مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری کی کتاب ’’حق پرکاش‘‘ کی عصری افادیت

اردو ادب میں تقابل ادیان کا فروغ قومی یکجہتی کی علامت (قسط 8)

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ

 

انیسویں اور بیسویں صدی کا عہد ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بڑا صبر آزما تھا۔ مسلمان انگریزی حکومت کے جبر واستبداد کا شکار تھے۔ انگریزی استعمار کا فتنہ زوروں پر تھا۔ پورے ملک میں عیسائی مشنریاں سرگرم تھیں۔ ہندوؤں میں ایک نیا فرقہ آریہ سماج وجود میں آچکا تھا جس کے بانی پنڈت دیانند سرسوتی اور ان کے ہم نواؤں کا قلم اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ایسا زہر اگل رہا تھا جس سے مسلمانوں میں ارتداد کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ اور ’’رنگیلا رسول‘‘ جیسی دل آزار کتابیں اسی دور کی یاد گار ہیں۔ ان صبر آزما حالات میں ہندوستان کے معروف علماء کرام نے تمام داخلی وخارجی محاذ پر اپنے مسلسل مناظروں، تحریروں اور تقریروں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا جس کامیابی سے دفاع کیا وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ چنانچہ انیسویں صدی میں ہندوؤں میں دو بڑی اصلاحی تحریکوں نے جنم لیا۔ یہ برہمو سماج اور آریہ سماج تھیں۔ برہمو سماج تنظیم میں مذہبی کٹرپن نہیں تھا۔ دوسری قوم پرست اور مذہبی طور پر سخت متعصب تحریک آریہ سماج تھی، جسے پنڈت دیانند سرسوتی (1883-1824) نے 7 اپریل 1875ء کو بمبئی میں قائم کیا تھا۔ اس نے 1875ء میں ستھیارتھ پرکاش (سچائی کی روشنی) کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب میں اسلام، عیسائیت، سکھ ازم، بدھ مت وغیرہ تمام مذاہب پر دل آزار حملے کئے گئے تھے۔ ستھیارتھ پرکاش کے جواب میں مسلم علماء نے کئی کتابیں لکھیں ان میں ایک کتاب مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری کی’’حق پرکاش بجواب ستھیارتھ پرکاش‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1900ء میں شائع ہوا اور اس کا پانچواں ایڈیشن 1924 میں شائع ہوا۔ کتاب کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے چھٹا ایڈیشن ایک صدی بعد 2001 عیسوی میں موٹر وے پرنٹر لاہور سے شائع ہوا ہے۔ یہ کتاب 270 صفحات پر مشتمل ہے چھٹے ایڈیشن میں ناشر نے ایک نوٹ لکھا ہے جس سے کتاب کی اہمیت وافادیت واضح ہوتی ہے۔
’’ زیر نظر کتاب ’’حق پرکاش‘‘ کا شمار حضرت مولانا ثناءاللہ امرتسری کی شاہکار کتابوں میں ہوتا ہے۔ مناظرانہ اسلوب کی نوع میں لکھی گئی تحریروں میں مولانا موصوف کا قلم مذکورہ کتاب میں درجہ امامت پر نظر آ تا ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مناظرہ کے غیر معمولی شغف کی فطری صلاحیت سے نوازا تھا‘‘ اس اقتباس سے کتاب کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کے شروع میں سخنے چند کے نام سے جو تحریر ہے وہ خود مصنف علامہ کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے
