مہا کمبھ اور کورونا

سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا ؟

ڈاکٹر سلیم خان

کورونا کا دوسرا جنم وزیر اعظم کے دوسرے ورژن کی طرح پہلے سے خطرناک ثابت ہوا ۔ پہلی بار جب کورونا ہندوستان میں آیا تھا تب وہ بزرگوں کی جانب متوجہ تھا اس بار وہ جوانوں کو اپنے چنگل میں لے رہا ہے۔ وزیر اعظم بھی پہلی بار سب کا ساتھ ساتھ سب کا وکاس کرنے کے لیے آئے تھے لیکن دوسری بار کشمیر اور رام مندر کے نام پر دیش کا وناش کر رہے ہیں۔ سادھو کا روپ دھارن کرنے کے بعد وزیر اعظم کے لیے کمبھ میلے پر پابندی لگانا بہت بڑا دھرم سنکٹ تھا اس لیے انہوں نے اس کو علامتی بنانے کے لیے صرف گزارش پر اکتفا کیا لیکن اس سے قبل مختلف اکھاڑوں سے بات چیت کرلی گئی تھی اس لیے جونا اکھاڑہ اور اس کے حامیوں نے کمبھ میلے کا خاتمہ کر دیا۔ پانچ اپریل کو ہندوستان میں کورونا سے متاثرین کی تعداد سارے پرانے ریکارڈ توڑ کر ایک لاکھ پانچ ہزار یومیہ پر پہنچ گئی تھی۔ وزیر اعظم کی یہ اپیل اگر اس وقت بھی آجاتی تو دو ہفتہ بعد یہ دو لاکھ چوہترّ ہزار پر نہیں ہوتی لیکن دور اندیشی سے عاری ابن الوقت سیاستدانوں نے اپنے ہی بھکتوں کا بیڑہ غرق کر دیا۔ اس موقع پر فلم ایک سال کا نغمہ (مع ترمیم) صادق آتا ہے؎
ہم بدنصیب کمبھ کی رسوائی بن گئے
خود ہی لگا کے آگ تماشائی بن گئے
دامن سے اب یہ شعلے بجھائے تو کیا کیا ، سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا آج حالت یہ ہے کہ قومی دارالحکومت میں دلی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کر کے ہریدوار کے کمبھ میلے سے واپس آنے والے تمام افراد کے لیے 14 دن کا قرنطینہ لازمی کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ انہیں اپنی تفصیلات مثلاً نام، دلی کا پتہ، فون نمبر، شناختی کارڈ، جانے اور آنے کی تاریخ وغیرہ سرکاری پورٹل پر اپ لوڈ اور لنک کرنا لازم کر دیا ہے۔ کمبھ 2021 سے دہلی واپس آنے والے کسی رہائشی نے اگر مطلوبہ تفصیلات / معلومات اپلوڈ نہیں کی تو اسے سرکاری قرنطینہ بھیجا جائے گا جو کسی قید سے کم نہیں ہے۔ دلی کے ضلع مجسٹریٹ ایسے لوگوں کی روزانہ کی بنیاد پر ٹریسنگ یعنی نگرانی کو معیار بنائیں گے۔ یہ کوئی توہین نہیں بلکہ ضروری احتیاط ہے۔ بی جے پی کے امیت مالویہ نے حق نمک ادا کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھ دیا کہ دلی میں نہ تو انتخاب ہے اور نہ کمبھ میلہ پھر بھی کورونا سے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے کیونکہ وہاں ایک نااہل وزیر اعلیٰ برسرِ اقتدار ہے۔
امیت مالویہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دہلی کا وزیر اعلیٰ نااہل نہیں بلکہ ایک دیانتدار رہنما ہے۔ اس کے نزدیک عوام کی صحت و سلامتی کو اقتدار اور ناموری پر فوقیت حاصل ہے۔ وہ مریضوں کی جانچ کروا کر ان کی صحیح تعداد سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ خبرادر ہو جائیں۔ مرنے والوں کی تعداد چھپا کر شتر مرغ کی مانند اپنا منہ ریت میں نہیں چھپاتا۔ یہ سب تو اتر پردیش اور گجرات میں ہو رہا ہے جہاں اول تو ٹسٹنگ نہیں ہوتی، ہوتی بھی ہے تو رپورٹ میں تاخیر کی جاتی ہے اور اس میں گھپلے کیے جاتے ہیں۔ شمشان گھاٹ کو گھیرا جاتا ہے تاکہ نامہ نگار ازخود درست تعداد نہ جان سکیں۔ گجرات کے جام نگر میں سندیش نامی اخبار کے ایک صحافی نے اسپتال سے شمشان جانے والی ترسٹھ لاشوں کو گنا اور انتظامیہ نے اگلے دن بتایا کہ کورونا سے ایک موت بھی نہیں ہوئی۔ اتر پردیش کا اور بھی برا حال ہے۔ لاشوں کو کوڑا گاڑی تک میں بھر کر شمشان پہنچانا پڑ رہا ہے۔ جلانے کے لیے لکھنو جیسے شہر میں لکڑیاں کم پڑ گئی ہیں۔ بجلی کے شمشان میں ۱۲ گھنٹے انتظار کرنا پڑ رہا ہے اس کے باوجود کورونا سے مرنے والوں کی تعداد نہیں بڑھتی۔
