معاشرہ بے راہروی کی ڈگر پر

شادی سے بڑھتی بیزاری۔۔سماج کے لیے خطرے کی گھنٹی

محمد انور حسین ،اودگیر

ایک زمانہ تھا جب شادی کا نام لیتے ہی ہر ایک کے دل میں لڈو پھوٹتے تھے ۔خوشی اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ چھپائے نہیں چھپتی تھی ۔لڑکا ہو یا لڑکی یا ان کے ماں باپ ہر ایک کی آرزو اور تمناوں کی منزل شادی ہوتی تھی ۔ شادی ہمیشہ سے سماج کی بنیادی اکائی رہی ہے ۔دنیا کا ہر سماج شادی کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے ۔شادی نسل انسانی کے فروغ کے لیے ایک مسلمہ اور پاکیزہ طریقہ رہا ہے ۔
لیکن افسوس کہ نہ جانے شادی کے اس ادارہ کو کسی کی نظر لگ گئی ہے ۔پچھلے کچھ دہائیوں سے یہ ادارہ تیزی کے ساتھ رو بہ زوال ہے چنانچہ اب شادی کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ہے ۔
پیو ریسرچ آرگنایزیشن کے تازہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں شادی کو پسند کرنے والے مردوں کی تعداد دن بدن گھٹتی جارہی ہے ۔جب سروے میں دو سوالات کیے گئے ،پہلا یہ کہ کیا وہ شادی کرکے بچوں کی پرورش کرنے کو پسند کریں گے اور دوسرا یہ کہ کیا شادی کے علاوہ بھی ان کی دوسری ترجیحات ہیں ۔46 فیصد لوگوں نے شادی کے حق میں اپنی رائے دی جبکہ 50 فیصد نے شادی کے علاوہ دوسری ترجیحات کو اہمیت دی ہے جبکہ شادی کے خلاف رائے دینے والوں میں 18 سے 29 سال کے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔
اس صدی میں ہر چوتھا نوجوان ایسا ہے جو شادی نہیں کرنا چاہتا ہے جبکہ ہر پانچواں نو جوان بچوں اور ان کی ذمہ داریوں کے بار کو اٹھانا پسند نہیں کرتا ۔یہ بات اِن شارٹ کے سروے میں سامنے آئی ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی ۔
دو سال قبل نیوز 18 میں ایک سروے رپورٹ شایع ہوئی تھی جو ایک نیوز ایپ اِن شارٹ کے ذریعے کیا گیا تھا ۔سروے رپورٹ حیران کن ہے جس کے مطابق بھارت میں 80 فیصد لوگ شادی کے بغیر ساتھ رہنے یعنی لیو ان ریلیشن شپ کو پسند کرتے ہیں ۔
خبر اس لیے بھی حیران کن ہے کہ بھارت وہ ملک ہے جہاں ’’گرانڈ، بِگ اور ایلیفنٹ سائز ‘‘ شادیاں ایک عام بات ہے ۔اس طرح کے سروے اور اس کی رپورٹیں اصل میں سماج کے مزاج اور اس کی نبض کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں ۔
سماج کا مزاج جو تصویر پیش کر رہا ہے وہ کسی بڑی تباہی کا بگل لگ رہا ہے ۔دنیا بڑی بڑی جنگوں ،بڑے طوفانوں ،معاشی دیوالیہ اور کورونا وائرس جیسی وبا سے بھی ابھر آئی ہے ۔لیکن اخلاقی گراوٹ کا جو تذکرہ اوپر ہوا ہے وہ قوموں اور نسلوں کو اسفل سافلین کے مقام پر پہنچادے گا ۔یہ آگ کے شعلے اتنے سنہرے ہیں کہ ہر نوجوان اس میں بے خطر اپنے ہاتھ جلا رہا ہے ۔
جب ہم ان کی وجوہات کو تلاش کرتے ہیں تو کچھ حقایق ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ایک وجہ معاشی پریشانیاں ہیں ۔لوگ بے روزگار ہوتے جارہے ہیں کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھنے کے باوجود کام کا نہ ملنا معاشی پریشانیوں میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے ۔بے روزگاری میں اضافہ کا رجحان تو تیزی سے بڑھ رہا تھا کورونا وائرس کی صورتحال نے اسے مزید تیز کردیا ۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق 2022میں دنیا میں بے روزگاروں کی تعداد 205 ملین تک پہنچ جائے گی ۔اس طرح بے روزگار افراد خود اپنے لیے سامان زندگی جمع کرنے میں ناکام ہیں اس لیے وہ شادی کی مزید ذمہ داریوں کو سنبھالنا نہیں چاہتے ہیں ۔
دوسری وجہ طلاق کی بڑھتی شرح ہے ۔اکثر شادیاں طلاق پر جاکر ختم ہورہی ہیں ۔عورت اور مرد کے درمیان نااتفاقی، خیالات کے اختلاف اور اپنی آزادی اور مفادات کے تحفظ کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے میاں بیوی طلاق کے نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں ۔اس کے دو نقصانات سامنے آرہے ہیں ایک مرد کا بہت بڑا معاشی نقصان ہورہا ہے کیونکہ بعض وقت اسے طلاق کے عوض عورت کو بہت سا پیسہ دینا پڑ رہا ہے، دوسرا بچوں کی پرورش کا بوجھ بھی اٹھانا پڑ رہا ہے ۔
