افغانستان سے امر یکی فوج کا انخلا

طالبان میز اور میدان دونوں جگہ بہتر پوزیشن میں

مسعود ابدالی

 

جوبائڈن کے لیے ٹرمپ کی افغان پالیسی سے انحراف مشکل ہوگا
اشرف غنی حکومت کے لیے زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کا وقت آچکا
18 نومبر کو امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع جناب کرسٹوفر ملر نے افغانستان اور عراق سے فوجیوں کی واپسی کا اعلان کر دیا ہے۔ جناب ملر نے کہا کہ اگلے سال 15جنوری تک افغانستان میں تعینات امریکی فوج کی تعداد 2500 کر دی جائے گی۔ صدر ٹرمپ اپنی 2016 کی انتخابی مہم کے وقت سے افغانستان کو امریکی فوج کے لیے دلدل اور ٹیکس دہندگان کے لیے بھاری بوجھ قرار دے رہے ہیں۔ اپنے رفقا کی مجلس میں انہوں نے کئی بار کہا کہ کرپشن، سفارش اور اقربا پروری میں لتھڑی کابل انتظامیہ کے لیے تیز وطرار اور سخت جان ملاؤں کو شکست دینا نا ممکن ہے اور اپنی انا کے گنبد میں بند کابل کے ڈاکٹر (ڈاکٹر عبداللہ اور ڈاکٹر اشرف گنی) صاحبان کو زمینی حقائق کا بالکل بھی ادراک نہیں ہے۔ امریکہ کے زیر انتظام تعمیر نو کے کام پر نظررکھنے والی مقتدرہ، اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیر نو یا CIGAR نے تخمینہ لگایا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کے قیام اور حکومت کی اعانت پر واشنگٹن ہر سال 70 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اس رقم کا بڑا حصہ حکومتی اہلکاروں، جنرل عبدالرشید دوستم اور اسماعیل خان اور دوسرے قبائلی سرداروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ افغان فوج میں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ چرس و بھنگ خریدنے اور نشے کا شوق پورا کرنے کے لیے سرکاری سپاہی شہریوں کو لوٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ امریکی سراغرساں اداروں نے شک ظاہر کیا ہے کہ اٖفغان حکومت کے اہلکار اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیے طالبان کو اسلحہ فروخت کر رہے ہیں۔ کئی وارداتوں میں طالبان نے امریکی ساختہ ہموی بکتر بند گاڑیاں استعمال کی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو مالِ غنیمت ہیں یعنی امریکی و نیٹو افواج سے چھینی گئی ہیں لیکن شمالی افغانستان میں استعمال ہونے والا زیادہ تر اسلحہ سرکاری فوج نے طالبان کو فروخت کیا ہے۔
اپنی تقریروں میں صدر ٹرمپ نے افغانستان پر امریکی حملے کو غیر ضروری اور سابق صدر بش کی بہت بڑی غلطی قرار دیا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 11ستمبر کو جب دہشت گردی کا واقعہ المعروف نائن الیون کا ظہور ہوا اور تو اس کے صرف 24گھنٹے بعد ابتدائی تحقیق سے بھی پہلے امریکہ نے افغانستان پر حملے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت تک حملہ آوروں کی شناخت تو دور کی بات ان کی تعداد کا تعین بھی نہیں ہوا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جو 19دہشت گرد اس خون آشامی کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے، ان میں سے ایک بھی افغانی نہ تھا۔ صدر ٹرمپ اپنی تقریروں کے دوران اشاروں کنایوں میں اس حقیقت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ عراق کے بارے میں تو صدر ٹرمپ بہت کھل کر کہتے ہیں کہ صدام حسین کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار یا WMD کا حصول سابق صدر بش کا تصنیف کردہ سفید جھوٹ تھا۔
