ملک و ملت کے مسائل اور مسلمان

مولانا محمد یوسفؒ (سابق امیر جماعت اسلامی ہند)

ہمیں اس بات کا دکھ ہے کہ آئے دن ہندستان کے مسلمانوں کو بعض ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی توجہات کو ملکی تعمیری کوششوں سے ہٹاکر مخصوص ملی مسائل میں الجھادیتے ہیں۔۔۔
ہم مسلمانوں سے برابر کہتے رہے ہیں۔ اور ایک بار پھر کہتے ہیں کہ وہ اپنے مخصوص ملی مسائل کے حل کے لیے ملک کی رائے عامہ کو ساتھ لے کر مشترکہ جدوجہد کا طریقہ اختیار کریں، ان کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جن سے دوسری قوموں کو بھی سابقہ ہے اور ان کا دور رس علاج اجتماعی سعی و جہد کا طلب گار ہے۔ بلاشبہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور معاشی پستی اپنے مخصوص تاریخی اسباب رکھتی ہے جو اس امر کے متقاضی ہیں کہ ملکی سطح پر ان کی اٹھان کے لیے مخصوص اہتمام کیا جائے۔ جتنی جلد ملکی سطح پر اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ کی جاسکے گی، اتنی ہی تیزی سے مسلمانوں کے لیے دوسرے شہریوں کے دوش بہ دوش ملکی تعمیر وترقی میں فعال حصہ لینا ممکن ہوسکے گا۔ لیکن مسلمان کے داعیانہ مقام کا تقاضا ہے کہ ان کی توجہات اپنے ہی مسائل کے حل پر مرکوز نہ رہیں۔ ان پر ان کے پڑوسیوں کا بھی حق ہے۔ پڑوسی کے عام حقوق کے ماسوا ملک کے حالات کا تقاضا ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کے افراد ہندستان کے عام باشندوں سے زیادہ ربط و تعلق پیدا کرکے ان اہم مسائل کے حل میں حصہ لیں جن کے حل کے بغیر یہاں صالح اقدار حیات کی ترویج اور اعلی اصول زندگی کی اشاعت کے کام میں رکاوٹ پیش آسکتی ہے۔
(خطبات امرائے جماعت اسلامی ہند ص ۱۹۳)