بائیڈن انتظامیہ اورمشرقِ وسطیٰ

تنازعہ فلسطین، ایران کی جوہری امنگ،یمن وافغانستان میں قیام امن،اہم مسائل

مسعود ابدالی

 

صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ابھی تک تشکیل کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔امریکہ میں اٹارنی جنرل اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل سمیت وفاقی کابینہ اور تمام کلیدی آسامیوں پر تقرریوں کے لیے سینیٹ (راجیہ سبھا) سے توثیق ضروری ہے۔ صدر بائیڈن کے نامزد کردہ وزراء آج کل سینیٹ کی متعلقہ مجالس قائمہ کے روبرو پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کمیٹی کے پلِ صراط سے گزرنے کے بعد سینیٹ میں رائے شماری کا مرحلہ آتا ہے۔ توثیق میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ سنییٹ کی دوسری مصروفیتیں ہیں۔کورونا سے جو معاشی تباہی آئی ہے اس میں امریکی عوام کو وقتی راحت پہنچانے کے لیے ایک امدادی بل (Stimulus Package) کے علاوہ سابق صدر ٹرمپ کے مواخذے پر سینیٹ کے ارکان باہمی مشوروں میں مصروف ہیں۔
حکمران جماعت کو ایوان بالا پر تکنیکی برتری حاصل ہے کہ ووٹ برابر ہونے کی صورت میں سینیٹ کی سربراہ کی حیثیت سے اپنا فیصلہ کن ووٹ سرکار کے حق میں ڈال کر نائب صدر صاحبہ مسودہ قانون یا قرارداد منظور کرواسکتی ہیں لیکن 100 رکنی سینیٹ میں دونوں جماعتیں پچاس پچاس سے برابر ہیں۔ یعنی حکمراں پارٹی کے کسی ایک رکن کی بھی رائے تبدیل ہوئی تو شکست یقینی ہے۔ اسی وجہ سے صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر مجبور ہے اور غیر معمولی احتیاط و سوچ وبچار سے قانون سازی میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔ تادم تحریر صرف وزیر خزانہ، وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجینس کی سینیٹ سے توثیق ہو سکی ہے۔
توثیق میں تاخیر سے بائیڈن انتظامیہ کو مشکل تو ہے لیکن امریکی صدر اپنی ٹیم کا انتخاب کرچکے ہیں اور مستقبل کی صورت گری کا کام بھرپور انداز میں جاری ہے۔ بلاشبہ ساری دنیا کی طرح امریکہ میں بھی کورونا عوام و حکمراں سب کے اعصاب پر چھایا ہوا ہے۔ ہلاکت و تباہ کاری کے اعتبار سے اس جرثومے نے امریکہ کو اپنا بنیادی ہدف بنا رکھا ہے اور اوسطاً ہر روز چار ہزار کے قریب لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ چنانچہ بین الاقوامی معاملات پر پیشرفت کسی حد تک سست ہے۔ پچھلے مضمون میں ہم نے بائیڈن انتظامیہ کی متوقع افغان پالیسی کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ آج کچھ سطور بائیڈن انتطامیہ کی مشرق وسطیٰ حکمت عملی پر۔
مشرق وسطیٰ کو بنیادی طور پر دو بڑے تنازعات کا سامنا ہے اور ان دونوں تنازعات کے ڈانڈے باہم ملے ہوئے ہیں۔ پہلا تنازعہ یعنی مسئلہ فلسطین، ایک بدترین انسانی المیہ بن چکا ہے۔ یہ دراصل انسانی ضمیر کا امتحان ہے۔ ‘مہذب دنیا’ کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموش تماشی بنی ہوئی ہے۔ غزہ اور غرب اردن کھلی چھت کے جیل خانے ہیں بلکہ انہیں وسیع و عریض عقوبت کدے کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جیل میں بند قیدیوں کو غذا، لباس اور علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ نظر بند قیدیوں کو نظامِ انصاف تک رسائی حاصل ہوتی ہے جبکہ پنجرے میں بند فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ جہاں تک مسئلہ فلسطین کے حل کا تعلق ہے تو اس کے لیے نہ کسی کمیشن کی ضرورت ہے اور نہ اضافی مذاکرات کی۔ اگر اقوام متحدہ کی قرارادادوں پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو جائے تو یہ مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہو سکتا ہے۔
