مولانا علی میاں ندویؒ

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

 

اسلامی تاریخ میں علماء کی کمی نہیں رہی۔ بیسوی صدی میں بھی آسمان کے روشن ستاروں کی طرح علماء بھی بے شمار پیدا ہوئے ہیں اور ان سے یہ زمیں روکش کہکشاں بن گئی۔ کوئی عالم دین روحانیت اور ربانیت میں آفتاب و ماہتاب تھا کوئی عالم دین تفسیری خدمات میں یا حدیث میں یگانہ تھا کسی نے فقہ کے میدان میں بیش بہا خدمات انجام دی تھیں کسی نے تنہا سیرت نبوی کے موضوع پر انسائیکلوپیڈیا مرتب کر ڈالی تھی کسی نے اسلامی تاریخ لکھنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا تھا کسی نے اسلامی علوم کی کوئی شاخ اپنے لیے منتخب کی اور اسے شاداب اور بہار آشنا کیا، کسی نے جدید علم کلام کو اپنا موضوع بنایا اور اسلام پر اعتراضات کے مدلل اور تشفی بخش جواب دیے اور مغرب کے سحر سامری کو توڑ ڈالا۔ ایسے علماء بھی پیدا ہوئے جنہوں نے غیر ملکی اقتدار کو بیخ وبن سے اکھاڑپھینکنے میں جان ومال کی قربانیاں دیں۔ ایسے علماء بھی سامنے آئے جنہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں اسلام کے نظام حیات کو بر سر عمل لانے کی کوشش کی۔ یہ تمام علماء قابل قدر اور لائق فخر ہیں اور امت اسلام کو ان سب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
مولانا علی میاں کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے علماء کی گوناگوں خصوصیات کو اپنے اندر جمع کرلیا تھا۔ ان کی شخصیت عطر مجموعہ کی مانند تھی، قرآن کا مطالعہ ان کا خصوصی میدان تھا، ان کی شخصیت قرآن کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی اور سیرت نبوی کی خوشبو میں بسی ہوئی تھی، وہ مفکر بھی تھے مؤرخ بھی تھے ادیب بھی تھے اور عربی اور اردو کے بلند پایہ مصنف اور نثر گار بھی تھے، مذہبی قائد بھی تھے، تصوف اور روحانیت میں بڑے مقام کے حامل تھے اور اسی کے ساتھ ان کا بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ عالم اسلام کے محتسب اور نگراں بھی تھے۔ اقبال کی طرح ان کا بھی نظریہ تھا ’’ہے حقیقت جس کے دین کی احتساب کائنات‘‘ مسلم ملکوں میں کوئی کام خلاف اسلام ہوتا، کوئی غلط گمراہ کن نظریہ پھیلایا جاتا مغربی تہذیب کا جھنڈا بلند کیا جاتا، مولانا کی غیرت وحمیت اسے برداشت نہیں کرتی۔ مولانا اس موضوع پر لکھتے اور تقریریں کرتے۔ عربوں کو طاقتور انداز میں خطاب کرتے، مولانا کی عربی زبان عام حالات میں گوہر بار ہوتی تھی لیکن جہاں دین کو کوئی نقصان پہنچتا ہو چاہے وہ عرب ملک ہی میں کیوں نہ ہو تو پھر ان کا قلم شرر بار اور تیغ جوہر دار بن جاتا تھا۔ ترکی کے کمال اتاترک کا ذکر آئے یا مصر کے جمال عبدالناصر کا تذکرہ ہو مولانا کے قلم کو آتش بار دیکھا گیا اور ان دونوں نے عالم اسلام کو جو نقصان پہنچایا ہے مولانا اس سے شدید نالاں تھے۔ مولانا اس وقت اگر بقید حیات ہوتے تو ان کی غیرت کی زبان اور حمیت کے قلم کی تنقید کے تیروں کا رخ عبد الفتاح السیسی کی طرف ضرور ہوتا جس نے جمال عبد الناصر کے ظلم کی یاد تازہ کر دی بلکہ اسے بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ مولانا کے غیض وغضب کا نشانہ وہ عقال پوش اور عبا بدوش اور بادہ نوش اور ایمان فروش اور محروم عقل وہوش خاقان بن خاقان محمد بن سلمان جیسے عرب حکمراں بھی ہوتے جو عبدالفتاح السیسی کے خاص مددگار اور اسرائیل کے یار غار رہے تھے اور ہیں جو نتن یاہو سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ان کی شرر بار تحریر وتقریر کا نشانہ وہ خلیجی ملک بھی ہوتے جہاں علانیہ دین داری اور اسلام پسندی کو جرم اور دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے اور اسلام کا اور اسلامی نظام کا نام لینے والوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جو لوگ حالات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عرب دنیا میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح ظلم ڈھایا جا رہا ہے وہ مذہبی ذہن رکھنے والوں کے لیے آشوب قیامت سے کم نہیں ہے۔ حرمین کی سر زمین میں کئی سو سینما گھر کھولے جا رہے ہیں، مغربی ثقافت کو درآمد کرنے کا انتظام ہو رہا ہے اور اس کا نام معتدل اسلام رکھا گیا ہے۔ بعض عرب ملکوں میں اخبارات کی رپورٹ کے مطابق حفظ قرآن اور مسجدوں میں دینی بات کرنا بھی جرم ہو گیا ہے اور اس کی سزا ۵ ہزار درہم مقر رہے (روزنامہ انقلاب ۱۷ نومبر ۲۰۱۷) ہر جگہ دینی قیادت کو سخت سزا اور عقوبتوں کا سامنا ہے، قرآن کی وہ آیتیں جن میں یہودیوں کے کردار کی مذمت کی گئی ہے نصاب سے خارج کی جا رہی ہیں۔ عرب امارات میں قحبہ خانے موجود ہیں۔ اسرائیل سے دوستی اور یارانہ اور بیت المقدس سے انداز بیگانہ، جمال خاشقجی کا قتل اور محمد بن سلمان کی رسوائی اور نتن یاہو کے ساتھ سمندر کے ساحل پر اس کی چوری چھپے آشنائی۔ عرب ملکوں میں اور ارض حرم پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ عصر حاضر کا سانحہ کربلا ہے۔ آج بھی اہل دین کے لیے وہی آبلہ پائی ہے، وہی دشت نوردی ہے، وہی صحرا ہے اور آج بھی وہی کوئے نفاق موجود ہے وہی یزید کا طمطراق ہے وہی ملوکیت ہے اور سیم وزر کا معبد ہے اس کے اوپر قصر سلطانی کا گنبد ہے۔ لیکن ہمارے علمائے دین کے لب اظہار پر تالے اور زبان قلم پر چھالے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ تنقید کسی خاص شخصیت پر نہیں ہے بلکہ ان تمام چھوٹی اور بڑی دینی قیادتوں پر ہے جو بر صغیر میں سرگرم عمل رہتی ہیں اور اتنی خطرناک باتوں کا نوٹس نہیں لیتی ہیں اور جنہیں ’’لسانا وشفتین‘‘ کی نعمت ملی تھی لیکن انہوں نے ان سے کام نہیں لیا۔
علماء اور اچھے خاصے دیندار لوگوں کا کہنا ہے کہ دینی اداروں کا بڑا نقصان ہو جائے گا اگر ان اداروں کے ذمہ دار عرب حکمرانوں کی ان غلطیوں پر نکتہ چیں ہوں گے۔ ہم یہاں کشکول گدائی رکھنے والے علماء کو اور دینی اداروں کے ذمہ داروں کو مولانا علی میاں کا ایک قول یاد دلانا چاہیں گے۔ مولانا نے ایک موقعہ پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اللہ تعالی اس دن سے پہلے ہمیں دنیا سے اٹھا لے جس دن ہم ان خلیجی بادشاہوں اور حکمرانوں کو اپنا رزاق سمجھنے لگیں‘‘۔ اب مولانا کی غیرت اور حمیت کا کوئی ہندوستان میں وارث نہیں رہ گیا ہے اور نہ کوئی ان کے استغناء اور توکل کا نمونہ پیش کرنے والا ہے اور نہ کوئی عرب دنیا میں پیدا ہونے والے ’’الفتنۃ الکبری‘‘ پر نکیر کرنے والا باقی رہا ہے۔ مولانا علی میاں کی شخصیت ہمہ جہت اور ہمہ پہلو تھی۔ وہ ہشت پہل ہیرے کے مانند تھے۔ مولانا نے مصلحین امت اور صوفیاء کرام کا تذکرہ لکھا ہے اس اعتبار سے وہ مؤرخ تھے۔ وہ مدارس میں اصلاح نصاب اور مسلم ملکوں میں اصلاح فکر وذہن کے بڑے وکیل اور ترجمان تھے۔ اس اعتبار سے وہ مفکر اسلام تھے۔ اسی کے ساتھ وہ ایک صوفی باصفا اور شیخ طریقت بھی تھے اور روحانیت میں ان کا پایہ بہت بلند تھا اور اس کی گواہی اہل صدق وصفا نے دی ہے۔ ان سب کے ساتھ وہ احیائے اسلام کے بہت بڑے داعی تھے۔ ایسی جامعیت کی شخصیت مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن مولانا کی شخصیت کی امتیازی صفت ان کی غیرت وحمیت ہے۔ مولانا کا عرب وعجم میں احترام تو بہت کیا گیا لیکن اس کے باوجود علماء اور دینی مدارس کے ذمہ داروں نے اور دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے ان کو اپنا رول ماڈل نہیں بنایا۔ بڑے بڑے علماء ان کے دست گرفتہ ہوئے اہل سلوک نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن مولانا کے افکار وخیالات کو انہوں نے جذب نہیں کیا۔ انہیں مولانا کے ذریعے مقامات سلوک طے کرنے کی فکر لاحق رہی لیکن ملت اسلامیہ کے لیے مولانا کی بصیرت مندی اور درد مندی اور فکر کی ارجمندی اور مزاج کی غیرت مندی اور جرأت مندی کی انہوں نے بالکل اقتداء نہیں کی۔ مدارس کے علماء مولانا کا احترام بہت کرتے تھے لیکن اصلاح نصاب اور اصلاح ذہن وفکر سے متعلق ان کے خیالات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ مولانا کی آواز صدا بہ صحرا رہی۔ ایک دور افتادہ صدا جسے گوش حق نیوش بڑے پیمانے پر نصیب نہ ہوسکا نہ دینی جماعتوں کے بارے میں مولانا کی اعتدال پسندی قابل تقلید ٹھہری۔ وہی عصبیت اور وہی مسلکی شدت مولانا کے بعد بھی باقی رہی۔ پھر اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ مولانا اپنی طبیعت کے اعتبار سے ایک زاہد مرتاض اور ایک عابد شب زندہ دار شخص تھے یا یہ وہ ایک ادیب اور مصنف تھے؟ ان دونوں مزاجوں کا تقاضہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے خلوت کدے سے باہر نہ آئے لیکن ملک کے حالات کا اور دین اسلام کا تقاضہ تھا کہ برادران وطن کو خطاب کیا جائے اور پہلے مرحلے میں ان کو اسلام سے مانوس کیا جائے۔ اس تحریک کا مقصد صرف میل ملاپ اور بھائی چارہ نہیں تھا چنانچہ مولانا نے پورے ملک میں پیام انسانیت کی تحریک شروع کر دی۔ شہر بہ شہر برادران وطن کو خطاب کیا۔ مولانا کا یہ وہ کام ہے جس کی نظیر ہندوستان میں پچھلی کئی صدیوں میں نہیں ملتی۔ دینی اور دعوتی شعور کی یہ مثال کسی شخصیت کے یہاں نظر نہیں آتی ہے نہ حال میں نہ ماضی قریب کی تاریخ میں۔
