موجودہ حالات اورمسلمان

نفرت کی آندھی سے نمٹنے کا لائحہ عمل کیا ہو؟

ڈاکٹر ساجد عباسی ،حیدرآباد

جھوٹ کا پردہ فاش کرنے کے ساتھ ساتھ شہادت علی الناس کا فریضہ اداکریں
پچھلے دنوں تین خبریں ایک آندھی کی طرح مسلمانوں کے سامنے آئیں۔ ایک خبرہے اترپردیش میں خلافِ توقع بھاجپا کی اسمبلی الیکشن میں جیت، دوسری خبر کرناٹک ہائی کورٹ کا حجاب پر پابندی کے حق میں فیصلہ اور تیسری خبر ہے متنازعہ فلم کشمیر فائیلز کی وسیع پیمانے پر تشہیر۔ اس فلم کو ریلیز کرکے بھاجپا نے ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف ایک ہیجانی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔فلم کی ریلیز کے لیے جس وقت جا انتخاب کیا گیا اس سے گمان ہوتا ہے کہ شاید اتر پردیش کے انتخابات میں انتہائی غیر متوقع کامیابی پر اٹھنے والے سوالات کی طرف سے ذہنوں کو فوری طور پر ہٹانا پیش نظر رہا ہوگا۔ بھاجپا اس طرح کی چالبازیوں کو چلنے چلانے میں بہت بڑا تجربہ رکھتی ہے۔ شاید ایسی ہی چالبازیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی چالیں ایسی غضب کی ہیں کہ پہاڑ ہل جائیں: وَقَدْ مَكَرُواْ مَكْرَهُمْ وَعِندَ اللهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ
انہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں۔)سورۃ ابراھیم ۴۶۔(
جہاں تک حجاب کا مسئلہ ہے ہائی کورٹ کے فیصلے میں بہت سے نقائص ہیں اور بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ کے ججوں نے حکومت کے دباؤ کے زیر اثر یا خوشنودی کی خاطر ایسا فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ حجاب اسلام کا ضروری حصہ نہیں ہے جبکہ یہ کسی کورٹ کا کام ہی نہیں ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ اسلام کا کونسا حکم لازمی یعنی فرض ہے اور کونسا مستحب اور نفل۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں یونیفارم کی خوبیوں پر بحث کی گئی جبکہ مسلم طالبات کو سرے سے یونیفارم پہننے پر کوئی اعتراض ہی نہیں تھا۔مسلم طالبات کو توقع یہ تھی کہ ایسا فیصلہ آتا جس میں یونیفارم کے ساتھ حجاب کی گنجائش نکالی جاتی۔ قرآن سے ایک آیت کو لیکر اس فیصلے کے حق میں دلیل پیش کی گئی کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے)سورۃ البقرۃ۲۵۶(جبکہ مسلم طالبات کسی جبر کے تحت حجاب نہیں کررہی ہیں بلکہ حکمِ خداوندی کی پیروی میں کررہی ہیں۔ اسی آیت میں یہ مفہومِ بھی شامل ہے کہ کوئی فرد دینِ اسلام کے کسی حکم پر عمل کرنا چاہے تو اس کو جبر واکراہ کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا۔ مذہبی آزادی پر جبراً روک لگانا ایک طاغوتی کاوش ہے جس کو آج کل کی زبان میں فاشزم کہا جاتا ہے۔ دستورِ ہند کی مذہبی آزادی کے حوالے سے یا پھر ایک فرد کی آزادئ فکر وعمل کے حوالے سے یہ فیصلہ دستور کی دفعات کے خلاف ہے۔
