محمد یوسف عرف راجا جی امیر مقامی جماعت اسلامی، مہد پور کی رحلت

مفتی محمد اشرف قاسمی (مہد پور، اجین، مدھیہ پردیش)

جانے والا جاتے جاتے اک نشانی دے گیا
خشک آنکھوں میں سمندر کی روانی دے گیا
مکہ مکرمہ اور پھر ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کی شب و روز کی مصروفیات اور پوری تحریک کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ آپ کی جملہ مساعی ہر زاویہ سے دعوت، تعلیم، رفاہی کاموں اور دعوتی مقاصد سے مدعو قوموں سے مرافقت کے گرد گھومتی ہوئی ملے گی۔ آج امت مسلمہ اپنے نبی کے ان پاکیزہ ومقدس کاموں سے کافی دور ہے۔ خاص طور سے دعوت الی الاسلام کے فریضے کی ادائیگی میں مسلمانوں کی طرف سے بہت زیادہ غفلت برتی جا رہی ہے۔ البتہ اس میدان میں اگر منظم ومربوط انداز میں کوئی جماعت کام کر رہی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے، اگرچہ باقی دوسرے ادارے بھی کچھ نہ کچھ کام کرتے ہیں۔ راقم الحروف نے جن مختلف مکاتبِ فکر کا تنقیدی اور منصفانہ مطالعہ کیا ہے ان میں جماعت اسلامی بھی ہے۔ فروگزاشتوں سے صرف انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں۔ انبیاء کرام کے علاوہ کوئی بھی تحریک یا ادارہ یا فرد فروگزاشتوں سے محفوظ نہیں ہے۔ دوسرے اداروں وافراد کی طرح جماعت اسلامی کے لٹریچر میں بھی کچھ فروگزاشتیں اور کمزوریاں ہیں۔
عملی طور پر جماعت اسلامی سنت نبوی کے مطابق دعوت، تعلیم، رفاہ عامہ، اور دعوتی مقاصد کے تحت دوسری قوموں سے مرافقت جیسی اہم وبنیادی خدمات بہت بہتر ومنظم انداز میں کاموں کو انجام دے رہی ہے۔ اسلام کے تعارف وتبلیغ اور دعوت کے سلسلے میں جماعت اسلامی کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ذہنی لحاظ سے جماعت اسلامی سے عدم اتفاق کی بنا پر جماعت اسلامی سے مولانا سید ابو الاعلی مودودی علیہ الرحمہ کی کتابوں کے مطالعہ تک ہمارا تعلق محدود تھا۔ لیکن شہر مہد پور میں جماعت اسلامی کے مقامی امیر جناب محمد یوسف ناگوری عرف راجا جی نے مجھے جماعت اسلامی کی سرگرمیوں سے جب عملی طور پر کسی قدر روشناس کرایا تو پہلے سے میرے دل ودماغ میں جو ایک خلش تھی کہ غیروں میں دعوت کا کام نہ ہونے کے برابر ہے وہ جماعت اسلامی کی کاوشوں کو قریب سے دیکھنے کے بعد تقریباً ختم ہوگئی۔ خوشی بھی ہوئی اور اطمینان بھی کہ دعوت الی الاسلام کے لیے جماعت اسلامی کافی متحرک، فعال اور مؤثر تنظیم ہے۔ اس لیے عملاً اس جماعت سے ہماری قربت بڑھتی گئی۔ موصوف ہی کی فرمائش پر مجھے جماعت کے متعدد پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا۔ خاص طور پر جدید ذرائع ابلاغ یعنی سوشل میڈیا کو کارِ دعوت کے لیے بہتر طریقہ پر استعمال کرنے کا منصوبہ اور ارکان ومنتسبین کے لیے عملی کوششیں اور مطالعہ کتب کے لیے میقاتی خاکہ۔
دعوتی مقاصد کے تحت افراد واشخاص سے ملاقاتوں کا نظام، کہ ہر ہر رکن کو کتنے عام شہریوں سے ملاقات کرنی ہے کتنے مخصوص ومعزز افراد سے ملاقات کرنی ہے کتنے لوگوں کو مترجم قرآن مجید پیش کرنا ہے اور پھر تمام ارکان کو مقررہ میقات میں انفرادی واجتماعی لحاظ سے کس مقدار میں کون کون سی کتابوں کا مطالعہ کرنا ہے؟
یہ میقاتی منصوبہ دیکھ وسن کر احساس ہوا کہ امت کے پاس دعوتی کاموں کے لیے مضبوط حکمت عملی اور کامیاب ونتیجہ خیز منصوبہ موجود ہے۔ بس ضرورت ہے کہ اس کام کے لیے افراد اپنی جان، اپنا وقت اور اپنی صلاحیت پیش کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
