خبر و نظر

پرواز رحمانی

’’تقسیم کی دہشت کا دن‘‘
14 اگست 1947 کی تاریخ کو ’’تقسیم کی دہشت کی یاد‘‘ قرار دینا بجائے خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ تاریخ ایک خاص مقصد کے تحت مقرر کی گئی ہے اور یہ مقصد ہے تقسیم ہند کے تمام پرتشدد واقعات اور نفرت کو ایک مخصوص اکائی مسلم لیگ کے سر تھوپنا۔ 14 اگست 1947 کی تاریخ قیام پاکستان کی تاریخ ہے۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ تقسیم کی دہشت نہ تو 14 اگست 1947 کو شروع ہوئی نہ اس تاریخ کو ختم ہوئی۔ تقسیم کے تشدد اور قتل وغارت گری میں دونوں فرقوں کے شر پسند افراد شریک ہیں۔ ان واقعات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ملک کی خدمت نہیں ہے بلکہ اس دوران اپنی جانیں گنوانے والوں کی توہین ہے‘‘۔ کیرالا کے جی جی مینن کا یہ مختصر مراسلہ 24 اگست کے انگریزی روزنامے ’ہندو‘ میں شائع ہوا ہے۔ مراسلہ اس بات کے ردعمل میں ہے کہ اس سال یوم آزادی کے موقع پر کچھ سیاسی سرکاری لوگوں نے 14 اگست یعنی تاریخ قیام پاکستان کو ’’تقسیم کی دہشت کو یاد کرنے کا دن‘‘ قرار دیا ہے۔ گویا ہر سال اس تاریخ کو اس طور پر یاد کیا جائے گا کہ اسی تاریخ کو مسلم لیگ (مسلمانوں) نے تشدد اور نفرت کے ذریعے ملک کو تقسیم کیا ہے۔ فاضل مراسلہ نگار نے اس ذہنیت کو ملک کے لیے خطرناک کہا ہے جس سے فرقوں کے مابین نفرت وعداوت کا ماحول پیدا ہو گا۔

یہ ایک مستقل طبقہ ہے
مگر اس کو کیا کہا جائے کہ اس ملک میں ایک طبقہ ہے جس کی سرشت میں نفرت اور عداوت بھری ہوئی ہے۔ یہ طبقہ کوئی نیا نہیں بلکہ پرانا ہے۔ اس نے تاریخ آزادی کے حقائق ہی بدل دیے، اس کے پُرکھوں نے پہلے تو مسلمانوں کو اس قدر ہراساں کیا کہ ان کا ایک طبقہ علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گیا۔ پُرکھوں کا تیر نشانے پر لگا کیوں کہ اس سے پہلے تقسیم ہند کا منصوبہ وہ تیار کرچکے تھے۔ سب سے پہلے وی ڈی ساورکر نے مسلمانوں کو علیحدہ کرنے کی بات لکھی۔ بعد میں لالہ لاجپت رائے نے یہ نظریہ پیش کیا۔ پھر جب ان کی امنگوں کے مطابق مسلم شہریوں کا ایک طبقہ علیحدہ وطن کے مطالبے پر اَڑ گیا تو اسے بنیاد بنا کر کانگریس ورکنگ کمیٹی نے جس میں ہندو مہاسبھا کے لوگ بھی شامل تھے علیحدگی کی قرارداد منظور کی جسے گاندھی جی کی تائید بھی حاصل تھی۔ یہ حقائق انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ ہیں۔ لیکن اسی طبقے کے ایک شر پسند گروہ نے تقسیم کے مسئلے پر مسلمانوں کو مطعون کرنے کا ایک مستقل پلان تیار کرلیا ہے۔ اب سے 30 تا 35 سال پہلے ممبئی کے قانون داں ایچ ایم سیروائی نے بھی اپنی کتاب ’’تقسیم کا مفروضہ‘‘ میں یہ حقائق بیان کیے ہیں۔ کچھ برطانوی مورخین نے بھی ان حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔

دور اندیش آگے بڑھیں
اب جب کہ بہت جتن کے بعد اس طبقے کو ملک کا اقتدار حاصل ہو گیا ہے اس نے مزید پاوں پھیلانے شروع کر دیے ہیں۔ جب سے یہ لوگ برسر اقتدار آئے ہیں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کوئی نہ کوئی منفی واقعہ پیش نہ آیا ہو۔ 2014 میں آتے ہی انہوں نے گائے کے نام پر قتل وغارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ تنقید اور تبصروں سے تنگ آکر ابتدا میں وزیر اعظم نے انہیں بظاہر بہت زور دار انداز میں ڈانٹ ڈپٹ کی لیکن یہ لوگ یعنی ان کے اپنے لوگ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ پھر سی اے اے قانون بنا کر ملک کو پریشان کر ڈالا۔ اسی دوران شمال مشرقی دلی میں خوں ریز فسادات کروائے۔ آج کل شہروں اور گاؤوں کے نام تبدیل کرنے کی شر انگیز مہم جاری ہے۔ ملک کی مالی شہ رگ یعنی بڑی بڑی کمپنیوں کو نجی ہاتھوں میں دینے کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔ یہ نجی ہاتھ ان کے اپنے ہیں۔ کیرالا کے مراسلہ نگار جی جی مینن کے تقسیمِ ہند کے سوال کا ذرا تفصیل سے جائزہ لیں تو بہت سے حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ قبل اس کے کہ یہ لوگ ملک اور اہل ملک کو پوری طرح اپنے سانچے میں ڈھالنے میں کامیاب ہو جائیں مورخین اور ’دور اندیش‘ سِول سوسائٹی کو کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021