ڈاکٹرعذرا بتول : تحریک اسلامی کا ایک درخشاں کردار

جدید تعلیم یافتہ خاتون جس نے دیہات کے ماحول میں خود کو ڈھال لیا تھا

 

انسان کو ایک شخص نہیں بلکہ ایک شخصیت بن کر زندہ رہنا چاہیے کیونکہ شخص تو مر کر مٹی میں مل جاتا ہے لیکن شخصیت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ ڈاکٹر عذرا بتول ایسی ہی شخصیت کی مالک تھیں۔ وہ 24 اکتوبر 1959 کو پاکستان کے ضلع جہلم میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں ہوئی اور پھر راولپنڈی میڈکل کالج میں داخلہ لیا اور یہ دو سال عذرا بتول کے لیے شدید مشکل اور تھکا دینے والے تھے۔ صرف سولہ سال کی عمر میں گھر سے دور رہ کر پورے شرعی پردے کے ساتھ انہوں نے مخلوط تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اسی کالج سے عذرا بتول 1975 میں امتیازی نشانات کے ساتھ ڈاکٹر بن گئیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر عذرا بتول افغان سرجیکل اسپتال پشاور برائے افغان مہاجرین کے لیے چلی گئیں وہاں سروس کے دوران جب گھر ملنے آئیں تو اباجی سے اپنے اخراجات کے لیے پیسے مانگے۔ جب ابا جی نے پوچھا کہ جو تنخواہ ملی وہ کہاں ہے؟ وہ تو میں نے وہاں کسی ضرورت مند کو دے دی تھی،، اور یہی وہ ساری زندگی کرتی رہیں، ہمیشہ اپنی ضرورتوں اور آسائشوں کی قربانی دے کر وہ دوسروں کے لیے ایثار کرتی رہیں۔
1984 ہی وہ سال تھا جب وہ اسلامی جمعیت طالبات کی ناظمہ صوبہ پنجاب مقرر ہوئیں۔ مرکزی شوریٰ کی رکن بھی رہیں۔ اسلامی جمعیت طالبات سے لے کر جماعت اسلامی حلقہ خواتین اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن خواتین ونگ تک ہر تنظیم میں اہم ذمہ داریاں ادا کیں۔
1985 میں عذرا بتول کی شادی اوکاڑا کے ایک دیہات میں رہنے والے لیاقت علی کوثر سے ہو گئی۔اور حقیقت میں عذرا بتول کے لیے معاشرت اور ماحول ۔۔ دونوں اعتبار سے یہ بہت بڑی تبدیلی تھی۔ مگر انہوں نے الله کی دی ہوئی بے پناہ صلاحیتوں کی بنا پر کچھ عرصے میں ہی سب کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ اس خاتون نے عملاً ثابت کر دیا کہ وہ اخلاق وکردار کی اعلیٰ ترین اور عملی مثال ہے۔ الله کے دین کی انتھک مجاہدہ اور داعیہ ہیں۔ ایثار، اعلیٰ ظرفی، صبر وقناعت، صلہ رحمی، دنیا کے مال دولت سے بے رغبتی، خدمت خلق میں شوق وانہماک، خاوند کو قوام کا مقام دینے کا اعلیٰ ترین نمونہ، خاندان کے بڑوں اور چھوٹوں کے لیے مقناطیسی کشش، غریبوں کے لیے گھر اور دل کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھنا، یتیموں کو سر انکھوں پر بٹھانا، اپنی اولاد کو نیکی کی تربیت اور اخلاق حسنہ سے مزین کرنے کی مسلسل جدوجہد۔ یہ اس دور کی لیڈی ڈاکٹر کے نامہ اعمال کے چمکتے دمکتے ستارے ہیں۔ انکی دوست (ڈاکٹر فوزیہ سابق ناظمہ اعلیٰ جمیعت طالبات) کہتی ہیں کہ وہ انتھک کام کرنے والی سیدھی سادی خاتون تھی میں نے اس کو کبھی تھک ہار کر کروٹیں بدلتے نہیں دیکھا۔ وہ دن کو بھی سر گرم عمل رہتی اور رات کو بھی تازہ دم ۔۔ ۔ سادہ غذا، کم سونا بھر پور مشقت کی زندگی نے اسے جسمانی وروحانی طور پر تازہ دم اور جواں ہمت رکھا۔ مصروفیت اسے کسی ذمہ داری کی ادائیگی سے باز نہ رکھ سکی۔ وہ کام کی زیادتی کا شکوہ کبھی زبان پر نہ لاتی۔
عذرا بتول اور انکی بڑی بہن ام کلثوم دَور طالب علمی میں ہی پورے ملک میں طالبات کے حلقے میں اپنی شخصیت کا لوہا منوا چکی تھیں، عذرا بتول خاموشی اور گمنانی میں بڑے بڑے کام کر گئیں۔ وہ نام ونمود اور نمائش سے گریز کرتی تھیں۔شہر کے ماحول میں پلی بڑھی جدید تعلیم یافتہ لڑکی نے دیہاتی ماحول میں خود کو جس طرح کھپا دیا وہ قرونِ اولیٰ کے سلف صالحین کے ایمان پرور اسوہ کی تجدید ہے۔ وہ محض اک داعیہ ہی نہیں بلکہ ایک مربیہ اور ایک مزکیہ بھی تھیں۔ اپنی وسیع کمائی اپنے خاوند کی ہتھیلی پر ہی نہیں بلکہ مشترکہ خاندان کے اکاونٹ میں جمع کروادیتیں۔ یوں معلوم ہوتا کہ انہیں دنیا سے کسی قسم کا کوئی لالچ ہی نہیں تھا۔ ان کی زندگی سورہ عصر کی تفسیر لگتی تھی۔
