذاب کا خوف ہمارے دل و دماغ پر چھایا رہتا ہے۔ کیا ہمارے اندر خشوع اور اللہ کے سامنے سرجھکانے کی کیفیت پائی جاتی ہے؟
ان ہی اوصاف کے حامل دین و شریعت کے حامل ہوتے ہیں اور زمین کااقتدار بھی ان ہی کے حوالہ ہوتا ہے۔
دنیا کا کام یاب ترین اور خوش قسمت انسان وہ ہے جسے راہ ہدایت مل جائے۔ بدنصیب ہے وہ جو ہدایت سے محروم ہے۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔
وَاللّہُ یَہْدِیْ مَن یَشَاء إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ البقرۃ:۲۱۳۔
اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔
یہی حقیقت ایک اور جگہ ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:
وَاللّہُ یَدْعُو إِلَی دَارِ السَّلاَمِ وَیَہْدِیْ مَن یَشَاء إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم۔ یونس:۲۵۔
اللہ دارالسلام (جنت)کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔
آدمی اسی کے لیے نماز میں دعا کرتا ہے۔ اھدنا الصراط المستقیم۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ اس شخص کو راہِ ہدایت دکھاتا ہے جس کے اندر انابت ہو اور جو اس کی طرف رجوع کرے۔
اللَّہُ یَجْتَبِیْ إِلَیْہِ مَن یَشَاء وَیَہْدِیْ إِلَیْہِ مَن یُنِیْبُ۔ الشوریٰ:۱۳۔
اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے نبوت کے لیے چن لیتا ہے اور ہدایت اسے دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع ہو۔
ایک اور جگہ فرمایا:
وَیَہْدِیْ إِلَیْہِ مَنْ أَنَابَ۔ الرعد:۲۷۔
ہدایت اسے دیتا ہے جس کا اس کی طرف رجوع ہو۔
یہ اوصاف آدمی کو ہدایت کا مستحق بناتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انھیں اپنے اندر پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی جائے۔ امید ہے اس سے راہِ ہدایت کھل جائے گی۔
وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَآتَاہُمْ تَقْواہُمْ۔ محمد:۱۷۔
جن لوگوں نے ہدایت کی راہ اختیار کی اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا اور ان کو ان کا تقویٰ اور پرہیزگاری عطا کی۔
بعض دینی حلقوں میں اصلاح و تربیت کا محدود تصور ہے۔ ہم اسے غلط سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید نے تزکیہ کا وسیع تصور دیا ہے، جو پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں تعلق باللہ،انابت،اخلاص،توبہ و استغفار، ذکر الٰہی، تفکر و تدبر، عبادات، اخلاق،معاملات،خدمت خلق،دعوت دین، اللہ کے دین کی سربلندی کی جد و جہد سب ہی انفرادی اور اجتماعی کوششیں آتی ہیں۔
اس بات کا مسلسل جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ان تمام پہلوؤ ں سے ہمارا کیا حال ہے؟ہمیں کس مقام پر ہونا چاہیے اور ہم کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اللہ کے نیک بندوں کا وصف یہ ہے کہ وہ کھڑے بیٹھے، سوتے جاگتے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ کسی حال میں اس سے غافل نہیں ہوتے۔ ان کے اندر ذکر کے ساتھ فکر و تدبر بھی ہوتا ہے۔
الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ۔ آل عمران :۱۹۱۔
وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں قیام و قعود کی حالت میں اور اپنے پہلوؤ ں پر (سوتے ہوئے)اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں۔
وہ کائنات میں پھیلے ہوئے آثار قدرت پر غور کرتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں زمزمہ سنج ہوتے ہیں :
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ آل عمران:۱۹۱۔
اے ہمارے رب تونے یہ دنیا بے مقصد نہیں بنائی ہے۔ تیری ذات ہر نقص سے پاک ہے۔ توہمیں عذاب جہنم سے بچالے۔
کیا ہمارے شب و روز میں کچھ ایسے لمحات بھی ہوتے ہیں جب کہ ہم خداکی اس عظیم کائنات پر غور و فکر کی نگاہ ڈالیں اور اس سے اللہ کی یاد دل میں تازہ ہوجائے۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی دعوت، اس کے لیے ان کی فکر مندی،جد و جہد،کدوکاوش اور اس راہ کی مشکلات پر صبروثبات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان کا اعلیٰ کردار اس دعوت سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ ان کی پاکیزہ سیرت ان کی دعوت کی عملی تصدیق ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اسوہ اس میں زیادہ واضح ہے۔ آپ کی حیاتِ طیبہ، آپ کی شب و روز کی زندگی اور آپ کا اسوۂ حسنہ قرآن و حدیث میں محفوظ ہے۔ قرآن و حدیث میں اللہ کے نیک بندوں کے اوصاف بھی بیان ہوئے ہیں۔ داعیان دین کو دیکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا دین ان سے کن اوصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ ہمارے اندر کیا خوبیاں دیکھنا چاہتا ہے۔ کن کم زوریوں سے اس کے نزدیک ہماری زندگی پاک ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے دنیا کی اصلاح کو تواپنے سامنے رکھا ہے، لیکن اپنی ذات کو ہدف نہیں بنایا۔ اس لیے ہمارے اندر مطلوبہ اوصاف پروان نہیں چڑھ رہے ہیں۔ ہم جس مقام پر کل تھے آج بھی اسی جگہ ہیں۔ آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ قرآن اور سیرت میں ہماری تمام کم زوریوں کا علاج ہے۔ ہمیں ان کی طرف رجوع ہونا چاہیے۔■