’’قانون میں اچھا نہیں‘‘: الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے اس حکم کو منسوخ کیا جس میں صرف شادی کے لیے مذہبی تبدیلی کو ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا

اترپردیش، 24 نومبر: لائیو لاء کی خبر کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ نے پیر کے روز اپنے پچھلے فیصلے کو مسترد کردیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’صرف شادی کے مقصد سے‘‘ مذہبی تبدیلی ناقابل قبول ہے۔

واضح رہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ نے یکم نومبر کو اسی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ’’لو جہاد‘‘ (Love jihad) کے خلاف ایک نیا قانون لانے کی بات کہی تھی۔ یہ ہندوتوا تنظیموں کی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کے مطابق مسلم مردوں پر شادی کے نام پر ہندو خواتین کا مذہب تبدیل کروانے کی سازش کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ بی جے پی کے زیر اقتدار اور ریاستوں نے بھی، جیسے ہریانہ، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور آسام نے اعلان کیا کہ وہ اس کے خلاف قانون لانے پر غور کر رہے ہیں۔

اپنے تازہ فیصلے میں پیر کے روز جسٹس وِویک اگروال اور پنکج نقوی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کہا کہ دونوں فیصلوں میں سے، ایک جو ستمبر میں منظور ہوا اور دوسرا 2014 میں، کوئی بھی اس کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا کہ ’’دو بالغ افراد کا اپنا ساتھی چننے یا اپنی پسند کے شخص کے ساتھ رہنے‘‘ کی آزادی چھین لی جائے۔

ہائی کورٹ نے پیر کو کہا ’’ہم نور جہاں اور پریانشی کیس میں دیے گئے فیصلے کو اچھے قانون کے طور پر نہیں سمجھتے۔‘‘

عدالتی حکم میں بنیادی طور پر کہا گیا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تبدیلیِ مذہب جائز ہے یا نہیں۔ ریاست یا کسی بھی شخص کے ذریعے دو بالغ افراد کے اپنی پسند سے ساتھ رہنے کے حق کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ 29 ستمبر کو جسٹس مہیش ترپاٹھی کے بنچ نے ایک شادی شدہ جوڑے کی طرف سے پولیس تحفظ کے حصول کے لیے دائر رٹ پٹیشن کو مسترد کردیا تھا، جس میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے تحفظ طلب کیا گیا تھا کہ عورت ایک مسلم ہے اور اس نے صرف شادی کرنے کے لیے ہندو مذہب اختیار کرلیا ہے۔ اگرچہ ستمبر میں یہ فیصلہ سنایا گیا تھا لیکن میڈیا میں اس کی خبر اکتوبر میں آئی۔ ترپاٹھی نے اپنے فیصلے میں عدالت کے 2014 کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا تھا، جس میں اسی طرح کے معاملے میں رٹ پٹیشنوں کا بیچ خارج کردیا گیا تھا۔

معلوم ہو کہ 2014 کے نور جہاں بیگم کیس میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک ایسے جوڑے کی طرف سے تحفظ حاصل کرنے کے لیے دائر کی گئی رٹ پٹیشنوں کے بیچ کو خارج کردیا تھا، جس میں ہندو لڑکی نے اسلام قبول کرنے کے بعد شادی کر لی تھی۔ اس وقت عدالت نے پوچھاتھا کہ ’’کیا ایک ہندو لڑکی کا کسی مسلمان لڑکے کی بات پر بغیر اسلام کے بارے میں علم اور یقین کے اور محض شادی کے مقصد سے مذہب تبدیل کرنا جائز ہے؟‘‘