مولانا عبد الصمد رحمانی کا رسالہ ’’وید کا بھید‘‘ ایک جائزہ

تقابل ادیان میں مسلم علماء کی خدمات (قسط10 )

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،، علیگڑھ

 

اسلام پر اٹھنے والے اعتراضات کا سلسلہ قدیم ترین ہے مگر بحمد اللہ ان اعتراضات کا مدلل اور تشفی بخش جواب دینے والے محققین اور اسکالرس بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ جب سوامی دیانند جی نے آریہ مذہب کی ترویج واشاعت اور تشکیل و ترتیب کے لیے قدم بڑھایا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے افکار اور نظریہ کی صداقت و حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے دو اہم کام کیے۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسلام اور دیگر ادیان پر الزام واتہام لگائے۔ ان کی تعلیمات کو بے بنیاد بتایا، ان پر بے جا تنقیدیں کیں۔ اس کی وجہ جہاں اپنے مذہب سے عقیدت و انسیت تھی، وہیں اسلام یا دیگر مذاہب سے تعصب وعناد کی بو بھی نظر آ تی ہے۔ اگر ان کی کتاب ستھیارتھ پرکاش کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی علمی تنقیص اور تنگ نظری صاف نظر آتی ہے۔ انہوں نے دوسرا کام یہ کیا کہ اپنے نظریات کو ویدک دھرم سے براہ راست جوڑنے کا منصوبہ بنایا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے باقاعدہ اس بات کا اعلان اپنی تقریر وتحریر میں بھی کیا۔ اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ لٹریچر تیار کیا۔ عوام میں بڑے پیمانے پر اس کی اشاعت بھی کی۔ اس سے قبل راقم الحروف نے مولانا ثناءاللہ امرتسری کی کتاب ’’حق پرکاش‘‘ اور مفتی نعیم الدین مراد آبادی کی ’’احقاق حق‘‘ کا تعارف پیش کیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ یہ دونوں کتابیں سوامی دیانند جی کی معروف کتاب’’ستھیارتھ پرکاش‘‘ کے جواب میں تحریر کی گئی ہیں کیونکہ سوامی جی نے اپنی اس کتاب میں صرف اسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر ہی انگلی نہیں اٹھائی ہے، بلکہ دیگر تمام ادیان کو بھی مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ سوامی جی کے ان نظریات کا تعاقب کیا گیا اور اہل علم نے جواب دیا۔ دیانند جی نے اپنے افکار وخیالات کو وید کی اصل تعلیمات بتایا تو ان کے اس دعویٰ کی تردید کے لیے بھی ارباب بصیرت آگے آئے۔ چنانچہ سوامی جی کے اس نظریہ کا استقصاء کرنے کے لیے باقاعدہ ایک رسالہ پندرہ پیج کا ’’وید کا بھید‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا گیا۔ اس علمی اور تحقیقی رسالہ کو مولانا عبد الصمد رحمانی استاد دارالعلوم مونگیر نے مولانا سید ابو الکریم محمد لطف اللہ رحمانی کانپوری المونگیری کے حکم وایما پر ضبطِ قلم کیا۔ اس رسالہ کو ہندوستانی پریس نظیر آباد لکھنؤ نے شائع کیا ہے۔ البتہ رسالہ پر سن اشاعت درج نہیں ہے، لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اسی دور کی بات ہے کہ جب سوامی جی کا نظریہ عروج پر تھا۔ مصنف نے رسالہ کے شروع میں قرآن کریم کی درج ذیل آیت ثبت کی ہے۔هاتوا برهانكم إن كنتم صادقین۔ اس سے مصنف کا مقصد واضح ہے۔ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر تمہارا دعویٰ سچا اور یقینی ہے تو دلیل و برھان پیش کرو۔ نیز انہوں نے سوامی جی کے دعویٰ کی صراحتاً تحدی کی ہے اور ان کے افکار کا الزامی جواب دیا ہے۔ قارئین کو بتا دیں کہ یہ رسالہ راقم نے scribd.com سے حاصل کیا ہے۔ البتہ اس وقت یہ کس کتب خانے میں موجود ہے اس کا علم نہ ہو سکا۔ تلاش بسیار کے بعد بھی دستیاب نہ ہوا۔ اس لیے جو حضرات اس کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ درج بالا لنک سے اخذ کر کے اپنی علمی تشنگی بجھا سکتے ہیں۔
سبب تالیف
