فلسطینی!! اپنے ہی وطن میں غریب الوطن

مسجد اقصیٰ کو ویران بنانےکے لیے صیہونیوں کی منصوبہ بند سازش

مسعود ابدالی

 

شیخ جرّاح میں اسرائیلی بستیوں کے قیام سے ہزاروں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کا امکان
ایک طرف اسلامی دنیا رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اللہ کی رحمتیں سمیٹنے میں مصروف ہے تو دوسری طرف قبلہ اول کے اردگرد آنسو گیس کا دھواں ہے اور ربڑ کی گولیوں کی تڑٹراہٹ گونج رہی ہے۔ لگتا ہے کہ اس بار غسلِ عید بھی فلسطینی اپنے لہو سے کریں گے۔ اب تک ایک 16سالہ بچے سمیت تین فلسطینی حرمتِ قدس پر قربان ہو چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 300سے زیادہ ہے۔ درجنوں افراد اسرائیلی فوج کے گھڑ سوار دستوں سے کچل کر گھائل ہوئے۔ رمضان کی پچیسویں شب فلسطینیوں کیلئے شام غریباں بن گئی جب حرم شریف کے ساتھ مسجد اقصیٰ کے اندر بھی اسرائیلی فوج نے ربڑ کی گولیاں برسائیں۔ اسی کیساتھ مسجد کی بجلی بند کر کے خوفناک چمک اور بھیانک آواز پیدا کرنے والے Sound Grenades پھینکے گئے۔ گھپ اندھیرے میں مصلیوں سے کھچا کھچ بھری مسجد میں قیامت خیز دھماکوں سے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوئے۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل عفیف کہفی Aviv Kohafi نے مظاہرے کچلنے کیلئے اضافی فوجی دستے تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
قیام اسرائیل کے وقت سے کوشش ہے کہ فلسطینی اپنا وطن چھوڑ کر مصر، شام اور اردن چلے جائیں لیکن ان سخت جانوں کو اصرار ہے کہ ’ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے یہیں خاک اپنی ملائیں گے‘
فلسطینیوں کے اجڑنے کی داستان 74 سال پرانی ہے جب 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطا کر دیے اور برطانیہ نے فوراً ہی فلسطین کو عرب اور یہودی علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد اسرائیلیوں کو فلسطین کا 56 فیصد علاقہ بخش دیا گیا جس پر اسرائیلی ریاست قائم ہوئی۔ فلسطینیوں کو اپنی ہی ریاست کی 42 فیصد زمین عطا ہوئی۔ اس پورے قصے بلکہ المیے کا احاطہ ایک کالم بلکہ ایک کتاب میں بھی ممکن نہیں، چنانچہ آج ہم اپنی گفتگو بیت المقدس تک محدود رکھیں گے جہاں آجکل قیامت بپا ہے۔تقسیم کے وقت بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatum قرار پایا۔ گنبد صخریٰ، مسجد اقصیٰ، دیوارِ گریہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت اہم متبرکات اور مقدسات مشرقی جانب دیوار سے گھرے ایک مربع کلومیٹر کے قریب رقبے میں ہیں جنہیں بلدۃ القدیم یا Old City کہا جاتا ہے۔ اولڈ سٹی اور مضافات پر مشتمل پورا علاقہ مشرقی یروشلم یا القدس الشرقیہ کہلاتا ہے۔ اُسوقت القدس شریف یا بیت المقدس کی آبادی ایک لاکھ تھی جہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔ مشرقی بیت المقدس میں مسلمانوں اور مسیحیوں کی اکثریت تھی، جبکہ مغربی بیت المقدس میں یہودی آباد تھے۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مشترکہ اثاثے کا مطلب ہی تھا کہ ہتھیار وسیاست سے پاک اس غیر عسکری علاقے کا انتظام مقامی آبادی کے ہاتھ میں ہو گا جہاں لوگ صرف زیارت وعبادت کی غرض سے جا سکیں گے اور علاقہ ساری دنیا کے غیر مسلح وپرامن زائرین کیلئے ہر وقت کھلا رہیگا۔ تقسیم کا اعلان ہوتے ہی اسرائیلیوں نے جشن آزادی کے جلوس نکالے اور ان مسلح مظاہرین نے عرب علاقوں پر حملے کیے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں تقسیم پر عملدرآمد اور اسکے بعد اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن قائم رکھنے کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد کی گئی تھی۔ یہ ذمہ داری برطانیہ نے کچھ اسطرح ادا کی کہ فلسطینی آبادیوں کے گرد فوجی چوکیاں قائم کر کے انہیں محصور کر دیا اور اسرائیلی دہشت گرد برطانوی چوکیوں کی آڑ لے کر بہت اطمینان سے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ اس دوران ہزاروں فلسطینی مارے گئے۔ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہو گئی حالانکہ معاہدے کے تحت بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات کسی شخص کو پھل کاٹنے سے بڑی چھری اور پٹاخہ تک لے کر جانے کی اجازت نہ تھی۔ فلسطینی سینہ تان کر سامنے آئے لیکن جدید اسلحے سے لیس اسرائیلیوں نے نہتے جوانوں کی مزاحمت کو کچل دیا۔ ’فتح مبین‘ کے بعد اسرائیلی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael (ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کر دیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کر لیا۔ اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونسٹ رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔ ستم ظریفی کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر جس میں صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ تقسیم فلسطین عارضی ہے اور اسے ریاست کی بنیاد نہیں بنایا جائیگا، امریکہ اور روس دونوں کے دستخط تھے۔ امریکہ اور روس سے توثیق کے بعد اسرائیلی فوج نے علاقے میں نسلی تطہیر کا کام شروع کیا اور یہاں آباد لاکھوں فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا اور وہ بھی اسطرح کے بحرروم کی ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کر کے سمندر تک رسائی کو نا ممکن بنا دیا۔ گویا کھلی چھت (Open Air) کے اس عظیم الشان جیل خانے میں 12 لاکھ فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔ بہت سے فلسطینیوں نے جان بچانے کیلئے اردن کا رخ کرلیا۔ جبری اخراج کے پہلے مرحلے میں فلسطینیوں سے مجموعی طور پر 2000 ہیکٹرز Hectares یا 2 کروڑ مربع میٹر اراضی چھین لی گئی۔ تاہم چند ہزار سخت جان مشرقی بیت المقدس رہ جانے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی دوران 15 مئی 1948 کو اسرائیل نے اپنے عرب پڑوسیوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ ان دنوں عرب لیگ ایک موثر ادارہ تھا چنانچہ سعودی عرب، عراق اور شمالی یمن سمیت تمام عرب ممالک نے القدس کی آزادی کیلئے فوجی دستے بھیجے۔ جنگ میں عربوں کی کارکردگی خراب رہی لیکن اردنی افواج نے مشرقی بیت المقدس کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرالیا۔ مغربی بیت المقدس بدستور اسرائیل کے پاس رہا۔ اسرائیلی دہشت گری سے تنگ آکر تل ابیب، حیفا اور یہودی اکثریت والے دوسرے علاقوں سے کافی تعداد میں فلسطینی مشرقی یروشلم آ گئے جو اب اردن کی ہاشمی سلطنت کا حصہ تھا۔
