شعور و آگہی: مسلم امت، تاریخ کے اہم موڑ پر

پروفیسر احمد سجاد

انسانوں کی عظیم اکثریت جدید تہذیب اور معاشرے کے افکار و نظریات کو پس پشت ڈالنے کے لیے بے تاب نظر آتی ہے۔
—ڈاکٹر الیکسس کیرل ، نوبیل انعام یافتہ
ہماری تہذیب اگر روحانی اعتبار سے ترقی نہیں کرتی تو تنہا مادی ذرائع زیادہ دیر تک اس کی بقا کے ضامن نہیں بن سکتے۔
— امریکی صدر ولسن
یہ محض اقوال نہیں بلکہ تاریخی حقائق ہیں۔اور جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ تاریخ خود کو وقفے وقفے سے دہراتی رہتی ہے۔ چناں چہ از آدم تا ایں دم جب جب حق پر باطل غالب آیا، انسانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے لگتے اور انسانیت دم توڑنے لگتی ہے، ایسے میں قضا و قدر حرکت میں آتی ہے اور یا تو اس ظالم قوم کی انبیا و رسل یا مصلحین و مجتہدین کے ذریعے اصلاح ہوجاتی ہے ورنہ وہ فنا کے گھاٹ اتار دی جاتی ہے۔ آج ہم پھر سارے عالم میں ایک ہمہ گیر قسم کا عذاب مسلط ہوتا دیکھ رہے ہیںاور حضرت موسیٰ ؑ کے عہد کی یاد تازہ ہورہی ہے کہ اس زمانے میں فراعنہ مصر کے قہر و جبر کی کوئی انتہا نہیں رہی تو فرعون کی قوم کبھی سیلاب خون میں ڈوبی تو کبھی مینڈکوں کے ہجوم میں پھنسی اور طرح طرح کے تنبیہی عذابوں کا شکار ہوتی رہی مگر اس کی عادات و آداب میں کوئی بنیادی فرق واقع نہ ہوسکا، تو بالآخر اسے غرقاب نیل کرکے دنیا والوں کے لیے ایک نشان عبرت بنا دیا گیا۔ اسی طرح آج پھر ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سائنس و ٹکنالوجی اور انسانیت کش اسلحہ جات کے بل پر سوپر پاور ہونے کے زعم میں محض کسی خطے یا علاقے نہیں ملک کے ملک تباہ و برباد اور کھنڈر بنائے جارہے ہیں، لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے، معاشی ناکہ بندی کی جارہی ہے، انسانی سرشت اور کائناتی توازن کو بگاڑا جارہا ہے۔ جن کے نتیجے میں انسانی رشتے دھندلا چکے ہیں اور، زہرناک فضا میں انسان کا دم گھٹ رہا ہے(ملاحظہ ہو Eduardo Portar کی مشہور زمانہ تصنیف ’’امریکی زہر‘‘(American Poison )، دنیا کی نصف آبادی صاف اور میٹھے پانی کو ترس رہی ہے۔’’دنیا بھر میں ۴۷ (اب پچاس) کروڑ سے زیادہ لوگ یا تو پوری طرح سے بے روزگار ہیں جو محض جزو وقتی ملازم ہیں۔ ان کروڑوں غریبوں کے لیے بہتر زندگی بسر کرنا محض ایک ڈراؤنا خواب بن کے رہ گیا ہے‘‘۔(بحوالہ ILO کی سالانہ رپورٹ، شائع شدہ اخبارات مورخہ ۲۲؍ جنوری ۲۰۲۰ء)، کسانوں کے بعد اب بے روزگار نوجوانوں نے خود کشی کرنا شروع کردیا ہے۔ خود اپنے ملک میں ہر روز ۳۵ بے روزگار اور نجی روزگار رکھنے والے ۳۶؍افراد خود کشی کررہے ہیں۔ سال ۲۰۱۸ء میں ۱۲۹۳۶ بے روزگاروں اور ۱۳۱۴۹ نجی روزگار والوں نے اپنی ماہانہ آمدنی صفر تک پہنچ جانے کے نتیجے میں خود کشی کرلی۔(بحوالہ ہفتہ وار دعوت مورخہ ۲ تا ۸ جنوری ۲۰ء۔ماخوذ از سرکاری ادارہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو رپورٹ)۔
