ادارہ علوم القرآن کی قرآنی خدمات

عصر حاضرسے ہم آہنگ محققانہ تعلیم۔ طلبہ میں قرآنی حکمت پیدا کرنے کی مساعی

ابو سعد اعظمی

مدرسۃ الاصلاح صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک فکری وانقلابی تحریک کا نام ہے۔ یہ تحریک فکر فراہی سے عبارت ہے۔ مدرسہ کے نصاب میں اس فکر کو اولیت حاصل ہے اور قرآن کی محققانہ تعلیم اس کا ہدف منشود اور غایت ومقصود ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں اس فکری انقلاب کی روح یہ ہے کہ ’’قرآن کی حکمت اس کے طلبہ کے اندر اس طرح رچ بس جائے کہ وہ جو کچھ بھی سوچیں قرآن کی روشنی میں سوچیں اور جس چیز کو بھی رد وقبول کریں قرآن کی کسوٹی پر رکھ کر کریں۔ یہ چیز ان کو اس قابل بنائے کہ وہ مسلمانوں کی موجودہ پراگندہ بھیڑ کو ایک بنیان مرصوص بنا کر امت مسلمہ کی صورت میں کھڑا کر سکیں‘‘ (ذکر فراہی، ص380۔ 381)
فکر فراہی سے اسی گہرے تعلق کی بنا پر یہاں کے فارغین نے جب بھی کسی انجمن کی داغ بیل ڈالی یا کسی مدرسہ وادارہ کی بنیاد رکھی تو اس میں شعوری طور پر کوشش کی گئی کہ قرآن کریم کو اس کا اصل مقام دیا جائے اور دیگر علوم اسی کی روشنی میں پڑھے اور پڑھائے جائیں۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ اس سلسلے میں امام فراہی کے جو افکار ونظریات ہیں، تعلیم وتعلم کے سلسلہ میں ان کا جو نقطۂ نظر ہے اور قرآن کریم میں غور وفکر کا جو فراہی منہج ہے اس کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کیا جائے اور اس کی برکات سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے۔
دائرہ حمیدیہ کے قیام اور وہاں سے ماہنامہ ’الاصلاح‘ کی اشاعت سے شروع ہو کر ماہنامہ ’میثاق‘، ادارہ تدبر قرآن وحدیث اور اس کے ترجمان ’تدبر‘، ’نظام القرآن‘ اور ’مجلۃ الہند‘ میں اس فکر کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ انجمن طلبہ قدیم مدرسۃ الاصلاح (شاخ علی گڑھ) کی کوششوں سے 1984 میں ادارہ علوم القرآن کا قیام عمل میں آیا تو اس کا مقصد بھی اس سے الگ نہیں تھا۔ پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی کے الفاظ میں ’’مدرسۃ الاصلاح کے جو فارغین علی گڑھ میں تعلیم وتعلم یا کسی دوسری مصروفیت کے سلسلے میں مقیم ہیں وہ اس ادارہ کے توسط سے مادر علمی سے اکتساب کردہ علم قرآن کو تازگی ووسعت دیتے رہیں۔ ہر معاملے میں اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے سبق کو یاد کرتے رہیں اور زبان وقلم سے یہ سبق دوسروں کو یاد دلاتے رہیں‘ (قرآنی علوم بیسویں صدی میں، ص513) ۔ اللہ کا شکر ہے کہ جس مقصد کے تحت ادارہ کا قیام ہوا تھا وہ آج تک کسی نہ کسی صورت میں اس مقصد سے وابستہ ہے اور وہاں پر مقیم اصلاحی طلبہ برابر وہاں حاضر ہوتے ہیں اور اس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہاں پر موجود اساتذہ قرآنی پیغام کی ترسیل واشاعت میں مشغول اور اسے اپنی بحث وتحقیق کا موضوع بنائے ہوئے ہیں۔