مولانا عبد الصمد رحمانی نے زیر تبصرہ رسالہ کا سبب تصنیف یہ لکھا ہے کہ ’’اس کے مخاطب محض آریہ سماجی ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اصل تعلیم وہی ہے جو دیانند جی کی تعلیم ہے۔ لہذا اس رسالہ میں آریہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے وہ دیانند جی کی کتاب ستھیارتھ پرکاش کے حوالے سے لکھا گیا ہے اور آریہ سماج کی ایسی دس تعلیم بطور نمونہ کے پیش کی گئی ہے۔ جن کو پڑھ کر ہر شخص یہ فیصلہ کریگا کہ آریہ سماجی دھرم (آریہ سماجی نظریات) بالکل باطل اور ناپاک تعلیمات کا مجموعہ ہے۔ وہ ہر گز ایشوری دھرم نہیں ہوسکتا ہے‘‘ ایک جگہ مولانا عبد الصمد رحمانی سوامی جی کے افکار پر تنقید کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ میں اپنے مطالعہ کی بناء پر جس نتیجہ تک پہنچا ہوں وہ مختصر لفظوں میں یہ ہے کہ دیانندی الہامی اور خداوندی مذہب ہونا تو بہت بڑی بات ہے ایسی لچر اور گھناؤنی تعلیم کسی دانشمند اور شریف النفس باحیا انسان کی طرف بھی منسوب نہیں کی جاسکتی۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ ایک مہذب انسان ان حیا سوز تعلیم کو حوالہ قلم بھی نہیں کرسکتا ہے۔ مگر حیرت اور ہزار حیرت سماجی فاضلوں پر ہے کہ ان کی طبیعت اور ان کے قلوب حیا سوز تعلیم میں کچھ اس طرح مسخ ہوگئے ہیں کہ دیانندی مت کی فضیلت اور خوبی نہایت بیباکی سے ان حیا سوز مخرب اخلاق تعلیمات کو تقریروں میں بیان کرتے ہیں اور کتابوں میں فطرتی عمل لکھتے ہوئے اس کے روکنے کو گناہ اور پاپ بتاتے ہیں۔‘‘
ضمناً یہ بتادینا ضروری ہے کہ زیادہ تر علمائے اسلام نے آریہ سماجیوں سے مناظرے کیے ہیں اور ان کے الزامات کا استقصاء کیا ہے اور ان کے اعتراضات کا جواب دینے کی کامیاب سعی کی ہے۔ گویا ہمارا تنازع آریہ سماجیوں سے تھا کیونکہ انہوں نے ہی ویدک دھرم کو بھی اپنے عقائد ونظریات کی چادر اوڑھانے کی کوشش کی۔ ذیل میں سوامی جی کی ان تعلیمات کو قلمبند کیا جائے گا جن کو سوامی جی نے اپنی کتاب ستھیارتھ پرکاش میں ذکر کیا ہے۔
سوامی جی کا پہلا نظریہ
مولانا عبد الصمد رحمانی اپنی کتاب ’’وید کا بھید‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سوامی جی نے ستھیارتھ پرکاش کے تیسرے باب صفحہ 56 میں لکھا ہے ’’جو وید کو نہ پڑھ کر دیگر کوشش میں رہتا ہے وہ مع اپنے بیٹے اور پوتوں کے جلدی شودر ہوجاتا ہے‘‘۔ اس کا جواب دیتے ہوئے فاضل مصنف نے لکھا ہے۔ ’’سبحان اللہ کیا صداقت بھری تعلیم ہے۔ گناہ دادا کرے اور شودر پوتا ہو۔ کیا کوئی ذی علم غیر متعصب آریہ اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرے گا کہ ایسی تعلیم سچی ہوسکتی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ باپ وید نہیں پڑھتا ہے بدکار ہے پاپی ہے شودر ہے یا اور جو کچھ الفاظ چاہیں ہمارے دوست اس شخص کے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔ مگر عقل اس کو کیونکر جائز رکھ سکتی ہے کہ باپ کے وید نہیں پڑھنے سے اس کا بیٹا جو ہر طرح سے لائق ،نہایت دھارمک اور دن رات وید پر عمل کرنے والا اور اس کے فرمان کو بجا لانے والا کس طرح شودر ہوسکتا ہے؟ اور باپ کے اس فعل کی سزا میں بیٹے اور پوتے کا شودر ہوجانا کہاں تک قرین انصاف ہے‘‘ اس اقتباس سے پتہ چلا کہ مولانا موصوف نے ان کے متذکرہ بالا تعلیم و نظریہ کو عقل کی بنیاد پر پرکھا ہے۔ ظاہر ہے کسی بھی گناہ کا قصور وار اس کی نسلوں کو نہیں گردانا جاسکتا ہے۔ جس نے گناہ کیا ہے وہی سزا کا بھی مستحق ہوگا نہ کہ دادا کے کسی بھی جرم کا مرتکب اس کے بیٹے کو یا پوتے کو قرار دے دیا جائے گا؟ یہ سراسر انصاف اور عقل کے منافی ہے۔
سوامی جی کا دوسرا نظریہ
سوامی جی نے ستھیارتھ پرکاش کے چھٹے باب کے صفحہ 195 پر میدان جنگ کے حوالے سے ثبت کرتے ہیں ’’مفرور یعنی ڈر کر بھاگا ہوا غلام جو دشمنوں کے ہاتھ سے مارا جاتا ہے اس کو اپنے آقا کے گناہ لگ جاتے ہیں اور وہ سزا یاب ہے۔ نیز اس کی وہ عزت جس سے لوک پر لوک میں سکھ ہونے والا تھا اس کا آقا لے لیتا ہے‘‘
سوامی جی کا تیسرا نظریہ
