مہنگائی کی مار،غریب اور ضعیف لاچار

عالمی عوامل سے زیادہ مقامی حالات اثرانداز۔ معاشی پالیسی کی ناکامی اجاگر

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی۔ نریندر مودی کی حکومت 8سال مکمل ہونے کے بعد تمام ناکامیوں کے باوجود اپنی پیٹھ تھپتھپانے میں لگی ہوئی ہے اور بڑی ڈھٹائی سے دعویٰ کررہی ہے کہ افراط زر (Inflation)دراصل بیرونی وجوہات سے بڑھا ہے مگر آر بی آئی نے اس بے شرمی کا بھانڈا پھوڑدیا اور اعداد و شمار کے ذریعے سے بتایا کہ مہنگائی میں اضافہ کے لیے عالمی عوامل کے اثرات کم ہی رہے جبکہ مقامی حالات بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہ دراصل ہماری پالیسی کی ناکامی ہے۔ افراط زر ہمارے ملک کے بڑے طبقہ کو بری طرح متاثر کررہا ہے کیونکہ کم آمدنی والے افراد بڑی اذیت سے دوچار ہیں۔ ان کی قوت خرید کم ہوئی ہے۔ ایسا ہی عمر دراز لوگوں کا طبقہ ہے جنہوں نے پوری زندگی ملازمت کی۔ اب وظیفہ پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ ان پر تو مہنگائی کی زیادہ ہی مار پڑرہی ہے کیونکہ ان کی آمدنی کم ہے ۔ان کی دوسری کمائی کا ذریعہ بینکوں کی بچت پر ہے جب افراط زر بڑھتا ہے تو حقیقی بچت کی شرح بھی کم ہوجاتی ہے ۔ آر بی آئی نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دوران شرح سود میں اضافہ کردیا ہے۔ مرکزی بینکس شرح سود بڑھانے میں وقت لے رہے ہیں۔ اس لیے دیگر بینکس بھی ان کی بچت پر شرح سود بڑھا کر دینے میں ٹال مٹول کررہے ہیں۔ کمرشیل بینکوں نے اپنی پالیسی کے تحت شرح سود کو بڑھانے کا اعلان ضرور کیا ہے اور ان کی بچت پر شرح سود ضرور بڑھا ہے مگر جمع کرنے والوں کے کھاتوں میں اسے منتقل ہونے میں وقت لگ رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وظیفہ یابوں کو دیگر ملازمت کے سبکدوشی کے فوائد پر عام ٹیکس دہندگان کے حساب سے ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ 2011کی مردم شماری میں تقریباً 8کروڑ 50لاکھ وظیفہ یاب درج کیے گئے ہیں۔ ایسے ضعیف اور عمر رسیدہ افراد کو صحت کے مد میں اور دیگر ایمرجنسی کے اوقات میں اضافی قیمت کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے چونکہ وہ ضعیف ہوتے ہیں اس لیے بینکوں و دیگر ذرائع سے قرض کا حصول ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ موجودہ مالیاتی خسارہ کے وقت انہیں عالمی سماجی سلامتی کے تحت فائدہ ملنا چاہیے مگران کو اپنی ہی صحت کی دیکھ بھال کے لیے ایسی ہوشربا مہنگائی میں کچھ مل جائے تو بڑی نعمت ہوگی۔ بہت سارے ترقی یافتہ ممالک میں ان وظیفہ یابوں کے لیے عوامی چندہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی تفاوت مٹانے کے لیے یا کم کرنے کے لیے امیر لوگوں پر اضافی انکم ٹیکس لگاکر کم آمدنی والے پریشان حال لوگوں کی مدد کی جائے تاکہ معاشی عدم سلامتی کو کم سے کم تر کیا جاسکے۔
ملک میں مہنگائی کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں مارچ 2022میں عالمی مالیاتی خسارہ کی شرح میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا۔ کورونا قہر کی وجہ سے سپلائی چین میں بدترین رکاوٹ پیدا ہوئی ہے جس کا اثر معاشرہ کے سبھی طبقوں پر پڑا ہے۔ خصوصاً عمر دراز لوگ جو اپنی بچت اور انتہائی قلیل پینشن پر منحصر ہیں ان کے لیے یہ ایک آفت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ جبکہ 60سال یا اس سے زیادہ عمر والے تقریباً 1.6کروڑ لوگ رہائشی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ اپریل میں مالیاتی خسارہ آٹھ سال کی اونچی سطح 7.79فیصد پر پہنچ چکا ہے۔ گیہوں، خوردنی تیل، پھلوں، سبزیوں، گوشت، چائے وغیرہ کی قیمتیں 10فیصد سے 25فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ صارف قیمت اشاریے (سی پی آئی) میں ان خوردنی اشیا کی نصف حصہ داری ہے۔ وہیں پکوان گیس اور پٹرول کی قیمت میں 40فیصد کا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے 60سال اور اس کے اوپر کے 9 کروڑ لوگوں کو گزر بسر کے لیے مجبوراً کام کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف مہنگائی میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے مرکزی بینک نے ستمبر تک اس کے برقرار رہنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ اس سے بغیر آمدنی یا کمتر آمدنی والے لوگوں کی زندگی دوبھر ہوتی جارہی ہے۔ وظیفہ یاب اپنے دہائی کی بچت کو گنوانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ طویل مدتی جمع پونجی پر اوسط شرح سود 8.5فیصد سے گھٹ کر6فیصد پر آگئی ہے جو مالیاتی خسارہ سے بھی کم ہے۔ بچت کی فکر کے ساتھ کچھ وظیفہ ایکیویٹی اور میچول فنڈس جیسی پر خطر سرمایہ کاری رخ کررہے ہیں۔ ساتھ ہی حکومت مفت اناج تقسیم کررہی ہے۔ پکوان گیس ، ڈیزل اور پٹرول کے ٹیکس میں کٹوتی بھی کی جارہی ہے۔ مگر ایسے اسکیموں سے کتنی راحت ملے گی یہ ابھی واضح نہیں ہے؟ صحیح ہے کہ مہنگائی کا اثر ہر طبقہ پر یکساں نہیں ہوتا کیونکہ طرز زندگی ، صارفین کی عادتیں اور مالی حالات سب یکساں نہیں ہوتے۔ عالمی بینک کے ایک مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ کم آمدنی والے کنبوں پر مہنگائی کی زد زیادہ ہی پڑتی ہے وہیں سرمایہ داروں کو فائدہ خوب ہوتا ہے اسی طرح ہر عمر کے لوگوں پر اس کے اثرات بھی مختلف ہوتے ہیں۔
کورونا قہر کے گزرجانے کے بعد اب ہماری معیشت میں سُستی کا بول بالا ہے کیونکہ کم سرمایہ کاری ہوئی اور شرح نمو چوتھی سہ ماہی کم ہوکر 4.1فیصد ہوگئی۔ ملک میں ایسی سخت بے روزگاری کو گزشتہ 45سالوں میں محنت کش طبقے نے نہیں جھیلا، ہر شعبہ میں کم سپلائی اور کم طلب کا عدم توازن پیدا ہوگیا ہے جس نے ملک کو مہنگائی کی مصیبت میں ڈال دیا ہے یہ ایسی آسمان کوچھوتی مہنگائی ہے جس نے روزگا رکے سبھی موقعوں کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ اب حکومت کی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ بے لگام مہنگائی پر قابو پانے کے ساتھ اسی سےجڑے پیچیدہ مسائل کے حل کو تلاش کیا جائے۔ آر بی آئی نے پہلا قدم مانیٹری پالیسی میں تبدیلی اور دوبار ریپوریٹ کو بڑھا کر اٹھایا جس کا مقصد سرمایہ کی طلب کو کم اور رقیق کرنسی کی وسعت کو گھٹانا تھا۔ اس کے ساتھ ہی قرض کا حصول مشکل ہوگیا اور ای ایم آئی بڑھ گئی۔ دوسری طرف زیادہ شرح سود عوام الناس کی آمدنی میں اضافہ کرے گی جس سے ان کی طلب بڑھے گی اگر اس طبقہ کی آمدنی بڑھے گی تو طلب میں اضافہ ہوگا۔ ابھی تک توڈیجیٹل کمپیوٹر ائزڈ صنعتوں کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے مگر وہاں تو روزگار کے مواقع ہی ندارد۔ کمر توڑ مہنگائی سے نجات دلانے کو بہت ضروری ہوگیا ہے کہ صورتحال کا باریکی سے جائزہ لے کر مارکیٹ میں اختراعی مداخلت کرے۔ فی الوقت حکومت کا کام صرف اس بڑھتی مہنگائی کو روکنا ہی نہیں ہے بلکہ طویل مدتی منصوبہ میں قیمتوں کو نیچے لانا بھی ہے اس لیے جن کی آمدنی کم ہے۔ ایسے لوگوں کو سرکاری مدد کی شدید ضرورت ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022