ماحولیاتی تحفظ کے لیے عوامی فلاح پر مرکوز پالیسی ضروری

۷۰ فیصد ہندوستانی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق فکر مند ہیں: سروے

زعیم الدین احمد حیدرآباد

ہمارا پچھلا مضمون آئی پی سی سی کی رپورٹ پر مشتمل تھا۔ اسی رپورٹ میں ایک سروے بھی ہے۔ یہ سروے جی 20 ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک سے متعلق بھی ہے۔ اس سروے کے کیا نکات سامنے نکل کر آئے ہیں، عوام ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں یہ ساری باتیں اس مضمون میں شامل رہیں گی۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ یہ سروے ماحولیاتی وموسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متعلق جی ۲۰ ممالک میں کیا گیا۔ اس ماحولیاتی تبدیلی سے ہمارے کرّہ پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں اوران تبدیلیوں کے بارے میں عوامی رویہ کیا ہے یہ سروے ہمیں ان سب کے متعلق تفصیلی اعداد وشمار فراہم کرتا ہے۔
ہمارے ملک کے لوگ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
سروے کے مطابق ۷۷ فیصد عوام اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کرّہ ارض کی آب وہوا آلودہ ہوگئی ہے اور وہ اب اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ملک میں قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ تقریباً ۷۰ فیصد لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قدرتی وسائل کو نکالنا ہمارے لیے خطرناک ہے اور وہ اس حالت سے پریشان ہیں۔ تاہم سروے سے سامنے آنے والی خوش آئند بات یہ ہے کہ عوام کا ایک بڑا حصہ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں فکر مند ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی حفاظت ہو، قدرتی وسائل کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں اور یہ طبقہ اس ضمن میں کوششیں بھی کرتا رہتا ہے۔ سروے میں ۹۰ فیصد عوام نے اس بات پر زور دیا کہ ماحولیات کی حفاظت اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو روکنے کے لیے انہیں مزید کام کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ۷۸ فیصد عوام کا یہ خیال ہے کہ ماحولیاتی حفاظت کے فوائد اس پر ہونے والے اخراجات سے کہیں زیادہ ہیں۔
یقیناً یہ سروے ہندوستان میں ماحولیات سے متعلق ہماری پالیسی اور اس پر اٹھائے جانے والے اقدامات پر روشنی ڈالتا ہے۔ ہندوستانی میں ماحولیات دوست طرز زندگی اختیار کرنا انتہائی مشکل اور مہنگا ترین عمل ہے اکثر لوگ اس طرح کی طرز زندگی کا انتخاب اس لیے نہیں کرتے کہ یہ ان کی دسترس سے باہر ہے، پسماندہ عوام کے لیے تو یہ ایک ایسے خواب کی مانند ہے جو شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا، اس حوالے سے سروے میں ۳۵ فیصد لوگوں نے یہ کہا ہے کہ ماحولیات دوست طرز زندگی اختیار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کا مہنگا ہونا ہے۔ تاہم ۷۷ فیصد عوام کا کہنا یہ ہے کہ وہ "فلاحی معیشت” کی حمایت کریں گے، ایک ایسی معیشت جو انسانی فلاح وبہبود اور قدرتی وسائل کے کم سے کم استعمال کو ترجیح دیتی ہو، بجائے اس کے کہ ایسی معیشت جو صرف اور صرف اقتصادی ترقی پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے۔
۷۹ فیصد لوگوں کا احساس یہ بھی ہے کہ کوویڈ ۱۹ وبا نے معاشرے کو ایک سنہری موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کو ختم کریں۔ یہ ہمارے لیے بہت ہی منفرد موقع ہے اس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ۷۶ فیصد کا ماننا یہ ہے کہ ماحولیاتی حفاظت جیسے قدرتی وسائل، سمندروں کی حفاظت، جنگلوں کی حفاظت وغیرہ کے لیے اقوام متحدہ کو زیادہ اختیارات دینے چاہئیں۔
