میں اُردو ہوں۔ہے کوئی جو میری فریاد سنے!

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

 

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
میں اردو ہوں۔ میری کہانی دوسروں کی زبانی تو آپ بہت سن چکے ہیں آج میری کہانی خود میری زبانی سن لیجیے۔ میں حسرت ویاس کی زندہ مثال، رنج و اندوہ کی تمثال، غم کی شاخ نہال اردو زبان ہوں۔ مجھے دسروں کی نا مہربانیوں اور نا انصافیوں کا گلہ اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا کہ مجھے اپنوں سے گلہ اور شکوہ ہے۔ میرے ساتھ میرے اپنوں کا، میری اولاد کا سلوک میرے دل کا داغ اور سینے کا چراغ بن چکا ہے۔ میں ایک زندہ لاش ہوں اب جو اہل قلم میرے بارے میں لکھتے ہیں وہ میرے نوحہ گر اور میرے ماتم گسار ہیں۔ میرا مقدور بھی اور میرا مقدر بھی ہے کہ میں اپنے ساتھ نوحہ گر بھی رکھتی ہوں۔
میرا ماضی شاندار اور پرشکوہ تھا۔ میں پیدا ہوئی ہندوستان میں اور پلی اور بڑھی بھی اسی ملک میں۔ اس ملک میں یونانی، عرب، ترک، پٹھان، مغل پرتگالی، فرنچ اور آخر میں انگریز، سب آئے اور آکر یہاں بسے۔ سنسکرت جسے آج حکومت پھیلانا چاہتی ہے یہاں کی تاریخ میں کبھی تمام قوموں کی مشترک زبان نہیں بن سکی۔ مسلمان جب اس ملک میں آئے تو یہاں کوئی مشترک زبان موجود نہیں تھی۔ مختلف قوموں کے باہمی میل جول اور باہمی تعلقات سے جو زبان بنی وہ میں ہوں۔ یعنی ہندوستان کی اردو زبان، کروڑوں انسانوں کے لیے بمنزلہ دل و جان۔ میں وہ زبان ہوں جس میں صرف عربی فارسی اور سنسکرت کے الفاظ نہیں بلکہ ترکی اور پرتگالی انگریزی اور مقامی زبانوں کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ تمام زبانوں کے لیے میرا سینہ کشادہ رہا ہے، مثال کے طور پر نیلام پرتگالی زبان کا لفظ ہے۔ اسی طرح پون بھی اسی پرتگالی زبان کا لفظ ہے، جس سے پاو روٹی اور نان نبینہ بن گیا ہے۔
پون پرتگالی میں روٹی کو کہتے ہیں۔ الغرض بہت سی زبانوں کے الفاظ سے میرا دامن مالا مال ہے، اور بہت سی قوموں کو میں نے اظہار کے لیے خوبصورت زبان کا ذریعہ اور وسیلہ دیا، میری نشو و نما میں اور ترقی میں بہت سی قوموں کا حصہ ہے۔ کسی کا کم کسی کا زیادہ۔ ہندوستان میں مسلمان جن ملکوں سے آئے تھے وہ ممالک انواع و اقسام کے پھولوں اور پھلوں سے مالا مال تھے اس لیے میں نے ان پھلوں کا بھی ذائقہ چکھا اور ان پھولوں سے مشام جان کو معطر کیا۔ ہندوستان میں ان ہی پھولوں اور پھلوں سے باغ اور داغ تیار ہوئے، اس لیے میری لغت میں ان ہی پھولوں اور پھلوں کے نام ہیں۔ گلاب، سوسن، سنبل، نرگس نسترن گل شبو اور انگور انار سیب انجیر خربوزہ خوبانی اور ناشپاتی وغیرہ۔ پھلوں کے خوش نگاہ باغ اور پھولوں کے خوش رنگ چمن ہندوستان میں ہر جگہ لگائے گئے۔ ان پھلوں کے ذائقہ سے اور ان پھولوں کی خوشبو سے اس ملک کے لوگوں کو آشنا کیا گیا۔ مسلمانوں نے تمدن اور معاشرت کے ہزاروں الفاظ اس ملک کو دیے، خود ’’ہندی‘‘ اور ’’ہندو‘‘ اور ’’ہندوستان‘‘ مسلمانوں کے دیے ہوئے الفاظ ہیں۔ مسلمانوں نے اپنے سوا دوسروں کو ہندو کہا ورنہ یہاں کی قومیں خود کو ہندو نہیں کہتی تھیں۔ مسلمانوں نے سندھ کو فتح کیا تھا اور پھر سندھ کا سین حرف ہ سے بدل گیا اور پھر ہندی ،ہندو، ہندوستان کے الفاظ اس ملک میں آگئے۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندو نام کی کوئی قوم یہاں موجود نہ تھی۔ باہمی میل جول سے جو نئی زبان بنی اس میں افعال اور حروف سب ہندوستان ہی سے لیے گئے۔ افعال اور حروف کے اعتبار سے میں اور میری سہیلی ہندی بالکل ایک ہیں۔ کسی زبان کی ماہیت اور اصلیت اور وطنیت کو جو چیز متعین کرتی ہے وہ افعال اور حروف ہی ہیں ورنہ اسما (Nouns ) کا لین دین ودنیا کی تمام زبانوں میں ایک دوسرے سے ہوتا رہتا ہے۔ آج اردو میں اور ہندی میں انگریزی کے الفاظ بہت زیادہ آگئے ہیں۔ میں ہندوستانی ہوں میری ہندوستانیت کی قدر کی جانی چاہیے تھی لیکن بُرا ہو قومی تعصب کا اور مذہبی تنگ نظری کا کہ مجھے صرف مسلمانوں کی زبان کہا گیا اور بدیسی ہونے کا مجھ پر الزام لگایا گیا۔ ترقی کے دروازے مجھ پر بند کیے گئے مجھ سے رسم خط تبدیل کرنے، فارسی رسم خط چھوڑ دینے اور دیونا گری رسم خط اختیار کرنے کا جابرانہ مطالبہ کیا گیا اور اب سڑکوں کے نام اور شہروں کے نام بدلے جارہے ہیں۔ یہ ظلم اور جارحیت نہیں تو اور کیا ہے مجھ میں یعنی ہماری زبان میں، اردو میں بہت سے حروف ہیں اور ان کی اپنی آواز ہے دوسری زبان میں نہ یہ حروف ہیں اور نہ یہ آواز۔ اس لیے رسم خط کی تبدیلی زبان کی موت ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ میں شاہ جہاں کے عہد میں پیدا ہوئی لیکن امیر خسرو کی زبان میں اور کبیر داس کی زبان میں جو شاہ جہاں سے بہت پہلے سکندر لودھی کے عہد میں تھا ہندی فارسی اور عربی کے ملے جلے الفاظ لوگوں کی زبانوں پر ملتے ہیں۔ اس طرح میرا ابتدائی سراغ شاہ جہاں سے پہلے ملتا ہے۔ میرے نام بدلتے رہے۔ میں کبھی ہندی کبھی ہندوی کبھی ریختہ اور دکھنی اور کبھی دہلوی اور کبھی برج بھاشا اور کبھی کھڑی بولی اور کبھی ہندوستانی اور پھر آخر میں اردو اور پھر میں اسی نام اردو سے مشہور ہوئی، اردو زبان علوم و فنون کی ادب و شاعری کی زبان بنی، ہزاروں لاکھوں کتابیں اس زبان میں لکھی گئیں۔ ابتدا میں شاہی لشکر گاہ، قلعہ اور بازار میں یہ زبان بولی جاتی تھی اس لیے اسے اردوئے معلیٰ کا نام بھی دیا گیا اس زبان میں فارسی اور عربی کے الفاظ بہت ہوتے تھے۔ اردوئے معلیٰ شاہی لشکر گاہ یا قلعہ کو کہتے ہیں۔ اسی لیے اردو کا لفظ اس زبان کے لیے بولا جانے لگا جو شاہی لشکر گاہ قلعہ معلی اور بازار میں پروان چڑھی۔ شروع میں زبان اردوئے معلیٰ یعنی قلعہ معلیٰ کی زبان کہا گیا رفتہ رفتہ مضاف (زبان کا لفظ) حذف ہو گیا اور صرف مضاف الیہ (اردو) باقی رہ گیا اور معلیٰ کی صفت بھی غائب ہوگئی صرف اردو کا لفظ باقی رہ گیا۔ انسانوں میں بھی بچہ کے کئی کئی نام رکھے جاتے ہیں بعض مرتبہ ایک ہی نام کو کئی طرح سے پکارا جاتا ہے جیسے فضل فضلو، فضل امام۔ اسی طرح ایک زبان کے بھی کئی کئی نام ہو سکتے ہیں لیکن میں اپنی تمام سہیلیوں میں سب سے زیادہ مشہور ’’اردو‘‘ کے نام سے ہوئی۔ اردوئے معلیٰ یعنی شاہی قلعہ اور دہلی کی ویران ہونے اور اجڑنے کے بعد انگریزوں نے افتراق کا بیج بویا اور فورٹ ولیم کالج میں دو زبانیں قائم کی گئیں اردو کو مسلمانوں کی زبان کہا گیا اور ہندی کو ہندوؤں کی۔ اس سے پہلے میں ہی اردو تھی اور میں ہی ہندی۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ میرے اس دعویٰ کا سب بڑا ثبوت یہ ہے کہ شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا تھا تو اس کے لیے زبان ہندی کا لفظ استعمال کیا تھا یعنی اسے ہندی ترجمہ کہا گیا۔ سرسید نے آثار الصنادید کے پہلے ایڈیشن میں اردو کے لیے ہندی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ میری نشوونما اور ترقی کے علاقے وہی ہیں جہاں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے تھے ورنہ جہاں صرف مسلمان ہی مسلمان تھے جیسے بنگال، کشمیر، سندھ پنجاب وہاں میرا وجود نہ تھا۔ انگریزوں نے اس متحدہ زبان اور متحدہ قومیت کا فورٹ ولیم میں خاتمہ کردیا۔ مجھے ہندی سے لڑانے اور ہندی کو مجھ سے ٹکرانے کی سازش رچی گئی۔ ایک زبان کو دو زبانیں قرار دے دیا گیا۔ یعنی اردو الگ زبان اور ہندی الگ زبان۔ پھر ہندی والوں نے لفظ ہندی پر قبضہ غاصبانہ کر لیا۔ کوشش ہوئی کہ میرا فارسی رسم خط موقوف کر دیا جائے اور سرکار عدالتوں سے مجھے بیک بینی و دوگوش نکال باہر کیا جائے۔ سر سید جو ہمارے بہت بڑے وکیل تھے بے انصافی کی تحریک کے خلاف لڑتے رہے۔ اور ان کی زندگی میں یہ سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔ سرسید اور ان کے ساتھیوں نے میری بہت خدمت کی زیور سے آراستہ کیا۔ میرے بولنے والوں کے دنیا میں پھیلنے سے میں ایک عالمی زبان بن گئی ہوں۔ لوگوں کو میری جامہ زیبی اور دلفریبی پر رشک آتا ہے۔ دشمن تک کہتے ہیں اردو بہت خوبصورت اور سحر انگیز زبان ہے۔
میں اپنے بچپن کے دن بھلا نہیں سکتی۔ میں سونے کا چمچہ منہ میں لے کر مختلف زبانوں کا شیریں رس چوستے ہوئے پیدا ہوئی تھی۔ درباروں نے میری سرپرستی کی۔ فوجی چھاونیوں میں پروان چڑھی۔ صوفیہ کرام نے میری ہی زبان میں ہندوستان کے عوام سے رابطہ قائم کیا۔ میں ہی ایک ذریعہ تھی مختلف قوموں کو باہم ملانے والی۔ دل کی بات دوسروں تک پہونچانے والی۔ میرے سوا تمام زبانیں بس اپنی اپنی قوم کے حصار میں محصور تھیں۔ قوموں کی مشترک زبان کی حیثیت سے میری عمل داری کے حدود بہت وسیع ہیں۔ دکن میں بھی جب مشترک زبان کی ضرورت پیش آئی تو میں نے ہی یہ ضرورت پوری کی۔ ولی دکنی اور سراج دکنی میری ہی زبان میں خوبصورت شاعری کرتے تھے تاکہ مختلف نسل اور خاندان کے لوگ سمجھ سکیں اور کوئی دوسری زبان ہی نہ تھی جو سب کے لیے قابل فہم ہوتی۔ میرے سوا اور کوئی زبان نہ تھی جو اس وسیع ملک کے کونے کونے میں بولی جاتی ہو اور جس کی ترقی میں ہر قوم نے بقدر ہمت حصہ لیا ہو۔ میری زبان کی ڈکشنری سب سے پہلے جس شخص نے تیار کی وہ انگریز تھا جس کا نام فالن تھا۔ جان گلکریسٹ نے میری گرامر مرتب کی اور ادب کی تاریخ سب سے پہلے ڈی تاسی نے لکھی۔ شاہ ولی اللہ، شاہ اسماعیل شہید اور شاہ عبدالقادر جیسے فضلائے روزگار نے مجھے اپنے مذہب اور علمی خیالات کی اشاعت کا ذریعہ بنایا۔ غالب نے میری زبان میں شاعری کی اور خطوط لکھے سرسید اور ان کے رفقا نے میری جو خدمت کی اس کا تدکرہ میں اوپر کرچکی ہوں۔ پھر شبلی حالی، اکبر الہ آبادی، اور اقبال نے میری زبان میں شاعری کی، میری زبان میں شاعر ادیب اور افسانہ نگار بہت ہوئے ہر مذہب کے لوگ مجھے ماں کہتے تھے اور مجھے اپنی مادری زبان قرار دیتے تھے۔ پنڈت رتن لال سرشار، جگن ناتھ آزاد پریم چند اور گوپی چند نارنگ، کرشن چندر وغیرہ سب اردو کو مادری زبان قرار دیتے تھے۔
میری کہانی میں روشن ابواب کے ساتھ غم انگیز باتیں بھی ہیں خوشی کی بات یہ ہے نالہ واشک کی سوغات بھی ہے۔ مجھے ان سب کا بھی تذکرہ کرنا ہے۔ ’’نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم ۔قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم‘‘۔انیسویں صدی کے اختتام پر میری سہیلی سے میری کچھ ان بن گئی۔ تعلقات میں کچھ زیادہ تلخی پیدا ہوگئی اور پھر پورے ملک میں ہر صوبہ میں مقامی زبان سے کشاکش پیدا ہوئی۔ میری خوبصورتی اور کشش کو دیکھ کر زبانیں مجھ سے حسد کرنے لگیں اور مجھے اپنے یہاں قانونی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔ ہندوستان میں مجھے سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا صرف اس لیے کہ پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود پورے ملک سارے ہندوستان میں بولی جانے والی زبان کی حیثیت سے میں ہر جگہ اور ہر علاقہ میں موجود رہی۔ ایران میں ایرانی زبان کو فروغ ہوا اور مصر میں مصری زبان کو لیکن ہندوستان میں مجھے ہندوستانی نہیں سمجھا گیا اور میں ظلم کا شکار ہوئی اور پھر میری حفاظت کے لیے انجمن کے قیام کی ضرورت پیش آگئی۔ 1902 میں میرے نام پر انجمن ترقی اردو قائم کر دی گئی۔ اب میرے دامن میں اسلامی علوم و فنون کے خزانے ہیں دارالمصنفین جیسا ادارہ قائم ہوا جس نے میری زبان میں اعلیٰ درجہ کی تحقیقی کتابیں شائع کیں۔ عصری علوم کے لیے بھی میرا دامن تنگ نہیں۔ دارالترجمہ حیدرآباد نے جدید علوم کو میری زبان میں منتقل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ میں عثمانیہ یونیورسٹی میں تعلیم کا ذریعہ بنی۔ بیسیویں صدی کی ابتدا تک میری جھولی میں شاعری اور افسانہ اور کچھ مذہبی علوم کے سوا کچھ نہ تھا لیکن بیسویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے میں مختلف علوم کی دولت سے مالا مال ہوگئی اور بیسویں صدی کے اختتام تک نہ صرف ادب و شاعری میں بلکہ تاریخ و ترجمہ تدوین و تحقیق اسلامی علوم و فنون کے اعتبار سے دنیا کی اہم زبانوں میں میرا شمار ہونے لگا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا ابو الحسن علی ندوی نے میری زبان میں اعلیٰ درجہ کا اسلامی لٹریچر پیش کیا۔ میں تمام خوبیوں سے آراستہ اور ہر طرح کے علم و ہنر سے معمور ہوگئی۔ اس کے باوجود مجھے میرا قانونی حق دینے میں دوسری قوموں کی تنگ نظری آڑے آتی رہی۔ میری ماں ارض وطن ہندوستان ہے لیکن ارض وطن پر قبضہ کرنے والے میرے ساتھ سوتیلے بیٹے کا سلوک کرتے رہے۔ مجھے یعنی اردو کو یا ہندوستانی کو بالکلیہ نظر انداز کرکے ہندی کو صرف دیونا گری رسم خط کے ساتھ ملک کی قومی زبان قرار دے دیا گیا۔ انصاف کا تقاضہ تھا کہ اردو اور ہندی دونوں کی روح کو ایک قالب ہندوستانی میں جمع کرکے دونوں رسم خط یعنی فارسی اور دیوناگری کو قانونی درجہ دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ گاندھی جی کی اپنی یہی تجویز تھی لیکن آزاد ہندوستان میں جب نئی حکومت نے باگ ڈور سنبھالی تو صدر جمہوریہ کے ایک کاسٹنگ ووٹ کے ذریعہ ہندی دیونا گری رسم خط کے ساتھ سرکاری زبان قرار پائی۔ ہندی کو کاسٹنگ ووٹ کے ذریعہ 78ووٹ ملے تھے اور ہندوستانی کو جس کا دو رسم الخط ہوتا فارسی اور دیونا گری 77ووٹ ملے۔ ساحر لدوھیانوی نے کہا
جن شہروں میں گونجی تھی غالب کی نوا برسوں
ان شہروں میں اب اردو بے نام و نشاں ٹھہری
آزادی کامل کا اعلان ہوا جس دن
معتوب زباں ٹھہری غدار زباں ٹھہری
ارض وطن پر جو لوگ حکمراں تھے ان کی کوشش رہی کہ میرے ذریعہ سے علم حاصل کرنے والوں کا کوئی معاشی مستقبل نہ ہو۔ ہندوستان کو سوراج حاصل ہوگیا لیکن ہندوستانی کو یعنی مجھے اب تک سوراج حاصل نہیں ہو سکا۔ انصاف کی بات یہ تھی کہ ایسے ہزاروں اچھے معیاری اسکول قائم کیے جاتے جہاں میں ذریعہ تعلیم بنتی اور مجھے اپنی مادری زبان قرار دینے والوں کے بچے وہاں پڑھتے اور جہاں یہ ممکن نہ ہوتا وہاں تمام اسکولوں میں مجھے ایک اختیاری مضمون کے طور پر رکھا جاتا جہاں مسلمان ہندو کوئی بھی جو اردو کو ایک اختیاری مضمون کے طور پر لینا چاہتا تو لے سکتا۔ مجھے کم از کم دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوتا اور اس پر ایمانداری سے عمل بھی کیا جاتا۔ لیکن مجھے اسکولوں سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔
سہ لسانی فارمولا اس مسئلہ کا مناسب حل تھا لیکن نیت اگر خراب ہو کوئی فارمولہ کام نہیں کرتا ہے۔ جدید زبانوں کی فہرست میں زبردست سنسکرت کو داخل کر دیا گیا تاکہ طلبہ اردو کی جگہ سنسکرت لے لیں۔ اس طرح سازشوں کے ذریعہ مجھے دیس سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ اگر یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے قائم بھی کر دیے گئے تو وہ کیسے سرسبز و شاداب ہوں گے جب جڑوں پر یعنی ابتدائی سطح پر، اردو پر تیشہ چلایا جائے گا۔ ایسے نازک وقت میں کوئی آس تھی تو ان سے تھی جو مجھے اپنی مادری زبان قرار دیتے ہیں۔ مجھے امید تھی کہ وہ کم از کم اس مصیبت کے وقت میں مجھ سے اپنا رشتہ نہیں توڑیں گے آزمائش اور پریشانی میں اپنی ماں سے یعنی اپنی مادری زبان سے بے وفائی نہیں کریں گے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ میرے بہت سے فرزندوں نے پریشانی کے وقت میرا ساتھ نہیں دیا۔ انہوں نے اپنی ماں سے یعنی مادری زبان سے بے وفائی کی کٹھن وقت میں ساتھ چھوڑ دیا۔ انہوں نے مصیبت کے وقت مجھے بھلا دیا اور اردو سے رشتہ توڑ لیا آج ایسے ہزاروں گھر ہیں جن میں والدین تو اردو جانتے ہیں لیکن اولاد کو اردو نہیں آتی ہے اب اردو کتابیں
نہیں خریدی جاتی ہیں اب اردو اخبارات نہیں خریدے جاتے ہیں اب شہور مشہور ادبا اور علما کی کتابوں کو دیمکیں پڑھا کریں گی۔ اردو والوں نے اپنے بچوں کو وہ اردو زبان نہیں سکھائی جسے وہ اپنی مادری زبان قرار دیتے رہے تھے۔ محض اتنی سی بات پر کہ مادری زبان کے ذریعہ ملازمت نہیں ملتی۔ انہوں نے زبان کو خیر باد کہا اور ان کے بچے اپنے اقربا اور اعزا سے اردو کے بجائے ہندی میں دیونا گری رسم خط میں خط و کتابت کرے لگے اب قبرستانوں میں کتبے بھی ہندی میں نظر آتے ہیں۔ قرآن پڑھنا بھی نئی نسل کے لیے ممکن نہیں رہا۔ وہ اسلامی علوم و فنون کے سمندر سے فیض اٹھانے کے لائق نہیں رہے۔ رسم الخط چھوٹا تو لاکھوں کتابیں جس میں اسلامی ادب اور علوم کا خزانہ تھا جنہیں آبا و اجداد نے جمع کیا تھا ہاتھ سے چھوٹ گئیں۔ مادری زبان سے ایسی بے وفائی جس سے دوسری قوموں کو بھی حیا آنے لگے بہت کم مشاہدہ میں آئی ہے۔ یہ جب ہوتا ہے تب کسی قوم میں بے غیرتی کی مقدار حد سے فزوں ہو جاتی ہے۔ میں اردو ہوں، مجھے جو لوگ اپنی مادری زبان کہتے ہیں ان میں اگر حمیت اور غیرت کی تھوری مقدار بھی ہوتی تو وہ حکومت کی مدد کے بغیر اور میرے ساتھ انتظامیہ کے سوتیلے پن کے سلوک کے باوجود عزت اور محبت کا سلوک کرتے۔ گلے سے لگاتے۔ مادری زبان کی کتابیں خریدتے اور اپنے بچوں کو محنت سے اردو زبان سکھاتے۔ میں دوسروں کے دیے ہوئے دکھوں پر کیا روؤں مجھے تو اب اپنوں سے اور اپنے بیٹوں سے اپنے فرزندوں سے شکایت ہے۔ اسی لیے تو میں کہتی ہوں:
من از بیگا نگان ہرگز نہ نالم
کہ برما ہرچہ کرو آں آشنا کرو
زندہ قومیں اپنی مادری زبان کی حفاظت کرتی ہیں۔ انہیں مادری زبان اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ وہ اس پر جان چھڑکتی ہیں اور مال خرچ کرتی ہیں۔ لیکن اردو کے اخبارات کو اردو والے اس لیے نہیں خریدتے کہ سرمایہ کی کمی کی وجہ سے اردو اخبار کا معیار انگریزی کے معیار سے کم تر ہوتا ہے اور اس لیے بھی نہیں خریدتے کہ نئی نسل کو انہوں نے اردو سے مادری زبان سے محروم رکھا اور ان کے بچے اردو نہیں جانتے اور اس لیے بھی نہیں خریدتے کے ان کا سینہ مادری زبان کے لیے غیرت، حمیت اور محبت سے خالی ہوگیا ہے۔ بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر 9۔