جنگ ختم ہونے کے باوجود مشرقی بیت المقدس میں دہشت گردانہ کارروائی جاری رہی حتیٰ کہ 5 جون 1967 کو خوفناک عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا جو صرف 6 دن جاری رہی لیکن اس مختصر دورانیے میں اسرائیل نے شام سے گولان کی پہاڑیاں، اردن سے مشرقی بیت المقدس سمیت غرب اردن اور مصر سے صحرائے سینائی کا بڑا علاقہ چھین لیا۔ جنوبی لبنان کے کچھ علاقے پر بھی اسرائیل نے قبضہ جما لیا۔ مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کرتے ہی اسرائیل نے اسکے مشرقی ومغربی حصے باہم ضم کر کے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دے دیا۔ اسرائیل کے اس فیصلے کے خلاف سلامتی کونسل میں بات اٹھی لیکن امریکہ اور برطانیہ نے ویٹو کر کے قرارداد کو غیر موثر کر دیا۔ عربوں کی اشک شوئی کیلئے کہا گیا کہ عالمی برادری مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا حصہ تصور کرتی ہے۔
پانچ سال بعد اکتوبر 1973 میں ایک اور جنگ ہوئی جسکا آغاز یہودیوں کے تہوار، کپر کے روز ہوا اس لیے اسرائیلی اسے یوم کپر جنگ کہتے ہیں جبکہ عربوں کیلئے یہ جنگ اکتوبر ہے۔ جنگ چونکہ رمضان میں ہوئی اس لیے اسے معرکہِ رمضان بھی کہا جاتا ہے۔ اٹھارہ دن جاری رہنے والی اس جنگ میں مصر اور شام کو شکست ہوئی اور اسرائیلی فوجیں نہر سوئز عبور کرکے قاہرہ سے صرف 60 کلومیٹر فاصلے تک پہنچ گئیں۔پے درپے عسکری شکست سے عربوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی اور اسرائیل کے خلاف مشترکہ لائحہِ عمل کے بجائے شام، مصر اور اردن نے اپنے ملکی مفادات کو آگے بڑھانا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے صدر انوارالسادات نے 1978 میں اسرائیل سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا جو کیمپ ڈیود عہدِ امن کے نام سے مشہور ہوا جس کے بعد 1994 میں اردن کے شاہ حسین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔
امریکہ کے دباو پر اسرائیل سے تعلقات کے ہونکے میں جہاں عربوں نے فلسطینیوں کو نظر انداز کر دیا وہیں اسرائیل نے مقبوضہ عرب علاقوں پر اسرائیلی بستیاں قائم کرنی شروع کر دیں۔ پہلے تو ہاوسنگ سوسائیٹیاں بنا کر فلسطینیوں کے خالی وغیر آباد علاقوں پر قبضہ کیا گیا۔ اسکے بعد فلسطینیوں کی ہنستی کھیلتی آبادیوں پر بلڈوزر پھیرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بے گھر ہونے والے عرب غربِ اردن کے مہاجر کیمپوں کی زینت بن گئے۔
اس سلسلے میں بڑی کارروائی 2014 میں ہوئی جب یہودا اور السامریہ کے ہنستے بستے شہر خالی کرائے گئے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کا موقف تھا کہ یہودا اور سامریہ میں 1967سے نافذ مارشل لا کی وجہ سے علاقے کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد پہلے ہی فوج کی ملکیت ہے۔ اب اس ہٹ دھرمی کا کیا علاج کہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود اسرائیلی عدالت اپنے ایک فیصلے میں یہودا اور سامریہ سمیت پوری وادی اردن کو مقبوضہ علاقہ قرار دے چکی ہے۔ دوسری مدت کا انتخاب جیتنے کے بعد صدر اوباما نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل اور فلسطین دو آزاد وخودمختار ریاستوں کے حامی ہیں اور انکے خیال میں مشرقی بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہو گا۔ امریکی صدر کی خواہش کو پیروں تلے روندتے ہوئے یہودا اور سامریہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے وہاں اسرائیلی بستیاں تعمیر کر دی گئیں۔ صدر اوباما نے بھی یہ توہین بے شرمی سے برداشت کر لی۔
ادھر کچھ عرصے سے مشرقی بیت المقدس کی حیثیت تبدیل کرنے کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔گزشتہ دنوں جب فلسطین کے پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہوا تو نیتن یاہو نے صاف صاف کہ دیا کہ مشرقی بیت المقدس دارالحکومت کا حصہ اور اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے۔ فلسطینیوں کو القدس شریف اور مسجد اقصیٰ تک رسائی تو حاصل ہے لیکن یہ علاقہ انکی سیاسی عملداری میں شامل نہیں لہٰذا یہاں انتخابات نہیں ہوںگے۔
