مصر کی عظیم داعیہ و اسکالر کا سانحہ ارتحال

علم وتحقیق اور اصلاح قلب کے محاذ پر بڑا خلا

محمد صادر ندوی
ریسرچ اسکالر ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ

 

٢٤/جنوری ٢٠٢١ء کو عالم اسلام کا ایک عظیم علمی و دعوتی سرمایہ، نہایت ہی متحرک وفعال اور سرگرم خاتون ڈاکٹر عبلہ محمد الکحلاوی کورونا وائرس کے سبب اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ یقیناً ان کی رحلت عالم اسلام کے لئے ایک عظیم خسارہ ہے۔ ان کا شمار ان گنی چنی معاصر اسلام پسند خواتین میں ہوتا ہے جن کی زندگی مؤمنانہ، مجاہدانہ اور داعیانہ صفات سے متصف تھی، مرحومہ جہاں ایک طرف عالم اسلام کی مختلف یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات انجام دیتی رہیں تو وہیں دوسری طرف خواتین اسلام کی علمی، دینی اور فکری آبیاری کو اپنی زندگی کا معمول بنالیا تھا اور اپنے شب وروز کو اسی کیلئے وقف کر دیا تھا۔ ان کی پیدائش ۱۵؍ دسمبر ١٩٤٨ قاہرہ، مصر میں ہوئی، والد کا نام محمد مرسی عبداللطیف الکحلاوی ہے جو اپنے زمانے میں مصر کے مشہور اداکار اور گلوکار تھے۔ بعد میں ان کا میلان دین کی طرف ہوگیا پھر انہوں نے دینی موضوعات پر گانا شروع کر دیا اور تا حیات اسی کو اپنا مشغلہ بنائے رکھا۔ ان کی منشا کے مطابق ڈاکٹر عبلہ نے جامع ازہر کے ’’شعبہ اسلامیات‘‘ میں داخلہ لیا، ١٩٧٤ میں ’’فقہ مقارن‘‘ میں ایم اے اور ١٩٧٨ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
معاصر فقہ اسلامی پر ان کی نظر اس قدر گہری تھی کہ وہ بعض مردوں پر فوقیت بھی رکھتی تھیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے’’جامعة الرياض‘‘ و ’’جامعة الأزهر‘‘ کے ’’شعبہ فقہ اسلامی برائے خواتین‘‘ میں ایک طویل مدت تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد ١٩٧٩ میں ’’کلیة التربیة‘‘ مكہ مکرمہ میں شریعہ ڈیپارٹمنٹ کی ڈین مقرر ہوئیں۔ اسی دوران انہوں نے خواتین میں ایک زبردست علمی، فقہی اور تحقیقی فضا قائم کردی۔۱۹۷۸ میں بیت اللہ شریف میں دنیا بھر سے آنے والی خواتین اسلام کے لئے بعد نماز مغرب درس کا ایک سلسلہ شروع کیا جو مسلسل دو سال تک جاری رہا اور اس کے بہت ہی اچھے نتائج مرتب ہونے لگے۔ پھر جب وہ اپنے وطن قاہرہ واپس آئیں تو اپنے علاقے ’’البساتین‘‘ کی مسجد میں بھی بعد نماز مغرب یومیہ درس کا سلسلہ شروع کر دیا، جس میں خاص طور پر اسلامی تہذیب وتمدن کے روشن پہلوؤں کو اجاگر کیا اور اسلام دشمن طاقتوں کی قلعی کھول دی۔ ان دروس میں خواتین کی طرف سے کئے جانے والے سوالوں کا تشفی بخش جواب دیا جاتا۔ اپنی ایک عزیزہ سیدہ یاسمین خیام کے مطالبہ پر ایک سلسلہ وار اصلاحی مجلس ان مخصوص خواتین کے لئے منعقد کی جو مغربی تہذیب وتمدن سے متأثر ہو کر غلط راستے پر چل پڑی تھیں اور جنہیں مغرب کی رعنائیوں نے اس حد تک اندھا کر دیا تھا کہ وہ بے حیائی کے اڈوں اور محفلوں کی زیب وزینت بننے لگیں تھیں، فلمی دنیا میں اداکارہ کی شکل میں جنہوں نے خوب واہ واہی کمائی تھی لیکن پھر بفضل تعالیٰ ان کو حقیقی توبہ کی توفیق نصیب ہو گئی۔ اس مجلس میں مرحومہ ایک مخلص مربیہ اور داعیہ کی شکل میں ہوتیں اور دین اسلام کی خوبیوں کو ان کے سامنے اجاگر کرتیں۔
ان تمام خوبیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک اور خوبی عطا فرمائی تھی کہ وہ بیک وقت کتابت و خطابت دونوں کے اعلیٰ منصب پر فائز تھیں۔ ان کی تقریریں زبان کی شائستگی الفاظ کی متانت و پختگی اور سوز قلب کی خصوصیات سے لبریز ہوتی تھیں۔ جبکہ ان کی تحریریں اعتدال و توازن کی خوبی سے متصف ہوتی تھیں۔ سیاست کے موضوعات سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ ان کی خالص توجہ دینی، اصلاحی اور تربیتی موضوعات پر ہوتی تھی۔ ان کے خطابات سننے سے اس کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
مرحومہ نے میڈیا کے ذریعہ سے بھی دعوت دین کو عام کرنے اور گھر گھر دینی تعلیم کی نشر واشاعت میں بہت اہم کردار ادا کیا، وقتاً فوقتاً مختلف چینلوں کے ذریعہ ان کے مؤثر اور پر مغز پیغامات کو دوسروں تک پہنچانے کا سلسلہ آخری عمر تک جاری رہا۔
کمزوروں، یتیموں اور مریضوں کے ساتھ ہمدردی و الفت و محبت ان کی نمایاں خصوصیات میں سے تھیں، چنانچہ ’’المقطم‘‘ کے علاقہ میں یتیم بچوں، بوڑھوں اور بیماروں کیلئے ’’الباقيات الصالحات‘‘ کے نام سے ایک رفاہی ادارہ کی بنیاد ڈالی، جس کے تحت ایک ہاسپٹل، دارالاقامہ، مہمان خانہ، مسجد اور ایک دینی درسگاہ قائم کیا۔ خدمت خلق کا یہی وہ جذبہ تھا جس کی بنا پر وہ ہرخاص و عام کے نزدیک محبوب شخصیت تھیں اور لوگ انہیں فرط محبت سے ’’ماما عبله‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔
ان تمام سرگرمیوں کے علاوہ انہوں نے کئی اہم کتابیں بھی تصنیف کیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
’’المرأة بين طهارة الظاهر والباطن۔ بنوك اللبن۔ الخلع داء لادواء له- التحريم المتعلق بالدم۔ مسافر بلا طريق۔ قضايا المرأة في الحج والعمرة۔ البنوة والأبوة في ضوء القرآن والسنة۔ أحبوه كما أحبکم۔ قلبي معك‘‘۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021