ان دنوں کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی ہے۔ جانی اعتبار سے اب تک تقریباً ایک لاکھ افراد ہلاک اور ایک کروڑ اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایشیائی و افریقی ملکوں کو تو چھوڑیے امریکہ اور یورپ کے خوشحال ممالک بھی سخت پریشانی بلکہ بحران میں مبتلا ہیں۔ عالمی سطح پر اس وقت جو کساد بازاری ہے اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دنیا کی غریب آبادی کے ۲۵۰۰۰ معصوم بچے روزانہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ہلاکتوں کی یہ شرح امیر اور صنعت یافتہ ملکوں کے مقابلے میں ۲۹ گنا زیادہ ہے۔ اس پر شقی القلبی اور بے رحمی کا یہ حال ہے کہ بیشتر ممالک انسانی ہلاکتوں سے زیادہ اپنی معیشت کے لیے فکر مند ہیں۔ اسی لیے نوبل انعام یافتہ الیکسس کیرل کو ’’انسان نامعلوم‘‘(Man the Unkown )جیسی کتاب لکھنی پڑی اور امریکی صدر ولسن کو اپنی موت سے چند ہفتے قبل انسانوں کے لیے روحانی ترقی کو ضروری قرار دینے کا خیال آیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ اس وحشت ناک صورت حال کو بدلا بھی جا سکتا ہے یا یہ انسانی تباہی و بربادی ازلی و ابدی ہے؟
عہد حاضر کو معلومات سے لبریز معاشرہ(knowledge-based society) کہا جاتا ہے۔ اس لیے تاریخ میں جہاں امن و امان قائم کرنے کی بہت سی کوششیں ناکام ہوئی ہیں وہیں بہت سے ادوار میں بعض کامیابیاں بھی ثبت ہیں۔
پچھلی ہی صدی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو فاشزم، نازی ازم، سوشلزم اور کمیونزم وغیرہ کی خون آشامیاں ظاہر و باہر ہیں۔ ان دنوں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور قومیت کا ڈنکا خوب بجایا جا رہا ہے۔ بعض خوش فہم دانش وروں نے تو اس جہنم زار جنت الحمقا کو ’’تاریخ کے اختتام‘‘ (End of the History ) سے تعبیر کرکے اپنی پیٹھ خوب تھپتھپائی ہے۔
موجودہ مادیت و دہریت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسیحیت کے ابتدائی ادوار میں حضرت عیسیٰؑ اور ان کی تعلیمات پر تو عمل درآمد کرنے سے انسانی تہذیب نے ایک صحت مند موڑ لے لیا مگر جلد ہی اقتدار وقت کے ساتھ ساز باز کرکے معاشرے میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کردیا گیا۔ نئی ایجادات اور نئے خیالات کو بہ جبرکچلنے اور تعیش و قتل و غارت گری کا دور شروع ہوا۔ تہذیب فرنگ میں یہیں سے مذہب بیزاری کا زہر سرایت ہوگیا جس سے کلیسائی تعلیمات اور سائنسی معلومات کے درمیان کئی صدیوں تک آویزش چلتی رہی۔ اس آویزش کے دوران انسانی زندگی کی روحانی حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اس کے جسمانی اور مادی پہلوؤں ہی پر مطالعہ و تحقیق اور فکر و نظر کی کاوشیں آگے بڑھتی رہیں۔یوں اٹھارہویں اور انیسویں صدی تک مادیت، جز پرستی اور دہریت اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئیں۔چناں چہ اس وقت مغربی تہذیب کے عناصر خمسہ جو ساری دنیا پر کسی نہ کسی انداز سے مسلط ہیں ان کے فروغ و ارتقا میں مغرب کے پانچ فلسفیوں (ایمونیول کانٹ م، ۱۸۰۴ء۔چارلس ڈارون م، ۱۸۸۲ء۔کارل مارکس م، ۱۸۸۳ء۔فریڈرک نطشے م، ۱۹۰۰ء اور سگمنڈ فرائیڈ م، ۱۹۳۹ء)کے افکار نے بنیادی رول ادا کیا ہے۔ وہ پانچ عناصر اس طرح بیان کیے جا سکتے ہیں:
