لو جہاد پر قانون سازی کی ضرورت کیوں؟

(دعوت نیوز نیٹ ورک)

 

شادی کرنا ہر شخص کا انفرادی اور آزادانہ اختیاری عمل ہے لیکن اتر پردیش، ہریانہ اور کرناٹک کے بعد بی جے پی کی زیر قیادت مدھیہ پردیش حکومت نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ جلد ہی’لو جہاد‘ کے خلاف ایک قانون لائیں گے اور تعجب نہیں ہوگا کہ مستقبل میں بی جے پی کی زیر اقتدار دیگر ریاستیں کرناٹک اور گجرات بھی اسی طرح کی قانون سازی کا اعلان کریں گی۔ جب سے بی جے پی مرکز میں اقتدار میں آئی ہے مسلم اقلیت مخالف قانون سازی کا ایک سلسلہ جاری ہے جو بھی قانون بنائے جارے ہیں ان کا راست بالراست نشانہ مسلمان ہی ہوتے ہیں چاہے وہ طلاق ثلاثہ کا قانون ہو یا گاؤ ذبیحہ یا پھر گائے کی حفاظت پر بننے والے قانون، ان کے علاوہ دفعہ 370 کی تنسیخ، سی اے اے کے نفاذ کے پس پردہ عزائم اور پھر غیر قانونی رقمی لین دین کے نام پر بنائے گئے قانون کا اطلاق بھی مسلم اداروں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دیگر اداروں اور سیاسی جماعتوں کے معاملات آزادانہ عملی اختیار کے ساتھ جاری رہتے ہیں۔ اسی طرح کئی ریاستوں میں جبری مذہب تبدیلی پر امتناع کا قانون ہے لیکن یہاں بھی کسی دوسرے مذہب کا شخص اپنی مرضی اور رغبت سے اسلام قبول کرتا ہے تو اس کو بھی اس قانون کا سہارا لے کر ہراساں کیا جاتا ہے ۔
ہندوستانی آئین کے ہر قانون پر دوہرا رویہ اختیار کرتے ہوئے ملک کی فضا میں ہمہ وقت کشیدگی کی کیفیت کرتے ہوئے اپنے عزائم کے حصول میں کوشاں بی جے پی”لو جہاد“ کے نام پر بھی دوہرا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ جہاں کوئی غیر مسلم لڑکا اپنی رضامندی سے کسی مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اس پر کوئی لب کشائی نہیں ہوتی۔ ان کے پاس اس طرح کی بین مذہبی شادیوں کی طویل فہرست بھی ہے۔ یعنی لڑکوں کو تو اپنی پسند کی شادی کرنے کی آزادی ہے لیکن ان کے سماج میں لڑکیوں کو اس طرح کی آزادی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اب یہاں بھی بی جے پی کا دوہرا رویہ سامنے آتا ہے کیونکہ ان کے اپنےگھرانوں میں ان کی اپنی کئی لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے باہمی رضامندی کے ساتھ شادیاں کرچکی ہیں ۔ یہ دراصل مذہب اسلام کی روشن اور برحق تعلیمات، پردہ کی آسودگی، اور خواتین کو دیا جانے والا وہ مرتبہ ہے جس سے متاثر ہوکر ہردن کوئی نہ کوئی غیرمسلم لڑکیاں یا لڑکے اپنے قریبی ساتھیوں میں سے کسی کے ساتھ دام محبت میں گرفتار ہوہی جاتے ہیں لیکن جب یہ شادی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں طرح طرح سے ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خاص طور پر جب کوئی غیر مسلم لڑکی کسی مسلم لڑکے سے محبت کرتی ہےاور اس سے شادی کرتی ہے تب اس کو ”لو جہاد“ کا نام دے کر نہ صرف متنازعہ بنایا جارہا ہے بلکہ اس کو ایک جرم کے زمرے میں شامل کرتے ہوئے 5 سال کی جیل کی سزا کا لزوم کرتے ہوئے مختلف ریاستوں میں اس کے لیےقانون سازی کی جارہی ہے۔چیف منسٹر اتر پردیش ریاست کے بنیادی مسائل اور ایک دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کے معاملے میں ہوئی بدنامی سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے سب سے پہلے لو جہاد کے معاملے کو متنازعہ بناتے ہوئے اس کا ارتکاب کرنے والوں کو ”رام نام ست“ کرنے کی دھمکی دی۔ یہ وہ جملہ ہے جو ہندوؤں کی میتوں میں بولا جاتا ہے۔
اب جبکہ ملک میں جرائم کو روکنے کے لیے پہلے سے ہی قوانین موجود ہیں اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی سخت قوانین بنائے گئے ہیں جس میں اگر کوئی مسلم لڑکا کسی ہندو لڑکی کو دھوکہ دیتا ہے، جبری زیادتی کرتا ہے تو اس کے خلاف موجودہ قانون کے تحت کارروائی کرتے ہوئے مزید سخت سزا دلوائی جاسکتی ہے۔ اس پر اغوا، تشدد، زیادتی کے سخت دفعات لگائے جاسکتے ہیں جس کی سزاء لو جہاد کو روکنے کے نام پر بنائے گئے قانون سے بھی سخت ہے لیکن بی جے پی حکومتیں ایسا نہیں چاہتیں ان کا مقصد سماج میں تقسیم اور پھوٹ ڈال کر اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا ہے۔ اسی لیے ایک سازش کے تحت اکثریتی طبقے کو متوجہ کرنے اور اقلیتوں کی دل آزاری کے لیے لوجہاد کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے متنازعہ قانون کی تیاری کی جارہی ہے۔
جب ملک کا دستور اور سپریم کورٹ باہمی رضا مندی سے دو بالغوں کو بلا امتیاز جنس بھی ایک ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہے اور بغیر شادی کے بھی جوڑوں کو ساتھ رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے تو پھر لو جہاد کے نام پر قانون سازی کیوں کی جارہی ہے۔ اس میں صرف لو جہاد ہی کیوں، اس میں تو ہر وہ معاملہ شامل ہونا چاہیے جو محبت کے نام پر دھوکہ دے کر کیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کی زندگی برباد کی جاتی ہے۔ اس اصطلاح میں صرف مسلمانوں کی نشاندہی کرنے والے لفظ کو ہی کیوں شامل کیا گیا۔ اس طرح بی جے پی یہ جتانے کے لیے کہ وہ ان کے مذہبی معاملات میں جب چاہے مداخلت کر سکتی ہے۔فرقہ وارانہ یکجہتی کو متاثر کرتے ہوئے سماج میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا کرسکتی ہے، یعنی وہ مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش میں ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ نیا قانون عدالت میں ٹک پائے گا یا نئے عدالتی نظام کے حوالے ہو جائے گا۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020