مسجد آیا صوفیہ کی بحالی ،عہد نو کی نوید
پروفیسرایاز احمد اصلاحی، لکھنو
مغربی دنیا، اقوام متحدہ اور خود بعض عرب اور مسلم حکمرانوں اور ترک سیاسی رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود رجب طیب اردگان نے آخر جمعہ (10 جولائی 2020) کی مبارک ساعتوں میں ترکی کی تاریخی مسجد آیا صوفیہ کو ایک بار پھر میوزیم سے مسجد میں تبدیل کردیا۔ اردگان حکومت کا یہ اقدام ملکی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق ہے جس نے کمال اتا ترک دور کے ایک حکم نامہ کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کردیا کہ اس میں سینکڑوں سال قدیم مسجد کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا حکم قانون کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی اس میں متعلقہ فیصلے کی کوئی معقول توجیہ پیش کی گئی ہے۔
اس عدالتی فیصلے نے بعض تاریخی دستاویزات کا بھی حوالہ دیا ہے کہ آیا صوفیہ بنیادی طورپر فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح ٹرسٹ کی ملکیت ہے جسے باقاعدہ ایک وصیت نامہ کے تحت مسجد کی صورت میں خدمت عامہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ آیا صوفیہ ٹرسٹ کی اس دستاویز میں وضاحت کے ساتھ یہ بھی درج ہے کہ آیا صوفیہ کو "مسجد کے علاوہ کسی اور مقصدکے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا”۔
استنبول میں قائم یہ عمارت چھٹی صدی عیسوی میں بازنطینی عیسائی بادشاہ جسٹنیئن اول کے دور میں تعمیر کی گئی تھی اور تقریباً 1000 سال تک یہ دنیا کے سب سے بڑے گرجا گھر کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔
1453ء میں سلطان محمد فاتح نےاستنبول(قسطنطنیہ) فتح کیا تو یہ عثمانی خلافت کے اختیار میں آگئی۔ آیا صوفیہ کا علاقہ جنگ اور محاصرے کے دوران پہلے ہی ویران ہوچکا تھا، فتح سے پہلے اور اس کے بعد بیشتر مقامی عیسائی شہر چھوڑ کر چلے گئے، اس طرح پورا قسطنطنیہ عثمانی خلافت کا حصہ بن گیا اور سلطنتِ عثمانیہ نے مسجد آیا صوفیہ کو، جو بازنطینی حکمرانوں کا ایک فوجی و سیاسی مرکز بھی تھا، ایک مسجد میں تبدیل کردیا، اور پھر اس کے بعد یہ تقریباً پونے پانچ سو سال تک مسجد کی حیثیت میں برقرار رہی، تاہم نومبر 1934ء میں جدید ترکی کے بانی مصطفٰی کمال اتاترک کے دور حکومت میں ترکی کے سیکولر رنگ کو مزید پختہ کرنے کے لیے اسے ایک میوزیم میں بدل دیا گیا۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں اس میں عثمانی طرز تعمیر کے مطابق شاندار تعمیرات کا اضافہ کیا گیا جس میں اس کے موجودہ چار مینار بھی شامل ہیں۔ فتح کے بعد سب سے پہلے اس کے ان حصوں کہ مرمت کی گئی جو جنگ کے دوران منہدم ہوگئے تھے، اور تجدید کے بعد اس کا استعمال باقاعدہ ایک مسجد کے طور پر ہونے لگا۔
خاکسار نے 2018 میں فلسطین پر ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے سفر ترکی کے دوران اس کے ایک ایک گوشے گوشے کا بڑے شوق سے بار بار مشاہدہ کیا، اور اس کے بارے میں جیسا سنا اور پڑھا تھا اسے ویسا ہی پایا۔ ایک طرف اس عمارت کے افسانوی ماحول اور اس کے نادر طرز تعمیر سے راقم حیرت زدہ رہ گیا۔ وہیں دوسری طرف اس میں موجود اسلامی نقش و نگار اور مسجد کے محراب و منبر نے بھی دل و دماغ کو مسحور کردیا اور عثمانیوں کی بے مثال جرأت و عزیمت اور اپنے وقت کی سب سے بڑی مملکت کے حکمراں عثمانی خلفاء کی عظمت کو دل نے بے اختیار سلام کیا۔