’’برصغیر پاک وہند مختلف مذاہب کی کثرت کے باعث بھی معروف ہے۔ اسلام کی آمد سے قبل اور اس کے مابعد اس سر زمین میں بہت سے مذاہبِ پیدا ہوئے۔ ان میں سے ایک مذہب کو ’’آریہ سماج‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے بانی سوامی دیانند سرسوتی ہیں جنہوں نے اپنے مذاہب کی ایک کتاب ناگری زبان میں’’ستھیارتھ پرکاش‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب کے مضامین اور اسلوب نے دل آزاری اور نفرت کا سامان پیدا کیا ہے۔‘‘ سوامی جی نے اپنی کتاب ستھیارتھ پرکاش کے چودہویں باب میں اسلام، قرآن اور مذہبی شخصیات پر انتہائی رکیک حملے کئے ان تمام اعتراضات کا علمی، فکری اور تحقیقی جواب اس کتاب کے اندر دیا گیا ہے۔ کتاب کے چھٹے ایڈیشن میں جو دیباچہ پروفیسر عبد الجبار صاحب نے تحریر کیا ہے وہ انتہائی اہم اور مفید معلومات پر مشتمل ہے۔ یہاں اس بات کو بھی سمجھنا لازمی ہے کہ سوامی جی نے اسلام پر تقریبا 159 اعتراضات کئے ہیں۔ سوامی جی نے اپنی کتاب میں جو طرز اختیار کیا ہے وہ یہ کہ پہلے قرآن شریف کا لفظی ترجمہ نقل کرتے ہیں پھر اپنا نام محقق لکھ کر اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس لیے مولانا نے اپنی کتاب میں یہ طرز اختیار کیا ہے کہ پہلے سوامی جی کا اعتراض نقل کرتے ہیں پھر اپنے جواب کے ابتدا میں مدقق کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ محقق سے مراد سوامی جی اور مدقق سے مراد مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری کا جواب ہے۔ طبع اول پر اس کتاب کا جواب بھی آیا۔ چنانچہ سوامی درشنا نند نے یہ جوکھم اٹھایا اور انہوں نے اپنے رسالہ ماہوار ’’مباحثہ‘‘ میں ایک دو شمارے میں جواب دیئے مگر پھر وہ خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ دوسرا جواب ’’رسالہ آریہ مسافر‘‘ میں دیا گیا ہے۔ اس رسالہ کا جواب انہی دنوں میں رسالہ’’ انوار الاسلام‘‘ میں دیا گیا تھا یہ شمارہ سیالکوٹ سے شائع ہوتا تھا۔ اب ذیل میں سوامی جی کے اعتراضات اور مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری کے جوابات ملاحظہ کیجئے۔
سوامی جی نے پہلا اعتراض تسمیہ پر کیا ہے۔ انہوں نے تسمیہ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔ ’’شروع ساتھ نام اللہ بخشش کرنے والے مہربان کے ‘‘اس پر سوامی جی کا اعتراض یہ ہیکہ ’’مسلمان لوگ ایسا کہتے ہیں کہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے لیکن اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بنانے والا کوئی دوسرا ہے۔ کیونکہ اگر خدا کا بنایا ہوا ہوتا تو ’’شروع نام اللہ کے‘‘ ایسا نہ کہتا بلکہ’’ شروع واسطے ہدایت انسانوں کے‘‘ ایسا کہتا اگر انسانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ تم کہو تو بھی درست نہیں کیونکہ اس سے گناہ کا شروع ہونا بھی خدا کے نام سے صادق آئے گا اور اس کا نام بھی بدنام ہو جائے گا۔ اگر وہ بخشش اور رحم کرنے والا ہے تو اس نے اپنی مخلوق میں انسانوں کے آرام کے واسطے دوسرے جانداروں کو مار کر سخت ایذا دے کر اور ذبح کرواکر گوشت کھانے کی (انسان کو) اجازت کیوں دی کیا وہ ذی روح بے گناہ اور اللہ کے بنائے ہوئے نہیں ہیں؟ اور یہ بھی کہنا تھا کہ ’’خدا کے نام پر عمدہ باتوں کی شروعات ہوتی ہے خراب باتوں کی نہیں۔ یہ الفاظ مبہم ہیں۔ کیا چوری، زنا کاری، دروغ گوئی ادھرم کا آغاز بھی خدا کے نام پر کیا جائے گا؟ اس وجہ سے دیکھ لو جانور کو ذبح کرتے وقت تسمیہ کو پڑھا جاتا ہے۔ جب یہی اس کا مذکورہ بالا مطلب ہے، تب ہی تو برائیوں کا آغاز بھی مسلمان خدا کے نام پر کرتے ہیں۔ اور مسلمان کا خدا رحیم بھی ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس کا رحم ان حیوانات کے لیے نہیں ہے اور اگر مسلمان لوگ اس کا مطلب نہیں جانتے تو اس کلام کا نازل ہونا بے فائدہ ہے۔ اگر مسلمان اس کے معنی اور کرتے ہیں تو پھر اصل مطلب کیا ہے؟ ‘‘ مذکورہ اعتراض کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سوال کس قدر بے وزن اور لایعنی ہے۔ خیر ذیل میں مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے جو تحقیقی جواب دیا ہے اس کو ملاحظہ کیجئے۔ جواب طویل اور علمی انداز میں دیا گیا ہے۔ ذیل میں اس جواب کے ضروری گوشے ہی پیش کئے جائیں گے۔ مدقق : سوامی جی اگر رگوید منتر اول کا ملاحظہ کرلیتے تو یہ بے جا اعتراض منھ پر نہ لاتے۔ رگوید کے پہلے منتر میں مذکور ہے۔
