مشرقی بحر روم میں قدرتی وسائل کی تلاش

ترکی اور یونان کے درمیان بڑھتی کشیدگی۔ منظر پس منظر

احمد عظیم ندوی، جھارکھنڈ

 

ترکی ان دنوں مشرقی بحر روم میں قدرتی تیل اور گیس کی دریافت کر رہا ہے جس کی وجہ سے سمندری حدود کے مسئلے پر ترکی اور یونان میں تناؤ پیدا ہو گیا ہے اور اب اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں یہ جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔ اسی کے پیش نظر نیٹو اس کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعہ حل ہو تاکہ خطہ میں کسی بھی طرح کی بد امنی پیدا نہ ہو۔ جب کہ فرانس چاہتا ہے کہ یونان اپنے موقف پہ قائم رہے اور وہ اس سلسلے میں یونان کی مدد بھی کر رہا ہے۔
کشیدگی کے اسباب:
ترکی نے 2019 میں لیبیا کے ساتھ سمندری حدود کے متعلق ایک معاہدہ کیا جس کے بعد پہلی بار یونان اور ترکی کے درمیان سمندری حدود کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوئی اور اس معاہدے پر یونان، قبرص اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ کئی یورپی ممالک نے اعتراض کیا تھا جس کا جواب دیتے ہوئے ترکی نے کہا تھا کہ ہم ’’بلیو ہوم لینڈ‘‘ کے نظریہ پہ عمل کر رہے ہیں جس کا مقصد اپنے سمندری حدود کی حفاظت ہے۔
دوسری طرف یونان نے 6 اگست 2020 کو سمندری حدود کے تعلق سے مصر کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس پر ترکی نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے، کیوں کہ اس کو خدشہ ہے کہ مصر، یونان، قبرص اور ان کے حمایتی ممالک مشرقی بحر روم میں ترکی کے حقوق غصب کرنا چاہتے ہیں اور یہ معاہدہ اس کی ایک مضبوط کڑی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس معاہدے کو یونان میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، چنانچہ وہاں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ جلد بازی میں کیا گیا ہے نیز، یونان کے سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ "یونان نے اس معاہدے میں مصر کے تمام شرائط کو قبول کرلیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ترکی اور لیبیا کے درمیان ہونے والے معاہدے پراثر انداز ہونا چاہتا ہے۔
فرانس یونان کے ساتھ کیوں کھڑا ہے؟
یونان نے حالیہ تنازع کے بعد مشرقی بحر روم میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے یورپی یونین سے مدد کی اپیل کی تھی جس کے بعد فرانس یونان کی مدد کے لیے آگے آیا نیز، اس نے مشرقی بحر روم میں ایک بحری جہاز اور دو رفال بھی بھیجے ہیں اس کے علاوہ فرانس کے صدر نے ترکی سے کہا کہ ’’وہ متنازع حصہ میں آپریشن کو بند کرے اور ہماری فوج تمام صورت حال پر نظر بنائے رکھے گی‘‘۔
فرانس کے یونان کے ساتھ کھڑے ہونے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ترکی لیبیا کے مسئلہ پر فرانس کے موقف کے خلاف ہے کیوں کہ فرانس وہاں جنرل ہفتر کی لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) کا حامی اور اسے اسلحہ دینے والے ملکوں میں سر فہرست ہے جب کہ ترکی اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ’جی این ائے‘ کا حامی ہے جو ترکی کے فوجی تعاون سے لیبیا میں اپنی پوزیشن مضبوط کر رہا ہے نیز، 2019میں مصر کے دار الحکومت قاہرہ کے اندر ’ایسٹ میڈیٹرینین گیس فورم‘ کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کا مقصد مشرقی بحر روم سے نکلنے والی گیس یورپ کو فراہم کرنا ہے تاکہ یورپ روس کی گیس کا محتاج نہ رہے۔ اس فورم کے ممبران میں اسرائیل، مصر، یونان، قبرص، اٹلی، اردن اور فلسطینی شامل ہیں جب کہ ترکی کو قصداً اس سے باہر رکھا گیا۔ جس کے بعد ترکی مسلسل یہ بات کہ رہا ہے کہ مشرقی بحر روم میں ہمارے حقوق کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔
چنانچہ ان اسباب کی وجہ سے مشرقی بحر روم میں ترکی جیسے مضبوط ملک کی موجودگی فرانس کو کھٹک رہی ہے، اس کے علاوہ وہ لیبیا میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو بھی کم کرنا چاہتا ہے۔
موجودہ صورت حال:
دونوں ملک مسلسل ایک دوسرے پر لفظی وار کر رہے ہیں جب کہ اس پورے معاملہ پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ تناؤ کی وجہ سے خطہ میں جنگ کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں، جس کے اثرات دیرپا اور دور رس ہوں گے۔ چنانچہ نیٹو دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی حیثیت سے ڈائیلاگ کی کوشش کر رہا ہے، کیوں کہ یونان اور ترکی دونوں نیٹو کے اتحادی ہیں جس کی وجہ سے نیٹو کی یہ مشکل ہے کہ وہ کسی ایک ملک کی حمایت نہیں کرسکتا ہے۔