ادارہ کی تاسیس اور اس کے ترجمان ششماہی مجلہ علوم القرآن کے اجرا پر تقریبا 35 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس لیے بجا طور پر مناسب ہے کہ اجمالا ادارہ کی قرآنی خدمات کا احتساب کیا جائے۔ ادارہ علوم القرآن کی خدمات کی کئی جہات ہیں۔ اس میں ہر ماہ کی آخری جمعرات میں اجتماعی مطالعہ قرآن کا اہتمام، خصوصی لیکچر سیریز، مختلف مدارس وجامعات کے طلبہ میں قرآنیات سے دلچسپی پیدا کرنے اور اس کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے بین المدارس والجامعات قرآنی مسابقات کا انعقاد، اہم حساس اور زندہ مسائل کے قرآنی حل تلاش کرنے کے لیے سالانہ سیمینارز کا انعقاد، فارغین مدرسۃ الاصلاح میں تصنیفی وتالیفی ذوق رکھنے والے طلبہ کی سر پرستی اور ان کے لیے اسکالرشپ کی فراہمی اور علی گڑھ میں مقیم طلبہ مدرسۃ الاصلاح کے تصنیفی ذوق کو جلا بخشنے کے لیے ریسرچ اسکالر سیمینارز کے انعقاد کو ادارہ کے پروگرام میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ وضاحت بھی یہاں غیر مناسب نہ ہوگی کہ اب تک کل گیارہ کل ہند قرآنی مسابقات، سات ریسرچ اسکالر سیمینار، بارہ قومی سیمینار اور تیرہ خصوصی لیکچر سیریز ادارہ کے زیر اہتمام منعقد ہو چکے ہیں۔ مجلہ علوم القرآن کی مسلسل اشاعت کے علاوہ ’مولانا امین احسن اصلاحی‘ ’قرآنی علوم بیسویں صدی میں‘ اور ’عصر حاضر کے مسائل اور قرآنی تعلیمات‘ کے عناوین سے اس کے خصوصی نمبر بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ادارہ کے تالیفی وتصنیفی منصوبے کے تحت سترہ کتابیں یہاں سے شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں اکثر کی کی حیثیت مجموعہ مقالات کی ہے جو ادارہ کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں پیش کیے گئے تھے۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ ادارہ علوم القرآن کی مختلف سرگرمیوں کو پیش کیا جائے گا۔
کل ہند قرآنی مسابقات: 2009 سے 2011 تک مسلسل گیارہ کل ہند تحریری مسابقہ برائے طلبہ وطالبات مدارس وجامعات اس کے زیر اہتمام منعقد ہو چکے ہیں۔ اس کے ذریعہ تقریبا بیس ہزار طلبہ وطالبات کو مختلف قرآنی موضوعات پر غور وفکر کرنے اور اپنی تحریری صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا ہے۔ اب تک جن موضوعات کا ان کل ہند تحریری مسابقوں میں احاطہ کیا گیا ہے وہ بالترتیب اس طرح ہیں:
خاندانی نظام اور قرآنی تعلیمات (2009) ، ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر (2010) ، قرآن مجید کے حقوق اور ہمارا رویہ (2011) ، کیا قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے (2012) ، مومن قرآن کے آئینے میں (2013) ، قرآن اور انسداد فواحش (02014) ، غیر مسلموں سے ربط وتعاون قران مجیدکی روشنی میں (2015) ، قوموں کا عروج وزوال قرآن کریم کی روشنی میں (2016) ، تعمیر انسانیت اور قرآن (2017) ، عمل صالح: مفہوم اور جہات قرآن وسنت کی روشنی میں (2018) ، شخصیت کے ارتقاء میں قرآن مجید کا کردار (برائے گروپ اے 2019) ، قرآن مجید میں خواتین کے حقوق (برائے گروپ بی 2019) ۔
اس کے علاوہ اساتذہ کی سطح پر بھی دو کل ہند تحریری مسابقوں کا انعقاد کیا گیا، ان کے موضوعات اس طرح تھے ’عصر حاضر کے مسائل اور قرآنی تعلیمات‘ اور ’تدریس قرآن کا مطلوبہ منہاج‘۔ لیکن اس کو جاری رکھنے کے لیے درکار اسباب ووسائل کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ غٰیر مسلم اسکالر ودانشوران کو قرآنی تعلیمات سے روشناس کرانے کے مقصد سے ادارہ نے ان کے درمیان بھی تین کل ہند تحریری مسابقات کا انعقاد کیا لیکن بڑے پیمانے پر اس کے اشتہار اور اعلان کے لیے جو وسائل درکار تھے اس کا صحیح انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ بہت زیادہ کامیاب نہ ہوسکا۔ کاش اسباب مہیا ہوتے اور وسائل فراہم ہوتے تو غیر مسلموں تک قرآن کا پیغام پہنچانے کے سلسلہ میں ادارہ کی اس کوشش کے مفید اور مثبت نتائج سامنے آتے۔ لیکن افسوس کہ وسائل کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ دونوں سلسلے منقطع ہو گئے۔ البتہ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ طلبہ مدارس وجامعات کے درمیان مسابقہ کے انعقاد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور طلبہ کے جوش وخروش اور ان کی شرکت میں ہر گزرتے سال اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
ریسرچ اسکالر سیمینار: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم اصلاحی طلبہ اور ادارہ کے زیر تربیت اسکالرس کی تحریری صلاحیتوں کو جِلا دینے کے مقصد سے ادارہ نے ریسرچ اسکالر سیمینار کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مقالہ کی پیشکشی کے بعد سوال وجواب کا پورا موقع دیا جاتا تھا اس وجہ سے زیر بحث موضوع سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ اور ادارہ تحقیق وتصنیف کے اسکالرس بڑے ذوق وشوق سے اس میں شریک ہوتے اور مباحثہ میں حصہ لیتے تھے۔ اس کی صدارت کے لیے یونیورسٹی کے کسی استاذ یا کسی معروف اسکالر سے درخواست کی جاتی ہے۔ صدارتی خطبہ میں مقالہ کی خوبیوں کے اظہار اور مقالہ نگار کی ہمت افزائی کے ساتھ ساتھ مقالہ کی کمیوں کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں موضوع زیر بحث کے سلسلہ میں مواد کی فراہمی، تحقیق وتجزیہ اور تصنیف نیز پیشکش کے اصول وآداب پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ طلبہ کے اندر تحقیق وتصنیف کا ذوق اور ان کی تحریری صلاحیت میں نکھار پیدا کرنے کے جس مقصد سے یہ سلسلہ شروع کیا گیا تھا، الحمدللہ اس کی افادیت محسوس ہو رہی ہے۔ اس سیمینار کے تحت جن موضوعات پر مقالات پیش کیے گے ان کی تفصیلات اس طرح ہے:
سورہ یوسف آیت 55 ایک مطالعہ، مذہبی رواداری اور قرآنی تعلیمات، تعلیقات امام فراہی: تحلیل وتجزیہ، دعوت دین کا قرآنی اسلوب، ولید الاعظمی کی شاعری میں قرآنی اثرات، قرآن کریم کا مطلوبہ مومن اور عروج وزوال کا قرآنی تصور۔
سیمینارز کا انعقاد: ادارہ علوم القرآن کی خدمات کا ایک اہم پہلو قرآنی سیمینار کا انعقاد بھی ہے۔ ادارہ نے 2005 میں پہلا سیمینار منعقد کیا تھا اور 2008 کے بعد سے تقریباً مسلسل وقت کے کسی اہم اور حساس پہلو پر رہنمائی فراہم کرنے کے لیے سیمینار کا انعقاد کر رہا ہے۔ اب تک جن موضوعات پر سیمینار منعقد ہوئے ہیں ان کی تفصیلات ملاحظہ ہوں:
قرآنی علوم بیسویں صدی میں، عصر حاضر کے مسائل اور قرآنی تعلیمات، خاندانی نظام اور قرآنی تعلیمات، عصر حاضر کے سیاسی مسائل اور قرآنی تعلیمات، عصر حاضر کے معاشی مسائل اور قرآنی تعلیمات، رجوع الی القرآن اہمیت اور تقاضے، انسداد فواحش اور قرآنی تعلیمات، غیر مسلمین سے ربط وتعاون قرآن کریم کی روشنی میں، عروج وزوال کا قرآن تصور عصر حاضر کے خصوصی تناظر میں، اصلاح وفساد کا قرآنی تصور۔
سال گزشتہ ادارہ علوم القرآن نے ایک ’’علمی مذاکرہ‘‘ کے انعقاد کا تجربہ کیا۔ اس میں دو الگ الگ مقالہ نگاران سے درخواست کی گئی کہ وہ ’تدوین قرآن کے متنازع مباحث، ایک تنقیحی جائزہ‘ اور ’قرآن مجید کا اصلاحی مشن وسائل اور بیانیہ‘ پر مفصل مقالہ تحریر کریں۔ ایک متعینہ تاریخ پر اسے حاصل کرلیا گیا پھر دو ماہرین کی رائے طلب کرکے انہیں اس پر تبصرہ کی دعوت دی گئی اور آخر میں سامعین کو بحث ومباحثہ کا موقع دیا گیا۔ یہ تجربہ کافی کامیاب رہا۔