الٰہی ہدایات سے استغنا
انسان بنیادی طور پر جانور ہے
حصول قوت بذریعہ چھین جھپٹ اور غلبہ و تسلط
صرف معاش کے لیے تگ و دو
جنسی تلذذ
اس جز پرستانہ فکر ونظر نے دین دھرم ہی نہیں ہر طرح کی اخلاقی قدروں کو مسترد کردیا۔ جس کے نتائج ہم پوری دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔ مرد، مرد سے شادی رچا رہے ہیں اور عورت، عورت سے کیوں کہ ہم جنسی کو قانونی اجازت حاصل ہوچکی ہے۔نئی نسل تاریخ، تہذیب اور ایمان و عمل صالح کی جگہ اب پاپولر کلچر کی عاشق اور جنسی معاملات پر ۵۷ ملین ڈالر کی تجارت کو اور فروغ دینے پر آمادہ ہے۔ ۲۵ فیصد نیٹ سرچ فرائیڈ کے شاگردوں کی ہوتی ہے۔ مادی و معاشی ترقی نے بیشک بڑی ترقی کر لی ہے۔یعنی غذا، لباس، رہائش، تعلیم اور صحت کے وسائل کی اس قدر بہتات ہوچکی ہے کہ موجودہ آبادی کی سات گنا آبادی کے لیے کافی ہے مگر زمینی حقیقت کیا ہے اس کی چند جھلکیاں پچھلے اوراق میں پیش کی جا چکی ہیں۔ حیات و کائنات کا کوئی گوشہ نہیں جس کو جدید جاہلیت نے زہر آلود نہ کیا ہو۔ ملکوں کے ملک تباہ و برباد اور کھنڈر بنا دیے گئے ہیں۔ جدید سرمایہ دارانہ جمہوریت کا سب سے نام نہاد نمونہ امریکہ سمجھا جاتا ہے جو گلوبلائزیشن کے ذریعے دنیا بھر میں امیروں کو امیر تر اور غریبوں کو غریب تر بنا رہا ہے۔ چند سو رضاکار تنظیموں (NGOs ) اور چند سو سوپر عالمی مالداروں نے دنیا کو ’مادی توہم پرستی‘ میں مبتلا کرکے انسانیت کو غربت، جہالت اور ظلم و جبر کے سمندر میں غرق کردیا ہے۔
لہذا مناسب وقت آگیا ہے کہ موجودہ عالم انسانی کوذات پات، رنگ، نسل اور غربت و امارت سے زہر آلود فضا سے محفوظ کرنے کے لیے ایک نئی اور خوش گوارتبدیلی برپا کی جائے۔ اور دیکھا جائے کہ پچھلی صدی کے مختلف ازموں سے ہوتے ہوئے سرمایہ دارانہ جمہوریت تک دنیا بھر میں جو آگ لگی ہوئی ہے اسے بجھانے میں ’اسلام‘ کہاں تک ممد و معاون ہوسکتا ہے۔ اسلامی نظریۂ حیات کی رو سے من مانے نظریات اور فکر و فلسفہ کی بنیاد پر معاشرہ میں کلی تبدیلی لانا ناممکن ہے۔ انسان کو خدا نے جب پیدا کیا ہے تو اس کے زندہ رہنے کے لیے جہاں ہوا، پانی، کھانے پینے، رہنے سہنے، علم و صحت کے وسائل مہیا کیے ہیں اور جانوروں سے مختلف اشرف المخلوقات بنایا ہے وہیں لازماً اس رب کائنات نے زندگی بسر کرنے کا اصول بھی مہیا کیا ہے، اور یہ کام اس نے انسان اول آدمؑ سے لے کر نبی آخر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کا سلسلہ دراز رکھا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مختلف پیغمبروں اور نبیوں ہی کے دور میں انسان نے دنیا کو خوشگوارتبدیلی سے آشناکیا ہے۔