جہاں تک کشمیر فائلز کی فلم کا معاملہ ہے یہ ایک جھوٹ کا پلندہ ہے۔ 1990 میں اس وقت کے گورنر جگموہن ملہوترا کے حکم پر راتوں رات وہاں کے ہندو پنڈتوں کو نکالا گیا اور اس لیے نکالا گیا کہ ایک بڑے آپریشن کے ذریعے کشمیرسے مجاہدین کا مکمل صفایا کرنے کا ارادہ پیش ِ نظر تھا ۔اس لیے یہ فکر دامن گیر تھی کہ کشمیری ہندو پنڈت اس آپریشن کی زد میں نہ آئیں۔صدیوں سے مسلمانوں اور ہند و پنڈتوں کے درمیان خیر سگالی کی فضا قائم تھی۔ اس انخلا میں ہندو پنڈتوں سے کہیں زیادہ کشمیری مسلمان مارے گئے۔ اس آپریشن کے دوران صرف 89 ہندو پنڈتوں کی ہلاکت ہوئی جس کو فلم میں ہندو قتلِ عام genocide کی طرح پیش کیا گیا جس سے ناظرین کے اندر مسلم دشمنی کے شدید جذبات پیدا کرنا مقصود ہے۔فلم دیکھنے کے بعد فلم بینوں کے اندر کشمیری مسلمانوں کے ساتھ سارے بھارت کے مسلمانوں کے خلاف بھی نفرت کے جذبات بہت بڑے پیمانے پر پیدا ہورہے ہیں۔ بھاجپا اسی کوشش میں رہتی ہے کہ اصل موضوعات سے لوگوں کی نظریں ہٹی رہیں اور ہر وقت مسلم دشمنی کے جذبات ہندو قوم کے اتحاد کے لیےایندھن فراہم کرتے رہیں۔
جہاں تک اتر پردیش کے انتخابات کا معاملہ ہے نتائج زمینی حقائق سے یکسر مختلف رہے اور بھاجپا چاہتی ہے کہ لوگوں کی توجہ EVM کی دھاندلی کی طرف مبذول نہ ہوجائے۔
بھاجپا کی شرانگیزی صرف اقتدار کے حصول تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ چاہتی ہے مسلمانوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا رہے اور بالآخر انکا ایک زندہ قوم کی حیثیت سے بھارت میں زندہ رہنا دشوار ہو جائے۔دھرم سنسدوں میں کھلم کھلا قتلِ عام Genocide کی دھمکی دی جاتی ہے اور ان دھمکی دینے والوں سے کوئی بازپرس نہیں کی جاتی۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں مسلمانوں کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟ حل ڈھونڈنے سے قبل ہمیں وہ اسباب تلاش کرنے چاہئیں جن کی وجہ سے یہ حالاتِ بتدریج اس حد تک رونما ہونے ہیں۔ اکثر ہم ظاہری علامتوں ہی کو اصل مرض سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان کا علاج تجویز کرتے ہیں۔ ہر مرض کی ظاہری علامات بھی ہوتی ہیں اور باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز کسی انفیکشن کی ظاہری علامات کا علاج دردکش دواوں (painkillers) کے ذریعے بھی کرتے ہیں تاکہ فوری طور پر راحت ملے اور اصل مرض کا بھی علاج اینٹی بائیوٹکس کے ذریعے کرتے ہیں۔ کینسر جیسے خطرناک مرض کی صورت میں علاج ظاہری علامات کا نہیں بلکہ اصل مرض کا فوری طور پر علاج شروع کیا جاتا ہے چاہے علاج کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔ اس وقت ملک مسلم دشمنی کی آڑ میں تباہی کی سمت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اور اس تباہی کےمتاثرین کی پہلی صف میں مسلمان ہیں جو سب سے پہلے خمیازہ بھگت رہے ہیں اورایسا لگتا ہےکہ مزید شدت کے ساتھ مسلمانوں کے لیے حالات تنگ ہوتے جائیں گے۔
اس وقت مسلمانوں پر مسلسل یلغار بھاجپا کی ایک حقیقی مجبوری بن چکی ہے۔ اس کے بغیر نہ ہی وہ ہندؤوں کو متحد رکھ سکتی ہے اور نہ ہی وہ اقتدار میں رہ سکتی ہے۔ کیا یہ حالات اتفاقی حادثہ ہیں یا یہ ایک مسلمانوں کی ایک سنگین غفلت کا منطقی نتیجہ ہے؟ قرآن کا مطالعہ صریح نشاندہی کرکے مسلمانوں کے ایک سنگین جرم کی طرف اشارہ کرکے بتلاتا ہے کہ یہ حالات مسلمانانِ ہند کے کتمانِ حق کے جرم کی وجہ سے ہیں ۔بھارت کے مسلمانوں کی طرف سے صدیوں سے جس جرم کا ارتکاب ہورہا ہےاس کی طرف قرآن امتِ مسلمہ کو اس طرح متوجہ کرتا ہے:
جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں درآں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں ، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہےاور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔(سورۃ البقرۃ ۱۵۹)
لعنت کی ایک شکل یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک قوم شدید نفرت رکھے۔دوسری شکل یہ ہے کہ ایسی نفرت کرنے والی قوم کو اللہ ان پر مسلط کرے۔اور ایک شکل یہ ہےکہ ان کو ناکردہ قصوروں کی سزا دی جائےجیسے ماضی میں مسلم بادشاہوں کے ظلم کے جھوٹ کو باربار دہراکر مسلمانوں کی آج کی نسل کو نشانہ بنایا جائے۔لعنت کی ایک شکل یہ بھی ہےکہ مسلمانوں کو تمام مسائل کی جڑ بتلایا جائے۔
اس مصیبت اور لعنت زدگی سے نکلنے کا راستہ اگلی آیت میں پیش کیا گیا ہے۔
’’البتہ جو اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے اسے بیان کرنے لگیں ، ان کو میں معا ف کر دوں گا اور میں بڑا در گزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں‘‘۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان حالات میں کرنے کا اصل کام بتلایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم عزم کریں کہ جس سچائی کو ہم اپنے ہموطنوں سے چھپارہے تھے اس کو بیان کرنے لگیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کے لیے تسکین و راحت کاسامان ہے۔ابھی بھی امتِ مسلمہ کا ایک قابلِ لحاظ حصہ اگر دعوت الی اللہ ، شھادت علی الناس اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو انجام دینے کا سچا ارادہ کرلے تو اللہ اپنی رحمتوں کے ساتھ مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوگا ۔ لیکن اگر ہم غفلتوں کا شکار رہیں گےاور اپنے رویہ کو نہیں بدلیں گے تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہمارے حالات بدلے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:إِنَّ اللهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔(سورۃ رعد ۱۱۔ )
اگر اللہ تعالی ٰ مسلمانانِ ہند کی مدد کا ارادہ فرمائے تو اللہ تعالیٰ کے پاس لامتناہی طریقےہیں جن سے وہ ہمارے دشمنوں کی چالوں کو ناکام بناسکتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہےکہ ہم جمود کے رویّہ کو بدل کر داعیانہ رول ادا کرنے کا ارادہ کریں ۔
لائحہ عمل کے ضمن میں ہمیں کچھ کام کرنے ہیں جو فوری طور پر مطلوب ہیں اور کچھ ایسے کام ہیں جن کو بڑے پیمانےپر منصوبہ بند طریقے پر مداومت کے ساتھ انجام دینا ہے۔
فوری طور پر ہمیں جو کام کرنے ہیں وہ یہ ہیں :
۱۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سے جھوٹے پروپیگنڈہ کا جواب دینا ہوگا اور حقائق کو ثبوتوں کے ساتھ پیش کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس میدان میں اکیلا نہیں چھوڑا ہے بلکہ سیکولر اور انصاف پسند جرنلسٹس ہم سے زیادہ کام کررہے ہیں۔ چاہے یہ جھوٹ مسلمانوں کے ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے متعلق، ان تمام جھوٹی باتوں کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارا سکوت ہمارے لیے ایک بڑی آفت کا پیش خیمہ بن چکا ہے۔ رام پنیانی صاحب جن کی بھارت کی تاریخ پر گہری نظر ہے انہوں نے دورِ مغلیہ کے بادشاہوں سے متعلق ظلم و ستم کی جھوٹی کہانیوں کابڑی حد تک رد کیا ہے۔ مسلمانوں کی مستقبل میں تیزی سے بڑھنے والی آبادی کے جھوٹے پروپیگنڈہ کو بھی اعداد و شمار کے ذریعے سے غلط ثابت کرنا ہوگا۔
