قربانی کی روح

حمیرا علیم

امی! امی! ہمیں بھی بیل لینا ہے۔ قصی، ہالہ اور انمار اسکول سے گھر آئے تو بستے لاؤنج میں میز پہ رکھ کر چلائے۔
’’نہ سلام نہ دعا اور بیل لینا ہے یہ کیا بات ہوئی بھلا؟‘‘ دادو جو صوفے پہ بیٹھی قرآن پاک پڑھیں رہی تھیں بولیں تو وہ شرمندگی سے بولے۔
’’السلام علیکم!‘‘
’’وہ دادو بات یہ ہے کہ لوگوں کے گھر کے باہر بیل بھی بندھا ہوا ہے اور دو بکرے بھی۔ بس وہی دیکھ کر انہیں دورہ پڑ گیا ہے‘‘ ہالہ جو میٹرک کی طالبہ تھی اس نے بتایا تو امی نے کھانا ٹیبل پہ لگاتے ہوئے حکم دیا۔
’’ابھی تو سب فریش ہو کر کھانا کھا لو پھر بات کرتے ہیں‘‘
تو سب اپنے کمروں میں چلے گئے۔ کھانا کھانے کے بعد دادو نے انہیں اپنے کمرے میں آنے کے لیے کہا۔ جب وہ تینوں ان کے کمرے میں پہنچے تو دادو نے انہیں بستر پہ اپنے پاس بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ذرا یہ تو بتاؤ کہ عیدالاضحٰی کا مطلب کیا ہے؟‘‘
’’ دادو ہم ابراہیم علیہ السلام کی سنت پوری کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں‘‘ ہالہ نے جواب دیا تو دادو گویا ہوئیں۔
’’بالکل ٹھیک لیکن اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ مقابلہ بازی شروع کر دیں۔ اگر کوئی ایک لاکھ کا بیل لے کر آیا ہے تو ہم سوا لاکھ کا لیں گے تبھی قربانی ہو گی ورنہ نہیں ہو گی؟ اللہ تعالٰی کو لوگوں کے گوشت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ تو نیت دیکھتے ہیں کہ کسی نے کتنے خلوص اور پیار سے میرا حکم مانا ہے۔
تم لوگوں نے وہ حدیث تو سنی ہو گی کہ اللہ تعالٰی صدقے میں دی گئی ایک کھجور کی گھٹلی کو بھی ایسے بڑھاتے ہیں کہ وہ احد پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ تو بیٹا جس کی جتنی استطاعت ہوتی ہے اتنی قربانی وہ کر سکتا ہے نا۔ اور اللہ تعالٰی سے بہتر ہمارے حالات کو کون جانتا ہے۔ اس لیے اگر تمہارے بابا بیل نہیں خرید سکتے ہیں تو کیا قربانی ہی نہ کریں؟‘‘
دادو نے استفسار کیا تو قصی اور انمار نے شرمندگی سے سر جھکا دیے۔
’’تم لوگوں نے اسلامیات میں پڑھا ہے نا کہ جنگ کے موقع پہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے تھے حتی کہ اپنا لباس بھی تو اللہ تعالٰی نے خوش ہو کر فرمایا تھا:
’’میں اُن سے راضی ہو چکا ہوں جس طرح وہ مجھ سے راضی ہے، اور اللہ کو ان کا لباس اتنا پسند آیا کہ اللہ کے حکم سے تمام حاملینِ عرش بھی وہی لباس پہنے ہوئے ہیں جو آپ کے صدیق نے پہنا تھا، حالانکہ وہ چند چیزیں ہی تھیں مگر ان کی نیت اچھی تھی تو اللہ تعالٰی نے انہیں کتنا صلہ دیا۔۔ ہے نا؟
’’اس کا مطلب یہ ہوا دادو کہ اگر ہم ایک چھوٹا سا بکرا بھی خریدتے ہیں اور ہمارا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی خوش ہو جائیں تو ہمیں بھی بہت سارا ثواب ملے گا؟‘‘
انمار جو صرف پانچ سال کا تھا اس نے اپنی سمجھ کے مطابق سوال کیا تو دادو نے اسے پیار کرتے ہوئے جواب دیا:
’’بالکل میرے بچے۔ اب تم لوگ جاو ہوم ورک کرو میں ذرا آرام کروں گی‘‘