لیکن وقت کے ساتھ ان انبیائی تعلیمات کو فراموش یا اسے گدلا کردیا گیا۔جس کے نتیجے میں خداوند قدوس نے سرزمین عرب پر ایک آخری رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شکل میں مبعوث فرمایا جن کی پوری زندگی بلکہ ان کی پیدائش سے پہلے کے حالات و واقعات سے لے کر ان کی وفات اور اس کے بعد کے حالات معتبر اور محفوظ انداز میں مفصل تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کی اساس قرآن پاک کا ایک ایک لفظ پندرہ سو برس سے آج تک کسی رد وبدل کے بغیر محفوظ و مامون ہے۔ اسی قرآن اور اس کے داعی رسول اللہ ﷺ کے اسوہ پر چالیس سال تک جو آئیڈیل نمونہ زندگی ان کے پیرو کار خلفائے راشدین نے پیش کیا وہ انسانی تاریخ کا ایک اہم ترین عملی انقلاب ہے۔ اسلام دیگر مذاہب کی طرح کچھ پوجا پاٹ، رسمیات یا چند گیان دھیان کا کوئی ملغوبہ نہیں بلکہ ایک دین اور مکمل نظام حیات ہے۔ جہاں اقلیت و اکثریت کی تفریق یا رنگ و نسل کے بھید بھاؤ کی گنجائش نہیں۔ جس نے توحید، رسالت اور آخرت کے بنیادی عقیدہ پر ایمان و عمل صالح کا ایسا نظام مرتب کیا کہ مختلف نشیب و فراز کے ساتھ اس نے ایک ہزار سال تک انسانی دنیا کو حقیقی تکریم انسانیت، خوشحالی، مساوات، عدل و احسان، علوم و فنون اور اخلاقی اقدار سے مالامال کیا اور دنیا بھر میں سوپر پاور رہا۔

اسلام نے تمام آسمانی کتابوں، انبیا و رسل اور مذاہب کی تکریم کی اور ہر مذہب و ملت کو آزادی، امن و امان اور عدل و احسان سے ہم کنار کیا۔ جس کے نتیجے میں کالے گورے، اشراف و اجلاف اور اونچ نیچ کا خاتمہ ہوا۔یہاں تک کہ رسول اکرم ﷺکی وفات کے کچھ ہی عرصہ کے بعد اسلامی مملکت کے انتظام و انصرام میں غیر قریشی عجمی اور آزاد کردہ مسلم غلام بھی شریک ہوگئے۔
اسلامی عقیدے نے خدا، انسان اور کائنات کے علاوہ مادیت و روحانیت کے درمیان حقیقی توازن کو برقرار رکھا اور انسانی رشتوں کی تینوں صورتوں کو مسخ نہیں ہونے دیا۔ یعنی مرد کا مرد سے تعلق، مرد کا عورت سے اور فرد کا اپنے نفس سے۔ان رشتوں کی بنیادیں قرآن و سنت میں موجود ہیں جن پر ڈیڑھ ہزار برس سے آج تک کبھی کلی طور پر اور کبھی جزوی طور پر حالات کی مناسبت سے عملدرآمد جاری ہے۔ اسلام انسانی اور کائناتی زندگی کو ایک کل سمجھتا ہے۔ جس میں دنیا اور آخرت الگ الگ نہیں ایک کلی حقیقت کے دو اجزا ہیں اور دنیا ہی سے آخرت کی کامیابی کا راستہ نکلنا ہے۔
یہ دنیا جو ہے مزرع آخرت   برائی میں اس کو کرو ضائع مت
آخری الہامی مذہب ہونے کے باوجود اس کی تعلیم یہ ہے کہ دین دھرم میں زور زبردستی نہیں (البقرہ ۲۵۶) اور یہ کہ دوسرے مذاہب بھی ہر مسلمان کے لیے قابل احترام ہیں۔ (البقرہ ۲۸۵) اور یہ کہ کسی بے گناہ کا قتل اسلام میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ قرآن کا پیغام یہ ہے کہ کسی بھی ایک بے قصور انسان کا قتل، سارے انسانوں کے قتل کرنے کے برابر ہے، اور اسی طرح کسی ایک جان کو بچا لینا، پوری انسانی زندگی کو بچا لینا ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں بعض اہم اسلامی تعلیمات سے بھی اس دین کی ہمہ گیری و ہمہ جہتی کا اندازہ کرنا مشکل نہ ہوگا:
٭لوگو! آپس میں بدگمانی نہ کرو، ایک کے خلاف دوسرے کو نہ اکساؤ، آپس کے حسد و بغض سے بچو، اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کے رہو۔(حدیث)
٭وہ شخص مومن نہیں جس کا پڑوسی اس کے ظلم اور دست درازی سے محفوظ نہ ہو(حدیث)
٭تمہاری دوستی اور دشمنی خد ا کی خاطر ہونی چاہیے۔(حدیث)
٭بے انصافی(غیر حق) میں اپنی قوم کی مدد کرنا ایسا ہے جیسے تمہارا اونٹ کنویں میں گرتا ہو تو تم بھی اس کی دم پکڑ کر اس کے ساتھ جاگرو۔(حدیث)
٭اللہ کے علاوہ جن معبودوں کو لوگ پکارتے ہیں انھیں ہرگز برا نہ کہو۔(قرآن)
٭دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔(حدیث)
٭تمہارا کام نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا ہے۔(قرآن)
اسلامی تاریخ اور فکر وعمل ہی میں نہیں شعر و ادب میں بھی یہ تعلیمات پیوست ہیں:
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیئے گا ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
ان تعلیمات نے جب صدیوں تک عملی جامہ پہنا تو اس کے زیر اثر ایک ایسی عالمی تہذیب و ثقافت کا ظہور ہوا جس کے اثرات آج بھی موثر اور نمایاں ہیں۔
اس لیے مشہور مستشرق غوستوف لوبون کے بقول:
’’مسلمانوں کو جو عظیم اور جدید چیزیں نصیب ہوئیں وہ کسی دوسری قوم کے حصے میں نہیں آئیں اس لیے اسلامی ثقافت تیزی سے ساری دنیا میں پھیل گئی۔ چناں چہ طبقاتی حدود سے بالاتر ہوکر ایک عالمی ثقافت بن کے آج تک دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔
اور بقول ڈاکٹر مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی
اسلامی ثقافت میں دوام ہے اس تحریک نے ایسی وسعت اختیار کی کہ ہر ایک کو اپنے دامن میں سمیٹ لے۔ اس کا منبع ایک ہے مگر فروعات بہت ہیں۔
اس میں آریائی فکر، سامی دانشمندی، عربی ذہن کی زیرکی و صفائی، ہندی و فارسی حکمت و تدبیر کا حسین مرقع ہے۔ جس کے اجزائے ترکیبی میں ایمان وعمل، علم وفن اور صناعت اہم قرار پائے۔ ساتھ ہی عنصریت، گروہی و جماعتی فکر اور مادیت سے خالی رہی۔ دوسروں کو مٹانے کے بجائے اس کے صالح عناصر کے تحفظ و ارتقا اور اخذ و استفادے کا ماحول بنایا اور ان میں حدت ووسعت پیدا کی۔ (بحوالہ ندائے اعتدال، جنوری ۱۲ء)
قرآن و سنت کے ساتھ اصحاب رسولؓ اسلامی ثقافت کے اصل قالب و مصدر ہیں۔ انھیں کی روشنی سے دیگر علوم و معارف وجود میں آئے، بالخصوص شاعری، بنیادی فنون اور تعمیرات میں ندرت و جدت پیدا کی۔جس نے حکومت و سیاست کو مستحکم بنیادیں فراہم کیں۔ ان معروضات کی اگر تلخیص کی جائے تو ذیل کے قابل غور نکات اہم ترین ہیں:
اسلام نے رنگ ونسل کے اختلاف میں اخوت اسلامی کو اہمیت دی
جسمانی کے ساتھ روحانی تزکیہ و اصلاح اور دنیا و آخرت کی خیر کو ترجیح دی
فرد کے ساتھ جماعت کے حقوق کی پاسداری کی