توسیعی خطبات: ادارہ علوم القرآن کی قرآنی خدمات کی ایک کڑی توسیعی خطبات کا انعقاد بھی ہے۔ اس کے تحت اب تک تیرہ توسیعی خطبات ہو چکے ہیں۔ اس میں یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے اساتذہ، طلبہ، اہالیان شبلی باغ اور ادارہ تحقیق وتصنیف کے رفقا واسکالرس پابندی سے شریک ہوتے ہیں۔ ان توسیعی خطبات کے عناوین کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
قرآن کے آخری حصہ میں اعادہ مضامین، تفسیر قرآن کے مناہج، قرآن مجید اور جدید سائنس،اعجاز قرآن، قرآن مجید کی عربی مبین: معانی اور جہات، روحانیت اور قرآن مجید، قوم عاد وثمود قرآن پاک، روایات اور جدید تحقیقات کی روشنی میں، صالح اسلامی معاشرہ قرآن کی نظر میں، قرآن کریم کی جمع وترتیب، فہم قرآنی میں مولانا فراہی کے امتیازات، قصہ موسی وخضر علیہما السلام ایک مطالعہ، قصہ آدم وابلیس بیسویں صدی کی چند معروف تفاسیر کی روشنی میں، سائنس اور قرآن میں تطبیق کے مسائل۔ اور جن لوگوں کے توسیعی خطبات ہوئے ہیں ان میں ڈاکٹر راؤ عرفان احمد، پروفیسر کنور یوسف امین، پروفیسر سید مسعود احمد، پروفیسر اشتیاق احمد ظلی، پروفسیر سعود عالم قاسمی، پروفسیر توقیر عالم فلاحی اورمولانا اشہد جمال ندوی شامل ہیں۔
ادارہ کا ترجمان ششماہی علوم القرآن: ادارہ علوم القرآن کی قرآنی خدمات کا سب سے اہم پہلو ششماہی مجلہ علوم القرآن کی اشاعت ہے۔ اس مجلہ کی انفرادیت کے کئی پہلو ہیں۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں زندگی کے بے شمار مسائل میں سے کسی مسئلہ پر خصوصی رہنمائی فراہم کرنا، قدیم وجدید مفسرین میں سے کسی ایک کا تعارف اور ان کی تفسیری خدمات اور منہج تفسیر پر گفتگو کرنا، قرآن سے متعلق تصانیف پر تنقیدی وتجزیاتی تبصرے وتعارف پیش کرنا، قرآنیات سے متعلق مختلف زبانوں کی مطبوعات اور عالم عرب کی مختلف جامعات میں انجام پاچکے تحقیقی مقالات کی آگاہی دینا اس مجلہ کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ اس کا ایک خاص وصف جس کا اس وقت کے اردو رسائل میں تصور بھی نہیں تھا اس کے اردو مقالات کا انگریزی خلاصہ ہے جو پہلے مختصراً اور اب قدرے طویل مجلہ کے آخر میں درج ہوتا ہے جس سے انگریزی داں طبقہ بھی اس کے مشمولات کا اندازہ کر سکتا ہے۔ تعارف قرآن، تاریخ نزول، جمع وتدوین قرآن، قرآنی علوم کے فروغ، قرآنی اصولی افکار وتعلیمات، قرآن اور فلسفہ، تفاسیر ومفسرین، قرآنی علوم اور متعلقہ کتب کا تجزیہ، قرآنی الفاظ واصطلاحات کی تشریح، علما قرآنیات، قرآنیات پر مخطوطات، مطبوعات وتحقیقی مقالات، قرآن کے طباعتی واشاعتی ادارے، قرآن اور ان کے ماہرین پر سیمینار وغیرہ جیسے بے شمار عناوین کے تحت مجلہ علوم القرآن میں شامل مقالات اور ان کی اہمیت وافادیت کا اندازہ پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی کے مرتب کردہ ’اشاریہ ششماہی مجلہ علوم القرآن‘ اور سمیع الرحمن اور محمد شاہد حنیف کے مرتب کردہ اشاریے کے سرسری مطالعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ ذمہ داران ادارہ کے لیے یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ انہوں نے قرآنی خدمت کا جو عزم مصمم کیا تھا اب اسے علمی حلقوں میں قبولیت حاصل ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ 2015 میں پاکستان کی ایک جامعہ میں ’مجلہ علوم القرآن کی قرآنی خدمات‘ پر ایم فل کا مقالہ ترتیب دیا جا چکا ہے۔ کاش فاضل مقالہ نگار مجلہ علوم القرآن کے تمام شمارے جو ان کے پاس اسکین شدہ موجود ہیں جیسا کہ انہوں نے مقدمہ میں اشارہ کیا ہے افادہ عام کے لیے نیٹ پر ڈال دیں تو اہل علم کے لیے یہ ان کا بڑا تعاون ہوگا۔
