جماعت اسلامی ہند نے اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کے تحفظ اور اس کے لیے خصوصی مالی پیکج کا مطالبہ کیا

نئی دہلی، دسمبر 26: وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کو ملک کے تمام خطوں کی نمائندگی کرنے والے ’’منی انڈیا‘‘ قرار دینے کے بعد جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) نے مرکزی اور ریاستی حکومت پر زور دیا کہ وہ یونیورسٹی کی توسیع کے لئے خصوصی مالی پیکیج مختص کریں اور یونیورسٹی میں ہونے والے تحقیقی کاموں کو مزید تیز کریں۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم نے 22 دسمبر کو یونیورسٹی کے صد سالہ جشن کے موقع پر بطور مہمان خصوصی آن لائن تقریر کرتے ہوئے یونیورسٹی کو "منی انڈیا” کہا تھا۔

یونیورسٹی کی توسیع اور اس کی تحقیقی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لیے مزید مالی پیکیج کا مطالبہ کرتے ہوئے امیرِ جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے حکومت سے یہ بھی اپیل کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ برقرار رہے اور تمام بڑے شہروں میں یونیورسٹی کے زیادہ سے زیادہ مراکز کھولے جائیں۔

ایک بیان میں ، جناب حسینی نے کہا ’’اپنی توسیع اور تحقیقاتی سہولیات کو بڑھانے کے لیے یونیورسٹی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے خصوصی پیکجوں کی مستحق ہے۔ اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت اور مسلم ثقافت کا گڑھ ہونے کی حیثیت سے اس کی حیثیت کو احتیاط آگے بڑھانے اور اس کے تحفظ کی ضرورت ہے۔‘‘

امیر جماعت نے اے ایم یو کے وائس چانسلر کو بھیجے گئے ایک یادگار میں، صد سالہ تقریبات کے موقع پر طلبا، اساتذہ، انتظامیہ اور اے ایم یو کے سابق طلبا کو مبارکباد پیش کی اور یونیورسٹی کی مزید ترقی کی امید ظاہر کی۔

انھوں نے دعا کی کہ اے ایم یو دنیا کی سرفہرست دس یونیورسٹیوں میں شامل ہوجائے۔

انھوں نے کہا ’’اے ایم یو نے تعلیم اور تحقیق میں قابل قدر شراکت کے 100 سال کا قابل فخر سفر مکمل کیا ہے۔ میں اے ایم یو انتظامیہ، اس کے طلبا، سابق طلبا اور تمام اہل وطن کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہم توقع کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا اس کے تعلیمی سفر کے اگلے مرحلے کو زیادہ متاثر کن اور رہنما بنائے۔‘‘

امیر جماعت نے حکومت ہند کو بھی اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے لیے اس کی ذمہ داری یاد دلائی۔

انھوں نے زور دے کر کہا ’’اقلیتوں کی تعلیمی ترقی اور ان کے ثقافتی حقوق کی آئینی ضمانت کا تقاضا ہے کہ حکومت کو ان اداروں پر توجہ دی جانی چاہیے۔ حکومت کو اس حملے یا اقدام کے خلاف بھی مضبوطی سے ڈھال بننا چاہیے جو وقتاً فوقتاً اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔‘‘