معیاری تعلیم کا حصول ہر بچے کا بنیادی حق

ملک کے 40 فیصد سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

پارلیمانی پینل برائے تعلیم کے مطابق ملک میں تقریباً نصف سرکاری اسکولوں میں بجلی یا کھیلنے کے لیے میدان موجود نہیں ہیں۔پینل نے بجٹ میں مالی اعانت اور اس کے استعمال دونوں میں کوتاہیوں کی نشان دہی کی ہے جس کے نتیجے میں اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی عدم موجودگی پائی جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں پیش کی گئی تعلیمی گرانٹ سال 2021-2020 کی اپنی رپورٹ میں پارلیمنٹری اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فروغ انسانی وسائل (ایچ آر ڈی) نے اس خدشے کا اظہار کیا۔ محکمہ اسکولی تعلیم نے جو تجاویز بجٹ میں مختص کرنے کے لیے پیش کی تھیں اس میں 27 فیصد کی تخفیف ہوئی ہے۔ محکمہ اسکولی تعلیم نے جملہ 82570 کروڑ روپے کی تجاویز پیش کی تھیں اس کے باوجود وزارت فروغ انسانی وسائل نے صرف 59845 کروڑ روپے مختص کیے۔ پینل نے کہا کہ حکومت، محکمہ اسکولی تعلیم کی سفارشات پر عمل درآمد کرے اور ساتھ ہی حکومت سے یہ بھی سفارش کی کہ مرکزی بجٹ اور مرکزی اسکیموں پر بھی نظر ثانی کرتے ہوئے تخمینے میں اضافہ کرے۔
پینل نے سرکاری اسکول میں بنیادی ضروریات کی عدم موجودگی پر ’’سخت مایوسی کا اظہار کیا‘‘ اور ساتھ ہی تازہ ترین اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف 56 فیصد اسکولوں میں بجلی کی سہولت موجود ہے۔ منی پور اور مدھیہ پردیش کے اسکولوں کی صورت حال انتہائی مایوس کن ہے جہاں 20 فیصد سے بھی کم اسکولوں میں بجلی کی سربراہی مہیا ہے۔یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم برائے تعلیم (یو ڈی ایس ای) 18-2017 کے سروے کے مطابق 57 فیصد سے بھی کم اسکولوں میں کھیلنے کے لیے میدان ہیں۔ ریاست ہائے اڈیشہ اور جموں و کشمیر میں 30 فیصد سے بھی کم اسکولوں میں کھیل کے میدان ہیں۔ ملک بھر میں 40 فیصد اسکول ایسے ہیں جن کی دیوارِ حد بندی یعنی باؤنڈری وال موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے طلباء اور اسکول کی املاک کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہے۔
پینل نے سفارش کی کہ وزارت فروغ انسانی وسائل، مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم (ایم جی این آر جی ایس) کے ساتھ تعاون لے کر اسکولوں کی حد بندی کے لیے باؤنڈری وال تعمیر کرے اور ساتھ ہی وزارت توانائی کے تعاون سے شمسی توانائی اور دیگر قابل تجدید توانائی کے ذریعے اسکولوں میں بجلی کی رسائی کو یقینی بنائے۔
پارلیمانی پینل نے سرکاری ہائیر سیکنڈری اسکولوں میں کلاس رومز، لیبز اور لائبریریوں کی تعمیر سے متعلق حکومتی رویے پر ’’مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے‘‘ سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ پینل نے کہا کہ سال 2020-2019 کے لیے منظور شدہ 2613 منصوبوں میں سے گزشتہ نو ماہ میں صرف تین منصوبوں کو تکمیل کیا جا سکا ہے جو انتہائی مایوس کن صورت حال ہے۔پینل نے انتباہ دیا کہ اگر یہی صورت حال رہی تو طلباء سرکاری اسکولوں سے اپنے آپ کو الگ کرلیں گے۔
سرکاری ہائر سیکنڈری اسکولوں میں 31 دسمبر 2019 تک ایک بھی اضافی کلاس روم تعمیر نہیں گیا حالانکہ مالی سال 2020-2019 کے لیے 1021 کلاس رومس بنانے کی منظوری دی گئی تھی۔1343 لیبز کے لیے فنڈز کی منظوری کے باوجود صرف تین لیباریٹریاں تعمیر کی گئیں۔ جس میں ایک طبیعیاتی ،ایک کیمیاتی اور ایک حیاتیاتی لیباریٹری شامل ہے۔جب کہ 135 لائیبریریاں اور 74 آرٹ / کرافٹ / کلچر کے کلاس روم کی تعمیر منظور ہوچکے ہیں مگر ان میں سے ایک بھی تعمیر نہیں کیا گیا۔
اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کی تکمیل میں تاخیر نہ صرف طلباء کو سرکاری اسکولوں سے دور کر دے گی بلکہ تاخیر کی وجہ سے تعمیری اخراجات میں بھی اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی ملک کے مالی وسائل پر بھی دباؤ بڑھ جائے گا۔ جب کہ ملک کی موجودہ معاشی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے۔
مذکورہ بالا رپورٹ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ حکومت پرفریب نعروں اور دلکش جملوں سے ملک کی ترقی کے وعدے اور دعوے تو بہت کر رہی ہے لیکن اس ترقی اور اسے آتم نربھر بنانے کے جو بنیادی تقاضے ہیں ان کو بری طرح نظر انداز کر رہی ہے۔ان باتوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حکومت تعلیم کے معاملے میں کس قدرغیر سنجیدہ ہے۔ ملک کے ہر بچے کو معیاری تعلیم فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے اور یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن حکومت کے اس بے حس رویہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تعلیم کی اس اہم ذمہ داری سے پہلو تہی کر رہی ہے اور اسے پوری طرح نجی ہاتھوں کے حوالے کرنے کے درپے ہے۔
***

سرکاری ہائر سیکنڈری اسکولوں میں 31دسمبر 2019 تک ایک بھی اضافی کلاس روم تعمیر نہیں گیا حالانکہ مالی سال 2020-2019 کے لیے 1021 کلاس رومس بنانے کی منظوری دی گئی تھی۔1343 لیبز کے لیے فنڈز کی منظوری کے باوجود صرف تین لیباریٹریاں تعمیر کی گئیں۔ جس میں ایک طبیعیاتی ،ایک کیمیاتی اور ایک حیاتیاتی لیباریٹری شامل ہے۔جب کہ 135 لائیبریریاں اور 74 آرٹ / کرافٹ / کلچر کے کلاس روم کی تعمیر منظور ہوچکے ہیں ،مگر ان میں سے ایک بھی تعمیر نہیں کیا گیا۔