اب ملک میں بہت سے اردو کے علاقے اور خطے ایسے ہیں جہاں بڑے بوڑھے جن کے سر میں کثرت سے چاندی کی تار نظر آتے ہیں بس وہی مجھے جانتے ہیں اور اردو میں کتابیں پڑھتے ہیں لیکن جب موت کے باد صر صر کا ہاتھ ان پرانے چراغوں کو بجھادے گا اور جب لاد چلے گا بنجارہ تو گھر میں رکھی ہوئی کتابوں کا پڑھنے والا بھی کوئی باقی نہیں بچے گا اور کباڑی والے کوڑی کے مول ان کتابوں کو اٹھا کر لے جائیں گے۔ چراغ تو بجھ ہی جائیں گے اور پھر صبح تک چراغوں پر جلنے والے پروں کی خاک بھی محفل میں باقی نہ رہ جائے گی۔ آج صورتحال ایسی غم انگیز ہے کہ اردو زبان اور رسم خط میں جو مصنفین کتابیں لکھتے ہیں اور صدا لگاتے ہیں ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے۔ ہندوستان کی کئی ہزار میل کی وسعت میں چند سو کی تعداد میں بھی قاش فروش دل کا کوئی خریدار نہیں ملتا۔ ارباب قلم کا کام تو فکر کے لیے صالح غذا فراہم کرنا اور نشاط روح کا سامان فراہم کرنا ہے۔ دوسری زبانوں میں ارباب قلم کی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہو جاتی ہیں لیکن مجھے اپنی مادری زبان کہنے والے میری خستہ حالی کے لیے صرف حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا کر خود کو آزاد کرلیتے ہیں۔ نئی نسل کے نوجوانوں میں اردو پڑھنے والوں کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے۔ میری جانب اپنا انتساب کرنے والوں کی بے حسی اور بے ذوقی کا یہی عالم رہا تو دارالمصنفین، انجمن ترقی اردو جیسے کئی اہم طباعتی اور تصنیفی ادارے کیسے زندہ رہیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان تمام علمی اداروں کی دوچار تصنیفات ہر گھر میں موجود ہوتیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بہت بڑی اکثریت ایسے ناواقف لوگوں کی ہے جنہوں نے ایسے اداروں کا کبھی نام تک نہیں سنا ہے۔ اردو جاننے والوں کے گھروں میں بچوں کو فلم اداکاروں کے اور کھیل کے کھلاڑیوں کے نام یاد ہیں لیکن اردو زبان کے ممتاز مصنفین اور کتابوں کے نام انہیں نہیں معلوم۔ میری زبان خطرے میں ہے۔ سچ پوچھو تو ہندوستان میں دینی مدارس کی وجہ سے جو ہزاروں کی تعداد میں ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں، میں زندہ ہوں۔ مدارس کے حلقے سے باہر لوگ جو انگلش یا ہندی میڈیم اسکول میں اولاد کو داخل کرتے ہیں اپنی اولاد کو اردو زبان کی تعلیم نہیں دیتے اور حال یہ ہوگیا ہے کہ مجھے اور میرے رسم خط کو جاننے والے بھی میری زبان کی کتابیں اور اخبارات نہیں پڑھتے ہیں۔ انگلش میڈیم میں بچوں کو داخل کرانا کوئی غلط کام نہیں ہے غلط کام یہ ہے کہ اردو بچوں کو نہ سکھائی جائے۔ میں ایک قدر دان کو جانتی ہوں جنہوں نے اپنے تمام بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں پڑھوایا لیکن انہوں نے اردو زبان قرآن مجید اور دینیات پڑھانے کا بھی پورا اہتمام کیا ان کے تمام بچے اردو جاننے والے اور اردو کتابیں