کرئیر بنانےاور اسے بہتر سے بہتر بنانے کا جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔اس لیے وہ افراد جنہوں نے زندگی میں دولت کمانے اور اپنے کرئیر کو بنانے کو ترجیح دے رکھی ہے وہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بحیثیت بشر انسان اپنی بشری خواہشات کو کس طرح پورا کرے ؟ سوال جتنا اہم ہے اس کا جواب نام نہاد دانشوروں نے اتنے ہی بھونڈے انداز میں دیا ہے اور وہ جواب یہ ہے کہ خواہشات کی تکمیل ایک ضرورت ہے اس کے لیے شادی کی ضرورت نہیں ہے اور اگر آپ شادی کرنا بھی چاہتے ہیں تو یہ آپ کے لیے اختیاری ہے ۔اسی خرابی فکر نے بے راہ روی کے سارے راستے کھول دیے ہیں۔
کوورا ایپ پر ایک سوال پوچھا گیا کہ ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘(شادی کے بغیر ساتھ رہنا) کتنا درست ہے ۔اکثریت نے اس کے حق میں رائے دی ۔لوگوں کی رائے یہ ہے کہ شادی انسانوں کا بنایا ہوا طریقہ کار ہے۔ بدلتے زمانے میں انسان اگر کوئی نیا طریقہ کار وضع کرلے تو اس میں برائی کیا ہے ۔بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ طلاق کے بڑھتے واقعات نے شادی کو بھی غیرمحفوظ بنادیا ہے تو ’لیو ان ریلیشن شپ‘ کو قبول کرنے میں کیا مضائقہ ہے ۔ایک ماہر نفسیات نے رائے دی کہ شادی کے بغیر ساتھ رہنا آزادی اور مساوات کی مثال ہے ۔جس میں شادی کے مقابلے زیادہ ذہنی سکون ہے ۔
جبکہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ خود کشی کرنے والوں کی تعداد میں ’لیو ان ریلیشن شپ‘ میں ناکامی کا تناسب زیادہ ہے ۔
یہ اور اس طرح کی بہت سی بے اعتدالیاں اور گمراہیاں شادی کے ادارے کو کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔اب یہ مسئلہ کسی ایک گروہ یا طبقہ کا نہیں رہا۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زدمیں
ایک طرف شادی سے بیزاری بڑھتی جارہی ہے وہیں ہمارے ملک اور خصوصاً مسلمانوں میں مہنگی ،جہیز سے بھر پور اور شان و شوکت والی شادیوں نے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔
اسلام نے شادی کو سنت رسولؐ قرار دیا ہے ۔کسی عذر کے بغیر مجرد رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے ۔
دراصل اس تباہی کے ذمہ دار پچھلے تین سو سال میں پیدا ہونے والے گمراہ مغربی مفکرین ہیں۔افسوس کہ امت مسلمہ کے مفکرین بھی ان گمراہ و بے راہرو مفکرین سے مرعوب نظر آتے ہیں ۔شاید اسی لیے ہم فکر اسلامی کو پر زرو طریقے سے دنیا کے سامنے پیش نہیں کرسکے ۔یا تو ہم نے اسلامی فکر کو مغربی مفکرین کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی یا پھر اسلامی فکر پر مغربی مفکرین کی یلغار کا دفاع کرتے نظر آئے اور اسی لیے گمراہ کن فلسفہ ہائے زندگی انسانی تہذیب کا بیانیہ بن گئے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ شادی کے ادارے کو مضبوط بنایا جائے۔شادیوں کے اسلامی تصور کو پرزور طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے ،شادیوں کے اسلامی طریقے کو سماج میں رواج دیا جائے تاکہ شادی آسان اور زنا (لیو ان ریلیشن شپ وغیرہ) مشکل ہوجائے ۔
اس سے بڑھ کر دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ انسان سماجی جانور نہیں ہے بلکہ ایک اشرف ترین مخلوق ہے جو اپنے خالق اور خدائے واحد کی بندگی بجا لانے والا اور ایک صالح اورکامیاب معاشرے کی تشکیل کا ہیرو ہے ۔
***

 

***

 دراصل اس تباہی کے ذمہ دار پچھلے تین سو سال میں پیدا ہونے والے گمراہ مغربی مفکرین ہیں۔افسوس کہ امت مسلمہ کے مفکرین بھی ان گمراہ و بے راہرو مفکرین سے مرعوب نظر آتے ہیں ۔شاید اسی لیے ہم فکر اسلامی کو پر زرو طریقے سے دنیا کے سامنے پیش نہیں کرسکے ۔یا تو ہم نے اسلامی فکر کو مغربی مفکرین کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی یا پھر اسلامی فکر پر مغربی مفکرین کی یلغار کا دفاع کرتے نظر آئے اور اسی لیے گمراہ کن فلسفہ ہائے زندگی انسانی تہذیب کا بیانیہ بن گئے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  7 نومبر تا 13 نومبر 2021