ترکی کا کہنا ہے کہ ہمارے اس اقدام کا مقصد اپنے حقوق کو حاصل کرنا ہے اور ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ بحری حدود کی تقسیم عالمی قوانین کے مطابق انصاف کی بنیاد پر ہو اور ہم اس مسئلہ پر ڈائیلاگ کے لیے تیار ہے۔ جب کہ یونان کا کہنا ہے کہ ترکی ہمارے بحری حدود میں گھس آیا ہے اور اس کا یہ اقدام ہماری خود مختاری پر حملہ کے برابر ہے اور اگر اس تنازع کی وجہ سے خطہ میں کسی طرح کی بد امنی پیدا ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار ترکی ہوگا، اس لیے جب تک اس مسئلے پر ناٹو کی سربراہی میں کوئی فیصلہ کن بات طے نہیں پاتی ہے ترکی دھمکیاں دینا بند کر دے۔ لیکن جب نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے یہ اعلان کیا کہ ترکی اور یونان کے اہلکار مشرقی بحر روم کے مسئلہ پر بات چیت کے لیے تیار ہوگئے ہیں تو اس کی تردید کرتے ہوئے یونانی وزات خارجہ نے کہا کہ یہ خبر صحیح نہیں ہے کہ ہم ترکی کے ساتھ ڈائیلاگ کے لیے تیار ہوگئے ہیں اور جب تک ترکی کے تمام جہاز واپس نہیں چلے جاتے ہیں اس مسئلہ پر بات چیت اور تناؤ میں کمی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ‎
اس کے جواب میں ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’یونان کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کا پر امن حل نہیں چاہتا ہے اور وہ اس پورے معاملہ میں مسلسل جھوٹ سے کام لے رہا ہے، ساتھ ہی ترک وزیر دفاع خلوصی اکار کا کہنا ہے کہ ترکی کی فوج مشرقی بحر روم میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتی رہے گی اور ہمارے طرف سے ڈائیلاگ کی پیشکش کا ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہم کس بھی طرح کمزور ہیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم عالمی قوانین کا احترام کرتے ہیں۔
اس دوران فرانسیسی صدر ماکرون کی صدارت میں جزیرہ کورسیکا میں ایک اجلاس ہوا جس میں اسپین، اٹلی، مالٹا، پرتگال، جنوبی قبرص اور یونان نے شرکت کی، فرانسیسی صدر نے پریس کانفرینس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: مشرقی بحر روم میں ترکی کا کوئی حق نہیں ہے چنانچہ اگر وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا تو ہم اس پر پابندیاں عائد کریں گے اور میں یورپ کے تمام ممالک سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ ترکی کے خلاف سخت موقف اختیار کریں۔ جس کے جواب میں ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’ماکرون اپنی حد میں رہیں اور ترکی کو دھمکیاں دینا بند کریں‘‘ اور ترک صدر نے کہا ’’ ہمارے خلاف کسی بھی طرح کی سیاسی یا عسکری غلطی کا انجام بہتر نہیں ہوگا۔ماکرون کو مجھ سے مسائل ہوسکتے ہیں لیکن وہ ترکی اور ترک قوم کے ساتھ نہ الجھیں‘‘۔
جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے
یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے اور اس سے کسی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی، خاص طور سے دو ملکوں کے درمیان جنگ کے اثرات بہت دور رس اور انتہائی منفی نتائج کے حامل ہوتے ہیں اور بعض دفعہ اس کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے؎
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ مسئلوں کا حل کیا دے گی
اور ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا کوویڈ-19 کی وجہ مشکلات سے دوچار ہے اگر ترکی اور یونان کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو کئی ملکوں کے سیاسی، سماجی نیز معاشی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے ترکی اور یونان کو چاہیے کہ وہ مشرقی بحر روم کے مسئلہ کو بات چیت کے ذریعہ حل کریں اور دونوں ہی ممالک فراخ دلی کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم کریں۔
ahmadazeemnadwi7550@gmail

ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا کوویڈ-19 کی وجہ مشکلات سے دوچار ہے اگر ترکی اور یونان کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو کئی ملکوں کے سیاسی، سماجی نیز معاشی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے ترکی اور یونان کو چاہیے کہ وہ مشرقی بحر روم کے مسئلہ کو بات چیت کے ذریعہ حل کریں اور دونوں ہی ممالک فراخ دلی کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم کریں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020