پڑھنے والے ہیں لیکن ان بچوں کی جب شادیاں ہوئیں اور ان کے بچے ہوئے تو انہوں نے وہ وراثت جو اپنے ولدین سے پائی تھی اپنے بچوں کی طرف منتقل نہیں کی چنانچہ ان کے بچے اردو نہیں پڑھ سکتے ہیں اور بچے جب بڑے ہو جائیں گے تو ان کے لیے زبان سیکھنا جوئے شیر لانے سے کم مشکل نہیں ہوگا اب اردو ان کے گھر میں صرف بولی کی زبان ہے۔ لکھنے پڑھنے کی زبان نہیں۔ کبھی امید کی کرن نظر آتی ہے اور اردو کے حالات کے کچھ بہتر ہونے کے آثار پیدا ہوتے ہیں جیسے اردو کے نام پر مولانا آزادیشنل اردو یونیورسٹی کا قیام، بعض ریاستی حکومتیں بھی نا انصافی کی تلافی پر کسی قدر آمادہ ہوتی ہیں۔ توقعات کے کشت زار میں کبھی کبھی نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ لیکن اردو والوں ہی کی ہمت جواب دے جائے اور مجھے زندہ رکھنے کا عزم ان میں مفقود ہو تو میرا مستقبل کیسے روشن ہوگا۔ صارفیت کا ایسا سیلاب آیا ہوا ہے کہ ہر شخص بازار کی طرف رخ کرتا ہے اور کتاب کے سوا ہر چیز خریدی کر کے گھر میں لے آتا ہے۔ اردو بولنے والوں کے گھروں میں اردو اخبارات نہیں آتے اردو کتاب نہیں خریدی جاتی۔ اگر کسی کے گھر میں اردو اخبار آتا بھی ہے تو بچے تو نہیں پڑھتے کیونکہ انہیں اردو نہیں آتی جس گھر میں اردو پڑھنے لکھنے کی زبان نہیں ہوتی صرف بولی جاتی ہے وہاں سے اردو آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ اگر مجھے اپنی مادری زبان قرار دینے والوں کی بے حسی اور بے غیرتی کا یہی عالم رہا تو میرے زندگی کے دن بھی گنے چنے رہ گئے ہیں۔ بعد میں اگر انہیں ہوش آیا تو کیا فائدہ۔ میں تو محبت کی میٹھی زبان ہوں۔ اور ایسی زبان کے ساتھ اپنوں کا یہ سلوک حیرت ناک ہے۔ حقیقت پسندی یہ ہوگی کہ اب میرے اپنے سب لوگ اور بظاہر میرے کرم فرما دوسروں کو الزام دینے سے پہلے خود اپنے ہی جرم قتل کا اعتراف کرلیں اور پھر میرا جنازہ اٹھائیں۔ عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے اٹھے۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
***

اگر مجھے اپنی مادری زبان قرار دینے والوں کی بے حسی اور بے غیرتی کا یہی عالم رہا تو میرے زندگی کے دن بھی گنے چنے رہ گئے ہیں۔ بعد میں اگر انہیں ہوش آیا تو کیا فائدہ۔ میں تو محبت کی میٹھی زبان ہوں۔ اور ایسی زبان کے ساتھ اپنوں کا یہ سلوک حیرت ناک ہے۔ حقیقت پسندی یہ ہوگی کہ اب میرے اپنے سب لوگ اور بظاہر میرے کرم فرما دوسروں کو الزام دینے سے پہلے خود اپنے ہی جرم قتل کا اعتراف کرلیں اور پھر میرا جنازہ اٹھائیں۔ عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے اٹھے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020