پھر یہ بھی مولانا کا جہاد تھا کہ مسلمانوں میں ایمان کی حرارت پیدا کرنے کے لیے انہوں نے آسمان وزمین کے قلابے ملا دیے اور دشت ودریا سب عبور کر ڈالے اور ملکوں ملکوں کا سفر کیا اور وہ بھی صحت کی خرابی اور علالت کے ساتھ۔ اپنی تمام معذوریوں کے باوجود مولانا بہت فعال اور متحرک شخصیت کے مالک تھے اور روح جہاد ان کے اندر حلول کر گئی تھی۔ اپنی تمام علمی اور دینی مصروفیات اور عالم اسلام سے گہرے تعلقات کے باوجود مولانا سب سے ملتے تھے ہر ایک کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے اور اخلاق نبوی سے متصف تھے۔ پورے عالم اسلام کی نگرانی اور نگہبانی کا فریضہ انجام دیتے تھے اور وہاں اہل دین کے ہاتھ میں سیاست کی زمام دیکھنے کی خواہش نے مولانا سے عربی میں کتابیں لکھوائیں، سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں کروائیں۔ مولانا کی سوز وگذاز سے لبریز عربی اور اردو میں تحریریں ہیں، کتابیں ہیں، جس میں مولانا نے اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے۔
بیسوس صدی شروع ہوئی تو عالم اسلام مغربی تہذیب کی یلغار کو اسلامی تہذیب کی ڈھال پر روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ عرب دنیا میں جمال الدین افغانی کے شاگرد شیخ محمد عبدہ اور رشید رضا تھے اور کچھ دوسرے اصحاب قلم تھے جن کی اسلامیات پر ادب آمیز اور فکر انگیز تحریروں کے دلنشین تیردل میں ترازو ہو رہے تھے پھر اخوان المسلمون کی تحریک کے مصنفین تھے جنہوں نے قلم کے میدان میں شہسواری اور پختہ کاری کا ثبوت دیا اور مغربی افکار کا کامیاب مقابلہ کیا۔ بر صغیر میں مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے میں علامہ اقبال کے کلام کا بہت بڑا ہاتھ رہا۔ ہندوستان میں شبلی، سید سلیمان ندوی، ابو الاعلی مودودی اور مولانا ابو الکلام آزاد تھے جنہوں نے بیداری پیدا کی اور اسلام پر نئے سرے سے اعتماد پیدا کیا۔ اسی کاروان علم وقلم میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے تقریر وتحریر کے ذریعہ تصوف وتزکیہ نفس کو جدید علم کلام سے اور عہد حاضر کے مسائل سے بہم کرنے اور نئی نسل کی شاخوں کو دین اسلام کے شجر سے وابستہ رکھنے کی پوری کوشش کی۔ مصر میں جب فرعونیت کے احیا کی کوشش ہوئی اور عرب قومیت کا نعرہ بلند کیا گیا تو مولانا کی تحریریں صور اسرافیل بن گئیں۔ ان کا قلم تیغِ اصیل بن گیا اور ان کی تحریریں بر صغیر اور ہندستان سے لے کر تمام عرب ملکوں میں پڑھی گئیں۔ کیونکہ مولانا کی عربی نثر اردو سے زیادہ طاقتور تھی۔ پھر مولانا کی کتابوں کے دنیا کی زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ مولانا کی وہ یہ خصوصیت ہے جس میں برصغیر کا کوئی عالم ان کا شریک نہیں اور اسی وجہ سے وہ پورے عالم اسلام کو خطاب کرنے کے لائق ہوئے۔ انہوں نے مسلم حکم رانوں کو بھی نصیحتیں کیں، کئی حکمرانوں کے نام خطوط آج بھی محفوظ ہیں لیکن مسلم حکمرانوں نے بحیثت مجموعی مولانا کی بات نہیں مانی لیکن اب حکمرانوں کو نصیحت کرنے والا بھی کوئی نہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021