عذرا بتول کے نو بچے موجود ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی حافظ قرآن ہیں۔ انکا بڑا بیٹا کہتا ہے کہ امی نے کبھی نہیں کہا کہ تم ایک ڈاکٹر بنو وہ کہتیں تھی تم اسکالر بنو۔ مولانا مودودی اور شہید حسن البنا کی طرح بڑے اسکالر بنو۔ انکا گھر اسپتال کے بالکل ساتھ ملحق ہے۔ اتنی مصروفیات کے باوجود بھی بچوں کے لیے کافی وقت نکال لیا کرتی تھیں۔
لوگ حیران ہو کر پوچھتے کہ آپ تو ڈاکٹر ہیں پھر کیوں اپ کے ہاں اتنے بچے ہو رہے ہیں؟ ہم سے تو دو چار نہیں سنبھالنے جاتے۔ تو وہ انتہائی مطمئن چہرے اور اپنی پر خلوص مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتیں کہ بھئی جب اللہ کے پیارے نبیؐ کو زیادہ بچے رکھنے والی عورت پسند ہے تو میں کیوں اس شرف سے محروم رہوں۔ اللہ مجھے مجاہدین دے رہا ہے۔اللہ نے انہیں چھ بیٹے اور تین بیٹیوں سے نوازا انہوں ایک بہت بڑا اور خوبصورت اسپتال بنوایا۔ لیکن انہوں نے قران پاک کے مطالعے سے یقیناً اس راز کو پا لیا تھا کہ دنیا کی زندگی، مال و متاع، اس کی رونقیں، میلے ٹھیلے، خاندان اور اولاد سب کچھ فانی ہیں، عارضی اور ختم ہونے والی ہیں۔ انہوں نے ان سب سے محبت کرنے کا روگ ہی نہیں لگا لیا انہوں نے صرف اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی بجا آوری سے محبت کی۔ جب اسپتال میں اسٹاف کی آپس میں لڑائی ہو جاتی تو فوراً صلح کرادیتیں کہ ہمیں تو باطل کے خلاف لڑنا ہے آپس میں نہیں لڑنا ہے۔ اس طرح بہت سی باتیں ہیں کہ سننے والوں کو اونگھ تک نہ آئے، اور انکی داستان بھی ختم نہ ہو۔۔۔۔ شہیدہ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ اسپتال میں مریضوں کی دن رات خدمت ہو یا دین کا کام ہو، درس قران ہو یا کتابوں اور پمفلیٹوں کے تقسیم یا خواتین کارکنوں کو منظم کرنا ہو یا گھریلوں ذمہ داریاں۔ ایسے تمام کاموں کو سرانجام دینے میں وہ مسلسل مصروف رہتیں۔ اللہ انکے حسنات کوقبول فرمائے، خطاوں سے درگزر فرمائے، 4 ستمبر 2003 کو ڈاکٹر صاحبہ اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے اجلاس میں شرکت کے لیے اپنی دو بچیوں کے ساتھ روانہ ہوئی تھیں کہ الله نے انکو اپنے پاس بلا لیا۔ لاہور آتے ہوئے ایک حادثے میں جان بحق ہوگئیں۔ حادثے میں دونوں بچیاں محفوظ رہیں۔ امید واثق ہے کہ اللہ نے انکی 43 سالہ زندگی کی دینی و تحریکی خدمات کو شرف قبولیت بخش دیا ہوگا اور شہادت کے مرتبہ پر انہیں فائز کر دیا ہو گا۔ ان کے شوہر ڈاکٹر لیاقت جماعت اسلامی ضلع اوکاڑا کے امیر ہیں۔ میاں بیوی کی تحریکی سرگرمیوں نے اس ضلع کے تحریکی کام کو بہت آگے بڑھایا ہے۔ ان کے زیر نگرانی ایک اسپتال نہایت کامیابی کے ساتھ علاج ومعالج اور خدمت کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ الله تعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور قبر کو نور سے بھر دے۔ الله تعالیٰ ہمیں بھی سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت دے ۔۔
آمین ثمہ آمین

انہیں دنیا سے کسی قسم کا کوئی لالچ ہی نہیں تھا۔ ان کی زندگی سورہ عصر کی تفسیر لگتی تھی۔
عذرا بتول کے نو بچے موجود ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی حافظ ہیں۔ انکا بڑا بیٹا کہتا ہے کہ امی نے کبھی نہیں کہا کہ تم ایک ڈاکٹر بنو وہ کہتی تھیں تم اسکالر بنو۔ مولانا مودودی اور شہید حسن البنا کی طرح بڑے اسکالر بنو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020