ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی گرانی کا گرہن

غریبوں اور کمزوروں کے چہرے پر الجھن

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

تعلیم روزگار، بدعنوانی، عدم مساوات اور فرقہ پرستی ایسے بڑے بڑے مسائل ہیں جن کی وجہ سے ملک کا ہر شخص پریشان ہیں ایسے میں حد سے بڑھی ہوئی مہنگائی نے تمام ہی لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ وسائل کی تقسیم میں نا برابری نے سماج میں امیر و غریب کے درمیان بہت بڑی خلیج پیدا کر دی ہے۔ یہاں 30 فیصد سے زیادہ افراد خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں وہ اپنے پڑوسی ممالک سری لنکا نیپال اور بنگلہ دیش سے بھی نیچے ہے۔ ہمارا ملک بھکمری کے معاملے میں جنوبی افریقہ کے غریب ترین ریاستوں کے صف میں شامل ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی آسمان کو چھوتی قیمتیں ملک کے عام انسانوں کا جینا دو بھر کر رہی ہے مگر مرکز اور ریاستوں کے حکمرانوں کو پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی پر ڈیوٹی لگانے سے فرصت نہیں ہے۔ صرف فروری میں 3 بار گیس سلنڈر کے دام بڑھائے گئے ہیں۔ حکومت نے 4 فروری کو ایل پی جی کی قیمت میں 25 روپے کا اضافہ کیا تھا۔ اس کے بعد 15 فروری کو 50 روپے فی سلنڈر بڑھا اور اب یہ تیسری بار ہے جب پھر سے 25 روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اس طرح بغیر سبسیڈی والے 14.2 کلو گرام کے ایل پی جی سلنڈر کی قیمت دلی میں 769 روپے سے بڑھ کر 794 روپے ہوگئی ہے۔ ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ہر روز بڑھتی جا رہی ہیں کیونکہ عالمی بازار میں جنوری کے مقابلے فروری میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وسط جنوری میں خام تیل کی قیمت 56 ڈالر فی بیرل تھی۔ اب وہ 63 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔ موجودہ حالات میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ عالمی تیل کی منڈی میں قیمتوں میں کمی و بیشی کی کئی وجوہات ہیں۔ گزشتہ سال اکثر ممالک میں لاک ڈاون کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں بڑی کمی آئی تھی مگر کورونا وبا میں کمی اور ویکسین کے بازار میں آجانے سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی آ رہی ہے۔ اس طرح طلب میں اضافہ کے ساتھ قیمتوں کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں اوپیک کے دو اہم ممالک روس اور سعودی عرب کے درمیان خام تیل کی قیمتوں کے مسئلہ پر ترشی پیدا ہوگئی تھی لیکن اسے لاک ڈاون کی مدت میں ہی سلجھا لیا گیا۔ فی الوقت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمر توڑ اضافہ ہو رہا ہے۔ راجستھان کے گنگا نگر میں یہ قیمت 100.33 روپے ہو گئی ہے۔ میٹرو شہروں میں پٹرول کی قیمت سنچری پار کر جائے گی۔ گزشتہ سال اکتوبر میں خام تیل کی قیمت 40 ڈالر فی بیرل تھی جو 63 روپے فی بیرل بڑھ کر ہو گئی ہے جس سے اشیا کی قیمتیں بڑھیں اور حکومتوں نے ٹیکس میں بے انتہا اضافہ کر کے لوگوں کی مصیبتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ جب تک مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے مناسب طریقے سے بالواسطہ محصولات میں تخفیف نہیں ہوگی اس وقت تک مہنگائی میں کمی نہیں ہوگی۔ مختلف ریاستوں میں اس طرح کے بالواسطہ ٹیکسوں کی الگ الگ قیمتوں کی وجہ سے تیل کی خردہ قیمتیں بھی مختلف ہیں۔ مثلاً دلی میں انڈین آئیل کارپوریشن کے مطابق 16 فروری کو 89.29 روپے فی لیٹر تھی جس میں بنیادی قیمت 31.82 روپے، اکسائز ڈیوٹی 32 روپے ویلو ایڈیڈ ٹیکس20.61 جو تقریباً 60 فیصد ہوا (37فیصد اکسائز ڈیوٹی اور 2.3 فیصد ویاٹ) مرکز اور ریاستی حکومتوں کو اس ٹیکس کی شکل میں اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے۔ پٹرولیم پلاننگ اینڈ لائسینسنگ سل کے ڈاٹا کے مطابق محض مرکزی حکومت کے خزانہ میں 20-2019 میں 3.34 لاکھ کروڑ روپے جمع ہوئے اور ریاستوں کے خزانے میں 2.21 لاکھ کروڑ روپے۔ یہ صحیح ہے کہ حکومت کو ٹیکس سے آمدنی کی شدید ضرورت ہے۔ عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت مرکزی حکومت کے قابو سے باہر ہے۔ موجودہ حکومت نے جب 2014 میں حکومت سازی کی تھی تو مئی 2014 میں برینٹ خام تیل کی قیمت 108 ڈالر فی بیرل تھی اور کل ملا کر خردہ پمپ پر قیمت 71روپے فی لیٹر تھی جبکہ اس وقت اکسائز ڈیوٹی محض 10روپے فی لیٹر تھی۔ خام تیل کی قیمت تیزی سے کم ہو کر 65 ڈالر فی بیرل ہوگئی مگر اکسائز ڈیوٹی کی وجہ سے خردہ پمپ پر یہ قیمت 100 روپے فی لیٹر سے اوپر پہنچ چکی ہے۔ خام تیل میں قیمت کا خسارہ غذائی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ہوا تھا جس سے عام لوگوں کے اخراجات کا بوجھ ٹرانسپورٹ کی قیمت، زرعی پیداوار کی قیمت میں اضافہ ہونا فطری ہے۔ اس طرح خام تیل میں لوگوں کے اخراجات کا بوجھ، ٹرانسپورٹ کی قیمت، زرعی پیداوار کی قیمت میں اضافہ ہونا فطری ہے۔ اس طرح خام تیل میں اضافہ اور بالواسطہ ٹیکس کی مار عام لوگوں پر بہت سخت اور تیز ہو گئی۔ اب دیکھنا ہے کہ سیاسی اعتبار سے اس بڑے مسئلہ کا حل کیسے نکالا جا سکتا ہے۔ یو پی اے میں بھی پٹرول کی قیمتیں بڑھی تھیں مگر اِس وقت ٹیکس کا دباو کچھ زیادہ ہی ہے۔ ابھی مرکز اور ریاستوں میں تیل پر مزید ٹیکس بڑھانے میں کشمکش جاری ہے جو ہمارے ملک کی بڑی بد قسمتی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کا بوجھ امیر غریب اور حاشیے پر پڑے لوگوں کے ساتھ عام لوگوں پر بھی ہوگا۔ یہ ملک کے شہریوں کے بجٹ کو بگاڑ کر رکھ دے گا۔
حکومتوں کے پاس بھی آمدنی کا متبادل محدود ہے۔ لہٰذا تیل کی قیمتوں میں کمی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اناج، سبزیوں، پھلوں اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتیں بڑھنے پر لوگوں کا یومیہ خرچ بھی بڑھے گا۔ اس سے عوام کو آزاد کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں بے تحاشہ لگائے گئے ٹیکسوں کے بندھن سے آزاد کریں اور اکسائز ڈیوٹی کے بجائے دوسرے ذرائع آمدنی پیدا کریں۔ فائنانس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق فی الوقت جی ایس ٹی سے جی ڈی پی کا 2 فیصد حاصل ہوتا ہے۔ اگر خام تیل کی قیمت میں مزید اچھال آتا ہے تو مزید پٹرول اور ڈیزل سے ٹیکس کی وصولی سے خطرناک نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس لیے دوسرا متبادل تلاش کرنا چاہیے۔
آر بی آئی کے گورنر شکتی کانت داس نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر زور دے کر کہا ہے کہ وہ پٹرول اور ڈیزل پر بالواسطہ ٹیکس میں تخفیف کریں۔ اگر حکومتیں اس مشورہ پر عمل کریں تو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کافی کمی ممکن ہے۔ واضح ہو کہ ملک بھر میں مسلسل پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے عام لوگوں پر شدید مالی بوجھ پڑ رہا ہے۔ ٹیکسوں میں تخفیف کے ذریعہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ نیپال کی سرحد سے متصل بھارتی علاقوں کے عوام سرحد پار نیپال سے پٹرول خرید رہے ہیں۔ اپنی گاڑیوں میں پٹرول بھروانے کے لیے پڑوسی ملک نیپال کی سرحد عبور کر رہے ہیں۔ یہ بھی خبر ہے کہ یہاں کے عوام بڑے پیمانے پر پٹرول کی اسمگلنگ بھی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ حالانکہ نیپال کو خام تیل بھارت ہی سے جاتا ہے دنیا کے تین بڑے خریدار ملکوں میں چین، امریکہ اور بھارت میں خام تیل کی کھپت میں اضافہ کی امید ہے۔ اوپیک کے اعداد و شمار کے مطابق امسال امریکہ میں تیل کی کھپت گزشتہ سال کے مقابلے میں 7.19 فیصد چین میں 8.45 فیصد اور بھارت میں 13.45 فیصد بڑھنے کا امکان ہے۔ دوسری طرف تیل پیدا کرنے والے ممالک (اوپیک) اپنی پیداوار میں تخفیف کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاکہ خام تیل کی قیمت اپنے حساب سے رکھ سکیں۔ ایک اندازہ کے مطابق مارچ کے اخیر تک سپلائی میں یومیہ 7.7 لاکھ بیرل تک کٹوتی کی جا سکتی ہے۔ خام تیل کی قیمت بڑھنے پر محض عام لوگوں کی جیب پر ہی نہیں سرکاری خزانے پر بھی مخالف اثر پڑ سکتا ہے۔ بھارت تیل کی تقریباً 85 فیصد ضرورتوں کے لیے درآمدات پر ہی انحصار کرتا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے آخری دور حکومت میں ڈومیسٹک آئل پروڈکشن 37.78 ملین تھا۔ جو 20-201 میں 15 فیصد کم ہو کر 32.17 ملین ٹن پر آگیا ہے۔ نتیجتاً درآمدات پر بھاری انحصار زیادہ ہی ہو گیا ہے کیونکہ جملہ باز وزیر اعظم کے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد تیل کے لیے ذرائع تلاش کرنے کے لیے او این جی کے پاس 11 ہزار کروڑ روپے کا بجٹ تھا۔ 19-2018 میں یہ بجٹ کم ہو کر 6 ہزار کروڑ روپے پر آگیا کیونکہ مودی حکومت نے نقد بھی اڑ الیا جس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ مگر وزیر اعظم تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا ٹھیکرا پچھلی حکومت پر پھوڑ رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی مان رہے ہیں کہ ڈومیسٹک پروڈکشن بڑھ جاتا تو آج یہ حالت نہیں ہوتی۔

وسط جنوری میں خام تیل کی قیمت 56 ڈالر فی بیرل تھی۔ اب وہ 63 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔ موجودہ حالات میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021