شام میں انمار اور قصی بابا کے ساتھ جا کر ایک اچھا سا بکرا خرید کر لائے اور بڑے فخر سے اسے ساری گلی میں گھمایا۔ دو دن بعد عید تھی لہذا دونوں بھائیوں نے بکرے کی خوب خدمت کی۔ کبھی اسے چارا کھلاتے تو کبھی پانی پلاتے تو کبھی باہر گھمانے لے جاتے۔
عید والے دن دونوں صبح اٹھے تیار ہو کر بابا کے ساتھ نماز پڑھنے گئے واپس آکر امی، ہالہ اور دادو سے عید ملی پھر کپڑے تبدیل کر کے بابا کے ساتھ قربانی کے لیے تیاری کرنے لگے۔ چھریاں، بغدے، چٹائی، پانی کی بالٹی، تھال سب صحن میں رکھا اور بکرے کو لے کر آئے۔ بابا نے بکرا ذبح کیا پھر گوشت کاٹ کے دادو اور امی کے حوالے کر دیا۔
’’لو بھئی میں تو تھک گیا اب تم لوگ بانٹو اسے اور ذراکلیجی پکا کر مجھے کھانا دے دو۔‘‘
بابا نے امی سے کہا اور نہانے چل دیے تو قصی نے پوچھا۔
’’امی بابا نے کلیجی پکانے کے لیے کیوں کہا؟‘‘
’’ وہ اس لیے بیٹا کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ کا طریقہ تھا کہ وہ عید قرباں پہ کلیجی تناول فرمایا کرتے تھے۔‘‘
’’اچھا جیسے یکم ذی الحجہ سے پہلے ناخن اور بال کاٹ لینے چاہئیں اور پھر قربانی دے کر کاٹنے کی سنت ہے ویسے ہی یہ بھی سنت ہے‘‘
’’جی ہاں۔ اب تم دونوں جاو اور جن لوگوں کے گھر قربانی نہیں ہوئی ہے انہیں گوشت دے آو۔’’ ہالہ نے کہا تو انمار بولا ’’صرف انہی کے ہاں کیوں سب کو کیوں نہیں؟‘‘
’’کیونکہ جن کے گھر میں قربانی ہوئی ہے ان کے ہاں تو گوشت ہے نا اور جن کے ہاں نہیں ہوئی ان کو بھی تو ملنا چاہیے۔ چلو زیادہ باتیں نہ کرو اور فورا جاو’’ یہ کہہ کر ہالہ نے انہیں پلیٹ پکڑا کر باہر بھیج دیا۔کچھ دیر بعد دونوں واپس آئے تو بہت خوش تھے۔
’’باجی آپ نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ جب ہم گوشت بانٹنے گئے تو میرا دوست ہے نا اشج جس کے بابا کچھ دن پہلے فوت ہو گئے تھے ان کے دروازے کے باہر کھڑے تھے تو ہم نے سنا اس کا چھوٹا بھائی رو رہا تھا کہ اسے گوشت ہی کھانا ہے اور آنٹی اسے سمجھا رہی تھیں کہ’’ابھی اللہ تعالٰی گوشت بھیجیں گے تو میں اپنے بیٹے کو پکا کر کھلاوں گی۔‘‘
جب ہم نے دروازہ بجا کر پلیٹ دی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے ہمیں پیار کیا اور شکریہ ادا کیا۔ امی کیا میں اپنے حصے میں سے ایک اور پلیٹ ان کو دے آوں’’ انمار نے جھٹ سے کہا تاکہ ماں برا نہ مان جائیں۔
امی نے ہنستے ہوئے جواب دیا:
’’کیوں نہیں بیٹا یہ سب تمہارا ہی حصہ ہے جتنا مرضی دے آو’’ انمار نے خوش ہو کر ایک پلیٹ بھری اور دوبارہ اشج کے گھر کی طرف چل دیا۔ دادو نے خوشی سے اپنے پوتے کو دیکھا اور بہو سے بولیں:
’’شکر ہے میرے بچوں کو عید قربان کی روح سمجھ آ گئی کہ یہ موقع اپنی ضروریات اور خواہشات پہ دوسروں کو ترجیح دینے کا ہے۔ انشاءاللہ یہ ضرور ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد ﷺ کی تمام سنتوں پر عمل کریں گے۔‘‘
’’ انشاء اللہ!’’ ہالہ اور امی نے کہا اور کھانا بنانے لگیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 جولائی تا 16 جولائی 2022