۲۔ اسلام ، اسلامی شریعت اور مسلمانوں سے متعلق جتنی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں انہیں وسیع پیمانے پر ایک IT Cell کے ذریعے دور کرنی چاہیے۔ جھوٹ کا مقابلہ سچائی سے نہیں کیا گیا تو جھوٹ کی سونامی بھارت کے مسلمانوں کو خس و خاشاک کی طرح تباہی کا شکار کردے گی ۔ایک ایک ناقابلِ تردید سچائی جھوٹ کی بڑی بڑی عمارتوں کو ڈھانے کے لیے کافی ہوگی ۔شرط یہ ہے کہ ہم جھوٹ اور باطل کے مقابلے میں سچاِئی کو زبان و قلم کے ذریعے پیش کریں ۔
۳۔مسلمان خلوت پسندی (introvert ہونے)کو چھوڑ کر اپنی شخصیت کو لوگوں پر آشکارکریں (extrovert بنیں) تاکہ اسلامی مزاج اور اسلامی اخلاق غیرمسلموں کےسامنے کھلی کتاب کی طرح ظاہر ہوں اور اسی سے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا۔فسطائی طاقتوں کے جھوٹے پروپیگنڈہ کے ابطال کا بہترین طریقہ یہ ہےکہ مسلمانوں کا بہترین اخلاق و کردار ،ان کی چہرے کی مسکراہٹ ،ان کا انسانیت نواز رویّہ اور بہترین سلوک غیرمسلموں کے دلوں میں پیدا کئے گئے زہر کا تریاق بنے۔اس حکمتِ عملی کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا ہے:
’’اور اے نبی، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں ۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔‘‘(سورۃ حم السجدہ ۳۴۔)
۴۔ ہندتوا کے جھوٹ کا فوری طور پر مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کی تربیت کی جائے۔ بھاجپا کی سیاسی عمارت جھوٹ، دھوکہ دہی اور نفرت کے ستونوں پر کھڑی ہے اور اس کے انہدام کا فارمولا یہی ہے کہ ہم فرد اور اجتماعی سطح پر اپنے ہموطنوں سے proactively اور کھلے دل سے گفتگو کریں۔ ان سے براہ راست پوچھیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور پھران کی ایک ایک غلط فہمی کو دور کریں۔مثال کے طور پر کشمیر فائیلز کی فلم کی حقیقت کو ان کے سامنے پیش کریں کہ اس سانحہ کی حقیقت یہ ہےکہ اس وقت کے گورنر کی ایماپر ہندو پنڈتوں کاانخلاء ہوا ہےنہ کہ کشمیری مسلمانوں کی طرف سے ۔مسلمان بادشاہوں کے ظلم سے متعلق ان سے یہ پوچھیں کہ کیا کسی ہندو مورخ،مصنف یا شاعر کی کسی تحریر میں اس کا کوئی ادنیٰ ثبوت ملتا ہےکہ مسلمان بادشاہوں نے ہندو عوام پر ظلم و ستم کیا ہو اور زبردستی مسلمان بنایا ہو ۔ یہ تو انگریزوں کا پھیلایا ہوا جھوٹ ہے جو انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کو توڑنے کے لیے پھیلایا تھا جب ہندو مسلم مل کر آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔حجاب کے بارے میں ہم اپنے ہم وطنوں کو بتلائیں کہ یہ لباس کا بظاہر ایک زائد حصہ ہے لیکن اس سے بے شمار معاشرتی مسائل حل ہوتے ہیں۔معاشرہ میں قتل کے واقعات کا سب سے بڑا محرک ناجائز تعلقات ہیں جو بے پردگی سےپیدا ہوتے ہیں۔ اسلام خالق کائنات کا وضع کردہ دین ہے جس میں چھوٹی چھوٹی تدبیروں کے ذریعے سے بڑے بڑے مسائل کو حل کیا گیا ہے۔