اس کے عظیم خوبصوت گنبد کے تعلق سے شاید سب سے عمدہ الفاظ قد آور مورخ پروکوپیس کے ہیں جو کہتا ہے: ” یہ ایسا لگتا نہیں کہ تعمیراتی کاریگری کا کمال ہو بلکہ جیسے یہ (گنبد ایک فانوس کی طرح) آسمان سے معلق کیا گیا ہو”۔
لیکن سقوط خلافت کے بعد کمال اتاترک نے منحوس عرب قوم پرستی کے شدید رد عمل میں ترکی سے یکے بعد دیگرے اسلامی و عربی علامتیں مٹانی شروع کیں تو مسجد ایا صوفیہ کو بھی اس نے عجائب گھر میں تبدیل کردیا۔ افسوس کہ آیا صوفیہ کو مسجد سے میوزیم اور مدتوں تک ترکی کو "غیر مسلم و غیر عرب” بنانے میں عرب قوم پرستی کا جو منفی تاریخی کردار ہے وہ دور دور تک ان تجزیوں میں کہیں نظر نہیں آتا جو اس عمارت کے تعلق سے ترکی کے موجودہ فیصلے پر اس وقت کیے جارہے ہیں۔ محض "سیکولر مصطفی کمال” یا "اسلام دشمن مصطفی کمال” جیسے الفاظ سے تاریخ کے وہ حقائق نہیں بیان کیے جا سکتے جن کی وجہ سے جنگ عظیم کے دوران خلافت کی قبا چاک ہوئی اور عالم عرب میں جگہ جگہ دشمن کے وہ مسلم نما عرب ایجنٹ انگلینڈ اور فرانس کی شہ پر ترکی کی پشت میں چھرے گھونپتے رہے جو خلافت کی لاش پر اپنی شاہی کی بنیاد رکھنے کے لیے بے چین تھے، اور ایسا کرتے ہوئے وہ یہ قطعا بھول گئے تھے کہ یہ وہی ترکی ہے جو ان کی عزت و وقار کا صدیوں تک ایک بے خوف سپاہی کی طرح محافظ بنا رہا۔ تاریخ نے یہ ثابت کردیا کہ لارنس آف عربیہ کی قیادت میں جس طرح انھوں نے اس عثمانی خلافت کے خلاف بغاوت کا بگل بجایا تھا اور اپنی ہی زمین پر بنی دشمن کی کمیں گاہوں میں بیٹھ کر ترکمان وفا کیش کے بہادر سپاہیوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے میں ان کی مدد کی تھی، وہ ان کی ایک مہلک غلطی تھی، جس کا خمیازہ عالم اسلام، خصوصا عالم عرب آج بھی بھگت رہا ہے اور اس کے اثرات آج بھی عالم اسلام پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
اب جب کہ 2020 میں ترکی کی قومی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت اس کی مسجد کی حیثیت دوبارہ بحال کردی گئی ہے تو بد قسمتی سے بعض ایسے دشمن نواز مسلم و عرب حکام و قائدین بھی اس کی مخالفت پر اتر آئے ہیں جن کا نہ عالم انسانی کی صورت گری میں کوئی کردار ہے اور نہ عالم اسلام کے احیاء میں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ اسی پرانے نام نہاد عرب قوم پرستوں کے سیاہ وجود پر لگے نئے چہرے ہیں جو مغربی و صہیونی دنیا کے جدید لارنس آف عربیہ کے سکھائے ہوئے عرب قوم پرستی کے پر فریب سبق سے مسحور ہیں،اور اس کے زیر اثر وہ ایک طرف اپنی دشمن نواز حرکتوں سے مسلم اتحاد و اخوت پر کاری ضرب لگا رہے ہیں، تو دوسری طرف اپنی معلوم و غیر معلوم سرگرمیوں سے اسلاموفوبیا کے مغربی سوداگروں کے کاز کو بھر پور فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
ترکی کے اس فیصلے کے نتیجے میں عالم انسانی کی جبیں پر خوشی و غم، اطمینان و عدم اطمینان اور اختلاف و اتفاق کے بہت سے نقوش ابھرے اور طرح طرح کے رد عمل دیکھنے کو ملے جس کا تجزیہ بہت دنوں تک کیا جاتا رہے گا۔ لیکن اس واقعے سے جڑے دو پہلووں نے مجھے سب سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کیا ہے جن کا ذکر یہاں ضروری ہے۔