اسی کے ساتھ مشرقی بیت المقدس میں آباد فلسطینیوں کو مشکلات میں مبتلا کرنے کی مہم کا آغاز ہوا جس میں گھروں پر چھاپے، اوباش نوجوانوں کے حملے، جعلی پولیس مقابلوں میں فلسطینیوں کا قتل، بلدیہ کی طرف سے تجاوزات ہٹانے کے نوٹس، کرونا کی خلاف ورزیوں پر دوکانوں کی بندش وغیرہ شامل ہیں۔ ابھی چند دن پہلے آرائشِ گیسو کی ایک ماہر 60 سالہ فلسطینی خاتون کو فوج نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ بیت اللحم کی رہائشی فہیمہ الحروب کا چلتا ہوا سیلون فوج نے بند کرادیا تھا، نتیجے کے طور پر وہ بیچاری کوڑی کوڑی کی محتاج ہو گئی۔ اس صدمے سے فہیمہ دماغی توازن کھو بیٹھی اور سڑکوں پر بے مقصد مٹر گشتی اسکی عادت بن گئی۔ پیر 10 مئی کو یہ خاتون نابلس کے قریب سڑک پر چلتے ہوئے فوجی چوکی کے پاس پہنچ گئی۔ سپاہیوں نے رکنے کا اشارہ کیا لیکن دماغ سے ماوف خاتون کو تنبیہ کا پتہ ہی نہ چلا اور وہ خراماں خراماں چلتی رہی۔ اسرائیلی فوجیوں نے چند گز کے فاصلے سے اسکے سر کو نشانہ بنایا اور یہ خاتون موقع پر ہی دم توڑ گئی۔ ایسے ہی ایک واقعہ میں تین دن بعد 16 سالہ سعید عودہ اسرائیلی فوج کا نشانہ بنا۔
موجودہ کشیدگی کا سبب مشرقی یروشلم کے قدیم محلے شیخ جرّاح کے مکینوں کو ملنے والی نوٹسیں ہیں۔ یہ چٹھیاں کہیں اور سے نہیں بلکہ عدالت سے آئی ہیں۔ سینکڑوں اسرائیلی شہریوں نے اجتماعی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ شیخ جراّح کے مکینوں سے جائیداد اور دوکانیں خالی کرائی جائیں۔ وزارت دفاع کے مطابق یہاں آباد لوگوں کو بیدخل کر کے غرب اردن کے مہاجر کیمپ منتقل کر دیا جائیگا اور اس مقام پر اسرائیلیوں کیلئے 530 مکانات اور شاپنگ سنٹر تعمیر ہوں گے۔
شیخ جراح، سلطان صلاح الدین ایوبی کے ذاتی طبیب تھے جنکے نام پر 1865 میں یہ محلہ آباد ہوا، یعنی اسرائیل کے قیام سے 83 سال پہلے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ یہاں آباد لوگوں کے پاس قبضے (لیز) کی قانونی دستاویزات نہیں تھیں لہٰذا جائیداد بحقّ سرکار ضبط کر کے ’شفاف نیلامی‘ کے ذریعے اسرائیلیوں کو فروخت کر دی گئی۔ ’خریداروں‘ نے پراپرٹی پر قبضے کیلئے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ سائلین کا دعویٰ بڑا مضبوط ہے کہ ادائیگی براہ راست سرکار کو کی گئی ہے اور تعمیر کیلئے بینکوں سے قرض منظور ہونے کے بعد تعمیراتی اداروں سے معاہدے بھی ہو چکے ہیں۔فیصلہ 17 مئی کو سنایا جانا ہے۔بیدخلی کے خلاف یہاں آباد فلسطینی مظاہرے کر رہے ہیں جنہیں منتشر کرنے کیلئے طاقت کے بے رحمانہ استعمال نے بہت سے فلسطینیوں کی جان لے لی۔ پولیس مظاہرین کا تعاقب کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ تک آگئی۔ آخری عشرے کے آغاز سے اسرائیلی فوج اور پولیس نے گنبد صخریٰ کے دالان اور نابلس کی طرف کھلنے والے دروازے باب العامور المعروف دمشق گیٹ پر قبضہ کر لیا جہاں فلسطینی رمضان میں افطار کرتے ہیں۔ اس دروازے کے باہر فلسطینی ٹھیلوں پر افطار کا سامان اور قہوہ فروخت کرتے ہیں۔