تعصب سے پاک تمام ادیان و عقاید کا احترام، فرد کی کرامت، شریعت اور عزت کی حفاظت کی، ماحول اور زمانے کے اختلاف و تبدیلی میں بھی اخلاقی اصولوں کو مقدم رکھا۔
پوری انسانیت کے اتحاد ووحدت کو برقرار رکھنے کی سعی کی، رنگ و جنس اور طبقاتی فرق کو نظر انداز کیا۔
علم و معرفت میں وسعت پذیری، تدبر و تفکر، تحصیل علم، تعمیری کوششوں اور انسانیت کی خدمت کو بہت سی عبادتوں سے افضل قرار دیا، عہد رسول ﷺہی سے علمی تحریک کا وجود ثابت ہے۔ اس کے زیر اثر جو حکومت(خلافت) وجود میں آئی جو عالمی تہذیب کی نمائندہ معلوم ہوتی تھی، جس سے مشرق و مغرب نے علم سیاست نیز معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں بھی اخذ و استفادہ کیا۔
چناں چہ نامور مستشرق ڈوئچ (Deutseh )قرآنی معجزے کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
’’قرآن ہی وہ کتاب ہے جس کی مدد سے عربوں نے اسکندر اعظم کی فتوحات سے بھی زیادہ وسیع فتوحات کیں۔ اور روم کی سلطنت سے بھی بڑی سلطنت قائم کی اور وہ بھی اس مدت کے دسویں حصے میں جو روم نے اپنی فتوحات مکمل کرنے میں صرف کی۔ قرآن ہی کے فیض سے انھیں یہ شرف حاصل ہوا کہ وہ تمام سامی اقوام میں پہلے لوگ تھے جو یورپ میں حکم راں بن کر داخل ہوئے، جہاں فنیقی تاجر بن کر آئے تھے اور یہودی پناہ گیر یا قیدی بن کر۔ یہ قرآن ہی کی برکت تھی کہ انھوں نے ایسے وقت میں جب چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی، یونان کے علم و حکمت کو دوبارہ زندہ کیا۔ مغرب کو فلسفہ، طب، فلکیات، ریاضی کا زریں فن سکھایا۔ جیسے انھوں نے یہ چیزیں مشرق کو سکھائی تھیں۔ تہذیب کے گہوارے کی نگہبانی کی اور پھر بعد میں آنے والوں سے اس دن کو یاد کرایا جب ان کے قبضے سے غرناطہ نکل گیا‘‘۔(بحوالہ اردو ماہنامہ سائنس۔جنوری ۲۰۱۰ء)
گرچہ تو می خواہی مسلماں زیستن   نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن (اقبال)
یہیں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کے فرق کو دو اور دو چار کی طرح واضح کردیا جائے۔کیوں کہ ایک امریکی دانش ور کے کھوکھلے دعوے کے مطابق سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی End of History ہے۔ جب کہ آج کے عالمی فتنہ و فساد، قتل و غارت گری اور عذاب الٰہی کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ (نیچے دیا گیا جدول ملاحظہ فرمائیں۔ )
اسلامی نظام حیات کا ایک معجزہ یہ ہے کہ جب قرآن پاک نے تمام انسانوں کو آدم و حوا کی اولاد بتا کر سب کو برابر اور ہم رتبہ قرار دیا اور رسول کریمﷺ نے حجتہ الوداع میں کالے گورے، عربی عجمی اور امیر و غریب کے فرق و امتیاز کے جاہلی طور طریقوں کی یکسر نفی کردی تو عام زندگی میں جب غلامی کا سخت رواج تھا اور کھلے بازار میں انسانوں کی خرید و فروخت عام تھی، خود رسول کریمﷺ نے ایک غلام زادے کو اپنے بیٹے کی طرح پالا پوسا کیوں کہ اسلام نے بڑے چھوٹے کا معیار صرف تقویٰ اور پاک بازی کو قرار دیا ہے۔ آپ کے نقش قدم پر چل کر صحابہ کرامؓ نے بھی اس انسانی مساوات و اخوت اور مروت کو اس قدر عام کر دیا کہ جب خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہونے سے اسلامی سیاست قدرے مسخ ہوچکی تھی تب بھی مسلم امرا و وزرا اور سلاطین نے غلاموں کو حصول علم و اقتدار کے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے میں ذرہ برابر رکاوٹ نہیں ڈالی۔ نہ کبھی ان کو ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھا۔ جیسا کہ رومیوں کے زمانے سے لے کر آج تک دنیا بھر میں ان کے ساتھ ظلم وستم، ہجومی قتل(لنچنگ) و غارتگری کا سلسلہ جاری ہے۔ اسلامی معاشرے میں غلاموں کو برابر کا درجہ دینے کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ دینی اور دنیوی ترقی کے بلند سے بلند مرتبے پر پہنچے۔ چناں چہ عالم انسانی کی تاریخ میں یہ عجوبہ واقعہ تسلسل کے ساتھ دیکھنے میں آیا کہ غلام نسل کے بادشاہوں نے مصر وشام اور ہندوستان میں کئی سو سال تک حکم رانی کی۔

سرمایہ دارانہ نظام
۱۔ صارف
۲۔ اشیا کا صارف
۳۔ اشیا کا عرفان
۴۔اسراف بلکہ اسراف بیجا
۵۔ شیاطین اور اشیا سے محبت
۶۔ لالچ اور حرص کی تاریخی نظام بندی، تحرک (motivation )، میڈیا اور اشتہار بازی
۷۔میخانہ
۸۔سود اور غبن
۹۔بازار پوری کائنات
۱۰۔ گھروں میں بھی شاپنگ سنٹر، ضرورتوں میں کھو جانا
۱۱۔ غرور و تمکنت
۱۲۔ کوتاہی نظر اسلامی نظام
۱۔عارف
۲۔عارف باللہ
۳۔خدا کا عرفان
۴۔ اعتدال
۵۔خود کو خالی کرنے کی نفسیات
۶۔ دل کو ذہن کو گھر کو خالی کرنے کی نفسیات
۷۔مسجد
۸۔زکوٰۃ و صدقات
۹۔دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے الگ گوشہ عبادت
۱۰۔ذکر وفکر اور تسبیح و تہلیل سے برکت و سکینت کا حصول
۱۱۔ خاکساری و انکساری
۱۲۔ عرفان نظر

فاضل مصنف تاریخ المنوال نے معتبر محققین و مورخین کے حوالے سے ایسے مسلمان غلاموں کا حال بھی درج کیا ہے جو اسلامی تاریخ میں اہم موجد اور صانع گزرے ہیں۔ مثلاً ابن سلام، خفیف، علی بن احمد المہندس، جابر بن سنان الحرانی، ابن قرہ سنان بن جابر، فراس بن حسن، حامد بن علی اور ابن بخیہ جن کے نام علامہ ابن الندیم نے بھی پیش کیے ہیں’’یہ سب مختلف مسلمان خاندانوں کے موروثی غلام تھے‘‘۔(کتاب التمدن حصہ اول، ص ۲۲۔بحوالہ تاریخ المنوال)
ذیل میں ایک دل چسپ اور چشم کشا مکالمہ پیش کیا جا رہا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تکریم انسانیت اور آج کی اصطلاح میں انسانی حقوق(Human Rights ) کی پاسداری ہر عہد میں مسلمانوں نے کی ہے اس کی کوئی مثال پوری انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے:
علامہ ابن الصلاح محدث نے، جن کی مشہور کتاب ’’مقدمہ ابن صلاح‘‘ اصول حدیث میں بڑی معتبر مانی جاتی ہے۔امام زہری اور بادشاہ وقت عبدالملک کا ایک مکالمہ با سند نقل کیا ہے جس کو ہم یہاں ناظرین کی دل چسپی کے لیے درج ذیل کرتے ہیں:
امام زہری کہتے ہیں کہ میں عبدالملک بن مروان کے پاس پہونچا تو اس نے مجھ سے پوچھا ’’زہری تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘
زہری: مکہ سے
عبدالملک:تم نے وہاں کس کو سردار و پیشوا چھوڑا؟
زہری: عطا بن رباح کو
عبدالملک: عطا بن رباح عرب ہے یا غلام(عجمی)؟
زہری: عطا غلاموں سے ہے
عبدالملک: عطا غلام ہوکر سردار و پیشوا کیونکر ہوگیا؟
زہری: ’بالدیانۃ والروایۃ‘دینداری اور حدیثوں کی روایت کی وجہ سے
عبدالملک: بلاشبہ اہل دین و اہل روایت ضرور سرداری کے لائق ہیں۔
عبدالملک: یمن کا سردار کون ہے؟
زہری: طاؤس بن کیسان ہیں
عبدالملک: عرب ہیں یا غلام(عجمی)؟
زہری: عجمی غلام
عبدالملک: پھر غلام سردار و پیشوا مسلمانوں کا کیونکر ہوگیا؟
زہری: جس وجہ سے عطا بن ابی رباح سردار و پیشوا ہوئے
عبدالملک: ضرور ایسا ہی مناسب ہے
عبدالملک: زہری! مصر والوں کا سردار و پیشوا کون ہے؟
زہری: یزید بن حبیب
عبدالملک: یزید بن حبیب عرب ہے یا غلام عجمی؟
زہری: غلام ہیں
عبدالملک: اور شام والوں کا سردار و پیشوا کون ہے؟
زہری: مکحول ہیں
عبدالملک: غلام ہیں یا عرب؟
زہری: غلام ہیں۔ نوبی قوم سے قبیلہ ہزیل کی ایک عورت نے انھیں آزاد کیا تھا۔
عبدالملک: اہل جزیرہ کی سرداری کس کے سر ہے؟
زہری: میمون بن مہران کے۔
عبدالملک: میمون غلام ہے یا عرب؟
زہری: غلام ہیں
عبدالملک: خراسان والوں کا سردار کون ہے؟
زہری: ضحاک
عبدالملک: ضحاک عرب ہیں یا غلام؟
زہری: غلام ہیں
عبدالملک: اہل بصرہ کا سردار و پیشوا کون ہے؟
زہری: حسن بن ابی الحسن ہیں
عبدالملک: غلام ہیں یا عرب؟
زہری: غلام ہیں
عبدالملک: کوفہ کی سرداری کس کے سر ہے؟
زہری: ابراہیم نخعی کے
عبدالملک: عرب ہیں یا غلام؟
زہری: عرب ہیں
عبدالملک: بھلا ہو تمھارا اے زہری تم نے میرے دل سے بوجھ دور کردیا، خدا کی قسم عرب کی سرداری کا سہرا غلاموں کے سر ررہے گا اور غلام لوگ عرب کے پیشوا اور سردار بن جائیں گے۔ یہاں تک کہ انھی کے خطبے منبروں پر پڑھے جائیں گے اور عرب اس کے نیچے ہوں گے۔
زہری: ہاں اے امیر المومنین یہ تو اللہ کا امر اور اس کا دین ہے جو اس کی حفاظت کرے گا سردار و پیشوا ہوگا اور جو اسے ضائع کرے گا گر جائے گا۔
اس دل چسپ مکالمے سے موٹی عقل والا آدمی بھی اندازہ کرسکتا ہے کہ تاریخ کے بہترین دور میں مسلمانوں نے اس قانون مساوات و قانونی فضیلت کو کس کس طرح برت کر دکھایا اور اس کی بدولت مسلمانوں نے کیسی ترقی کی۔ اس کے بدولت جوق کے جوق لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ اس زمانہ کی طرح یہ عذر نہ تھا کہ صاحب ہم لڑکے لڑکیوں کو کس طرح بیاہیں گے۔ مسلمان ہمارے بچوں کو نیچی نگاہ سے دیکھیں گے۔ہمیں لڑکی کون دے گا۔ ہم تو غیر کفو میں شمار ہوں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت اسلامیہ دعوت حق کو عصری تقاضوں کے پیش نظر قولی و عملی انداز میں دنیا کے سامنے بلا جھجک پیش کرے۔ اپنے ملک اور دنیا کے مظلوموں، مقہوروں اور دبے کچلے عوام کو خود سے قریب کرے، ان کی خودی کی تربیت کرے اور انھیں سر اٹھا کے چلنے کے لائق بنائے۔■