قوت کا سرچشمہ

اصلاح کا آغاز ،عقیدہ توحیدکی درستگی سے کیا جائے

مولانا ابوسلیم عبدالحئی

 

سارے باغ کی زمین ایک ہی جیسی ہے۔ وہی مٹی، ایک سا رنگ، ایک سی بناوٹ، پانی بھی سب درختوں کو ایک سا ہی ملتا ہے، سورج کی گرمی اور روشنی میں بھی فرق نہیں، لیکن اسی باغ میں آم بھی پیدا ہورہا ہے اور نیم بھی، ایک کس قدر مزے دار ہے اور ایک کیسا کڑوا۔ اسی زمین اور اسی پانی سے آم اپنی مٹھاس اور لذت حاصل کرتا ہے اور نیم اپنی کڑواہٹ۔ اسی زمین سے گنے کا پودا شکر نکال لیتا ہے اور اسی زمین سے دھان اور چاول کے پودے ہماری غذا کا سامان جمع کرلیتے ہیں۔ پھر اتنا ہی نہیں، ایک ہی قسم کی زمین اور ایک ہی قسم کے پانی کے ساتھ ساتھ درخت بھی ایک ہی قسم کے ہیں دیکھنے میں سب آم ہی ہیں لیکن مزے کتنے الگ الگ، خوشبو جُدا جُدا، رنگ مختلف۔ کیا یہ بھی سب کچھ آپ سے آپ ہی ہے؟ کیا ان پودوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہم ایک ہی زمین اور ایک ہی ہوا، پانی اور روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی آپس میں اتنے مختلف رہیں گے۔ کیا انہوں نے اپنے اندر اپنی اپنی خصوصیتیں خود پیدا کرلی ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ دراصل یہ خصوصیتیں بیج کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں۔ ہر بیج میں ایک چھوٹا سا پودا موجود رہتا ہے اور یہی پودا اپنی ساری خصوصیات اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان خصوصیتو ں کے منتقل ہونے کی صورت یہی ہو لیکن سوال تو یہ ہے کہ وہ کون سا شعور ہے جو ان سب کے پیچھے کام کررہا ہے۔ کسی شعور اور سمجھ کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سی چیزوں سے نتائج اتنے مختلف نکلیں۔
پھر ان مختلف نتائج پر غور کیجیے۔ یہ سب یوں ہی بے مقصد نہیں ہے ان اختلافات میں بے شمار مصلحتیں اور حکمتیں صاف نظر آتی ہیں۔ محض انسان ہی کے مفاد کو سامنے کر غور کرلیجیے۔ زمین سے اگنے والے پودوں کا یہ اختلاف اس کی ضروریات، اس کے ذوق، اس کے تمدن کی اور اس کے شعور کی بیداری کے لیے۔ غرض یہ کہ اس کی پوری حیوانی اور انسانی زندگی کی بقا اور ارتقا کے لیے ہے۔ یہ اپنے اندر کتنی مصلحتیں اور کتنی حکمتیں رکھتا ہے، ان سب کا شمار بھی نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ سب مناسبتیں اور مطابقتیں کیا آپ سے آپ وجود میں آگئی ہیں؟ کیا ان کے پیچھے کسی حکیم کی فکر، اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کے دانش مندانہ ارادے کا پتہ نہیں چلتا؟ ان سب کو محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے کے لیے تو بہت بڑی ہٹ دھرمی کی ضرورت ہے۔
اور دیکھو زمین میں الگ لگ قطعے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل بھی ہیں اور الگ لگ بھی۔ انگور کے باغ ہیں، کھیتیاں ہیں۔ کھجور کے درخت ہیں جن میں کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے (ایک ہی جڑ سے دو یا تین تنے نکلے ہوئے) سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم نے کسی کو بہتر بنادیا ہے اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