آیا صوفیہ کی بحالی سے جڑے جن دو پہلووں نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ان میں سے (1) ایک تو یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد ترکی کے حق میں یا اس کے خلاف، عالمی سطح پر جو رد عمل سامنے آیا وہ اس بات کا غماز ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے انجام سے صدیوں تک تقریبا آدھی دنیا پر براہ راست یا بالواسطہ اپنا اقتدار قائم رکھنے والی عثمانی سلطنت بھلے ختم ہو گئی ہو لیکن ایک آزاد قوم کے طور پر ترکی آج بھی دنیا کے نمایاں ممالک میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے، وہ اپنے سیاسی و معاشی فیصلوں میں ویسے ہی آزاد ہے جس طرح مغرب کا کوئی بڑے سے بڑا ملک۔ اور اس سلسلے میں فی الحال کوئی دوسرا مسلم ملک اس کا ہم سر نہیں ہے( 2) دوسرے مسجد آیا صوفیہ کی بحالی کے بعد ترک حکمراں صدر اردگان نے مسجد اقصی کے تعلق سے جو بیان دیا ہے اور اشارے اشارے میں دونوں تاریخی مساجد میں جس تاریخی رشتہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ دنیا پر یورپ و امریکہ کے تسلط کے موجودہ ماحول میں معمولی بات نہیں ہے، بلکہ یہ کہنے کےلیے شیر کا جگر اور ایک مومن کا غیور و خود آگاہ کردار چاہیے۔
یاد رہے جب آیا صوفیہ کی حیرت انگیز عمارت بن کر تیار ہوئی تھی تو اسے دیکھ کر اس وقت کے بازنطینی بادشاہ جسٹینین اول نے فخریہ طور سے کہا تھا "Solomon, I have outdone thee” ( سلیمان میں نے آپ کو پیچھے چھوڑ دیا)۔ اس اشارے سے اس کا مقصد یہ تھا کہ حضرت سلیمان نے مسجد اقصی تعمیر کی تھی اور میں نے دنیا کا سب سے بڑا کلیسا بنوایا ہے جو اس سے زیادہ شاندار ہے۔ اپنے اس جملے سے اس نے نہ صرف اس عمارت کا موازنہ فلسطین میں واقع بیت المقدس سے کر کے آیا صوفیہ کی برتری ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی بلکہ یہ اس کی طرف سے غیر شعوری طور پر ان دونوں عمارتوں کے درمیان ایک توحیدی نظریہ کا حامل تہذیبی رشتہ استوار کرنے کی طرف پہلا قدم تھا ۔ آج جب یہ عمارت ایک بار پھر توحید خالص پر مبنی دین کے ایک اہم حکم کی بجا آوری کے لیے کھول دی گئی ہے تو قسطنطنیہ کے موجودہ موحد حکمراں نے اس موقع کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کر کے مسجد اقصی کے ساتھ اس عمارت کے تاریخی و دینی رشتے کو ایک بار پھر پوری دنیا کو یاد دلایا ہے، اور۔اس موقع پر اس نے بہت واضح انداز میں آیا صوفیہ کی طرح مسجد اقصی کو بھی آزاد و واگذار کرانے کا عہد کیا ہے۔ تاریخ کے رجسٹر میں اس کا یہ قول آج جلی حروف میں درج ہوچکا ہے: "آیا صوفیہ کی بحالی مسجد اقصیٰ کی بحالی و آزادی کی طرف پہلا قدم ہے۔”
جسٹینین نے تومسجد اقصی سے آیا صوفیہ کا سلسلہ بس ایک فخریہ جملے سے غیر شعوری طور پر جوڑا تھا لیکن صدر اردگان نے ان دو مساجد میں جو رشتہ شعوری طور پر جوڑا ہے وہ سطحی اور سرسری نہیں ہے بلکہ یہ دینی، تاریخی اور اخلاقی بنیادوں میں گہرائی تک پیوست ہے، اس رشتے کی بنا صرف تہذیب و ثقافت نہیں بلکہ دین و اخوت بھی ہے، یہ رشتہ فرض کا بھی رشتہ ہے اور انسانی درد کا بھی، یہ رشتہ مودت کا بھی ہے اور اپنے مظلوم بھائیوں کی حمایت و نصرت کا بھی۔ اس رشتہ کے تاریخی سلسلوں کو زیادہ باریکی سے وہی شخص جان سکتا ہے جسے یہ یاد ہو کہ انگریزوں کے تسلط سے پہلے فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک اہم حصہ تھا، اور اس وقت کے ڈاک ٹکٹ ، سکوں اور دیگر دستاویزات پر آج بھی اسٹیٹ آف فلسطین کے ساتھ سلطنت عثمانیہ لکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت کو نظر میں رکھ کر شاید یہ کہنا بے محل نہ ہو کہ: جسٹینن تمھاری عمارت کو خدائے واحد کی عبادت کے لیے بحال کرکے اکیسویں صدی کے ایک موحد نے تمھیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر جنگ عظیم کے وقت عرب دنیا قوم پرستی کے نشے میں نوشتہ دیوار کونظر انداز کرنے کی غلطی نہ کرتی اور ترکی کے شانہ بشانہ برادرانہ روح کے ساتھ کھڑی ہوتی تو نہ تو فلسطین میں برطانیہ کا تسلط ہوتا اور نہ وہاں اسرائیل نام کی کوئی صہیونی ریاست بننے میں کامیاب ہو پاتی۔اردگان نے اپنے اس تاریخی جملے سے دنیا کو اسی اہم تاریخ کی طرف متوجہ کیا ہے، اور عالم اسلام کو یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ القدس کی واگذاری کے لیے کوئی مظلوم فسلطینیوں کے ساتھ کھڑا ہو یا نہ کھڑا ہو لیکن ترکی اسے اپنا تاریخی و دینی فریضہ سمجھ کر ضرور کھڑا ہوگا۔ مگر افسوس اس بات پر ہے کہ اگر اسرائیل اردگان کے اس اعلان سے بوکھلائے تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے، لیکن کوئی مسلمان اردگان کے اس قول کی مخالفت یا اس پر اپنے تحفظ کا اظہار کرے تو اس پر افسوس کے سوا کیا کیا جا سکتا یے۔ ایک مسلمان کیسے یہ بھول سکتا ہے کہ اس پر بحیثیت مسلمان اسلام کے قبلہ اول مسجد اقصی کی بازیابی کی جدوجہد میں شامل ہونا ویسے ہی فرض ہے جیسے ترکی کے اردگان پر؟
مغربی و مشرقی دنیا کے متعصب ذہن کے حامل سیاست دانوں اور صحافیوں نے مسجد آیا صوفیہ کے تعلق سے ترکی کے اس فیصلے کو حسب توقع عظیم عثمانی خلافت کی طرح اردگان اور ان کے حامیوں کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کرنے والی "ایک مضبوط مسلم قوم کی نشأة ثانیہ” کے طور پر دیکھ رہے ہیں، یہی نہیں وہ اسے مستقبل کے ایک بڑے خطرے کی شکل میں بھی پیش کر رہے ہیں۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ وہ اپنی آلودہ سوچ کے سبب ایک سادہ سے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں استنبول کی ایک قدیم مسجد کی بحالی کے سلسلے میں یونان سے فرانس تک جو شدید واویلا مچائے ہوئے ہیں وہ اسلام سے ان کے مفروضہ خوف (اسلاموفوبیا) کی واضح دلیل ہے۔ کچھ تو اپنی مصلحت پرست طبیعت کی وجہ سے اور کچھ عالمی پروپیگنڈے کے زیر اثر مسلمانوں کا ایک سیکولر اور مداہنت پسند طبقہ بھی اپنی مخصوص توجیہات کی بنا پر اس فیصلے کی مخالفت پر اتر آیا ہے۔ اگر ہم خود ترکی ہی کے نوبل انعام یافتہ اورہان پاموک کو اس طبقے کا نمائندہ مانیں تو ان کا نظریہ یہ ہے کہ: "مسجد کی حیثیت کی دوبارہ بحالی یہ اعلان ہے کہ۔۔۔ ہم بد قسمتی سے اب سیکولر نہیں رہے”۔ اس کے علاوہ ایک تیسرا طبقہ بھی ہے، یہ وہ ہے جو مسجد آیا صوفیہ کے تقدس کی بحالی اور اس موقع سے کی گئی اردگان کی تقریر، جو مومنانہ جرات و فراست کا ایک خوبصورت نمونہ تھی، میں نئی امیدوں کی صبح دیکھ رہا ہے۔ میری نظر میں نہ تو یہ امید کسی غلط سوچ یا بری نیت کا نتیجہ ہے اور نہ عام مسلمانوں کا اس پیش رفت پر خوش ہونا کوئی جرم ہے۔ کیونکہ صدیوں سے مظلوم و مقہور چلی آرہی ایک امت کو عزت و وقار اور آزادی کے ساتھ ویسے ہی جینے کا حق ہے جس طرح سیارہ ارضی کی دوسری قوموں کو یہ حق حاصل ہے، وہ بھی اپنے عروج کا خواب دیکھنے کے لیے اسی طرح آزاد ہیں جس طرح دنیا کی دوسری قومیں، اور لا ریب وہ بھی دوسری اقوام عالم کی طرح ایک آزاد و طاقتور قوم کی طرح جینے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر اس پہلو سے اس فیصلے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہ فیصلہ اس بات کا عندیہ ہے کہ اگر آنے والے دنوں میں حالات ترکی کے حق میں رہے تو مستقبل قریب اس دنیا پر ترکی اپنا بہت گہرا اثر چھوڑنے والا ہے، اور یہ صدی ترکی کی صدی بھی ہو سکتی ہے- ان شاء اللہ- یہ وہ بات ہے جس کی طرف خود طیب اردگان نے مسجد کی بحالی کے بعد واضح طور سے اشارہ کیا ہے اور یہی دیکھ کر ترکی کے حوالے سے دجالی قوتوں کی بے چینی میں ان دنوں کچھ اضافہ ہو گیا ہے۔
یہاں اس کی گنجائش نہیں ہے کہ اس بات پر یہ تحقیق پیش کی جائے کہ آیا صوفیہ کی دستاویزی حیثیت کیا ہے، اسے عیسائیوں سے خریدا گیا تھا، یا نہیں خریدا گیا تھا، یا خریدا گیا تھا تو کب خریدا گیا تھا، اور وہ دو بڑی دستاویزات جو اس کی وراثتی حیثیت پر روشنی ڈالتی ہیں اور جو ترکی میں اب بھی محفوظ ہیں، ان کی حقیقت کیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ اس مرحلے میں مجھے جس پہلو پر زور دینا ہے وہ بنیادی طور سے اس کی موجودہ حیثیت، اور ساتھ ہی اس فیصلے کے اثرات اور اس کے منطقی نتائج سے بحث کرتا ہے۔ بے شک دنیا کا ہر بڑا اور تاریخی فیصلہ مختلف گروہوں کے اپنے ورلڈ ویو کی عینک سے دیکھا جاتا ہے، لیکن اگر اس میں دلیل و معقولیت سے زیادہ ایک مخصوص قوم سے بغض و عناد اور اس کی نشأةثانیہ سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ کا عنصر غالب ہو تو ایسے ورلڈ ویو نہ معتبر ہو سکتے ہیں اور نہ قابل قبول۔ یہ ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس سے نہ تو یورپ کو مستثنی کیا جا سکتا ہے اورنہ امریکہ و یونان کو۔ غیر تو غیر ہیں، ان سے بہت زیادہ خیر کی توقع ہی فضول ہے، لیکن ترکی کے تعلق سے خود بعض مسلم امراء و زعماء کا رویہ عجیب و غریب ہے، نہ تو انھیں ترکی کا فلسطین کا حامی و ہمدرد ہونا پسند ہے اور نہ اس کا اسلامی تاریخ کے درخشان دور کی واپسی کی بات کرنا اچھا لگتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہی تو ہے کہ دشمنان اسلام ہیں کہ وہ انھیں ہمیشہ حاشیہ پر رکھے رہنا چاہتے ہیں اور ان بے چارے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ بجائے اس کے گمشدہ ناموس قوم کی بازیافت اور غیرت مند زندگی کے نئے آغاز پر اپنی توانائیاں لگائیں ان کا پورا زور اپنے دشمنوں کے سامنے خود کو "قابل قبول” بنانے اور دشمنوں کو ٹکر دینے والے اپنے بھائیوں کو نیچا دکھانے میں صرف ہو رہا ہے۔ اسلام مخالف عناصر تو ان کے خلاف مشرق وسطی میں ہر داؤ کھیل رہے ہیں جب کہ ان کا رویہ پیٹھ دکھا کر بھاگنے والوں جیسا ہوتا جا رہا ہے۔ان میں دن بدن اولوالعزمی کی جگہ معذرت خواہی اور حوصلہ مندی کی جگہ مصلحت پرستی لے رہی ہے۔ اس حال میں ترکی جیسے ملک کا نئی کروٹ لینا انھیں کیونکر بھا سکتا ہے؟