اور جو کام مسلسل اور استقامت سے کرنے کا ہے وہ امتِ مسلمہ کے مقصدِ وجود سے متعلق ہے۔وہ یہ ہے کہ مسلمان دین حق کو اپنے ہم وطنوں کے سامنے پیش کریں۔اور اس جذبہ سے پیش کریں کہ وہ آخرت میں جہنم کے عذاب سے بچیں جس طرح ہم خود بچنا چاہتے ہیں۔یہ کام ہمیں ہر وقت کرنا ہے چاہے حالات اچھے ہوں یا ناسازگار۔یہ کام ایک جماعت یا ایک تحریک کے کرنے کا نہیں ہے بلکہ بڑے پیمانے پر پوری امتِ مسلمہ کے کرنے کا ہے۔ساتھ میں امتِ مسلمہ اپنے اعمال سے اور کردار سے اسلام کی شہادت دے نہ کہ غیر اسلام کی۔قرآن جیسی کتاب کے حامل ہوکر بھی اگر امت کا سواداعظم شرک کا نمونہ پیش کرے تو یہ اللہ کو انتہائی درجہ میں غضبناک کرنے والی صورتحال ہے۔
مسلمانوں کے پاس نہ کوئی قوت ہےنہ اقتدار ہے اور نہ ہی ان کے حق میں عدلیہ ہے۔مگر ان کے پاس ایک ایسا نسخہ ہے جس میں تمام انسانی مسائل کا حل ہے۔یہی مسلمانوں کی اصلی طاقت ہے ۔ان کے پاس قرآن کی صورت میں ان تمام سوالات کے جوابات ہیں جن کی دنیا متلاشی ہے ۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے قرآن میں یہ فرمایا گیا ہے:
’’لوگو، تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ؐ ، کہو کہ” یہ اللہ کا فضل اور اُس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اُس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘(سورۃ یونس۵۷،۵۸)۔
عام طور پر مسلمانوں پر یہ الزا م لگایا جاتا ہےکہ مسلمان ایک ایسی اقلیت ہے جو بھارت میں اکثریت کے لیے بوجھ ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس و ہ نسخۂ شفا ہے جس میں تمام انسانی مسائل کا حل ہے۔اسی نعمت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا جارہا ہےکہ اس نعمت پر مسلمانوں کو خوشی منانی چاہییے۔مسلمانوں کے پاس کچھ نہیں ہے مگرایک چیز ایسی ہے جو تمام دنیا و مافیہا سے بہتر ہےجس میں انسانوں کی دنیاوی اور اخروی فلاح مضمر ہے۔ہر مسلمان یہ یقین رکھے کہ اس کے پاس اپنے ملک کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔لہذا ہم داعیانہ تڑپ اور حکمت کے ساتھ داعی کا رول ادا کریں۔ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی ہم پر رحمتوں کے ساتھ متوجہ ہوگا اور ہمارے قدم بھارت جیسے ملک میں جمادے گا۔ارشادِ باری ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گااور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔‘‘( سورۃ محمد۷)۔
آج بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں فسطائی طاقتوں کی کوشش ہےکہ ان کو دیوار سےلگادیا جائےاور ان کو دوسرے یا تیسرے درجہ کا شہری بنادیا جائے۔لیکن اللہ تعالیٰ جو عزت و مُلک کا مالک ہے وہ ہمیں اطمینان دلاتا ہےکہ اگر ہم اس کے دین کے داعی بنیں گے تو وہ ہمیں اول درجےکا شہری بنا کر ہمارے قدم جمادے گا۔

 

***

 ابھی بھی امتِ مسلمہ کا ایک قابلِ لحاظ حصہ اگر دعوت الی اللہ ، شھادت علی الناس اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو انجام دینے کا سچا ارادہ کرلے تو اللہ اپنی رحمتوں کے ساتھ مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوگا ۔ لیکن اگر ہم غفلتوں کا شکار رہیں گےاور اپنے رویہ کو نہیں بدلیں گے تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہمارے حالات بدلے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022