یہ اور ان جیسے لاکھوں مشاہدے ہیں جو ہر انسان کے گرد پھیلے ہوئے ہیں کوئی آنکھ ایسی نہیں جو انہیں نہ دیکھ سکے۔ کوئی ذہن ایسا نہیں، جو ان کی طرف متوجہ نہ ہوسکے ان سب کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی انسان ایک لمحے کے لیے بھی یہ گمان کرسکے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ وجود میں آگیا ہے۔ لیکن جب انسان کی خواہشات اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتی ہیں اور اس کی خود سری بڑھ کر اس کے ذہن اور دماغ پر قبضہ کرلیتی ہے تو وہ ان مشاہدات کو اپنے ہی رنگ میں دیکھنے لگتا ہے اور ان سے اپنی ہی خواہش کے مطابق نتائج بھی نکال لیتا ہے۔
انسان کی اصلاح کے لیے سب سے مقدم اسی نقطہ نظر کی اصلاح ہے۔ خدا وند تعالیٰ کی ذات اور صفات کا تصور اور اس کا یقین جس درجے میں واضح ہوگا اسی درجے میں انسان اس بنیادی اصلاح کے قابل بن سکے گا جو اسلام کے پیش نظر ہے۔ آپ نے محسوس کرلیا ہوگا کہ یہی وہ پہلا بنیادی پتھر ہے جس پر ہر قسم کی انسانی اصلاح اور فلاح کی عمارت بنتی ہے۔ اس حقیقت کے نظر انداز کر دینے کے بعد نہ فرد کو کامیابی میسر ہو سکتی ہے اور نہ سماج کو۔ چنانچہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ سب سے بڑے اصلاح کرنے والے یعنی حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے سب سے پہلے اسی حقیقت کو ذہن نشین کرایا ہے۔ توحید کے تصور کو غلط قسم کی آمیزشوں سے پاک کیا ہے اور اس کے تقاضوں کو کھول کھول کر سامنے رکھا ہے۔
توحید ہی کے صحیح عقیدے کا لازمی نتیجہ آخرت کا عقیدہ ہے۔ جو شخص توحید کی حقیقت کو جان لے اور اسے مان لے اس کے لیے آخرت کا جان لینا اور اسے مان لینا لازمی ہے۔ ہر قسم کی اصلاح کے لیے اس حقیقت پر واضح یقین انتہائی ضروری ہے۔ انبیا کرام علیہم السلام اس حقیقت کو بڑی وضاحت سے انسان کے سامنے رکھتے ہیں وہ انسان میں یہ یقین پیدا کراتے ہیں کہ وہ مرکز ختم نہیں ہوجائے گا بلکہ اسے اس زندگی کے بعد ایک ہمیشہ رہنے والی زندگی اور ملنا ہے اور اس زندگی میں خوشی یا رنج، آرام یا تکلیف کا مدار اس بات پر ہے کہ اس نے اس دنیا کی زندگی کو کیسے گزارا؟
انسانوں کی اصلاح کے لیے چاہے وہ خود آپ کی اصلاح ہو یا آپ کے ارد گرد بسنے والے انسانوں کی اصلاح، توحید کے عقیدے کے ساتھ ساتھ آخرت کے عقیدے کی اصلاح اور پختگی انتہائی ضروری ہے۔ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے جب کبھی بھی انسانوں کے بگاڑ کے اسباب معلوم کیے اور ان میں پھیلی ہوئی بے شمار خرابیوں کی جانچ کی تو یہی معلوم ہوا کہ یا تو لوگ سرے سے موت کے بعد کسی دوسری زندگی کو مانتے ہی نہیں ہیں اور وہ کسی ایسے دن کے قائل ہی نہیں ہیں جب ان سے ان کے کاموں کا حساب لیا جائے گا ۔ یا اگر قائل ہیں بھی تو ان کا ماننا محض ماننا ہی ہے۔ اس ماننے کا اثر ان کی زندگی کے کاموں پر جیسا پڑنا چاہیے ویسا نہیں پڑتا خدا کے احکام کو ماننے کے نتیجے میں ان کے اندر نہ تو خدا کا ڈر پیدا ہوتا ہے اور نہ انہیں خدا کے احکام کو ماننے کی کوئی پروا ہوتی ہے کیونکہ اگر ایک طرف وہ آخرت کو مانتے ہیں تو دوسری طرف بہت سے ایسے عقیدے بھی ان کے دلوں میں بیٹھ گئے ہیں جن کی وجہ سے وہ آخرت کے بارے میں بالکل بے خوف ہوگئے ہیں، انہیں کسی ایک یا بہت سے بزرگوں کے بارے میں یہ یقین ہوگیا ہے کہ وہ جسے چاہیں اللہ سے سفارش کرکے بخشوا سکتے ہیں اور ان بزرگوں کی اس شفاعت کو حاصل کرنے کے لیے بہت سے سستے اور آسان طریقے انہوں نے خود ہی تجویز کر لیے ہیں۔ اُن کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ فلاں قسم کی نیاز، فلاں نذر، عرس، فاتحہ وغیرہ کرنے سے فلاں بزرگ راضی ہوجاتے ہیں اور جس سے وہ راضی ہوجائیں اسے وہ اللہ میاں سے ضرور بخشوالیں گے۔ یہ عقیدے کچھ اس طرح دلوں میں بیٹھ چکے ہیں کہ اب آخرت کی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے انسان نیک اعمال کرنے اور اپنے معاملات کو درست کرنے کی طرف سے بے پروا ہوگیا ہے اور اس کی زندگی کے معاملات اس شخص کی مندگی کے معاملات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں رہے جو سرے سے آخرت کا قائل ہی نہیں۔ شفاعت کے اس غلط عقیدہ کو قرآن میں بڑی شدت کے ساتھ بار بار غلط بتایا گیا ہے اور لوگوں کی ان غلط امیدوں کے قلعوں کو ڈھایا گیا ہے جن میں رہتے ہوئے وہ بڑی بے فکری کے ساتھ بے لگام زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔کچھ لوگوں کے دلوں میں یہ خیال جم جاتا ہے کہ ان کی بخشش تو محض ان کے نسب کی وجہ سے ہو جائے گی۔ وہ فلاں اور فلاں بزرگ کی نسل سے ہیں اور اس کے نتیجے میں آخرت میں جنت ان کو ضرور ملے گی۔ کچھ لوگ اپنے گروہی تعلق کو اپنی بخشش کے لیے کافی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم دوزخ میں گئے بھی تو بس کچھ دنوں کے لیے آخر میں جنت ہی ہمارا ٹھکانا ہے۔
یہ اور اسی قسم کے اور بہت سے غلط عقیدے ایسے موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے آخرت کا ماننا نہ ماننے کے برابر ہوجاتا ہے۔ اور ایسی صورت میں انسان کے اندر اللہ کی ناخوشی کا ڈر اور اس کی نافرمانی سے بچنے کی فکر پیدا ہی نہیں ہوتی۔ اگر کسی انسان کے دل سے یہ خیال ہی نکل جائے کہ اسکا ہر اچھا یا برا کام آئندہ مستقل طور پر اس کے لیے کسی اچھے یا برے انجام کا سبب بننے والا ہے تو پھر کونسی طاقت ہے جو اسے برائیوں سے روک سکے اور اچھائیوں پر آمادہ کرسکے۔
جن لوگوں کے سامنے خود اپنی زندگیوں کو پاکیزہ بنانا ہے اور جو دوسروں کی اصلاح کے فرض کو پورا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ آخرت کے بارے میں عقیدے کی اصلاح کریں اور اس عقیدے کو پختگی کے ساتھ دلوں میں بٹھائیں۔
(ماخوذ: دین کی حفاظت، مسلم خواتین کے کرنے کے کام)
***

خدا وند تعالیٰ کی ذات اور صفات کا تصور اور اس کا یقین جس درجے میں واضح ہوگا اسی درجے میں انسان اس بنیادی اصلاح کے قابل بن سکے گا جو اسلام کے پیش نظر ہے۔ یہی وہ پہلا بنیادی پتھر ہے جس پر ہر قسم کی انسانی اصلاح اور فلاح کی عمارت بنتی ہے۔ اس حقیقت کے نظر انداز کردینے کے بعد نہ فرد کو کامیابی میسر ہوسکتی ہے اور نہ سماج کو۔ چنانچہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ سب سے بڑے اصلاح کرنے والے یعنی حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے سب سے پہلے اسی حقیقت کو ذہن نشین کرایا ہے۔ توحید کے تصور کو غلط قسم کی آمیزشوں سے پاک کیا ہے اور اس کے تقاضوں کو کھول کھول کر سامنے رکھا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020