دیانند جی ستھیارتھ پرکاش کے چھٹے باب کے صفحہ 223 میں رقم طراز ہیں ’’جو دھرم کو چھوڑ کر ادھرم میں پھنسا ہو اور دوسرے کو بلا جرم مارنے والا ہے ان کو بلا تامل مار ڈالنا چاہئے۔ یعنی پہلے مار کر بعد میں سوچ کرنی چاہیے‘‘۔ فاضل مصنف نے اپنے رسالہ میں اس طرح کے دس نظریات کو گنوایا ہے۔ بقیہ کو مضمون کی طوالت کے باعث ترک کیا جا رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہےکہ راقم الحروف کے سامنے جو نسخہ ہے وہ انتہائی غیر شفاف ہے سمجھ سے بالا تر ہے۔
اس رسالہ میں قابل غور بات یہ ہے کہ مولانا عبد الصمد رحمانی نے جہاں بھی آریہ سماجیوں یا سوامی جی کے نظریات پر اشکالات کیے ہیں انہوں نے انتہائی مہذب اور سنجیدہ الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔ یہی اہل علم اور صاحب بصیرت کی علامت ہے۔ مثلاً وہ جب دیانند جی سے مخاطب ہوتے ہیں تو ’’دیانند جی، سوامی جی یا دیانندی مت‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور جب وہ متبعین آریہ سماجیوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو بھی شائستگی اور تہذیب کا دامن نہیں چھوڑتے ہیں۔ مثلاً وہ ’’سماجی فاصلوں‘‘ یا ’’سماجی دوستوں‘‘ جیسے آداب و القاب کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
جہاں تک ممکن ہو سکا میں اس رسالہ کا مطالعہ کر کے (سوائے ان مقامات کے جو پرنٹ کے غیر واضح ہونے کی وجہ سے سمجھ میں نہ آ سکے) اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مولانا عبد الصمد رحمانی کی یہ کاوش و سعی انتہائی مفید اور علمی ہے۔ موازنہ ادیان پر کام کرنے محققین و باحثین کے لیے یہ بیش بہا تحفہ ہے۔ اس رسالہ کی اہمیت وافادیت اس معنی میں اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ انہوں نے سوامی جی کے لچر اور بے بنیاد نظریات کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ آخری اور اہم بات یہ بھی گوش گزار کردوں کہ اختلاف دین ومذہب اور فکر و نظر کے باوجود، توازن و اعتدال کا خیال رکھنا اور ذاتیات کو نشانہ نہ بنانا بڑی بات ہے۔ در اصل یہ ہمارے تکثیری سماج کی تہذیبی اقدار ہیں جن کو ہمارے اکابر و اسلاف نے نہ صرف تابندہ کیا ہے بلکہ ان کو عملی جامہ پہنا کر حیات جاوداں سے سرفراز کیا ہے۔ موازنہ ادیان پر مسلم علماء کی خدمات کا تعارف راقم ہفت روزہ دعوت کے حوالے سے آ پ تک پہنچا رہا ہے۔ اس کاوش کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہندوستان ایک تکثیری اور تعدد پسند نظریات کا علمبردار ہے۔ مگر وطن عزیز کے موجودہ حالات تشویشناک حد تک خراب ہو گئے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی سماجی ہم آہنگی اور بقائے باہم کو برقرار رکھا جائے نیز، اسے مزید فروغ بھی دیا جائے۔ اس کے لیے موازنہ ادیان یا تقابل ادیان وہ مرکز و محور ہے جس کے توسل سے دونوں اقوام کے مابین اتحاد و یکجہتی اور ہم آہنگی کی جدید روایات جنم لیں گی۔ بہت ممکن ہے کہ موازنہ ادیان پر راقم کی یہ کوشش نہ صرف ہمارے لیے خوشحالی اور امن و سلامتی کا باعث ہوگی بلکہ ہمارے ملک کے لیے بھی بےحد اہم ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی و تہذیبی قدرں کو اجاگر کرے گی۔ آج جو دونوں قوموں کے مابین منافرت پھیلائی جا رہی ہے اس کے سدّ باب میں تقابل ادیان، موازنہ ادیان اور مطالعہ ادیان کا یہ پہلو ضرور برگ و بار لائے گا اور ہم ایک بار پھر اپنے وطن کی گود میں یکجائی، مرکزیت اور پیار و محبت کے ساتھ کھیلیں گے۔
[email protected]

اختلاف دین ومذہب اور فکر و نظر کے باوجود، توازن و اعتدال کا خیال رکھنا اور ذاتیات کو نشانہ نہ بنانا بڑی بات ہے۔ در اصل یہ ہمارے تکثیری سماج کی تہذیبی اقدار ہیں جن کو ہمارے اکابر و اسلاف نے نہ صرف تابندہ کیا ہے بلکہ ان کو عملی جامہ پہنا کر حیات جاوداں سے سرفراز کیا ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020