اسرائیل پر ایران کا حملہ یا دوستانہ میچ؟

اسرائیل پر ایران کا حملہ یا دوستانہ میچ؟

مسعود ابدالی

F-35 طیاروں کے ایک اڈے کو نشانہ بنانے میں جزوی کامیابی
اکثر ڈرون اور میزائیلوں کو اسرائیلی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے ہی ناکارہ کر دیا گیا
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ایران نے اسرائیل پر 185 شاہد ڈرون، 110 میزائیل، 36 کروز اور متعدد منجنیقی (ballistic) میزائیل داغ دیے۔ پانچ گھنٹے جاری رہنے والی اس مہم کا آغاز عراقی صوبے دیالہ کے قریب ایرانی سرحد سے ہوا۔یمن کے حوثیوں، لبنانی حزب اللہ اور عراقی ایران نواز عناصر نے بھی اس مہم میں حصہ لیا۔ ایران کا حملہ کسی بھی اعتبار سے غیر متوقع نہیں تھا بلکہ اس حملے کی سب سے منفرد بات یہ تھی کہ اس میں راز داری کا تکلفاً بھی خیال نہیں رکھا گیا اور ایران نے سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر کیا۔
دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیل کے میزائیل حملے کا تہران نے بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ یکم اپریل کو ہونے والی میزائیل باری میں 16 افراد جاں بحق ہوئے جن میں پاسداران انقلاب ایران کے سینئر کمانڈر بریگیڈیر جنرل محمد رضا بھی شامل تھے۔
ایران نے حملے کے لیے اپنی تیاریوں کو خفیہ رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور 12 اپریل کو امریکی صدر جو بائیڈن نے بہت اعتماد سے کہا کہ ایرانی حملہ 24 گھنٹے میں متوقع ہے اور اس کے ساتھ ہی اسرائیلی دفاع کی بنفس نفیس نگرانی کے لیے امریکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا تل ابیب پہنچ گئے۔
ہفتے کی رات ایرانی وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ ’قابض صیہونیوں‘ پر میزائیل اور ڈرون داغ دیے گئے ہیں۔ٹھیک اسی وقت اسرائیلی فوج کے ترجمان نائب امیر البحر ڈینئل ہگاری قومی ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور کہا کہ ہم غافل نہیں ہیں۔ اسرائیل کا دفاعی نظام مستعد و چوکس ہے۔ انہوں نے اسرائیلی شہریوں کو حفاظتی اقدامت اختیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ Killer Drone نصف شب (ہندوستانی معیاری وقت مطابق اتوار کی صبح ساڑھے تین بجے) تک اسرائیلی حدود میں داخل ہوں گے اور ان کے استقبال کو ہم تیار ہیں۔
اسی کے ساتھ امریکہ نے اسرائیل کے تحفظ کے لیے اردن، عراق و شام کی فضاوں پر حفاظتی چھتری (Aerial umbrella) تان دی۔ امریکہ، برطانیہ اور اردنی فضائیہ کے طیارے فضا میں بلند ہوئے اور ایرانی ڈرونوں کو روکنے کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ اسرائیلیوں کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ چینل 12 نے ایرانی ڈرون، راکٹ اور میزائیلوں کے اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہونے کی تفصیل اسکرین پر لگا دی جسے ہر پانچ منٹ بعد update کیا جا رہا تھا۔
امریکہ کے دفاعی نظام نے اکثر ڈرونوں اور میزائیلوں کو اسرائیلی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے ہی ناکارہ کردیا۔ اسرائیل کی فضا نصف شب کے بعد میزائل شکن مزاحمتی گولوں Interceptor کے دھماکوں سے گونچ اٹھی۔ ڈرون اور مزاحمتی گولوں کے تصادم سے آسمان پر پھلجڑی کا سمان بندھ گیا۔ مسجد اقصٰی اور گبند صخرہ کے اوپر بھی یہی منظر تھا۔
ڈرون اور میزائیل داغے جانے کے فوراً بعد پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تہران نے ’اقوام متحدہ کے چارٹر 51 کے تحت کارروائی کی ہے جو تمام اقوام کو دفاع کا حق دیتا ہے، ہمارا مشن مکمل ہوگیا۔ ایران کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا‘۔ ساتھ ہی کہا کہ ’اس معاملے میں امریکہ ٹانگ نہ اڑاے‘۔
صبح پانچ بجے اسرائیل میں خطرہ ٹلنے کے سائرن کے ساتھ اعلان ہوا کہ ’میزائیلوں کی بارش تھم چکی ہے اور شہری اب معمول کی مصروفیات شروع کر سکتے ہیں‘ تھوڑی ہی دیر بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے ایران کا خوف ناک حملہ ناکام بنا دیا، ان کے 99 فیصد ڈرون اور میزائیلوں کو اسرائیل نے اپنے ’اتحادیوں‘ کی مدد سے فضا میں ہی ناکارہ کر دیا ہے۔ترجمان کے مطابق ایک میزائیل گرنے سے صحرائے نقب (Negev Desert) کے شہر ارد میں ایک سات سالہ بچی شدید زخمی ہوئی اور جنوبی اسرائیل میں ایک فوجی اڈے کی عمارت کو معمولی نقصان پہنچا۔
اس مشن کے نتیجے میں ایران نے یہ ثابت کر دیا کہ اس کے ڈرون اور میزائیلوں کی پہنچ اسرائیل تک ہے۔ کم ازکم تین ایرانی میزائیل اسرائیلی اڈوں تک پہنچے اور F-35 طیاروں کے ایک اڈے کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے تاہم اس سے صرف عمارت کی بیرونی دیوار کو ہی نقصان پہنچ سکا۔ یعنی رت جگے اور اعصاب شکن اضطراب کے سوا اسرائیلیوں کو کوئی خاص زک نہ پہنچ سکی۔آئرن ڈوم اور اس سے متعلقہ اخراجات چچا سام کے سر ہیں اس لیے مالی بوجھ بھی کوئی خاص نہیں۔
اس قسم کی کارروائی میں راز داری کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے یعنی دشمن کو بےخبری میں دبوچ کر ہی کاری ضرب لگائی جاتی ہے لیکن ایران کا ہر عمل انتہائی شفاف تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب عسکری ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔
سات اکتوبر کے بعد یہ غزہ کی انتہائی پرسکون شب تھی کہ وہاں تعینات تمام بمبار طیارے اور خونی ڈرون ایرانی ڈرونوں اور میزائیلوں کا تعاقب کر رہے تھے۔ اس لحاظ سے یہ اس دوستانہ میچ کا سب سے مثبت پہلو تھا۔
[email protected]
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 سات اکتوبر کے بعد غزہ کو پہلی بار ایک پرسکون شب میسر ہوئی کیونکہ وہاں تعینات تمام بمبار طیارے اور خونی ڈرون ایرانی ڈرونوں اور میزائیلوں کا تعاقب کر رہے تھے۔ اس لحاظ سے یہ ایران کی کارروائی کا سب سے مثبت پہلو تھا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024