علاقے کا دوسرا بڑا مسئلہ ایران کی مبینہ جوہری امنگ اور اس حوالے سے خلیجی ممالک اور اسرائیل کی تشویش ہے۔ ایران سے متعلق تنازعات و شکوک و شبہات کا جائزہ لیا جائے تو اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
l امریکہ اور یورپ کو ایران کے جوہری پروگرام پر تشویش ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ وہ جوہری توانائی کو ترقی اور پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن مغربی دنیا کو تہران کی یقین دہانی پر اعتماد نہیں۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی جس سطح پر کر رہا ہے، پر امن مقاصد کے لیے اس کی ضرورت نہیں اور سرگرمیوں سے جوہری ہتھیار کے لیے ایران کا عزم ظاہر ہوتا ہے۔ تل ابیب کا خیال ہے کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار بنا لیے تو اس کا ہدف اسرائیل ہوگا۔
l اسرائیل کو ایران سے اس کے جوہری پروگرام کے علاوہ ایک شکایت یہ بھی ہے کہ تہران حزب اللہ اور شامی حکومت کو فوجی امداد فراہم کر رہا ہے۔ تل ابیب ان دونوں کو دشمن نمبر ایک اور اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
l خلیجی عرب ممالک کا خیال ہے کہ ایران ان ملکوں کی شیعہ آبادی کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسا رہا ہے۔ اس سلسلے میں یمن کی مثال دی جاتی کہ جہاں ایران نے مبینہ طور پر حوثی باغیوں کے ذریعے وفاقی حکومت کو عملاً مفلوج کر دیا ہے۔ اتفاق کی بات کہ سعودی عرب، بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات چاروں کے خلیجی ساحل پر شیعہ آباد ہیں۔ دوسری طرف ایران کو شکوہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایران کی سنی آبادی کو حکومت کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔ تہران کا کہنا ہے کہ معاملہ صرف ایران تک محدود نہیں بلکہ سعودی عرب، پاکستان، ہندوستان اورافغانستان میں بھی شیعوں کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے جبکہ تہران کے مطابق پاکستانی بلوچستان خاص طور سے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں سعودی حکومت براہ راست ملوث ہے۔
ایران عرب تنازعے کی بہت ہی بھاری قیمت یمن کے بے گناہ ادا کر رہے ہیں جو خلیجی بمباری اور متحارب گروہوں کی گولہ باریوں سے کھنڈر بن چکا ہے۔ آبپاشی و آبنوشی کے وسائل تباہ ہو چکے ہیں جس کی وجہ زرعی زمینوں پر دھول اڑ رہی ہے اور لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ مویشی یا تو بھوک سے ہلاک ہوگئے یا ان کے مالکان نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ذبح کر ڈالے۔ اقوام متحدہ کے جائزے کے مطابق غذا کی کمی نے نصف سے زیادہ یمنی بچوں کو معذور کر دیا ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھنا ہی مشکل ہے، ہم اسے یہاں نقل کیسے کریں۔
صدر جو بائیڈن نے وزارت خارجہ، سی آئی ائے اور قومی سلامتی کے لیے جن افراد کا انتخاب کیا ہے ان کے سرسری جائزے سے ایسا لگتا ہے کہ عالمی افق، خاص طور سے مشرق وسطیٰ کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کی حکمت عملی اوباما پالیسی کی شرطیہ نئی کاپی ہوگی۔ جناب بائیڈن نے وزارت خارجہ کے لیے 58 سالہ انٹونی بلیکنکن کا انتخاب کیا ہے۔ راسخ العقیدہ یہودی جناب بلینکن با رسوخ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والد ہنگری اور چچا بیلجیم میں امریکہ کے سفیر تھے۔ اسرائیل کی تشکیل میں ان کی دادی جان نے بہت اہم کردار تھا۔ محترمہ نے اسرائیلی ریاست کی اقتصادی امکان پزیری (Economic Feasibility) کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین معاشیات کا ایک کیمشن قائم کیا تھا۔ دوسری طرف اسرائیل اور فلسطینیوں کے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے محترمہ نے امریکی فلسطین انسٹیٹیوٹ کی بنیاد بھی رکھی۔ جناب بلینکن پر ایوان اقتدار کا دروازہ 2009 میں کھلا جب نائب صدر جو بائیڈن نے انہیں قومی سلامتی کے لیے اپنا مشیر مقرر کیا۔ تین سال بعد صدر اوباما نے جناب بلینکن کو اپنا نائب مشیر برائے قومی سلامتی بنالیا اور ان کا خالی ہونے والا منصب جیک سولیون کو عطا ہوا جو اب صدر بائیڈن کے مشیر برائے قومی سلامتی ہیں۔
صدر اوباما کے نائب مشیرِ سلامتی کی حیثیت سے بلینکن صاحب کو افغان حکمت عملی ترتیب دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان کے مشورے پر ڈرون حملوں نے افغانستان اور شمالی وزیرستان میں جو تباہی مچائی وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن اس خونریزی کے باوجود طالبان کی کمر نہ توڑی جا سکی اور دو سال بعد ان کی جگہ سرغراسانی کی ماہر محترمہ ایورل ہینز کا تقرر کر کے بلینکن صاحب نائب وزیر خارجہ بنا دیے گئے۔ اکیاون برس کی محترمہ ہینز بھی ایک راسخ العقیدہ یہودی ہیں جنہیں نئی انتظامیہ میں ڈائریکٹر نیشنل انٹلیجنس کی حیثیت سے تعینات کیا گیا ہے۔
صدر بائیڈن کے وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر کی طرح سی آئی اے کے نامزد ڈائریکٹر ولیم برنس بھی 3 سال تک صدر اوباما کی کابینہ میں نائب وزیر خارجہ تھے۔ جناب برنس ایک منجھے ہوئے سفارتکار ہیں جو روس اور اردن میں امریکہ کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ ولیم برنس اور انٹونی بلینکن دونوں کئی برسوں سے جو بائیڈن کے بہت قریب ہیں اور صدر اوباما کے دور میں انہیں خاصہ عروج ملا۔ خارجہ امور، قومی سلامتی اور بین الاقوامی سراغرسانی کے لیے جن لوگوں کا جناب بائیڈن نے انتخاب کیا ہے وہ سب کے سب اسرائیل کے دل وجان سے حامی ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی میں انصاف و اعتدال کی تحریک زور پکڑ گئی ہے۔ اس دھڑے نے خود کو جسٹس ڈیموکریٹس کے نام سے منظم کرلیا ہے جس کے قائد و سرپرست تو سینیٹر برنی سینڈرز ہیں لیکن اس کی روحِ رواں امریکی ایوان نمائندگان (لوک سبھا) کی ’چارلڑکیاں‘ یعنی الحان عمر، رشیدہ طلیب، الیکزینڈریا کورٹیز المعروف AOC اور ایانا پریسلے ہیں۔ اس ’چار کے ٹولے‘ کو سابق صدر ٹرمپ ’اسکواڈ‘ کہتے تھے۔ حالیہ انتخابات کے بعد اس ’ٹولے‘ میں ایک ’لڑکی‘ کوری بُش اور ایک ’سرپھرے لڑکے‘ جمال بومن کا اضافہ ہوگیا ہے۔ کیلی فورنیا کے روکھنہ کے علاوہ تین دوسرے ارکان کے ساتھ ایوان نمائندگان میں جسٹس ڈیموکریٹس کا پارلیمانی حجم اب 10 ہے۔جسٹس ڈیموکریٹس کی بڑھتی ہوئی قوت کا جو بائیڈن کو اندازہ ہے اور اسی دباو کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے انتخابی منشور میں مشرق وسطیٰ کے لیے دو ریاستی حل، یمن جنگ کا غیر جانبدارانہ جائزہ، جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات اور ایران کے جوہری پروگرام کے پرامن تصفیے کا وعدہ کیا۔
انتخابی وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے امریکی حکومت نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت معطل کردی۔صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے انعام کے طور پر متحدہ عرب امارات کو 23 ارب ڈالر کے عوض پچاس F-35 طیارے فراہم کرنے کی منظوری دی تھی۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے بعد متحدہ عرب امارات دوسرا ملک ہے جسے F-35 طیارے فروخت کئے جارہے ہیں۔ ضابطے کے تحت F-35 جیسے کلیدی نوعیت کے اسلحے کی کسی دوسرے ملک کو فروخت سے پہلے امریکی سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے دفاع سے توثیق ضروری ہے لیکن سابق امریکی صدر نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سینیٹ سے بالا بالا ہی فروخت کی منظوری دے دی تھی۔ صدر ٹرمپ کا موقف تھا کہ اسلحے کی فروخت سے امریکہ میں ملازمتوں کو ہزاروں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
