عدالتِ عظمیٰ ہندوستانی خاندانی رسوم کو بدلنا نہیں چاہتی، الہ آباد ہائی کورٹ نے شادی کے بغیر ساتھ رہنے والے ایک بین المذاہب جوڑے کی درخواست کو مسترد کیا

نئی دہلی، جون 25: الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک شادی کے بغیر ساتھ رہنے والے ایک بین المذاہب جوڑے کی طرف سے پولیس کی طرف سے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف تحفظ کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

جسٹس سنگیتا چندرا اور نریندر کمار جوہری کی بنچ نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ’لیو اِن ریلیشن شپ‘ پر کیے گئے مشاہدات کو ہر کیس کے حقائق کے تناظر میں الگ الگ پڑھنا چاہیے۔

بنچ نے مزید کہا ’’سپریم کورٹ کے مشاہدات کے مطابق بھی ایسے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے غور نہیں کیا جا سکتا۔ قانون روایتی طور پر شادی کے حق میں رہا ہے۔ یہ شادی شدہ افراد کو شادی کے ادارے کو برقرار رکھنے اور اس کی حوصلہ افزائی کے لیے بہت سے حقوق اور مراعات محفوظ رکھتا ہے۔‘‘

ایک 29 سالہ ہندو خاتون اور ایک 30 سالہ مسلمان مرد نے 2006 کے لتا سنگھ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ججوں سے تحفظ طلب کیا تھا۔

اس معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ’’ذات کا نظام قوم کے لیے ایک لعنت ہے اور اسے جتنی جلدی ختم کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ درحقیقت یہ ایک ایسے وقت میں قوم کو تقسیم کر رہی ہے جب ہمیں متحد ہو کر قوم کے سامنے آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ لہذا، بین ذاتی شادیاں درحقیقت قومی مفاد میں ہیں کیوں کہ ان کے نتیجے میں ذات پات کا نظام تباہ ہو جائے گا۔‘‘

2013 میں عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا تھا کہ ’’لیو اِن یا شادی جیسا رشتہ نہ تو جرم ہے اور نہ ہی گناہ حالاں کہ اس ملک میں سماجی طور پر ناقابل قبول ہے۔‘‘

جسٹس کے ایس رادھا کرشنن کی سربراہی والی بنچ نے کہا تھا کہ شادی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ’’انتہائی ذاتی‘‘ ہے۔

تاہم الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ محض ایک سماجی حقیقت کو قبول کر رہی ہے اور اس کا ’’ہندوستانی خاندانی زندگی کے تانے بانے کو ادھیڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے‘‘۔

ججوں نے نوجوانوں میں ان مختلف قانونی پریشانیوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جو اس طرح کے تعلقات کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ’’لیو اِن ریلیشن شپ میں شراکت دار اپنے ساتھی کی جائیداد میں وراثت کے خودکار حق سے لطف اندوز نہیں ہوتے ہیں۔‘‘

بنچ نے کہا کہ بین المذاہب جوڑے نے بے بنیاد الزامات کے ساتھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ججوں نے مزید کہا کہ ’’انھوں نے رٹ پٹیشن میں کہیں بھی پولیس کے آنے اور ان کے دروازے کھٹکھٹانے یا پولیس اسٹیشن لے جانے کی کوئی خاص مثال نہیں بتائی ہے۔‘‘

جوڑے نے عدالت کو بتایا کہ خاتون کی والدہ ان کے تعلقات سے ناخوش تھیں اور پولیس کے پاس گئی تھیں، جو انھیں ’’مسلسل ہراساں‘‘ کرتی ہیں اور ان کی پرامن زندگی میں خلل ڈالتی ہیں۔

ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اسلام شادی سے پہلے جنسی تعلقات کو تسلیم نہیں کرتا۔

حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’قرآن کے مطابق اس طرح کے جرم کی سزا غیر شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے سو کوڑے ہیں جو زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے سنگسار کرنے کی سزا مقرر کی ہے۔‘‘