مسلم خواتین کی ذمہ داریاں (سیریز 1-)

اپنی اصلاح

ابو سلیم محم عبدالحئی ؒ

 

خواتین کی اہمیت
آپ جانتی ہیں کہ اسلام پوری زندگی کا ایک نظام ہے۔ ہر شخص کی الگ الگ زندگی کے لیے بھی اور سب لوگوں کی اجتماعی زندگی کے لیے بھی۔ اجتماعی زندگی کی تکمیل عورت کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ زندگی کے نظام کا بہت اہم جزو ہیں۔ اس لیے کوئی ایسی تحریک جو زندگی کی اصلاح سے تعلق رکھتی ہو آپ کو ساتھ لیے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ چونکہ اسلامی تحریک پوری زندگی کی تحریک ہے اس لیے یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کو نظر انداز کرکے اس تحریک کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونے، اس کے سامنے جوابدہی کرنے اور اپنے اپنے کاموں کا بدلہ پانے کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ اللہ کی اطاعت کرنا اور اس کے احکام بجا لانا، جس طرح مردوں کے لیے ضروری ہیں اسی طرح آپ کے لیے بھی لازمی ہیں۔ آخرت کی کامیابی کے اعتبار سے مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور آخرت میں کامیاب ہونے کے لیے جس طرح مردوں کو کوشش کرنا ہوگی اسی طرح آپ کو بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑیں گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’مرد جیسا کام کریں گے ویسا حصہ پائیں گے اور اسی طرح عورتیں جیسا کام کریں گی ویسا حصہ پائیں گی‘‘۔
اسلام نے عورتوں کو ایک مستقل حیثیت دی ہے۔ انہیں مردوں کی زندگی کا ضمیمہ نہیں بنایا ہے۔ اس لیے آپ کا مقام یہ نہیں کہ آپ خود اپنے بارے میں کچھ سوچے بغیر مردوں کے رنگ میں رنگی رہیں۔ ہر مرد اور ہر عورت کو خود اپنے ایمان اور اسلام کے اعتبار سے جوابدہی کرنا ہوگی اور اپنے اپنے کیے کا پھل پانا ہوگا۔ نہ آپ کے کاموں کا نتیجہ مردوں کو بھگتنا پڑے گا اور نہ مردوں کے کیے کا پھل آپ کو ملے گا۔ کوئی عورت اللہ کے سامنے یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتی کہ اس کے مردوں کی رَوش ایسی اور ایسی تھی اس لیے اسے بھی مجبوراً وہی راہ اختیار کرنا پڑا۔ اسلام کا علم حاصل کرنے، اللہ کے دین کو سوچ سمجھ کر قبول کرنے اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے کے بارے میں آپ کی ذمہ داری کسی طرح مردوں سے کم نہیں ہے۔ اس لیے سب کاموں سے پہلے کرنے کا کام یہی ہے کہ آپ اسلام کو سمجھیں اس کا ضروری علم حاصل کریں اور اس کے احکامات پر پوری پابندی کے ساتھ عمل کریں۔ اللہ کا دین جن کاموں سے روکتا ہے ان سے رک جائیں چاہے آپ کے مردوں کا حال کیسا ہی کیوں نہ ہو اور جن کاموں کو کرنے کا حکم دیتا ہے انہیں کریں چاہے آپ کے مرد آپ کا ساتھ دیں یا نہ دیں۔
خواتین کی ذمہ داریاں
آپ کو اللہ کی خوشنودی اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دین کی خدمت کے وہ تمام کام کرنا ہیں جن کا کرنا آپ کے لیے ضروری ہے۔ ان کاموں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی کو سچی اسلامی زندگی بنانے کی کوشش ہر وقت کرتی رہیں۔ ان تمام کاموں کو اور ان سب باتوں کو جو اسلام کے خلاف ہیں اپنی زندگی سے چن چن کر دور کریں۔ اپنی روزآنہ کی زندگی پر بار بار غور کیجیے دین کے بارے میں جو بات معلوم ہو یا معلوم ہوتی جائے اس کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی پر خود نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ کہیں کوئی بات اسلام کے خلاف تو موجود نہیں؟ اگر ہے تو یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان کی زندگی میں کوئی بات اسلام کے خلاف بھی پائے جائے۔ اس بد قسمتی کو کیا کہیے کہ آج مسلمانوں کی زندگی میں ایک دو نہیں بہت سی باتیں اسلام کے خلاف موجود ہیں۔