صدر ٹرمپ کو افغانستان میں امریکی فوج کے کردار پر بھی سخت اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دشمن کا سر توڑنے کے لیے دلاوروں کو دوسرے ملک بھیجا جاتا ہے۔ ان کا یہ کام نہیں کہ بیرکوں میں بیٹھ کر میزبان ملک کے فوجیوں کو تربیت دیں اور حکومتی عمال کو کرپشن سے پرہیز کے لیکچر اور اچھی طرز حکمرانی کے گُر سکھائیں۔ وہ کہتے رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوج پولیس کا کردار اداکر رہی ہے جو ہمارے جوانوں کے شایان شان نہیں ہے۔ ایک بار جوش خطابت میں موصوف کہہ گئے کہ طالبان کو کچلنا نامکن نہیں لیکن اس کے لیے جو کارروائی ضروری ہے اس میں ایک کروڑ افغان شہریوں کے مارے جانے کا اندیشہ ہے۔
اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے امریکی فوج کو افغانستان ’فتح‘ کرنے کا آخری موقع دیا۔ اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کے ساتھ اپنے جرنیلوں کی منہ مانگی شرائط پوری کردیں اور فوجی حکمت عملی کے معاملے میں مکمل آزادی بلکہ قتل عام کا لائسنس دےدیا۔ 13 اپریل 2017 کو ننگرہار کے ضلع آچن پر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم GBU-43 گرایا گیا۔ اس دیو ہیکل بم کا ٹیکنیکل نام Massive Ordnance Air Blast Bomb یا موب ہے لیکن ہلاکت خیزی کی بنا پر اسے ’بموں کی ماں‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں تباہی پھیلانے والے اس منحوس و نامراد کو ماں کے بجائے ڈائن کہنا چاہیے۔ 10ٹن وزنی اور 30فٹ لمبے اس بم کا قطر 40انچ ہے جس کے پھٹنے پر دھماکے کی شدت 11ٹن TNT کے مساوی ہے۔ ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم کی تاثیر 15ٹن TNT کے برابر تھی۔ غیر معمولی حجم اور وزن کی بنا پر اسے روایتی بمبار طیاروں میں نصب کرنا ممکن نہیں لہٰذا اسے C-130مال بردار طیارے سے پھینکا گیا۔ امریکہ کے گوداموں میں ایسی 19’ڈائنیں‘ اور موجود ہیں۔ دوسرے بموں کے برعکس GBU-43 سطح زمین سے 50فٹ اوپر پھٹتا ہے اور 11ٹن بارود کے قیامت خیز دھماکے سے انسانوں اور جانوروں کے کان کے پردے پھٹ جاتے ہیں اور دماغ ماؤف ہوجاتے ہیں۔ زیر زمیں سرنگیں زمیں بوس ہوجاتی ہیں اور انہدام کا عمل ایسی برق رفتاری سے ہوتا ہے کہ خندقوں میں پناہ لینے والوں کو فرار تو دورکی بات سانس لینے کا موقع بھی نہیں ملتا اور یہ زیر زمین پناہ گاہیں قبرستان بن جاتی ہیں۔ دھماکے سے اٹھنے والے شعلوں کی حدت ایک طرف تو3سے 5کلو میٹر کے علاقے میں موجود ہر چیز کو جھلسا کر رکھ دیتی ہے تو دوسری جانب یہ خوفناک آگ فضا میں موجود آکسیجن کو پھونک دیتی ہے جس سے ہر متنفس کا دم گھٹ جاتا ہے۔ آکسیجن کے فنا ہونے سے دھماکے کی جگہ پر ایک مہیب خلا پیدا ہوتا ہے اور قریب موجود لوگ کِھچ کر آگ کے الاؤ میں گر پڑتے ہیں۔ پینٹاگون (امریکی وزارت دفاع) کا دعویٰ تھا کہ اس حملے سے ایک بھی شہری متاثر نہیں ہوا۔ ’بموں کی ماں‘ نے چن چن کر صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا اور شہریوں کو اپنے دامنِ رحمت میں چھپالیا۔ ہندوستانی حکومت کے مطابق اس حملے میں بھارتی ریاست کیرالا سے تعلق رکھنے والے 20افراد بھی جاں بحق ہوئے جو مبینہ طور پر داعش کی نصرت کے لیے افغانستان گئے تھے۔
کھلی اجازت کے بعد اس قسم کے وحشیانہ قوتِ قاہرہ کے آزادانہ استعمال سے شہری ہلاکتیں تو بڑھیں لیکن زمینی صورتحال میں کوئی فرق نہ آیا اور طالبان کو ان کے مورچوں سے ایک انچ بھی پیچھے نہ دھکیلا جاسکا، چنانچہ صدر ٹرمپ نے اپنی دوکان اٹھا لینے کا فیصلہ کرلیا۔ طالبان سے براہ راست مذکرات ہوئے اور 29 فروری کو فوجی انخلا کا معاہدہ طئے پاگیا جس کے تحت طالبان کی جانب سے نیٹو افواج کے لیے پر امن راستہ فراہم کرنے اور افغان سر زمین امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانیوں کے بدلے امریکہ نے نومبر تک اپنے فوجیوں کی تعداد 4 سے 5 ہزار تک کر لینے کا وعدہ کیا جبکہ مکمل انخلا کے لیے مئی 2021 کا ہدف طئے ہوا۔