’’ہم لوگ اس اگنی کی تعریف کرتے ہیں جو کہ ہمارا پورا ہت کرنے والا یگیوں کو ہون کرنے والا۔ روشن موسموں کی تبدیلی کرنے والا، جملہ جواہرات کا پیدا کرنے والا ہے‘‘۔بتلاؤ اگر اگنی سے (بقول آپ لوگوں کے) خدا مراد ہے اور وید بھی خدا کا کلام ہے تو اس کلام کا قائل کون ہے؟ اس کے علاوہ یجروید باب اکیس منتر اٹھارہ اور رگوید باب ایک منتر پانچ کو بھی ملاحظہ کرلیجئے۔
’’الہامی کتابوں کا محاورہ اور طریق کلام کئی قسم کا ہوتا ہے۔ کبھی تو خدا خود متکلم کے صیغہ سے اداء مطلب فرماتا ہے اور کبھی غائب سے اور کبھی کوئی ایسا مطلب جو بطورِ دعاء یا التماس کے بندوں کو سکھانا منظور ہو اس کو بندوں کی زبان پر صیغہ متکلم جاری کرایا جاتا ہے۔سورہ فاتحہ بھی اخیر قسم سے ہے۔ جس پر سوامی جی نے بوجہ ناواقفیت کتب ربانی پر اعتراض کر ڈالا۔‘‘
مولانا نے آگے جواب تحریر کیا ہے کہ سوامی جی نے اپنی کتاب ستھیارتھ پرکاش کے باب چودہ میں یہ جملہ لکھا ’’جو مذہب دوسرے مذہبوں کو کہ جن کے لاکھوں کروڑوں آدمی معتقد ہوں جھوٹا بتلادے اور اپنے کو سچا ظاہر کرے۔ اس سے بڑھ کر جھوٹا مذہب اور کون ہوسکتا ہے‘‘ پس سوامی جی مہاراج اور ان کے چیلوں کے لیے اتنا ہی کافی کہ قرآن شریف کے ماننے والے بھی کروڑہا آدمی ہیں پھر جو تم اس کی تعلیم کو جھوٹا اور غلط کہو تو تم سے زیادہ ایسا کہنے والا کون ہے؟
اس نوعیت کے 159 اعتراضات سوامی جی نے قرآن مجید پر کئے ہیں مگر مولانا نے ان تمام اعتراضات کے جوابات انتہائی تسلی بخش طریقے سے دیے ہیں۔ مولانا موصوف کی یہ کتاب بھی مناظرانہ تمام اسلوب و آداب سے مزین ہے خاص طور پر جب بھی انہوں نے سوامی جی کا کوئی جملہ یا تذکرہ کیا ہے تو ان کا نام انتہائی احترام سے لیا ہے۔ مولانا کے جواب میں کہیں بھی تعصب اور تنگ نظری نظر نہیں آتی ہے۔ عموماً لوگ اپنے مذہب یا نظریہ کی تائید و حمایت کرتے وقت دوسرے نظریہ یا مذہب کے متبعین کے ساتھ احترام و توقیر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں مگر اس بغض سے مولانا کی مناظرانہ تحریریں مکمل طور پر محفوظ نظر آتی ہیں۔ آج نہ آریہ سماجیوں سے مناظرہ کا وقت ہے اور نہ اب اس کا چلن ہے اس کے باوجود اس طرح کی کتابوں کا مطالعہ تقابل ادیان پر کام کرنے والوں کے لیے ایک مثبت فکر اور سنجیدہ سوچ عطا کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ اس بات کا بھی بخوبی علم ہو جائے گا کہ سوامی جی اور ان کے ہمنواؤں کی اسلام کے متعلق سوچ وفکر کس حد تک متعصبانہ تھی۔ اس بناء پر یہ کتاب ہر دور میں کافی اہمیت کی حامل ہے۔اور تقابلِ ادیان پر کام کرنے والے مسلم اسکالرز کے لیے بیش قیمتی تحفہ ہے۔
***

سوامی جی نے قرآن مجید پر 159 اعتراضات کئے ہیں مگر مولانا نے ان تمام اعتراضات کے جوابات انتہائی تسلی بخش طریقے سے دیے ہیں۔ مولانا موصوف کی یہ کتاب بھی مناظرانہ تمام اسلوب و آداب سے مزین ہے۔ خاص طور پر جب بھی انہوں نے سوامی جی کا کوئی جملہ یا تذکرہ کیا ہے تو ان کا نام انتہائی احترام سے لیا ہے۔ مولانا کے جواب میں کہیں بھی تعصب اور تنگ نظری نظر نہیں آتی ہے۔