اسی کیساتھ سعودی عرب کو جدید ترین اسمارٹ بموں کی فروخت بھی معطل کردی گئی ہے۔ بوئنگ کمپنی کے تیار کردہ 8 انچ سے بھی پتلے یہ بم زیر زمین مورچوں، بنکروں اور کنکریٹ سے بنی عمارتوں کے پرخچے اڑا سکتے ہیں۔ سعودی عرب نے 3000 اسمارٹ بم خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جس کی مجموعی قیمت 30 کروڑ ڈالر ہے۔ سینیٹر برنی سینڈرز اور رکن کانگریس محترمہ رشیدہ طلیب نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان بموں کے یمن میں استمال سے شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوگا۔
امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نئی انتظامیہ حال ہی میں کئے جانیوالے دفاعی سودوں کا جائزہ لے رہی ہے اور جب تک نظر ثانی مکمل نہ ہوجائے معاہدے پر عملدرآمد کو معطل کیا جا رہا ہے۔ اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے کہا کہ اسلحے کی فروخت سے پہلے بائیڈن انتطامیہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ سودا علاقے اور دنیا میں امن و استحکام کے حوالے سے امریکہ کی حکمت عملی اور اسکی ترجٰیحات کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ معاہدوں کا جائزہ لے رہی ہے اور کام مکمل ہونے تک اسلحے کی فراہمی شروع نہیں ہوگی۔
انتخابی مہم کے دوران صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یمن میں خونریزی روکنے کے لیے امریکہ کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہری آبادی پر بمباری کے لیے امریکی اسلحہ استعمال ہو رہا ہے اور وہ اقتدر میں آکر خلیجی ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت پر نظر ثانی کریں گے۔ گزشتہ برس ڈیموکریٹک پارٹی نے سعودی عرب کو بموں کی فراہمی روکنے کے لیے سینیٹ میں قرارداد بھی پیش کی تھی لیکن ریپبلکن پارٹی نے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ اس ضمن میں ایک اور چشم کشا پیشرفت امریکی وزارت خارجہ کا وہ اعلان ہے جس کے تحت یمنی حوثیوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے محدود مدت کے لیے ہٹالیا گیا ہے۔ امریکہ نے ایران نواز حوثیوں کے ’طرز عمل‘ کا دوبارہ جائزہ لینے کا عندیہ دیا ہے نظرثانی کے دوران حوثیوں کے خلاف دہشت گردی کا ’فتویٰ‘ معطل رہے گا۔ امریکی وزارت خزانہ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکی ادارے امدادی سامان کی نقل و حمل کے لیے 26 فروری تک حوثیوں سے محدود لین دین کر سکتے ہیں۔ تاہم نامزد دہشت گرد رہنماوں سے کسی قسم کے معاملے کی اجازت نہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایران نواز حوثیوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان سے کسی بھی قسم کے لین دین اور رابطے کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔
ایران کے حوالے سے ایک اور اہم قدم ممتاز سفارتکار جناب رابرٹ ملّے (Robert Malley) کی بطور خصوصی نمائندہ برائے ایران نامزدگی ہے۔ اٹھاون سالہ مصری نژاد رابرٹ کا تعلق بھی جسٹس ڈیموکریٹس دھڑے سے ہے۔ جناب ملے کو صدر اوباما نے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور خلیجی امور کے لیے اپنا خصوصی مشیر مقرر کیا تھا۔ جولائی 2015 میں ایران جوہری معاہدہ ’برنامیج‘ یا JCPOA جناب ملے کی کامیاب سفارتکاری کا کمال قرار دیا جاتا ہے۔ دو سال قبل صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو یہ کہہ کر نکال لیا تھا کہ JCPOA ناکافی اور کمزور معاہدہ ہے۔ جس کے بعد انہوں نے ایران پر پابندیوں کی تجدید کردی۔ ردعمل میں ایران نے یورینیم کی افزودگی دوباہ شروع کردی۔ جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدے سے یک طرفہ نکل آنے کے نتیجے میں باہمی تناؤ کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا اور 2015 کے مقابلے میں ایران آج جوہری ہتھیار تیار کرنے کے زیادہ قریب ہے۔ امریکی صدر نے عندیہ دیا ہے کہ اگر ایران JCPOA کی شرائط پر مخلصانہ عملدرآمد کی یقین دہانی کروادے تو امریکہ معاہدے میں واپس آجائے گا۔
رابرٹ ملے مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور مشرق وسطیٰ امن کے حوالے سے کھل کر کہہ چکے ہیں کہ فلسطین میں حماس اور علاقے میں اخوان المسلمون بہت بڑی سیاسی قوت ہیں جنہیں غریبوں میں زبردست پزیرائی حاصل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اخوان کے بارے میں دہشت گرد وانتہا پسند ہونے کا تاثر غیر حقیقی ہے اور ساتھ ملا کر اخوانیوں کے رویے کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا حوالہ دیا جس میں محترمہ نے علاقے میں قیام امن اور خوشحالی کے لیے مصر میں اس وقت کی اخوانی حکومت کیساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
صدر جو بائیڈن کے ان اقدامات کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن رابرٹ ملے کی بطور خصوصی نمائندہ برائے ایران تقرری کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی اسلحے کی فراہمی معطل کرنے، یمنی حوثیوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے محدود مدت کے لیے ہٹانے، اسرائیل فلسطین دو قومی ریاست پر بائیڈن انتظامیہ کے اصرار اور جمال خاشقجی قتل کی تحقیقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی حکومت کے طرز عمل میں ایک ’موہوم و مبہم‘ سی مثبت تبدیل کے آثار نظر آرہے ہیں۔ لیکن یہاں اسرائیل نواز سیاسی قوتوں کی جڑیں بہت گہری اور پہنچ بہت دور تک ہے۔
جو بائیڈن خود بھی اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔ امریکی صدر فلسطینی اراضی پر صیہونی بستیوں کی تعمیر کے مخالف تو ہیں لیکن وہ اس کے لئے ’قبضے‘ کا لفظ استعمال نہیں کرتے نہ ہی وہ امریکہ کے اس سرکاری بیانیے میں تبدیلی کے لیے تیار ہیں جس کے مطابق اسرائیلی نو آبادیاں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں۔ دوسری طرف جسٹس ڈیموکریٹس فلسطینیوں کے حقوق اور ایران جوہری تنازعے کے پرامن حل کے لیے پرعزم نظر آرہے ہیں۔ سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ وہ فلسطین کے معاملے میں صدر بائیڈن سے ایک مبنی بر انصاف حکمت عملی کی توقع رکھتے ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

خارجہ امور، قومی سلامتی اور بین الاقوامی سراغرسانی کے لیے جن لوگوں کا جناب بائیڈن نے انتخاب کیا ہے وہ سب کے سب اسرائیل کے دل وجان سے حامی ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی میں انصاف و اعتدال کی تحریک زور پکڑ گئی ہے۔ اس دھڑے نے خود کو جسٹس ڈیموکریٹس کے نام سے منظم کرلیا ہے جس کے قائد و سرپرست تو سینیٹر برنی سینڈرز ہیں لیکن اس کی روحِ رواں امریکی ایوان نمائندگان (لوک سبھا) کی ’چارلڑکیاں‘ یعنی الحان عمر، رشیدہ طلیب، الیکزینڈریا کورٹیز المعروف AOC اور ایانا پریسلے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021