اس کھلی حقیقت کا ایک دوسرا پہلو بھی دلچسپ ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ و اسرائیل نے تقریباً تین دہائیوں سے پورے مشرق وسطی کو قبرستان بنادیا ہے، مسجد اقصی پنجہ یہود میں ہنوز تڑپ رہی ہے، بھارتی و کشمیری مسلمان اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں، اور ہم ہیں کہ ابھی بھی ان دشمنوں کی دی ہوئی منافقانہ اصطلاحات اور خود غرض بیانیوں کی روشنی ہی میں اپنا جائزہ لینے میں منہمک ہیں اور ان مکار دشمنوں کی خواہش کا احترام ہمارے اندر اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہمارے جو ایک دو زندہ قائدین ہیں انھیں بھی پزمردہ دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ یہی ہے وہ سوچ جو بابری مسجد کا تالا کھلوانے والوں، اسے شہید کرنے والوں اور مسلمانوں کو ملک سے بیدخل کرنے کا منصوبہ بنانے والوں کو تو آج بھی سیکولر مان کر انعام و اکرام سے نوازتی ہے، لیکن اردگان، مہاتر محمد اور اسمعیل ھنیئہ جیسے ہر اس شخص کو جو ناموس دین مصطفی اور قوم مسلم کی بقاء کی جنگ میں قیادت کرنے کا حوصلہ دکھاتا ہے، انھیں یہ انتہا پسند اور ناعاقبت اندیش ثابت کرنے میں لگ جاتی ہے۔اس سوچ کے حاملین ہر ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جس سے وہ اپنے بعض جرات مند قائدین کی مذمت کرکے خود کو دنیا کے سامنے سیکولر اور "بہتر” ثابت کر سکیں۔ ایسا وہ قصداً اس لیے کرتے ہیں تا کہ اگر کبھی ملت پر امتحان و آزمائش کی گھڑی آئے تو اس کی آنچ ان پر ہرگز نہ آئے اور وہ ہمیشہ دشمنوں کے پیدا کیے گئے نا مساعد حالات اور ممکنہ خطروں کی زد سے محفوظ رہیں۔
عبادت خانہ یا عجائب گھر؟
مسجد آیا صوفیہ کے پورے قضیہ پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تاریخی طور پر اس قضیہ سے اصلاً دو ہی قوموں کا تعلق ہے، ایک مسلمان اور دوسرے عیسائی۔ ایک زمانے میں یہ عمارت عیسائیوں کا کلیسا تھی لیکن فتح قسطنطنیہ کے بعد وہ مسجد ہوگئی، جس طرح وہ صدیوں تک کلیسا تھی اسی طرح وہ صدیوں تک مسجد بھی رہی ہے۔ موجودہ استنبول کی فتح کے بعد وہاں نماز ادا کی گئی اور بعد میں جب وہاں عیسائیوں کی کوئی خاص آبادی نہیں رہی اور سلطان فاتح کی طرف سے وہ جائیداد اپنے ذاتی خزانے سے خرید کر مسجد کے لیے وقف کردی گئی تو اس وقت کی تاریخ میں کوئی ایسا ریکارڈ موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ مسجد بننے سے پہلے یا بعد میں، عیسائی دنیا نے اس پر کوئی قابل ذکر اعتراض کیا ہو، یا اسے کلیسا کے بطور باقی رکھنے کی بادشاہ سے درخواست کی ہو۔ مصطفی کمال نے اسے میوزیم بنانے کا فیصلہ خود سے لیا تھا، یہ ایک جذباتی اور انتہائی رد عمل پر مبنی غیر دانشمندانہ اور غلط فیصلہ تھا، لیکن بہر حال یہ ترکی کا داخلی فیصلہ تھا، البتہ اس وقت دنیا کے عام مسلمانوں کے دلوں کو اس سے کافی تکلیف پہنچی تھی اور علماء و عامۃ المسلمين کی یہ عمومی رائے تھی (جو صحیح تھی) کہ ایک مسجد کو بغیر کسی سبب کے میوزیم میں بدلنا غلط اور ناجائز ہے اور اس کی وجہ سے ایک مسجد کا تقدس پامال ہوتا رہے گا۔ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ آج جب کہ اسی ترکی نے بغیر کسی احتجاج و مظاہرہ کے اس عمارت کو دوبارہ مسجد بنانے کا فیصلہ کیا ہے تو عمارت کو میوزیم میں بدلنے کی طرح یہ مغربی دنیا اسے ترکی کا داخلی معاملہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، اور اس بابت بعض عرب مسلم حکام و قائدین بھی بغیر کسی معقول دلیل کے ان کی سر میں سر ملاتے نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے لیے ان دونوں طبقوں کا رویہ ناقابل فہم ہے۔ اب یہ عقل کے مارے لوگ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ 2020 کے عہدِ اردگان میں یہ ویسے ہی ترکی کا داخلی معاملہ ہے جیسے 1934 میں کمال اتاترک کے عہد میں یہ اس کا ایک داخلی مسئلہ تھا، جب اس عمارت کو جو ایک قدیم مسجد تھی، میوزیم میں تبدیل کیا گیا تھا۔ ان کے دماغ میں یہ بات بھی نہیں بیٹھ رہی ہے کہ جب ایک عمارت میوزیم سے مسجد میں دوبارہ تبدیل کی گئی ہے تو اس میں عیسائی فرقہ کی دل آزاری کا سوال کیسے پیدا ہوگیا۔ جو لوگ اس تبدیلی کے خلاف ہیں ان سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی محفوظ دستاویز سے یہ ثابت ہے کہ اس دوران عیسائی فرقہ نے کبھی بھی میوزیم کو پرانے کلیسا میں دوبارہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا؟ اگر نہیں، تو پھر اس وقت میوزیم اور مسجد کے بیچ کلیسا کی بات کس دلیل کی بنیاد پر لائی جا رہی ہے؟ اور کیوں بار بار کلیسا کا نام لیکر اسے فرقہ وارانہ یا مسلم و غیر مسلم کشمکش کا رنگ دیا جا رہا ہے؟
اب آئیے ایک دوسرے پہلو سے اس قضیے اور اس پر مچ رہے واویلا یا اعتراض کا جائزہ لیں۔ جیسا کہ ابھی بتایا گیا عیسائیوں اور مسلمانوں کا ایک طبقہ اسے میوزیم سے مسجد میں دوبارہ بحال کرنے کے سخت خلاف ہے۔ اپنی اس سوچ کے پیچھے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سے ترکی کی سیکولر پہچان باقی رہتی اور عیسائیوں کا دل بھی نہیں دکھتا۔ لیکن یہ دلیل اتنی کھوکھلی ہے کہ ایک عامی بھی اسے شاید ہی بطور دلیل تسلیم کرے۔ اس نظریہ کے حاملین کو شاید اس کا بھی احساس نہیں ہے کہ ایک میوزیم اور ایک عبادت خانہ میں کیا فرق ہے؟ ایک عمارت اگر میوزیم ہو تو اس کے زائرین پر عمارت یا اس کے کسی حصے کے تقدس کو ملحوظ رکھنے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، اور اگر یہ قانوناً کہیں عائد ہوتی بھی ہے تو عملاً اس کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا۔ میں نے خود آیا صوفیہ میں یہ منظر دیکھا ہے اور یہ دیکھ کر دلی تکلیف بھی محسوس کی ہے کہ کس طرح دنیا بھر کے زائرین قدم قدم پر ایک عبادت خانے کا تقدس پامال کرتے ہیں۔ اس صورت حال کو سامنے رکھیے اور پھر مجھے کوئی یہ بتائے کہ اس عمارت کے وقار و تقدس کی بحالی اسے ایک میوزیم کی حیثیت سے باقی رکھنے میں تھی یا ایک مقدس معبد کی حیثیت سے؟ اسی سے وابستہ ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ سچ ہے کہ موجودہ حالت میں اسے ایک کلیسا میں بدلنے کا فیصلہ نہ تو معقول ہوتا اور نہ کسی کے لیے مفید، تو اسے مسجد میں بحال کر کے ایک عبادت گاہ کا تقدس باقی رکھنے کا فیصلہ زیادہ معقول مانا جانا چاہیے یا اسے ایک میوزیم بنائے رکھنے کا فیصلہ زیادہ معقول و مفید ہوتا؟
میرے خیال میں شاید کسی کا بھی جواب یہ نہیں ہوگا کہ میوزیم کی صورت میں اس عمارت کا تقدس زیادہ محفوظ رہتا۔ اس لیے کہ میوزیم کی حالت میں عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے تھے، اور اس سے بیک وقت ایک سابق کلیسا اور ایک سابق مسجد دونوں کی اہانت ہوتی رہی ہے۔ لیکن اب جب کہ اس کی سابقہ حیثیت، یعنی ایک مسجد کی حیثیت دوبارہ قائم کردی گئی ہے تو ان دونوں فرقوں کے مذہبی جذبات بھی مجروح نہیں ہوں گے اور ایک عبادت گاہ کا تقدس بھی بحال رہے گا۔