ترقی پذیر ممالک کے عوام ترقی یافتہ ممالک کے برخلاف ماحولیاتی حفاظت سے متعلق زیادہ حساس ہیں۔ سروے میں یہ تصویر ابھر کر آئی ہے کہ جی ۲۰ ممالک کے لوگ قدرتی وسائل کی حفاظت اور پائیدار، ماحول دوست اقتصادی ترقی کے خواہش مند ہیں، برخلاف ترقی یافتہ معیشتوں کے۔ انڈونیشیا ۹۵ فیصد، جنوبی افریقہ ۹۴ فیصد اور چین کے ۹۳ فیصد عوام نے ماحولیاتی حفاظت کے لیے مزید کام کرنے پر آمادگی ظاہر کی جبکہ ترقی یافتہ ممالک جیسے جاپان ۶۱ فیصد، جرمنی ۷۰ فیصد اور امریکہ کے ۷۴ فیصد عوام نے ہی اس سے متعلق کام کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ مجموعی طور پر جی ۲۰ ممالک کے ۸۳ فیصد عوام نے کہا کہ وہ اپنے کرّہ ارض کو بہتر اور محفوظ بنانے کے لیے مزید کام کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ ۷۳ فیصد عوام کا کہنا یہ بھی ہے کہ ان کے ملک کی معیشت محض منافع اور اقتصادی ترقی پر اکتفا نہ کرے بلکہ انسانی فلاح، ماحولیاتی تحفظ اور تخلیق نو پر زیادہ توجہ دے۔ ۷۳ فیصد کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہمارا کرّہ ارض ہمارے غلط پالیسیوں اور ماحول دشمن کاموں کی وجہ سے مکمل تباہی کہ دہانے پر کھڑا ہے، وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اس کا وہاں سے واپس آنا ممکن نہیں ہے، ماحولیاتی خرابی کی اصل وجہ ہمارا قدرتی نظام مداخلت کرنا اور قدرتی وسائل کا معاشی ترقی کے نام پر بے دریغ استعمال کرنا بھی ہے۔ ۵۸ فیصد عوام عالمی سطح پر رونما ہانی والی ماحولیاتی خرابی سے "انتہائی پریشان” ہیں۔
سروے رپورٹ کے مصنف اوون گیفنی نے کہا کہ "لوگ جانتے ہیں کہ وہ بہت بڑے خطرے میں ہیں دنیا تباہی کی طرف جارہی ہے وہ اس کی حفاظت کے لیے مزید کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتیں اس کی حفاظت کے لیے مزید کام کریں۔” انہوں نے مزید کہا کہ "سروے کے نتائج یقیناً جی ۲۰ ممالک رہنماؤں کے اندر اعتماد فراہم کریں گے اور وہ اس کی حفاظت کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے تخلیق نو اور اپنی اولوالعزم پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے تیزی سے آگے بڑھیں گے۔ عوام کا سائنسی اصولوں سے عدم واقفیت پریشان کن بات ہے، ہمیں عالمی سطح پر ماحولیاتی حفاظت کے لیے درکار تبدیلی کی رفتار کو مزید تیز تر کرنا ہوگا اور ایک پُر اثر عوامی معلوماتی مہم چلانی ہو گی”
تاہم یہ بات افسوس ناک ہے کہ لوگ ماحولیاتی حفاظت کے لیے سائنسی طریقہ کار سے واقف نہیں ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جائیں۔ عالمی سطح پر بھی اتفاق رائے کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اگر فوری طور پر ماحولیاتی حفاظت سے متعلق اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو اس کے برے نتائج سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ ماحولیاتی حفاظت سے متعلق اقوام متحدہ کے پیرس معاہدے میں متعین اہداف کو پورا کرنے کے لیے آنے والے دنوں میں وسیع پیمانے پر منظم انداز میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر ملک منصوبہ بند طریقہ سے ماحولیات کی حفاظت کے اقدامات کرے اور اپنی معیشت کو بھی انسان دوست معیشت میں تبدیل کرے، خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک جن پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فی الفور اقدامات اٹھائیں۔ وہیں ترقی پزیر ممالک اپنے کو ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال سے بچیں۔ یقینی طور پر قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال سے ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہو گا جو ہمارے لیے شدید نقصان کا باعث بنے گا۔ ایسی پالیسیاں اختیار نہ کی جائیں جن سے ماحولیاتی نظام کو خطرہ لاحق ہو بلکہ ایسی معاشی پالیسیاں اختیار کی جائیں جن کا محور ومرکز انسانوں کی فلاح ہو نہ کہ محض اقتصادی فائدہ۔
***

 

***

 ہندوستانی میں ماحولیات دوست طرز زندگی اختیار کرنا انتہائی مشکل اور مہنگا ترین عمل ہے اکثر لوگ اس طرح کی طرز زندگی کا انتخاب اس لیے نہیں کرتے کہ یہ ان کی دسترس سے باہر ہے، پسماندہ عوام کے لیے تو یہ ایک ایسے خواب کی مانند ہے جو شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا، اس حوالے سے سروے میں ۳۵ فیصد لوگوں نے یہ کہا ہے کہ ماحولیات دوست طرز زندگی اختیار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کا مہنگا ہونا ہے۔ تاہم ۷۷ فیصد عوام کا کہنا یہ ہے کہ وہ "فلاحی معیشت” کی حمایت کریں گے، ایک ایسی معیشت جو انسانی فلاح وبہبود اور قدرتی وسائل کے کم سے کم استعمال کو ترجیح دیتی ہو، بجائے اس کے کہ ایسی معیشت جو صرف اور صرف اقتصادی ترقی پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021