جمعرات کی رات پولیس اسوقت مسجد اقصیٰ کی طرف آئی جب لوگ تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے۔ رمضان کی پچیسویں شب ہونے کے سبب مسجد گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی اور لوگوں نے باہر بھی صفیں بنالی تھیں۔ پولیس نے آتے ہی باہر نماز پڑھنے والوں کو منتشر کرنے کیلئے اشک آور گیس پھینکنی شروع کر دی۔ پولیس کا کہنا تھا عبادت مسجد تک محدود ہونی چاہیے اور فلسطینی اوقاف کی ذمہ داری ہے کہ جب مسجد بھر جائے تو وہ بعد میں آنے والوں کو واپس گھر بھیج دیں۔ اسی کیساتھ فوج کے سپاہیوں نے لاوڈ اسپیکر کے تار کاٹ دیے۔ مسجد خالی کرنے کے لیے اشک آور گیس پھینکی گئی جس سے سینکڑوں نمازی زخمی ہوئے اور 53 افراد ڈنڈوں اور ربر کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ تصادم میں 17 پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔
مقتدرہ فلسطین (PA) کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم مسلم امت اور اسرائیل کے ’ابراہیمی دوستوں‘ کو اس پر کوئی تشویش نہیں۔ صرف ترکی اور پاکستان کی جانب سے مذمتی بیان جاری ہوئے۔ صدر ایردوان نے اپنے ایک ٹویٹ میں قبلہ اول پر اسرائیلی فوج کی چڑھائی کو ایک قابل نفرت قدم قرار دیا ہے۔ ترکی، عبرانی اور عربی زبانوں میں جاری ہونے والے پیغام میں ترک صدر نے فلسطینیوں سے مکمل یکجہتی کا اعلان کیا۔ یورپی یونین نے بھی اسرائیلی اقدامات کو امن کیلئے خطرہ قرار دیا ہے لیکن عالمی ذرایع ابلاغ عملاً خاموش ہیں۔ امریکہ کے تینوں مسلمان ارکانِ کانگریس سمیت، ترقی پسند جسٹس ڈیموکریٹس کے 10 ارکان نے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے مذمتی ٹویٹس بھیجے ہیں۔
شیخ جرّاح محلے میں اسرائیلی بستیوں کے قیام سے ہزاروں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کا صدمہ اپنی جگہ لیکن اس سے بڑا ڈر یہ ہے کہ اگر نسل پرست، مشرقی بیت المقدس سے مسلمان بستیاں ختم کر کے یہاں اسرائیلیوں کو آباد کرنے میں کامیاب ہو گئے تو القدس اور مسجد اقصیٰ کا تشخص بری طرح متاثر ہو گا۔ معمولی سی بد امنی پر باہر سے آنے والے فلسطینیوں کا قدیم شہر میں داخلہ بند کر دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں مشرقی یروشلم کے مسلمانوں کے دم سے ہی مسجد اقصیٰ آباد رہتی ہے۔ اگر یہ آبادی اجڑ گئی تو خاکم بدہن اللہ کا یہ قدیم گھر بھی و یران ہو سکتا ہے۔ ماضی میں تلاشِ آثارِ قدیمہ کے نام پر مسجد اقصیٰ کے انہدام کی کئی کوششیں کی گئیں جسے یہاں آباد مسلمانوں نے ناکام بنا دیا تھا۔ پاسبانوں کی بے دخلی کہیں بنتِ کعبہ کی بے حرمتی کی پیش بندی تو نہیں؟
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال
کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

اسرائیلی سپاہی اس وقت مسجد اقصیٰ کی طرف آئے جب لوگ تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے۔ رمضان کی 25ویں شب ہونے کے سبب مسجد گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی اور لوگوں نے باہر بھی صفیں بنالی تھیں۔ پولیس نے آتے ہی باہر نماز پڑھنے والوں کو منتشر کرنے کیلئے اشک آور گیس پھینکنی شروع کر دی۔ پولیس کا کہنا تھا عبادت مسجد تک محدود ہونی چاہیے اور فلسطینی اوقاف کی ذمہ داری ہے کہ جب مسجد بھر جائے تو وہ بعد میں آنے والوں کو واپس گھر بھیج دیں۔ اسی کے ساتھ فوج کے سپاہیوں نے لاوڈ اسپیکر کے تار کاٹ دیے۔ مسجد خالی کرنے کے لیے اشک آور گیس پھینکی گئی جس سے سینکڑوں نمازی زخمی ہوئے اور 53 افراد ڈنڈوں اور ربر کی گولیوں کا نشانہ بنے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 16 مئی تا 22 مئی 2021