دہلی کے علاوہ اڈیشہ، گجرات، کرناٹک اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں نے بھی کمبھ سے آنے والوں کی جانچ اور قرنطینہ کی پابندیاں لگائی ہیں۔ ان پانچ میں سے تین ریاستوں کی رام بھکت سرکاریں بھی وہی سب کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں جو راون کے نااہل پیروکار کر رہے ہیں۔ اڈیشہ کی شرائط تو بالکل دہلی جیسی ہیں یعنی ٹسٹ اور قرنطینہ کے ساتھ ضلعی افسران کو فہرست کی فراہمی تاکہ وہ نگرانی کرسکیں۔ مدھیہ پردیش کے اندر کمبھ میلے سے لوٹنے والوں کے لیے ضلع کلکٹر کو بتانا لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد سرکاری افسر انہیں سات دن کے لیے قرنطینہ میں بھیجیں گے۔ کرناٹک اور گجرات کو بھی یہ سات دن کا قرنطینہ کس نے بتا دیا کوئی نہیں جانتا۔ گجرات میں کمبھ سے آنے والے 230 مسافروں کا کورونا ٹیسٹ کیا گیا تو ان میں سے 15 متاثر پائے گئے اس لیے انہیں فوری طور پر عارضی کووڈ سینٹر بھیج دیا گیا۔ اس سے قبل 34 متاثر پائے گئے تھے۔ اس لیے وزیر اعلیٰ روپانی نے کمبھ سے گجرات واپس آنے والوں کے لیے کورونا کی جانچ ضروری قرار دی ہے کیونکہ لاکھ پردہ پوشی کے باوجود اب تک ۴ لاکھ پانچ ہزار سے زیادہ لوگ متاثر ہو چکے ہیں اور 5300 سے زیادہ افراد کی موت بتانی پڑی ہے ۔ پچھلے ۲۴ گھنٹوں میں دس ہزار متاثرین کا اضافہ اور ایک سو دس لوگوں کی موت کو حکومت نے تسلیم کیاہے۔
کمبھ کے میلے کو ختم کرنے لیے جس آسانی سے قدیم ترین جونا اکھاڑے کے سربراہ آچاریہ مہا منڈلیشور اسدھیشانند گری راضی ہو گئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اس گزارش کے پہلے ہی کورونا کے پھیلاؤ میں غیر معمولی اضافہ کی وجہ سے نرنجنی اور آنند اکھاڑے نے کمبھ کے اختتام کا اعلان کر دیا تھا۔ وزیر اعظم نے تو باقی بچے غسل کو علامتی طور پر کرنے کی اجازت دی مگر جونا اکھاڑے نے کمبھ کے اختتام کا اعلان کر دیا اور اپنے تمام دیوی دیوتاؤں کو دریا برد کر کے سادھو سنتوں کو واپس جانے کا حکم دے دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے سادھو تو بیچارے اس کے منتظر بیٹھے تھے انہوں نے فوراً اپنا سامان باندھنا شروع کر دیا بلکہ نصف سے زائد اپنے گھروں کو روانہ بھی ہوگئے۔ جونا اکھاڑہ کے حامی اگنی، آواہن اور کنرّ اکھاڑے نے بھی اس فیصلے کی تائید کی اور اپنا بوریا بستر لپیٹ لیا۔ اس طرح جملہ 13 میں سے 6 نے راستہ
ناپ لیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کی اطاعت میں زمینی حقائق نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کمبھ میں بقول رام گوپال ورما کورونا کا ایٹم بم اس طرح پھٹا کہ ہر کوئی فکر مند ہوگیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومت نے اسے بننے اور پھٹنے کا موقع دیا۔ مدھیہ پردیش میں نروانی اکھاڑے کے مہامنڈلیشور کپل دیو داس کی کورونا سے موت نے سادھووں کی عقیدت کو متزلزل کر دیا۔ کپل دیو داس 12 اپریل کو اسپتال میں بھرتی ہوئے اور 13 اپریل کو دم توڑ دیا۔ انہوں نے گردے کی خرابی اور ڈائیلسس کی ضرورت کے باوجود کمبھ میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا اس ماحول میں خودکشی کے مترادف تھا۔ کمبھ میں مہامنڈلیشور اپنے 10000 سے زیادہ عقیدت مندوں کے رابطے میں تھے۔ اس کے بعد پتہ چلا کہ پانچ سے 14 اپریل کے بیچ ہریدوار کے کمبھ میں شامل 68 بڑے سادھو کورونا سے متاثر پائے گئے ان میں اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد کے صدر نریندر گری بھی شامل تھے۔ اور تو اور وہاں موجود 33 پولیس اہلکاروں کو بھی کورونا ہوگیا۔ نرنجنی اکھاڑے کے سکریٹری رویندر پوری نے بتایا کہ ہمارے اکھاڑے میں کئی لوگوں میں کووڈ 19 کے آثار سامنے آ رہے ہیں ایسے میں ہمارے لیے کمبھ میلہ ختم ہو گیا۔
کمبھ میلہ کے انتظامیہ کو شاہی اشنان سے قبل 12 اپریل کو ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے کیونکہ جملہ 79301 لوگوں کے کو رونا ٹیسٹ میں سے 745 متاثر پائے گئے اب اگر اسی شرح کو 35 لاکھ پر منطبق کیا جائے تو یہ تعداد 33 ہزار بنتی ہے۔ اتر اکھنڈ میں 15 اپریل کو ایک دن میں سب سے زیادہ 2220 نئے معاملے ملے تھے جبکہ کورونا کے عروج میں 19 ستمبر 2020 کو بھی اس سے کم 2078 نئے مریض ہی سامنے آئے تھے۔ اس طرح صوبے میں کورونا وائرس انفیکشن کے کل معاملوں کی تعداد بڑھ کر 116244 ہو گئی تھی اور اموات کی جملہ تعداد 1802 پر پہنچ چکی تھی۔ اس سنگین صورتحال کے باوجود اسے منسوخ کرنے کا متفقہ فیصلہ نہیں ہو سکا۔ عقل کے ناخن لینے کے بجائے اکھاڑوں کے درمیان مہابھارت چھڑ گئی اور وہ آپس میں ایک دوسرے پر کورونا کے پھیلاؤ کی ذمہ داری ڈالنے لگے۔
آج بھی کمبھ کو جاری رکھنے پر اصرار کرنے والے بیراگی اکھاڑہ نے الزام لگایا کہ سنیاسی اکھاڑوں کی وجہ سے کورونا انفیکشن پھیلا ہے۔ نرموہی اکھاڑے کے سربراہ مہنت راجندر داس نے کمبھ میں انفیکشن کے بڑھنے کی ذمہ داری اکھاڑا پریشد کے سربراہ مہنت نریندر گری کے سر منڈھ دی۔ اب چونکہ نریندر گری نے نریندر مودی کی درخواست پر کمبھ کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے اس لیے یہ لوگ وزیر اعظم سے بھی ناراض ہو گئے ہوں گے کیونکہ ایک تو کورونا کو پھیلانے والا اکھاڑہ پریشد ان کے ساتھ ہے نیز نرموہی اور سنیاسی اکھاڑے کمبھ کو ختم کرنے کے بجائے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ان سادھو سنتوں کو وزیر اعظم سے یہ شکایت بھی ہے کہ انہیں کمبھ کا خاتمہ کرنے کی تلقین کرنے والے مودی خود کو انتخابی مہم سے روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ ایودھیا کے سنت آچاریہ مدھوپ نے کہا ہے کہ ملک کا بادشاہ عوام کے لیے نمونہ ہوتا ہے پرجا اپنے راجہ کی پیروی کرتی ہے۔
اچاریہ مدھوپ نے سوال کیا کہ بھاری بھرکم جلسوں سے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ عوام کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ کورونا اتنا خطرناک نہیں جتنا بتایا جا رہا ہے۔ اگر یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہوتا تو ملک کا وزیر اعظم ایسا نہ کرتا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے سامنے ایک نمونہ پیش کرنے کی خاطر وزیر اعظم کو فوراً اپنے تمام سیاسی تقریبات پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ یہ بیچارے سادھو سنت نہیں جانتے کہ سیاست کا جنون کیا ہوتا ہے؟ ممتا نے تو آئندہ کے تمام مراحل کو یکجا کر کے جلدی سے نمٹا دینے کی پیش کش تھی مگر مرکزی حکومت پر مہربان الیکشن کمیشن نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ آچاریہ شیلیش کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ایک طرف مختلف صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، گورنروں اور طبی عہدیداروں کے ساتھ بیٹھ کر کورونا کا جائزہ لیتے ہیں اور دوسری جانب مغربی بنگال میں بڑی بڑی ریلیاں کرتے ہیں۔ اس سے سماج میں بے حد مقبول وزیر اعظم کے بارے میں غلط پیغام جارہا ہے۔ وہ دوسروں کے لیے جو رکاوٹ بتا رہے ہیں خود اپنی تقریبات کے لیے کسی رکاوٹ کو نہیں مانتے۔ ایسا کرنے سے ان کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے اس لیے انہیں بچنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ بات تو درست ہے مگر وزیر اعظم کا معاملہ غالب کے اس شعر کی طرح ہے؎
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
کالکی پیٹھادھیشور آچاریہ پرمود کرشنم نے بھی مغربی بنگال میں جاری سیاسی جلسوں پر فوری روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ اس سے ملک کو غلط پیغام جا رہا ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ کورونا کے حوالے سے جاری کیا جانے والا پروٹوکول جھوٹا ہے اس لیے وزیر اعظم خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ انہیں راہل گاندھی کی طرح مودی کو اپنی انتخابی مہم ختم کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ بولے وزیر اعظم نے ایک درخواست دے کر 12 سال میں ایک بار منعقد ہونے والا کمبھ میلا بند کروا دیا۔ انہوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ جب تک کورونا رہے گا اس وقت تک کوئی بھیڑ جمع کرکے عوام کی جان سے کھلواڑ کرنے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ ان کا جائز سوال ہے کہ جب اسکول اور کالج بند ہوگئے تو انتخابی مہم کیوں بند نہیں ہوئی؟ سادھووں کی رسہ کشی نے اتر اکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت کے سامنے دھرم سنکٹ کھڑا کردیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کمبھ میلے کا خاتمہ کرنے کے بجائے اس کو جاری رکھنے کا یقین دلا رہا ہے۔ یعنی دو متحارب گروہوں میں سے ایک کی جانب وزیر اعظم ہے تو دوسرے کی حمایت وزیر اعلیٰ کر رہا ہے۔
اپنے حیرت انگیز بیانات کے لیے مشہور تیرتھ سنگھ نے انکشاف بھی کیا ہے کہ اس میلہ پر ’گنگا ماں کا آشیرواد‘ ہے اور گنگا کا بہتا پانی کورونا وائرس کو ختم کر دے گا لیکن مہاکمبھ میلہ نے سائنسدانوں کو متفکر کر دیا ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ زمین اور ہوا کے مقابلے میں گنگا کا بہتا پانی زیادہ تیزی کے ساتھ کورونا انفیکشن کو پھیلائے گا۔ یہ اندیشہ اگر درست نکل جائے تو مہاکمبھ آگے چل کر ’موت کا میلہ‘ بن سکتا ہے۔ 12 محققین کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر سندیپ شکلا کے خیال میں خشک جگہ کے مقابلے میں یہ وائرس پانی میں زیادہ وقت تک سرگرم رہ سکتا ہے۔ اس بات پر تحقیق جاری ہے اور نتائج نہ جانے کب سامنے آئیں یا انہیں دبا دیا جائے لیکن شاہی اشنان کے بعد گنگا کے گہوارے اتر پردیش میں سنگین صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ 16 اپریل کو اب تک کی یومیہ سب سے بڑی 27,426 کی تعداد سامنے آئی جو دو دن بعد تیس ہزار سے تجاوز کر گئی حالانکہ اس تعداد کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اسے گھٹا کر بتایا جارہا ہے۔ مرنے والوں کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ دو سو سے کم ہے جبکہ شمشان گھاٹ اور قبرستان کے مناظر اس کی تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
