لاکھوں ایکرسرکاری زمین برائے فروخت

عوامی اداروں کی نجکاری کےساتھ اب اراضیات کا بھی سودا

از: زعیم الدین احمد، حیدرآباد

حال ہی میں مرکزی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مختلف محکموں کی زمینوں کو فروخت کر دیا جائے یا انہیں طویل عرصے تک لیے لیز پر دے دیا جائے۔ اس کے لیے مرکزی کابینہ نے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا ہے، یہ ادارہ عوامی شعبے کی مختلف کمپنیوں کے تحت موجود قیمتی زمینوں کو خانگی اداروں کو فروخت کرنے یا انہیں لیز پر دینے کا کام کرے گا۔ ہمارے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح کرنسی کو ڈی مونیٹائز کیا تھا اسی طرح نیشنل لینڈ مونیٹائزیشن کارپوریشن (این ایل یم سی) نامی ادارہ کے ذریعہ زمینوں کو مونیٹائز کیا جائے ۔ اداروں کی یہ زمینیں ملک اور عوام کا سرمایہ ہیں، یہ زمینیں سابقہ حکومتوں نے مستقبل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حاصل کی تھیں۔ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ مستقبل میں جب حکومتی ادارے ترقی کریں گے تو ان کی ضرورتیں بھی بڑھیں گی لہٰذا دور اندیشی کے ساتھ ان جائیدادوں کو خریدا گیا تھا، لیکن موجودہ حکومت کا کام یہی نظر آتا ہے کہ کسی طرح ان اداروں کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جائے اور اس میں کام کرنے والے لوگوں کو بے روزگار کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ پہلے سرکاری اداروں کو خانگی اداروں کے ہاتھوں کوڑیوں کے دام فروخت کر رہی ہے اور اب زمینوں پر اس کی نظریں جمی ہوئی ہیں، انہیں بھی وہ سستے داموں میں فروخت کرنے کا پکا ارادہ کر چکی ہے۔
لازمی بات ہے کہ اس وقت کی حکومتوں نے یہ زمینیں عوام کے پاس ہی سے لی ہوں گی اور پھر جن کمپنیوں کے لیے یہ زمینیں لی گئی تھیں وہ بھی سرکاری یعنی عوامی کمپنیاں ہی تھیں، لاکھوں ایکر پر مشتمل زمینیں سرکاری کمپنیوں کو دی گئیں، مثال کے طور پر ریلوے کے پاس 11 لاکھ 85 ہزار ایکر زمین ہے، اس میں سے ایک لاکھ 25 ہزار ایکڑ زمینیں ایسی ہیں جو اس نے ابھی تک استعمال نہیں کی ہے، یہ زمینیں اس ادارے نے مستقبل کی ضرورتوں کے لیے اپنے پاس رکھی تھیں۔ اسی طرح دفاعی ادارے کے پاس 17 لاکھ 85 ہزار ایکڑ اراضی ہے، شاید اتنی اراضی کسی دوسرے ادارے کے پاس نہیں ہو گی۔ یقینی طور پر اس ادارے کے پاس بھی غیر استعمال شدہ کافی زمینیں ہوں گی۔ اسی طرح وشاکھاپٹنم اسٹیل پلانٹ کے پاس تقریباً بیس ہزار ایکر اراضی ہے، اس میں سے ریاستی حکومت دو ہزار ایکر اراضی کو گنگاورم کی بندرگاہ کے لیے استعمال کیا۔ اتنی وسیع زمینیں سرکاری اداروں کے پاس موجود ہیں انہیں استعمال کر کے یہ ادارے مزید ترقی کرسکتے ہیں یا حکومت دوسرے سرکاری کاموں کے لیے انہیں استعمال کر سکتی ہے لیکن وہ ایسا نہیں کر رہی ہے بلکہ وہ ان اراضیات کو فروخت کر دینا چاہتی ہے تاکہ اس سے جو رقم حاصل ہو اس سے انتخابات کا تہوار منا سکے، انتخابات سے قبل ووٹروں کو مفت اناج اور مفت برقی وغیرہ دی جا سکے۔ بھولی بھالی عوام اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ یا پھر حکومت ان اراضیات کو اپنے کسی آقا کو سستے داموں فروخت کر دیتی ہے تاکہ انتخابات میں ان سے موٹی رقم بطور چندہ وصول کر سکے۔ یہی کھیل ہے اس حکومت کا ۔
حکومت کو ان اراضیات بیچنے کا بہانہ چاہیے، کہتی ہے کہ مفت تقسیم کے لیے رقم نہیں ہے، کسانوں کو مراعات دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں اس لیے وہ زمینیں بیچنے پر مجبور ہے۔ حکومت کارپوریٹ کمپنیوں کو ٹیکس کم کر رہی ہے۔ پچھلے سال اس نے تقریباً دس فیصد ٹیکس کم کیا تھا جس سے حکومت کو ایک لاکھ 45 ہزار کروڑ روپیوں کا نقصان ہوا، بینک کے قرضوں کو معاف کر دیا جاتا ہے، مراعات دی جاتی ہیں اور نقصان کی تلافی کے لیے سرکاری زمینوں کو فروخت کرنا چاہتی ہے۔ اس کام کے لیے اس نے الگ سے ایک کارپوریشن ہی تشکیل دے دیا ہے۔ یعنی حکومت نے زمینوں کی دلالی کرنے والا ایک ادارہ قائم کیا ہے، اس کو رئیل اسٹیٹ کمپنی یا ادارہ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ رئیل اسٹیٹ کمپنی تو زمین خرید کر اس پر مکانات بناتی اور فروخت کرتی ہے لیکن یہ سرکاری ادارہ یہ نہیں کرتا بلکہ یہ زمین کو کسی خانگی ادارے کو فروخت کرتا ہے۔ واضح طور پر یہ دلالی کا کام ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ادارہ شفاف انداز میں اپنا کام کرے گا؟ کیا واقعی حکومت کو فائدہ پہنچانا اس کا مقصد ہو گا؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ کارپوریشن خانگی اداروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے زمینوں کو کوڑیوں کے مول نہیں بیچ د ے گا؟ ہم نے سابق میں دیکھا ہے کہ سرکاری کمپنیوں کو کوڑیوں کے دام فروخت کیا گیا۔ مثال کے طور پر ایئر انڈیا کی فروختگی کے معاملہ کو ہی دیکھ لیجیے، ایئر انڈیا کو تقریباً 65 ہزار کروڑ روپیوں کا قرض تھا، 46 ہزار کروڑ روپیوں کا قرض معاف کردیا گیا، محض 18 ہزار کروڑ روپیوں کی خاطر اسے ٹاٹا کمپنی کو فروخت کر دیا گیا۔ اس میں بھی اسے 17 ہزار کروڑ روپیوں کا قرض اور اوپر سے اس میں رعایت بھی دی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ٹاٹا کمپنی کو ایئر انڈیا مفت میں حاصل ہوا ہے۔ ایک مثال گنگاورم پورٹ کی ہے۔ حکومت نے وشاکھا اسٹیل پلانٹ سے دو ہزار ایکڑ اراضی گنگاورم پورٹ کے لیے حاصل کی تھی پھر اس پورٹ کو ایک خانگی کمپنی کو دے دیا گیا، حکومت نے دو ہزار ایکڑ کے عوض دس فیصد کی حصہ داری لی تھی پھر اس دس فیصد حصہ کو بھی اڈانی کو محض 6 ہزار 20 کروڑ روپیوں میں فروخت کردیا گیا۔ یہ ایک مثال ہے جس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح سرکاری زمینوں کو کوڑیوں کے دام فروخت کیا جاتا ہے۔اصل کھیل یہ ہے کہ پہلے زمین کو معمولی حصہ داری لے کر کسی سرکاری ادارے کو دی جاتی ہے پھر اس حصہ داری کو کسی خانگی کمپنی کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اب اس کارپوریشن کے ذریعہ مرکزی حکومت کھلم کھلا یہ کام کرنا چاہتی ہے۔ اس کارپوریشن کے ذریعہ مودی حکومت اپنے سرمایہ دار آقاؤں کو سارا ملک ہی بیچ دینا چاہتی ہے، عوام کو مذہبی خانوں میں بانٹ کر، سماج میں ذاتوں کی تفریق کرکے، ان کے اندر نفرت پھیلا کر، انہیں ایک دوسرے سے لڑوا کر، اپنے اصلی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ اگر عوام اس کے اصلی ایجنڈے کو نہیں پہچانتے، اس کے نفرت انگیز کردار کو جان کر اسے زیر نہیں کرتے اور حکومت کے من مانی کاموں پر خاموش تماشائی بن کر رہنا چاہتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب سارا ملک فروخت ہو جائے گا اور ملک کے عوام کی حیثیت بندھوا مزدور اور غلاموں سے بڑھ کر نہیں رہے گی۔ ملک کے سرمایہ کو اور اس میں بسنے والی عوام کو یہ حکومت کسی کارپوریٹ شعبہ کے حوالے کر دینے کا منصوبہ بنا چکی اور وہ اس پر سختی سے عمل پیرا بھی ہے۔ اگر عوام اس وقت بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتے ہیں تو ان کا خدا ہی حافظ ہے اور اس وقت جبکہ یہ ہو چکا ہو گا کف افسوس ملنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

 

***

 اداروں کی یہ زمینیں ملک اور عوام کا سرمایہ ہیں، یہ زمینیں سابقہ حکومتوں نے مستقبل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حاصل کی تھیں۔ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ مستقبل میں جب حکومتی ادارے ترقی کریں گے تو ان کی ضرورتیں بھی بڑھیں گی لہٰذا دور اندیشی کے ساتھ ان جائیدادوں کو خریدا گیا تھا، لیکن موجودہ حکومت کا کام یہی نظر آتا ہے کہ کسی طرح ان اداروں کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جائے اور اس میں کام کرنے والے لوگوں کو بے روزگار کر دیا جائے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022