معاہدے پر دستخط ہوتے ہی امریکی سپاہیوں کی واپسی شروع ہوئی۔ اس دوران کورونا کی بنا پر امریکی وزیر دفاع نے فوجیوں کی نقل وحرکت روک دی تھی لیکن صدر ٹرمپ نے ایک خصوصی حکم کے تحت افغانستان سے انخلا کو استثنیٰ دے دیا۔ 24 جولائی کو امریکی مرکزِ دانش یونائٹیڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس یا USIP کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قطر امن بات چیت میں امریکی وفد کے قائد جناب زلمے خلیل زاد نے انخلا کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 15000 سے کم کر کے 8600 کر دی گئی ہے اور بقیہ امریکی فوج کا انخلا جولائی 2021 تک مکمل کرلیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ اپنے پانچ فوجی اڈے خالی کر چکا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے خالی کیے جانیوالے اڈوں کے نام نہیں بتائے لیکن عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ ہرات میں شین ڈنڈ، قندھار ائیرپورٹ، ہلمند میں گرم سیر اور کیمپ لیدرنیک اور صوبہ نمروز کے شہر دلارام کے اڈے خالی کردیے گئے ہیں اور تمام نفری سمیٹ کر کابل کے قریب بگرام اڈے پر جمع کر دی گئی ہے۔
8 اکتوبر کی صبح ایک مختصر ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہمیں افغانستان میں خدمات سر انجام دینے والے اپنے بہادر مردو خواتین کو کرسمس تک واپس امریکہ بلا لینا چاہیے‘‘۔ اس سے چند گھنٹے قبل امریکی صٖدر کے مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ اوبرائن نے جامعہ نواڈا، لاس ویگاس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ برس کے اوائل تک افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 2500 کر دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان دھڑوں کی امن معاہدے پر رضامندی طویل اور کٹھن ہے لیکن افغانوں کے لیے امن کا کوئی متبادل نہیں۔
چند دن بعد فاکس ٹیلی ویژن سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ طالبان سمیت تمام افغان دھڑے امن کے لیے مخلص ہیں اور کچھ ہی عرصے میں امن معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔ امریکی صدر کا خیال ہے کہ طالبان جنگ و جدل پر آمادہ، بہادر، مضبوط اور بہت تیز تو ہیں لیکن امن کے لیے ان کے اخلاص پر شک کی کوئی وجہ نہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنا موقف دہرایا کہ دوسروں کے جھگڑے میں اپنے بہادر جوانوں کو کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دینا سراسر حماقت ہے۔
امریکی انتخابات کی گہما گہمی میں افغانستان کا معاملہ کچھ پیچھے ہوتا نظر آیا، لیکن زلمے خلیل زاد اور وزیر خارجہ مائک پومپیو قطر میں موجود طالبان قیادت سے رابطے میں رہے۔ بلکہ خود صدر ٹرمپ نے فون پر طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر سے بات کی۔ انتخابات کے بعد جہاں صدر ٹرمپ نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالتی وعوامی جدوجہد کے آغاز کا عندیہ دیا وہیں فوجوں کی واپسی تیز کرنے کے لیے پنٹاگون کو ہدایت جاری کر دی۔ شنید ہے کہ وزیر دفاع مارک ایسپر افغانستان اور عراق سے فوجوں کی واپسی کے کام کو معطل کرکے مزید کارروائی نئی انتظامیہ کے قیام تک موخر کردینا چاہتے تھے جس پر صدر ٹرمپ نے انہیں بصد سامان رسوائی برطرف کر دیا۔