ہو سکتا ہے عیسائیوں کو میری یہ دلیل بہت زیادہ متاثر نہ کرے کیونکہ انجیل میں تحریفات کے بعد ان کے لیے عبادت، عبادت گاہ اور اس کا تقدس بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، موجودہ زمانے کے نصرانی ان چیزوں سے بالکل بے نیاز ہو چکے ہیں، ان کے یہاں چرچ کی خرید و فروخت پر بھی کوئی مذہبی بندش نہیں ہے، جب کہ ایک مسجد مسلمانوں کے لیے ہمیشہ ایک مسجد ہی رہتی ہے۔ البتہ آج مسلمانوں کے تئیں ان کی روش دیکھ کر شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ وہ اپنے منفی جذبات کی تسکین کے لئے بس یہی کافی سمجھتے ہیں کہ اس عمارت کا تقدس اور اس کا وقار بھلے پامال ہوتا رہے لیکن اسے مسلمان مسجد کی حیثیت سے کسی بھی حال میں استعمال نہ کریں، یعنی وہ دوبارہ مسجد نہ بنے، بھلے ہی ایک میوزیم یا کسی اور شکل میں مزید کئی صدیوں تک اس عبات گاہ کی توہین ہوتی رہے۔ مسلمانوں کےحوالے سے عیسائیوں کے ایک طبقے کی موجودہ روش کے تعلق سے یہ ایک متوقع بات ہے، لیکن جو عمارت صدیوں تک مسجد رہی ہو اسے ایک میوزیم میں بدلنے پر اگر ایک مسلمان کو کوئی اعتراض نہ ہو بلکہ وہ الٹا ایک قدیم اسلامی عبادت گاہ کو میوزیم کی حیثیت میں بحال رکھنے کے حق میں ہو تو مجھے اس کی عقل اور اس کے فہم دین دونوں پر شک ہوگا۔ ایک مسلمان کسی مسجد کے تقدس کو مجبورا برداشت کرے یہ تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن اگر وہ یہ چاہے کہ ایک مسجد کو ایک میوزیم یا اصطبل میں حسب حال بحال رکھ کر اس کی مقدس حیثیت کو ایک ایسی ریاست میں مجروح و ہامال کیا جاتا رہے جو خود مسلمانوں کی ریاست ہو تو اسے ایک المیہ اور ایک افسوسناک ذہنی و فکری زوال کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہی ذہنی و اخلاقی زوال بالآخر قوموں کے دینی و تہذیبی زوال و انحطاط کا سبب بنتا ہے۔ تشویش کا سب سے بڑا عنصر یہ ہے کہ اس رویے کے اندرون میں خوف کی ایک ایسی نفسیات پائی جاتی ہے جو بڑی سے بڑی قوموں کو نہ صرف پستی میں ڈھکیل دیتی ہے بلکہ اس کے اثر سے ان کا ظاہری وجود بھی غیروں کے رحم و کرم پر باقی رہتا ہے، جو لوگ اس نفسیات کے شکار ہوتے ہیں ان کا دینی و تہذہبی قبلہ بھی ان کے خوف کی وجہ سے بدلتا اور بحال ہوتا رہتاہے۔
عدل و انصاف دین اسلام کی روح ہے جسے جانتے بوجھتے نظر انداز کرنے کی حمایت کوئی مسلمان نہیں کر سکتا، لیکن میرے نزدیک آیا صوفیہ کے تعلق سے جن مسلمانوں کی یہ رائے ہے کہ اسے مسجد کی بجائے میوزیم ہی کی صورت میں باقی رہنے دینا چاہیے تھا، ان کی اکثریت بالواسطہ یا بلا واسطہ اسی خوف کے مرض میں مبتلا ہے جس کے رہتے ایک انسان کا دل و دماغ اتنا صحت مند نہیں رہ جاتا کہ وہ اپنے یا اپنی قوم کے حق میں کوئی معقول رائے اختیار کر سکے، اس کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ڈر کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے طرح طرح کا نام دیتا ہے اور اسے چھپانے کے لیے رخصت و مصلحت کے نام پر قسم قسم کی تاویلیں کرتا ہے۔ اس بزدلانہ رویے کی ہم مصلحت و رواداری کے نام سے جتنی بھی تاویل چاہیں کر لیں، لیکن اس کی حقیقت ایک خطرناک مرض کی ہی ہے۔ خوف کے لباس میں لپٹی ہر سوچ کسی نہ کسی طور پر اس مرض سے متاثر ہوتی ہے اور اگر وقت پر اسے روکا نہیں جاتا تو وہ متعدی مرض کی طرح دوسروں کو بھی بہت تیزی سے متاثر کرتی ہے، اور اس طرح وہ ایک مہلک مرض بن کر پوری قوم کو کھوکھلا کردیتی ہے۔ بہر حال یہ ایک انتہائی بیمار اور شکست خوردہ سوچ ہے اور اگر اس سوچ کا لحاظ کیا گیا تو ہندوستان سے فلسطین تک مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی اور ان پر دراز ہوتے ظالموں کے تسلط سے ہماری یہ امت کبھی نجات نہیں پا سکتی۔