ادارہ کے منتظمین کا چونکہ فکر فراہی سے گہرا تعلق ہے اس لیے اس کی ترویج واشاعت بھی ادارہ کے مقاصد کا اہم حصہ ہے۔ ادارہ علوم القرآن کے ترجمان ششماہی مجلہ علوم القرآن کی فہرست کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فکر فراہی کے تعارف اور اس کی ترویج واشاعت میں اس مجلہ نے جو کردار ادا کیا ہے اس میں کوئی دوسرا مجلہ اس کا شریک وسہیم نہیں ہے۔ اب تک مجلہ علوم القرآن کے (48) شمارے شائع ہو چکے ہیں ان میں مولانا فراہی سے متعلق شائع ہونے والے مضامین کی تعداد چالیس (40) ہے۔ جس میں مولانا فراہی کی فکر، ان کی تفسیر، ان کے تفردات، ان کی بعض سورتوں کی دلنشیں تشریحات، بعض آرا کی انفرادیت اور بعض سورتوں کی خاص تفسیر کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور ان کی بعض اہم کتابوں کا جامع تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح مولانا فراہی سے متعلق بعض عربی مقالات کے اردو تراجم بھی شائع ہوئے ہیں۔ ان کی تحریروں سے مستفاد بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بعض قدیم مفسرین سے ان کا موازنہ کیا گیا ہے اور ان کی تفسیر سورہ بقرہ اور بعض دیگر کتب میں شامل عربی اشعار کی تخریج کی گئی ہے۔ ان مضامین کے علاوہ پروفیسر ظلی نے ’فکر فراہی: پس منظر اور محرکات‘ اور ’فکر فراہی مرض اور علاج‘ کے عنوان سے وقیع اور مفصل اداریہ لکھا ہے جس سے فکر فراہی اور مولانا فراہی کی عظمت پوری طرح آشکار ہو جاتی ہے۔ مقالات کے علاوہ علوم القرآن میں مولانا فراہی کی تصانیف پر تبصرے بھی شائع ہوئے ہیں۔ ان کی تحریروں سے مستفاد کوئی کتاب شائع ہوئی تو اس کا بھی جائزہ پیش کیا گیا۔ اسی طرح اگر کسی نے امام فراہی کے فکر وفن اور ان کی خدمات کو موضوع بحث بنایا تو اس کا بھی مجلہ علوم القرآن کے صفحات میں تعارف پیش کیا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ ادارہ علوم القرآن کی تاسیس فارغین مدرسۃ الاصلاح کا ایسا کارنامہ ہے جس کی کوئی دوسری نظیر کسی اور ادارے کے پاس ہمیں نظر نہیں آتی۔ مدرسۃ الاصلاح نے قرآن مجید کی محققانہ تعلیم کا جو مشن طے کیا تھا، ادارہ علوم القرآن اس کا عملی مظہر ہے اور اس کا ترجمان ششماہی مجلہ علوم القرآن اس کا جیتا جاگتا نمونہ۔ محدود وسائل اور بے سر وسامانی کے باوجود ادارہ نے قرآنیات کو فروغ دینے اور درپیش انسانی مسائل کا حل پیش کرنے کی جو اہم خدمت انجام دی ہے وہ محض فضل الٰہی کا کرشمہ ہے۔ کاش دستیاب اسباب ووسائل مہیا ہوتے اور فارغین مدرسہ اس کے ترجمان ششماہی علوم القرآن کے فروغ کے لیے کوشاں ہوجاتے تو اس کی افادیت مزید دو چند ہوجاتی۔


 

قرآن کی حکمت اس کے طلبہ کے اندر اس طرح رچ بس جائے کہ وہ جو کچھ بھی سوچیں قرآن کی روشنی میں سوچیں اور جس چیز کو بھی رد وقبول کریں قرآن کی کسوٹی پر رکھ کر کریں۔ یہ چیز ان کو اس قابل بنائے کہ وہ مسلمانوں کی موجودہ پراگندہ بھیڑ کو ایک بنیان مرصوص بنا کر امت مسلمہ کی صورت میں کھڑا کر سکیں۔