اسی کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر ملر نے قائم مقام وزیر دفاع کا منصب سنبھال لیا۔ قائم مقام اس لیے کہ امریکہ میں کابینہ کے ارکان کا تقرر سینیٹ کی توثیق سے مشروط ہے۔ نئی سینیٹ جنوری میں حلف اٹھائے گی جس کے بعد ہی توثیق کی کارروائی کا آغاز ہوگا۔ صدر ٹرمپ کی مدت صدارت 20 جنوری کو ختم ہو رہی ہے چنانچہ لگتا ہے کہ جناب ملر قائم مقام کی حیثیت سے ہی سبکدوش ہو جائیں گے۔ 55 سالہ سابق کرنل کرسٹوفر ملر ایک عسکری دانشور ہیں۔ موصوف افغانستان اور عراق میں کمپنی کمانڈر رہ چکے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے امریکہ کی موقر جامعہ جارج واشنگٹن سے امتیاز کے ساتھ بی اے بھی کیا ہے۔ اپنی تقرری کے فوراً بعد فوج کے نام ایک یادادشتِ عام یا Memo میں انہوں نے کہاکہ القاعدہ کی شکست نوشتہ دیوار ہے چنانچہ ہمارے جوانوں کے گھر واپس آنے کا وقت آچکا ہے۔ اپنے میمو میں کرنل ملر نے کہا کہ ہمارے بہت سے جوان طویل جنگ سے تھک گئے ہیں، ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔ تاہم ہمیں چوکس رہنے کی ضرورت ہے کہ اب ہمارا کردار قیادت سے اعانت میں تبدیل ہو رہا ہے۔
میمو میں کہا گیا کہ جنگ کا خاتمہ معاہدے پر ہوتا ہے اور اس حوالے سے ہماری پیشرفت تسلی بخش ہے۔ واشنگٹن کے عسکری ماہرین نے میمو کو کرسمس سے پہلے افغانستان و عراق سے مکمل فوجی انخلا کا عندیہ قرار دیا تھا جس کی تصدیق چند ہی دن بعد ہوگئی جب وزیر موصوف نے افغانستان میں امریکی سپاہیوں کی تعداد کو 2500 کرنے کا باضابطہ حکم جاری کر دیا۔
خیال ہے کہ امریکی فوج کی یہ مختصر نفری اب کابل ائیرپورٹ، امریکی سفارتخانے اور بگرام بیس کی حفاظت پر مامور ہوگی۔ اسی دوران امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو قطر پہنچے اور یہی پیغام افغان مذاکراتی ٹیم کو بھی پہنچا دیا گیا۔ پیغام بڑا سادہ اور واضح ہے کہ ’’میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے‘‘ یعنی اب تم جانو اور ملا، بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھالیا۔ فوجی انخلا کے اس دوٹوک اعلان کے بعد کابل میں سراسیمگی کے آثار واضح ہیں۔ افغان حکومت کو معلوم ہے کہ غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد منشیات کی لت میں مبتلا ان کے سپاہیوں کے لیے طالبان کا مقابلہ نا ممکن حد تک مشکل ہے۔ معاملہ صرف عسکری اعانت کا نہیں بلکہ اب کابل پر ڈالروں کی بارش بھی تھمنے کو ہے اور اگر ایسا ہوا تو کابل سرکار کے لیے اپنے ملازمین کے لیے تنخواہ دینا بھی ممکن نہ ہوگا۔ 19 سال سے برستے امریکی من و سلوٰی نے عادتیں بگاڑ دی ہیں اور ان کے لیے نئی حقیقت کا سامنا اتنا آسان نہ ہوگا۔ یورپی یونین نے کابل انتظامیہ کی مالی و عسکری اعانت برقرار رکھنے کا وعدہ کیا ہے تاہم کورونا وائرس کی وبا سے ان ملکوں کی معیشتیں شدید دباؤ میں ہیں اور یورپ کے لیے بڑی رقم کی فراہمی ممکن نظر نہیں آتی۔ازبک جنگجو رہنما عبدالرشید دوستم نے طالبان کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن کابل کے ڈاکٹر صاحبان کو دوستم کی صلاحیت اور نیت دونوں ہی مشکوک لگ رہی ہے۔
قطر میں ہونے والی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کابل کا وفد طالبان کی شرائط پر مذاکرات کےلیے تیار ہوگیا ہے۔ 21 نومبر کو سرکاری وفد کی رکن محترمہ فوزیہ کوفی نے کہا کہ کئی ہفتوں کے تعطل کے بعد وفود کی شکل میں ہونے والے مذاکرات آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں اور ایجنڈے کے کچھ نکات پر اتفاق ہوگیا ہے۔ فوزیہ صاحبہ پر امید ہیں کہ طالبان جنگ بندی پر رضامند ہو جائیں گے۔
جیسا کہ ہم اس سے پہلے ایک مضمون میں عرض کر چکے ہیں کہ قطر مذاکرات کے دونوں فریق گفتگو کے ابتدائیہ پر ہی یکسو نہیں۔ طالبان کا اصرار ہے کہ فروری میں ہونے والے طالبان امریکہ معاہدے کو بین الافغان مذاکرات کی بنیاد بنایا جائے۔ اس کی تشریح کابل وفد کے خیال میں یہ ہے کہ قطر بات چیت، طالبان سے مراعات کے لیے کابل انتطامیہ کی منت سماجت ہے چنانچہ ڈاکٹر صاحبان بین الافغان مذاکرات سودے بازی کے انداز میں کرنا چاہتے ہیں یعنی طالبان کو شرکت اقتدار، قیدیوں کی رہائی اور پابندیوں کے خاتمے کے عوض ہتھیار رکھنے اور افغان دستور کی غیر مشروط وفاداری پر آمادہ کیا جائے۔ پچھلے ہفتے ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا کہ امریکی معاہدے کے بجائے قرآن و شریعت کو بات چیت کی بنیاد بنایا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے وضاحت نہیں کہ اس سے انکی کیا مراد ہے۔
ادھر میدان میں طالبان کی عسکری سرگرمیاں جاری ہیں۔ تقریباً سارے افغانستان میں انہوں نے کابل فوجوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق دو سے تین درجن سرکاری فوجی ہر روز مارے جا رہے ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے سے طالبان نے ڈرون کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے جس سے ان کی کارروائیاں مزید مہلک ہوگئی ہیں۔ مولوی حضرات بہت ہی صراحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ امن معاہدے سے پہلے وہ اپنے ہتھیار نہیں رکھیں گے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بات چیت کے ساتھ حملے جاری رکھ کر طالبان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ امن بات چیت ڈاکٹر صاحبان کی مجبوری ہے۔ طالبان میز اور میدان دونوں جگہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ فوجی انخلا اور اس کے نتیجے میں نئے زمینی حقائق افغان حکومت کے بدلتے تیور سے بھی عیاں ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کابل اور اس دوران اشرف غنی کی نرم و شیریں گفتگو کو سیاسی و سفارتی مبصرین بہت اہمیت دے رہے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ کے قدامت پسند عناصر اپنی فوج کی واپسی کو شکست قرار دے رہے ہیں۔ سینیٹ کے قائد ایوان سینیٹر مچ مک کانل نے کہا کہ فوجی انخلا دہشت گرد انتہا پسندوں کے لیے اچھی خبر ہے۔ صدر ٹرمپ کے سابق مشیر قومی سلامتی جنرل مک ماسٹر نے ابھی فوجی انخلا پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے افغانستان کے 5 فیصد طالبان خوش اور 95 فیصد عوام کو مایوسی ہوئی ہے۔ جنرل مک ماسٹر سے صدر ٹرمپ کی اس سے قبل بھی جھڑپ ہو چکی ہے جب صدر ٹرمپ نے پہلی بار افغانستان سے فوجی واپس بلانے کی بات کی اسوقت جنرل مک ماسٹر ان کے مشیر قومی سلامتی تھے۔ جب جنرل صاحب نے افغانستان میں امریکی فوج رکھنے کی تزویراتی اہمیت بیان کی تو صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر انہیں ڈانٹ پلا دی تھی۔ اس توہین پر جنرل مک ماسٹر نے استعفے دے دیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ جنرل صاحب کو برطرف کیا گیا تھا۔
انا کے قتیل صدر ٹرمپ پہلے بھی اپنی رائے سے اختلاف کرنے والوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے تھے اور اب جبکہ انکی رخصتی کو چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں وہ کیوں کسی کی سنیں گے؟ نو منتخب صدر جو بائیڈن مکمل فوج انخلا سے پہلے افغانستان میں امن کو یقینی بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی وہاں امریکی فوجوں کی تعداد 2500 ہو چکی ہوگی۔ اس مختصر افرادی قوت کے ساتھ طالبان سے عسکری تصادم چچا سام کے حق میں نہ ہوگا اور نئی انتظامیہ کے لیے ٹرمپ افغان پالیسیوں کا تسلسل ہی منظقی معلوم ہوتا ہے۔
(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ، مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)
[email protected]

وزیر دفاع مارک ایسپر افغانستان اور عراق سے فوجوں کی واپسی کے کام کو معطل کرکے مزید کارروائی نئی انتظامیہ کے قیام تک موخر کردینا چاہتے تھے جس پر صدر ٹرمپ نے انہیں بصد سامان رسوائی برطرف کردیا

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020