آج کل آپ اور ہم جن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں ان میں ایک مسلمان کے لیے سب کاموں سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ اسلام اور کفر کے فرق کو اچھی طرح پہچانے۔ اگر کسی ملک کی حکومت اسلامی اصولوں پر قائم ہو یا مسلمانوں کے ذمہ دار با اثر لوگ دین سے صحیح لگاؤ رکھتے ہوں تو یہ ممکن ہے کہ حکومت یا اثر رکھنے والے لوگ اپنے طور پر ان تمام باتوں کو روکتے رہیں جو اسلام کے خلاف ہوں اور جن سے مسلمانوں کے دین و اسلام کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ ایسے حالات میں یہ تو ممکن ہے کہ آپ دین کے بارے میں صرف موٹی موٹی باتیں جان کر اپنے دین اور ایمان کو بچالے جائیں، لیکن اگر آپ کے چاروں طرف ان باتوں کا مور ہو جو اسلام کے خلاف ہیں اور حالات ایسے ہوگئے ہوں کہ ایک شخص کو اللہ کے احکام پر قائم رہنے پر دشواریاں پیش آتی ہوں اور اسلام سے منہ موڑ کر چلنے کے لیے راستہ آسان ہوگیا ہو تو پھر آپ کو بھی اسلام پر جمنے اور اس راہ پر چلنے کے لیے زیادہ طاقت اور قوت کی ضرورت ہوگی۔ آج یہ حال ہے کہ جھوٹ بولنا، دھوکا دینا، دوسرے کا مال مارلینا، گندی باتوں میں پھنس جانا اور ہر قسم کی بد اخلاقی اختیار کرلینا لوگوں کے لیے اتنا آسان ہوگیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ان برائیوں کو اختیار کرلینا بہت مفید ہے اور اس کے برخلاف سچ پر قائم رہنا، ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ کام کرنا، پاک زندگی گزارنا اور انسان بن کر رہنا اتنا مشکل ہوگیا ہے کہ اس راہ پر چلنے کے لیے قسم قسم کی پریشانیوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آپ جانتی ہیں کہ اگر ملک کی حکومت اچھی اور اس کی پولیس اپنے فرائض کو پہچانتی ہو تو آپ چوروں کے ڈر سے محفوظ ہو کر رات کو آرام کی نیند سو سکتی ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھر آپ کو اپنی نیندیں حرام کرنا پڑیں گی اور اپنے گھر کی حفاظت کے لیے خود ہی جو کچھ بن پڑے کرنا پڑے گا۔ شیطان انسان کے ایمان و اخلاق کا سب سے بڑا ڈاکو ہے۔ اس کی روک تھام کا انتظار ہر ہر شخص کو خود ہی کرنا پڑتا ہے اور ملک کی حکومت اور قوم کے با اثر لوگوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ جس طرح لوگوں کے جان اور مال کی حفاظت کا بندوبست کریں اس سے بڑھ کر ان کے ایمان، اخلاق اور انسانیت کی حفاظت کا انتظام کریں۔
یہ ہیں وہ حالات جن کی وجہ سے آپ کے کندھوں پر بھی اس سے کہیں زیادہ بوجھ آپڑا ہے جتنا کہ سدھرے ہوئے حالات میں ہوا کرتا ہے۔ لیکن اس سے کیا ہوتا ہے آپ کو تو بہرحال اس خدمت کو انجام دینا ہی ہے جو آپ کے ذمہ ہے۔ وہ سپاہی جو مشکل حالات میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں، ان سپاہیوں سے کہیں زیادہ اونچا مرتبہ پاتے ہیں جو آسان حالات میں میدان مار لیتے ہیں۔ آپ کے سامنے آپ کی اپنی زندگی کا میدان ہے، چاروں طرف برائیوں کا طوفان ہے اور شیطانی فوج کے حملے ہیں اور آپ کو ان سب کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنا ہے۔ اس جنگ کا سب سے پہلا میدان خود آپ کی اپنی ذات ہے۔
ذاتی اصلاح کی اہمیت
عام طور پر جب کوئی شخص اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہے تو اسے دوچار موٹی موٹی برائیاں نظر آجائیں تو آجائیں ورنہ عام طور پر اس کا نفس اسے یہی اطمینان دلاتا رہتا ہے کہ اس میں کوئی ایسی خاص برائی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنی پڑوسن سے کچھ شکایت ہو لیکن اس کا سبب آپ یہی بتائیں گی یہ برائی تو پڑوسن میں ہے، اس کا اخلاق اچھا نہیں ہے، وہ بڑی مغرور ہے، کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی، اپنے برابر کسی کو نہیں سممجھتی۔ بدتمیز ہے، پھوہڑ ہے اور نہ جانے اس کی کتنی برائیاں ہوں گی جو آپ کو ہر وقت کھٹکتی ہیں لیکن یہ کام بہت مشکل ہے کہ آپ بھی پتہ چلائیں کہ آپ کی اپنی کوتاہیاں کیا کیا ہیں اور آپ نے کس موقع پر اپنی بات چیت اور اپنے اخلاق سے تعلقات کو بگاڑا ہے۔ اسی طرح دوسری ملنے جلنے والیوں کے بہت سے عیب آپ کے سامنے ہوں گے۔ عزیزوں کی بے رخی اور بے مروتی کے بہت سے قصے آپ کو یاد ہوں گے کوئی ذرا چھیڑے تو شوہر کی بد مزاجی اور بے توجہی کی ایک پوری داستان آپ سنادیں گی۔ گھر کی خادمہ کی بد تمیزی سے آپ نالاں ہوں گی، پڑوسی کے بچوں کی شرارتوں نے آپ کا دل دکھا دیا ہوگا لیکن یہ بات مشکل ہی سے آپ کی سمجھ میں آئے گی کہ آپ کی سہیلیوں کو بھی آپ سے کچھ جائز شکایتیں ہیں۔ اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کے دل آپ نے بھی دکھائے ہیں شوہر کو ناخوش کرنے میں آپ کا بھی حصہ ہے۔ گھر کی خادمہ کے ساتھ بھی آپ کا برتاؤ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کے اپنے بچے بھی کم شریر نہیں ہیں۔ غرض یہ کہ یہ بہت ہی کھٹن کام ہے کہ انسان خود اپنی ذات کے بارے میں اچھی طرح اور صحیح صحیح غور کرسکے، اپنے عیوب کو پہچان سکے۔ سب سے پہلے آپ کو یہی مشکل کام انجام دینا ہے۔ اس کام کے لیے آپ روزآنہ کسی وقت اپنے حالات پر اپنی باتوں پر اپنے مشاغل پر گہری نظر ڈالیں اور جہاں تک مکن ہو اپنی کوتاہیوں کو سامنے رکھیں۔ اس مقصد کی خاطر آپ کو اس بات کے لیے بھی کان کھلے رکھنے چاہئیں کہ دوسرے آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اپنی کسی کمزوری کا حال دوسروں کی زبان سے سن کر غصہ نہ کیجیے۔ جواب میں کہنے والی کی کمزوریاں تلاش کرنے میں نہ لگ جائیے۔ ہوسکتا ہے کہ اس عیب بتانے والی کے عیب آپ سے کہیں زیادہ ہوں اور بالکل ظاہر ہوں لیکن آپ اس کے عیبوں میں نہ الجھیے۔ اس نے آپ کے عیب بتاکر جو آپ کی خدمت کی ہے اس سے فائدہ اٹھائیے۔ یہ گھونٹ کچھ کم کڑوا نہیں ہے۔ لیکن مرض کی اصلاح کے لیے کڑوے گھونٹ تو پینے ہی پڑتے ہیں۔ آپ نے اپنی اصلاح کے لیے قدم اٹھایا ہے تو پھر ایسی تمام چیزوں کے لیے تیار رہیے۔
اپنی اصلاح کے لیے اپنے عیبوں پر نظر کرنے اور ان کو دور کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ آپ کو اس بات کا پورا پورا اہتمام کرنا ہوگا کہ آپ جانتے بوجھتے کسی ایسے فرض کو ترک نہ کریں جو اسلام نے آپ کے ذمہ کیا ہے فرائض میں نماز کا درجہ سب سے اونچا ہے، آپ نماز کا اہتمام کریں اور نماز کے بعد دوسرے فرائض کی ادائیگی بھی پوری پابندی کے ساتھ کریں۔
فرائض کی ادائیگی کے بعد کچھ ایسے بڑے بڑے گناہ ہیں جن سے بچنے کی اسلام میں بڑی تاکید کی گئی ہے۔ ان کو بھی نظر میں رکھیے اور ان سے بچنے کا فیصلہ کیجیے۔ غفلت اور نادانی کی وجہ سے اگر خدا نہ کرے کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کیجیے، سچی توبہ جو دل سے ہو۔ اور اس کے بعد آپ اس برائی سے دور رہنے کی انتہائی کوشش کریں۔ کچھ گناہ تو ایسے ہیں جن کا گناہ ہونا سب لوگ جانتے ہیں اور ان سے بچتے بھی رہتے ہیں لیکن بد قسمتی سے کچھ بڑے بڑے گناہ ہمارے اندر اس طرح گھس آئے ہیں کہ ہماری نظر میں ان کی برائی بہت گھٹ گئی ہے۔ ایسے گناہوں میں کچھ گناہ یہ ہیں جھوٹ بولنا (چاہے وہ بڑوں سے بولا جائے یا چھوٹوں سے اور چاہے وہ ہنسی اور دل لگی کے طور پر بولا جائے) پیٹھ پیچھے دوسروں کے عیب بیان کرنا (چاہے وہ سچ مچ ان میں موجود ہی کیوں نہ ہوں) کسی پر تہمت لگانا بغیر کسی معلومات کے کسی کے بارے میں بدگمانی کرنا، دوسروں کی باتوں کی خواہ مخواہ ٹوہ لگانا اور پھر اسے ادھر ادھر کہتے پھرنا، کسی کو نام دھرنا اور ایسی بات کہنا جس سے اس کا دل دکھے۔(جاری)

اپنی اصلاح کے لیے اپنے عیبوں پر نظر کرنے اور ان کو دور کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ آپ کو اس بات کا پورا پورا اہتمام کرنا ہوگا کہ آپ جانتے بوجھتے کسی ایسے فرض کو ترک نہ کریں جو اسلام نے آپ کے ذمہ کیا ہے