تذکیر بالقرآن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لئیق اللہ خاں منصوری

اسوۂ ابراہیمی ؑکے چند نمایاں پہلو

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًالِّلٰهِ حَنِيْفًاۗ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَۙ ( النحل: ١٢٠ )
شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهِ ۖاجْتَبٰىهُ وَهَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ( النحل: ١٢١ )
واقعہ یہ ہے کہ ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو ،وہ کبھی مشرک نہ تھا۔اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا ،اللہ نے اس کو منتخب کر لیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔
یہ سورۃ النحل کی دو آیات ہیں جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پانچ خصوصیات اور ان پر اللہ کے دو انعامات کا ذکرہے۔
حضرت ابراہیم ان پانچ اولوالعزم انبیاء میں سے ہیں جن کا ذکر سورۃ الشوریٰ ،آیت :۱۳ میں کیا گیا ہے۔آپ کو ابو الانبیاء بھی کہا جاتا ہے۔(یوسف ؑبن یعقوب ؑبن اسحق ؑبن ابراہیمؑ)۔حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ کواز سر نو کعبۃ اللہ کی تعمیر کا شرف حاصل ہوا۔حضرت محمدؐ کی بعثت آپ دونوں کی دعا کا جواب تھی۔ قرآن مجید میں حضرت محمد ﷺ کے علاوہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں کو بھی اسوہ قرار دیا گیا ہے۔
(سورۃ الممتحنۃ :۴، ۶)۔ حضرت محمدﷺ کو بھی حضرت ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کی تلقین کی گئی ہے۔
(آل عمران:۹۵)۔
چنانچہ آخری شریعت کے فرائض میں حضرت ابراہیمؑ کے اسوہ کو شامل کردیا گیا ہے۔ کعبۃ اللہ کو دنیا بھر کے لیے قبلہ بنادیا گیا۔ نماز میں درودِ ابراہیمی شامل ہے۔عمرہ ، حج اور قربانی میں ادا کیے جانے والے مناسک حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہؑ کی یادگار ہیں۔
درج بالا دو آیات میں حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت کے پانچ پہلو بیان ہوئے ہیں:
(۱)اُمّت: حضرت ابراہیم ؑ اپنی ذات میں ایک امت تھے۔ یعنی آپ نے اکیلے وہ کام انجام دیا جو پوری امت کے کرنے کا تھا۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ رقم طراز ہیں: ’’یعنی وہ اکیلا انسان بجائے خود ایک امت تھا۔جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا تو ایک طرف وہ اکیلا اسلام کا علمبردار تھا اور دوسری طرف دنیا کفر کی علمبردار تھی۔ اس اکیلے بندۂ خدا نے وہ کام کیا جو ایک امت کے کرنے کا تھا۔وہ ایک شخص نہ تھا بلکہ ایک پورا ادارہ تھا۔‘‘
(۲)قانت: حضرت ابراہیمؑ اللہ کے وفاد ار اور مطیع و فرمان تھے۔ جب اللہ نے انہیں اس کے آگے خود کو حوالے کرنے کا حکم دیا : اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ، تو انہوں نے جواب میں کہا: اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اور آخری سانس تک اپنے اس عہد پر قائم رہے۔ جب جب اللہ نے جو بھی حکم دیا اس کو کر ڈالا۔ حکم خداوندی پر بیوی اوربچے کو وادیٔ غیر ذی زرع میں چھوڑنے اورپیرانہ سالی میں پیدا ہونے والی اولاد کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے ۔اللہ تعالیٰ نے خود اس بات کا اعترا ف کیا کہ جب ان کو مختلف امور میں آزمایا گیا تو وہ ان تمام امور میں پورے اترے:
وَ اِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنّ (البقرۃ: ۱۲۴)
یاد کرو کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا۔
(۳) حنیف: حضرت ابراہیم ہر طرف سے کٹ کر اللہ کے ہو چکے تھے ۔حنیفیت (یکسوئی)اسوۂ ابراہیمیؑ کا ایک اہم پہلو ہے۔ آپ نے قوم کے مشرکانہ توہمات (سورج ، چاند اور ستاروں کو خدا ماننے)سے براء ت کا اعلان کرتے ہوئے کہا:
اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن (الانعام: ۷۹)
’’میں نے تویکسو ہو کر اپنا رخ اْس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘
(۴) توحید پرست: حضرت ابراہیمؑ توحید کے علمبردار تھے۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔ یہ نکتۂ حنیفیت ہی کی مزید صراحت ہے کہ وہ ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔اس لیے کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین حضرت ابراہیمؑ کی جانب اپنی نسبت ظاہر کرتے تھے۔اللہ نے نفی کی کہ ابراہیمؑ نہ یہودی تھے نہ نصرانی تھے اور نہ مشرکین میں شامل تھے بلکہ وہ تو ایک مسلمِ حنیف تھے۔
(آل عمران: ۶۷)۔
(۵) شکر گزار: حضرت ابراہیمؑ کی پانچویں خصوصیت یہ بتائی گئی کہ آپ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے والے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جتنی بھی دعائیں کیں وہ اللہ تعالیٰ نے پوری کیں۔ آپؑ نے مکہ اور اہل مکہ کے لیے دعائیں کیں۔ بنو اسماعیل میں سے ایک رسول کی بعثت کی دعا کی۔صالح اولاد کے لیے دعا کی۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کی نعمتوں کے حصول پر شکر ادا کرتے ہوئے کہا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَ ہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ ط اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآء ِ(ابراہیم:۳۹)
’’شکرہے اس اللہ کے لیے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے۔ بے شک میرا رب دعا کا سننے والا ہے۔‘‘
ان آیات میں حضرت ابراہیمؑ کی چند خصوصیات کا ذکر کرنےکے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے دو احسانات کا حوالہ دیا :
ایک یہ کہ اس نے ابراہیم ؑ کواپنے دین کے مشن کے لیے منتخب فرمایا،انہیں نبوت سے سرفراز کیا۔مزید یہ کہ ان کی قربانیوں کے صلہ میں تمام دنیا کے انسانوں کا امام بنایا (البقرہ: ۱۲۴) انہیں اپنا دوست بھی قرار دیا۔ (النساء: ۱۲۵)
دوسرا یہ کہ صراط مستقیم کی جانب ان کی رہنمائی کی،جس سے بڑی سعادت کا تصور ممکن نہیں۔
قرآن مجید میں حضرت ابراہیمؑ کی مزید خوبیوں اور خصوصیات کا ذکر بھی متعدد مقامات پر ہمیں ملتا ہے جیسے وہ اوّاہ منیب (خدا کی طرف پلٹنے والے)تھے، حلیم و بردبارتھے، مہمان نواز تھے، سچے تھے، وفا شعار تھے، صلہ رحمی کرنے والے تھے، وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسوۂ ابرہیمیؑ کو اختیار کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭٭٭

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022