9 اپریل کو آچاریہ پرمود کرشنم نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے حکومت نے قبل از وقت مہا کمبھ کا اہتمام کیا ہے۔ اچاریہ نے کہا کہ یہ میلہ پہلی بار 12 سال کے بجائے 11 سال میں لگ رہا ہے۔ اس سے قبل یہ میلہ 2010 میں ہوا تھا تو اسے 2022 میں ہونا چاہیے تھا لیکن حکومت نے اکھاڑہ پریشد کی ملی بھگت سے اسے ایک سال پہلے کرکے ہندو مذہب، عقیدہ اور روایت کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے اسے ایک سیاسی سازش قرار دیتے ہوئے کہا چونکہ آئندہ سال اتراکھنڈ میں انتخاب ہے اس لیے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی غرض سے عوام کی جانوں کو جوکھم میں ڈال دیا گیا۔ یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ ان حالات میں اگر بارہ سال ہو جائیں تب بھی اسے تیرہویں سال تک ملتوی کر دینا چاہیے تھا کجا کے قبل از وقت منعقد کیا جاتا۔ ویسے ابتدا میں اسے جنوری کے وسط سے اپریل کے آخر تک چلنا تھا اور جملہ 9 مقدس ڈبکیاں لگنی تھیں لیکن اسے تین ماہ ملتوی کرنے کے سبب پانچ ڈبکیوں کا مہورت تو ویسے ہی ڈوب گیا۔ باقی تین نے ایسی تباہی مچائی کہ چوتھی کو منسوخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
مہا کمبھ کا بیساکھی اشنان ہمیشہ تنازع کا سبب بنتا رہا ہے۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہ موقع کسی حادثے یا تنازع کے بغیر گزر گیا ہو۔ آزادی کے بعد 1950 میں 14 اپریل کے شاہی اشنان میں ہرکی پوڑی کے بیرئیر ٹوٹنے کی وجہ سے 50 تا 60 زائرین ہلاک ہوگئے۔ 1986 میں مہا کمبھ میں بھیڑ کے بڑھ جانے سے پانچ لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 1998 میں دو بڑے اکھاڑوں کے درمیان لڑائی ہوگئی اور تنازع اس قدر بڑھا کہ شاہی اشنان کو ملتوی کرنا پڑا۔ 2010 میں شاہی اشنان کے دوران حادثہ ہوا اور 7 لوگوں نے اپنی جان گنوائی۔ اس بار لوگ مطمئن تھے 14 اپریل کے شاہی اشنان میں کوئی حادثہ نہیں ہوا حالانکہ کورونا کا بم خاموشی سے پھوٹ چکا تھا۔ وہ دعا کررہے تھے کہ آخری اشنان بخیر و خوبی ہوجائے جسے منسوخ کیا جا چکا ہے۔
مودی یگ میں مہا کمبھ کی آن بان اور شان کچھ اور ہی تھی۔ پہلے شاہی اکھاڑوں کے جلوس اتنے بڑے نہیں ہوتے تھے لیکن کورونا کے زمانے میں 11 سو زیادہ گاڑیوں نے حصہ لے کر کمال کر دیا۔ اس مہا کمبھ میں دنیا کی سب سے بڑی مشعل بھی روشن کی گئی جس کو گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرانے کی تیاری چل رہی تھی کہ کورونا کے پھیلنے کا عالمی ریکارڈ ازخود بن گیا۔ وزیر اعظم کا دامن گجرات کے فساد سے پہلے ہی داغدار تھا لیکن اب اس سے بھی بڑا داغ لگ گیا ہے اس لیے مہاکمبھ کی تباہی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس بار یہ تباہی و بربادی نفرت کے بجائے عقیدت کے راستے سے آئی ہے لیکن دونوں میں سیاسی مفاد مشترک ہے۔ وزیر اعظم کے اس کارنامہ پر کلیم عاجز کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
***

سادھو سنتوں کو وزیر اعظم سے یہ شکایت بھی ہے کہ انہیں کمبھ کا خاتمہ کرنے کی تلقین کرنے والے مودی خود کو انتخابی مہم سے روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ ایودھیا کے سنت آچاریہ مدھوپ نے کہا ہے کہ ملک کا بادشاہ عوام کے لیے نمونہ ہوتا ہے۔ پرجا اپنے راجہ کی پیروی کرتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021