جناب محمد یوسف صاحب ہی کے ذریعہ جماعت اسلامی کے موبائل وین کتب خانہ، آڈیو، ویڈیو کیسیٹس کا نظام بھی دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ مہد پور میں ایک ماہی سالانہ میلے میں جماعت کی طرف سے ایک مرتبہ دعوتی بک اسٹال لگا یا گیا تھا، جس میں دیکھ ریکھ کے لیے موصوف نے مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ ایک سال جب باقاعدہ بک اسٹال لگانے کا انتظام نہیں ہو سکا تو موبائل وین لگا دی گئی۔ 2016ء میں اجین سین ہست (غیر مسلموں کا مشہور میلہ) کے موقع پر مختلف تنظیمیں دعوتی بک اسٹال لگانے کی کوششیں کرتی رہیں لیکن انہیں حکام کی طرف سے اجازت نہیں مل سکی۔ شاید جماعت اسلامی کو بھی اجازت نہیں ملی تھی۔ لیکن مختلف تنظیموں کی طرح جماعت نے بھی اس موقعے پر دعوتی لٹریچر مدعو قوموں میں تقسیم کرایا۔
اسلام کے تعارف کے لیے جماعت کی طرف سے لائبریری کا بھی بہترین بند وبست ہوتا ہے۔ میرے محلہ بیر جالی میں بندے کی دلچسپی اور کچھ دوسرے لوگوں کی محنت کے نتیجے میں ایک اسکول دار ارقم قائم ہوا تو کچھ لوگوں کی طرف سے یہ رہنمائی کی گئی کہ قانون کے تحت اسکول میں کم از کم دو سو کتابوں پر مشتمل لائبریری بھی ضروری ہے۔ بندے نے جناب محمد یوسف صاحب سے اس سلسلے میں تذکرہ کیا تو آپ کتابوں کے کئی بڑے بنڈل لے کر حاضر ہوگئے اور لائبریری کی ضرورت پوری کر دی۔ مجھے ذاتی طور پر بھی اپنے لیے کثیر کتابوں کی ضرورت تھی جس کا میں نے آنجناب سے تذکرہ کیا تو ایک ذخیرۂ کتب کی نشاندہی کی۔
جماعت اسلامی کے انتظام میں نکلنے والے رسائل واخبارات میں کانتی اور سہ روزہ (اب ہفت روزہ) دعوت بڑے اہتمام سے آپ مجھے فراہم کراتے۔ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے ایک مسجد کی دیوار پر طویل ترین مینار بنانے کا فیصلہ کیا اور اس نام نہاد کارِ خیر کے لیے چندہ بھی شروع ہو گیا تو راقم الحروف نے اس کے خلاف ایک تحقیقی مضمون لکھا اس مضمون کو پڑھ کر انتظامیہ نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ وہ مضمون سہ روزہ دعوت میں بھی شائع ہوا تو موصوف مختلف مقامات پر لوگوں کو مینار کے بارے میں سمجھاتے ہوئے اہتمام کے ساتھ وہ اخبار میرے پاس لے کر حاضر ہوئے۔ گزشتہ سال جب سہ روزہ دعوت کی اشاعت کسی وجہ سے موقوف ہو گئی تو موصوف کافی رنجیدہ نظر آئے۔ مجھ سے کئی بار کہا کہ دعوت آفس کو ایک خط لکھیے کہ جلد ازجلد دوبارہ اس کی اشاعت شروع کی جائے۔
اس طرح امیر مقامی سے راقم الحروف کی ذہنی ہم آہنگی مستحکم ہوتی رہی۔ انجام کار آپ کی وساطت سے جماعت اسلامی کے سلسلے میں میرا توحش بھی کافی کم ہو گیا۔ آج جب کہ یہ سطریں لکھ رہا ہوں، تو وہ اس دنیا میں نہیں ہیں البتہ مدتِ مدید تک لوگوں کے ذہنوں میں ان کی دینی وملی خدمات باقی رہیں گی۔ ع
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
تمہی سو گئے داستاں کہتے کہتے
لاک ڈاون کے موقع پر تمام پرائیویٹ اسپتال اور کلینِک بند ہیں۔ حکومت کی عجیب انتظامی حکمت عملی ہے کہ بیماری سے بچاؤ کے لیے جہاں تمام بازاروں کو بند کر دیا گیا وہیں شفاخانے بھی بند کرادیے گئے جس کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ علاج نہ ملنے کی وجہ سے بے شمار افراد لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ اسی فہرست میں محمد یوسف صاحب کو بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ مختصر علالت کے بعد ہی (اسباب کے درجے میں) شاید میڈیکل ایڈ نہ ملنے کی وجہ سے آپ 22 رمضان المبارک 1441ھ مطابق 16 مئی 2020ء اس دار فانی سے عالم جاودانی کو روانہ ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
موصوف کے پسماندگان میں آپ کی زوجہ اور تین بیٹے، چار بیٹیاں ہیں۔ بیٹوں میں ایک صاحبزادے یونانی میڈیکوز اور معالج ہیں، ڈاکٹر عمر فاروق ناگوری۔ شہر میں جن کی کامیاب کلینک ہے اور اپنے والد بزرگوار کی طرح دینی وملی اور دعوتی کاموں میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ متعدد دینی مکاتب، اسلامی منہج پر قائم مختلف اسکولس وغیرہ کے تعاون میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت میں آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ع
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے