فطرت کی طرف بلانا جرم نہیںکارعظیم ہے

قانون کوحق تلفیوں کا ذریعہ بناناہی اصل جرم۔جبری تبدیلی مذہب کا الزام لگانے والے ثبوت پیش کرنے سے قاصر

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی، لکھنو

 

آج کل ہندوستان میں پولیس اور میڈیا کا یہ عام وطیرہ ہوگیا ہے کہ ایک شخص جس کی زندگی کھلی کتاب کی طرح جگ ظاہر ہوتی ہے جب وہ اسے مذموم مقاصد کے تحت اپنا شکار بناتے ہیں تو اس کے تعلق سے عام اور معروف و معلوم باتوں کو بھی اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے ان کا تعلق کسی خوف ناک انجان دنیا سے ہو اور پہلی بار ان کا انکشاف ہورہا ہو۔ یہاں میں محض یہ بات واضح کرنا چاہتاہوں کہ ہندوستان کی پولیس، خصوصاً اس کی اسپیشل ایجنسیاں اور اسکواڈس حکومت کے اشارے پر جب بھی کسی خاص یا عام مسلم شخص کو گرفتار کرتی ہیں تو اس کے ذمہ داران متعصب اور بکی ہوئی میڈیا کی مدد سے ایک عام سے کیس کو بھی اس طرح پیش کرتے ہیں جس سے یہ محسوس ہو کہ وہ شخص کسی خفیہ ریاکٹ کا سرغنہ یا کسی دہشت گردانہ منصوبے کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وہ یہ بھی تاثر دیتے ہیں جیسے اس کے پیچھے کچھ پر اسرار سرگرمیوں کا سلسلہ ہو جس کا بھانڈا ان کے ذریعہ پہلی بار پھوڑا جا رہا ہے۔ اس طرح دو چار دنوں کے لیے طباعتی و غیر طباعتی میڈیا میں قصداً بھونچال لایا جاتا ہے اور نفرت کا کھیل اس حساب سے کھیلا جاتا ہے کہ اس سے آئندہ سیاسی و انتخابی فائدے پوری طرح حاصل کیے جا سکیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ پہلے مدتوں منصوبہ بنایا جاتا ہے، کوئی معقول الزام نہ ملنے پر الزامات تراشنے کا کام کیا جاتا ہے پھر ایک دن منصوبے کے مطابق نشان زدہ شخص کو تھانے بلاکر یا کسی اور جگہ دھوکے سے گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ اس کے بعد باقاعدہ میڈیا کے ذریعہ اس کے خلاف ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس دوران اس شخص کوتو اپنی صفائی میں ایک لفظ بھی بولنےکا موقع نہیں دیا جاتا اور اصل مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی بے بنیاد الزامات کے زور پر اس کی شبیہ کو مجرمانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی لیکن اس کے بارے میں پولیس اور بکاؤ میڈیا والے بغیر کسی ثبوت کے پہلے دن سے ہی ہر وہ بات کہنا اور پھیلانا شروع کر دیتے ہیں جو ان کے اپنے مخصوص ایجنڈے کو پورا کرنے والی ہو ۔ پھر بد تمیزی کا ایک طوفان اٹھتا ہے اور گرفتار شخص کے تعلق سے ریکٹ، سرغنہ، ماسٹر مائنڈ وغیرہ جیسے الفاظ اور جملے جان بوجھ کراس انداز سے استعمال کیے جاتے ہیں اور لہجہ اتنا اہانت آمیز ہوتا ہے کہ حالات سے ناواقف عام آدمی کا ذہن پولیس اور ہندی نیوز چینلوں کی باتیں سن کر ایک مہذب اور ایماندار شہری کو بھی ایک مجرم اور گلی کے ایک غنڈے کی طرح جاننے اور سمجھنے لگے ۔ تازہ واقعہ محمد عمر گوتم صاحب اور ان کے ساتھی قاضی جہاں گیر عالم قاسمی کا ہے۔ان کو اے ٹی ایس نے ٹھیک اسی انداز سے تختہ مشق بنایا ہے جس کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا۔ عمر گوتم صاحب کو یوپی پولیس نے ہندووں کو بڑی تعداد میں مسلمان بنانے ( ماس کنورزن) کے ’’جرم‘‘ یعنی دعوت حق کی پاداش میں چند روز پہلے جامعہ نگر نئی دہلی میں واقع ان کے مکان سے تھانے بلایا اور دھوکے سے وجہ بتائے بغیر گرفتار کرلیا۔
عمر گوتم صاحب جن سے میں پہلی بار جامعہ میں حصول تعلیم کے دوران واقف ہوا تھا، بنیادی طور سے ایک ایمان دار ، صاف گو اور شریف النفس انسان ہیں اور دعوت دین کے کار عظیم کو وہ اپنا ایک اخلاقی، انسانی اور دینی فریضہ سمجھ کر برسوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ یہ کوئی زیر زمین کام نہیں تھا؟ وہ جو کچھ کرتے تھے اس سے ہندو مسلم سب واقف تھے، اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے کام کو کبھی کسی سطح پر بھی مخفی نہیں رکھا، بلکہ اس کے لیے بٹلا ہاؤس، نئی دلی میں ایک دفتر کھولا ، اس کا ایک نام رکھا اور اسلامک دعوہ سنٹر کے نام سے ایک بورڈ لگا کر عام لوگوں کو اپنے کام اور اس کے مقصد سے باخبر کیا۔ یہ تو رہی عام سی بات جس کے آئینے میں وہ ایک نارمل سے مسلم داعی اور پریچر (مذہبی واعظ) نظر آتے ہیں، لیکن یہی بات جب ایک طے شدہ منصوبے کے ساتھ ایک سنسنی خیز اور دھماکہ خیز کہانی کی شکل میں یو پی پولیس اور ہندی نیوز چینل والوں نے پیش کی تو عمر گوتم ایک سادہ سے مسلم داعی کی بجائے چند گھنٹوں میں شاطر مجرم بنا دیے گئے۔ یہ ہے موجودہ بی جے پی حکومت اور پولیس کا وہ بنا بنایا پھندہ جسے وہ ہر اس مسلمان کی گردن میں ڈال دیتی ہے جو اس کے نظریات پر پورا نہیں اترتا۔
جیسا کہ بتایا گیا عمر گوتم صاحب یہ کام مدتوں سے اپنا ایک دینی فریضہ سمجھ کر کرتے آرہے ہیں، وہ اس کام کی اہمیت سے عام مسلمانوں سے زیادہ واقف ہیں کیونکہ وہ خود ایک نو مسلم ہیں اور انہوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے اور اپنی عقل کی روشنی میں اپنا پرانا ہندو دھرم چھوڑ کر اسلام قبول کیا ہے، نہ تو انھوں نے خود لا شعوری میں اسلام قبول کیا ہے اور نہ ان کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص لا شعوری اور بے ہوشی میں اسلام قبول کرتا ہے.
ان کا یہ عمل دستور کی کسی دفعہ کی خلاف ورزی بھی نہیں ہے کہ اس پر واویلا مچایا جائے بلکہ یہ دستورکی دفعات 21 اور 25 تا 28 میں مذہب و تبلیغ مذہب کے تعلق دی گئی آزادی اور بنیادی حقوق کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مخصوص سوچ کی وجہ سے شہریوں سے ان کا یہ حق آزادی بھی چھین لینا چاہتی ہے جو دستور نے انھیں دیا ہے۔ اسی کے چلتے بی جے پی کی صوبائی حکومتیں پولیس کے ذریعہ کبھی اپنے نام نہاد تبدیلی مذہب مخالف قانون کے واسطہ سے تو کبھی دوسرے بہانوں سے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں اور عملا دستور کی اس روح کو ختم کرنے پر تلی ہیں۔
ادھر چند سالوں سے تبدیلی مذہب کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا جو مذموم سلسلہ شروع ہوا ہے وہ اسی منفی سوچ کا نتیجہ ہے جس کا ذکر ابھی گذرا ہے۔ چنانچہ سرکاری و غیر سرکاری دونوں رپورٹوں کے مطابق یو پی میں یوگی حکومت کے بنائے ہوئے تبدیلی مذہب مخالف قانون (Uttar Pradesh Prohibition of Unlawful Conversion of Religion Ordinance) جو نومبر 2020 میں روبہ عمل آیاتھا اور جسے عام طور سے ’لو جہاد قانون‘ کے نام جانا جاتا ہے، کی زد بھی سب سے زیادہ مسلمانوں پر ہی پڑی ہے اور اس قانون کے نفاذ کے ایک ماہ کے اندر ہی 17 معاملات کے اندراجات کے ساتھ کل 86 افراد کو محبت اور شادی کے مقصد سے ہوئے کنورژن کے الزامات میں نام زد کیا گیا، ان معاملات میں دوستوں اور خاندان کے متعلقہ افراد سمیت کل 54 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور پولیس تقریبا 30 مزید گرفتاریوں کی تیاری میں تھی۔ اس غیر جمہوری و غیر دستوری مہم میں انھیں علاقوں کو خصوصی نشانہ بنایا گیا ہے جہاں مسلمان اپنی قابل لحاظ آبادی اور تہذیبی اثرات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، اس فہرست میں مرادآباد مظفرنگر، مئو، اعظم گڑھ، اہٹہ، شاہجہاں پور، سہارنپور، بریلی جیسے علاقے شامل ہیں۔ جنوری 2021 میں ہردوئی کے ایک مسلم مزدور کو بھی جبری تبدیلی مذہب کے الزام میں اس نئے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا لیکن جب حکومت عدالت کو مطمئن نہیں کرسکی تو اسے کہنا پڑا کہ اس معاملے میں پولیس کو جبری تبدیلی مذہب کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا اس لیے اس کے خلاف اس تعلق سے سارے الزامات واپس لے لیے گئے ہیں۔ لیکن پولیس نے اپنا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے اسے دیگر ’’مجرمانہ سرگرمیوں‘‘ کے الزام میں نامزد کردیا۔ گویا حکومت کی نظر میں ایک مسلم مزدور کے لیے اپنے دوسرے ساتھیوں سے تعلق استوار کرنا بھی ایک گناہ ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس نئے قانون کے تحت ایک دو استثنا کے علاوہ سبھی گرفتار کیے گئے افراد مسلمان ہیں۔
مختصر یہ کہ ’’غیر قانونی تبدیلی مذہب‘‘ کے نام پر آج کل مسلمانوں کو اسی انداز سے سرکاری ایجنسیاں نشانہ بنا رہی ہیں جس طرح ’’دہشت گردی‘‘ کے الزامات کے تحت مسلم طلبہ اور نوجوانوں کو وقتاً فوقتاً حراست میں لیکر بنا کسی ٹھوس ثبوت کے برسوں کے لیے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس حکم نامہ کے پیچھے حکومت کی مشتبہ سوچ اور متعصبانہ روش کو دیکھتے ہوئے حقوق انسانی کے محافظین حکومت کی کھوکھلی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ میں اس قانون کا یہ کہتے ہوئےدفاع کیا تھا کہ ’’اس قانون کا کوئی مقصد کسی خاص مذہب یا عقیدہ کو نشانہ بنانا نہیں ہے، یہ قانون سازی صرف اس لیے ضروری قرار پائی تا کہ ایسی شادیوں پر روک لگائی جا سکے جو محض تبدیلی مذہب کے واحد مقصد کے ساتھ کی جاتی ہیں‘‘۔ لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ بعض دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی حکومت کی نیت ابتدا سے درست نہیں تھی اور جب نیت ہی درست نہ ہو تو قانون کی تشکیل اور اس کے نفاذ کا عمل کیوں کر درست پو سکتا ہے؟
غیر قانونی تبدیلی مذہب سے متعلق بنے یوپی کے نئے قانون کے خلاف یوپی کی عدالت عالیہ میں مقدمہ دائر کرنے والے سوربھ کمار نے بجا طور سے اس قانون کو ’الٹرا وائر‘ (Ultra Vires) یعنی ایسا حکم نامہ قرار دینے کی مانگ کی ہے جس کی کوئی قانونی و دستوری اساس نہیں ہے، ان کے بقول یہ اخلاقی اور قانونی دونوں لحاظ سے ناقابل قبول اور نامناسب ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے، یہ قانون ایک شہری کو بنیادی حقوق، مذہبی آزادی، ذاتی اختیار، انسانی وقار اور حریت ذات اوران تمام اختیار وآزادی سے محروم کرتا ہے جس کی دستور ہند کی دفعہ ۲۱ اور دوسری متعلقہ دفعات میں ضمانت دی گئی ہے۔
اس پیٹیشن کے کونسل شہشوت آنند نے اس قانون کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے تعلق سے یہ واضح رائے دی ہے کہ یہ نئی قانون سازی محض ’’ ایک مخصوص فرقہ کو ڈرانے اور اسے نشانہ بنانے‘‘ کی غرض سے کی گئی ہے۔ (دی ہندو: ۱ جنوری ۲۰۲۰) ۔ ان تفصیلات کو دیکھتے ہوئے اس کے بارےمیں یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہے کہ ماب لنچنگ کی شکل میں ہندوتو کے سماجی رکھوالوں کے طرف سے سر عام ہورہی غنڈہ گردیوں، بجرنگ دل اور ہندو مہا سبھا کی ریلیوں میں لگنے والے نفرت انگیز نعروں اور بی جے پی کی آئی ٹی سیل کے ذریعہ چلائی جانے والی وہاٹس ایپ یونیورسٹی کو ایک قانون ( لیجسلیشن) کی شکل دے دی گئی ہے، اور اب اس کی آڑ میں وہی کچھ ہورہا ہے جو ہندوتو کی ترجیح اول اور زعفرانی سیاست کا مقصد وحید ہے۔ یعنی مسلمانوں کو ہر سطح پر خواہ وہ دستوری ہو یا سیاسی یا سماجی اور مذہبی، حاشیے پر رکھنا۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت و انصاف کے لیے لڑنے والے گروہوں کے تمام اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے حکمراں بی جے پی کی ذریعہ یہ تبدیلی مذہب مخالف قانون ۴ نومبر ۲۰۲۰ کو یوپی اسمبلی میں پاس کیا گیا اور اس کے بننے کے ساتھ ہی ایک نئی مہم کے تحت مسلمانوں کی گرفتاریوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوگیاجو اب بھی جاری پے۔ حکومت اپنی طرف سے اس نا معقول قانون کی توجیہ و توضیح جیسے چاہے کرے لیکن پوری دنیا میں اسے ایک جمہوریت مخالف اور مسلم مخالف قانون کے طور سے ہی دیکھا اور سمجھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ انگلینڈ کے معروف اخبار گارجین نے اس خبر پر جو سرخی لگائی تھی وہی اس کی اصل سچائی ہے۔ وہ لکھتا ہے: ’’ ہندوستان کے صوبائی لو جہاد قانون کا نشانہ مسلمان ہیں‘‘
(The Guardian: 14 Dec, 2020)
جس مسئلے کو ’’لو جہاد‘‘ یا شادی کے بعد شوہر یا بیوی کو ’’دھرم پریورتن‘‘ کے لیے مجبور کرنے یا جبری تبدیلی مذہب سے جوڑ کر بیان کیا جاتا ہے اسے اگر تمام تکلفات کو پرے رکھ کر سادہ طریقے سے بیان کیا جائے تو حقیقت کسی دوسری ہی شکل میں سامنے آتی ہے۔ فی الواقع بات صرف یہ ہے کہ بی جے پی/آر ایس ایس کے پورے کنبے کو مذہب کے تعلق سے یہاں کے عام شہریوں کو ملی ہوئی دستوری آزادی ہضم نہیں ہورہی ہے اور وہ یہاں کی اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی مرضی سے اسلام یا کسی دوسرے مذہبی نظریہ کو قبول کرنے کی آزادی دینے کے خلاف ہیں۔ یعنی یہ لوگ مذہبی آزادی کے دشمن ہیں۔ دوسری سچائی یہ ہے کہ ان کے اپنے تصور ہندوتوا میں اتنا دم نہیں ہے جو اسلام کی طرح ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ ( مذہب میں جبر نہیں ہے) کے اعلانیہ فکر کے ساتھ دوسرے مذہبی نظریات کے مقابلے میں کھڑا ہو کر سچائی کو قبول کرنے کی ہمت دکھا سکے۔ اس صورت حال میں وہ یہی چاہیں گے کہ دین کے سلسلے میں وہ فطری آزادی جو انسانوں کو ہمیشہ حاصل رہی ہے ختم کردی جائے کیونکہ مستقبل کے ہندوستان میں منفی سوچ اور مذہبی منافرت کے حاملین کو جھوٹ اور نفرت پر ٹکے اپنے اس خود ساختہ تصور ہندوتو اور ذات برادری کی کمزور بنیادوں پر قائم اپنے برہمنی نظام کی شکست و ریخت صاف نظر ارہی ہے جس کی بالادستی ان کا اولین مقصد ہے۔ان کے سامنے دو بڑی مشکلات ہیں جس کی وجہ سے ان کا حال آگے کنواں پیچھے کھائی جیسا ہے۔ (1) پہلی مشکل یہ ہے کہ وہ ایک ایسے جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہر شخص کو نہ صرف اپنی مرضی کا مذہب قبول کرنے بلکہ اس کی تبلیغ و اشاعت کا بھی دستوری حق حاصل ہے۔ اس طرح دستور کی وہ تمام دفعات جو بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے ضامن ہیں ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے اور اپنی داخلی کمزوریوں کے آشکارا ہونے سے بچانے کے لیے ان کی صوبائی حکومتوں نے چور دروازوں کا سہارا لیا ہے اور تبدیلی مذہب کا یہ نیا قانون انھیں چور دروازوں کی ایک قسم ہے جو ملک کو قانونی انصاف کی بجائے قانونی نا انصافیوں کی طرف لے جارہے ہیں اور یہ عجیب المیہ ہے کہ پوری دنیا میں قانون شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے بنتے ہیں لیکن وہی قانون اس ملک میں ان کی حق تلفیوں کا محرک بن رہا ہے۔ یہ چور دروازے مذہبی و معاشرتی معاملات میں ہی نہیں تعلیمی و تہذیبی میدانوں میں بھی کھولے جا رہے ہیں اور یوپی میں اسی خاص مقصد سے یہاں کی حکومت یونیورسٹیوں میں کامن سیلبس (یکساں نصاب) نافذ کرنے پر بضد ہے تا کہ اسے آئندہ اعلی تعلیمی اداروں میں اپنے ایجنڈوں کے نفاذ میں کوئی مشکل نہ پیش آئے اور سب کچھ ہندتوا کی مرضی کے مطابق ہوجائے ۔
اس پورے مسئلے میں غور کرنے کے بعد ذہن اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ چونکہ یہ قانون اپنے آپ میں دستور و قانون کی روح کے منافی ہے اور موجودہ دستور کے ہوتے ہوئے سیدھے سیدھے تبدیلی مذہب مخالف کوئی نیا قانون بنانا ممکن نہیں تھا اس لیے غیر قانونی شادی وغیرہ کے حوالے سےصوبائی آرڈیننس کے نام سے چور دروازے کا سہارا لیا گیا اور اس کے قانونی سقم کو چھپانے کے لیے ’’ غیر قانونی تبدیلی‘‘ ( Unlawful Conversion) کا تسمہ جوڑ دیا گیا۔ جب پوچھا گیا کہ تبدیلی مذہب کے تعلق سے ’غیر قانونی‘ محرکات کیسے طے پائیں گے؟ تو اس کی یہ کہہ کر توجیہ کی گئی کہ اس کا مقصد ’دھوکا دہی والے‘ پر فریب اور جبری تبدیلی مذہب کے معاملات کو روکنا ہے۔ گویا ان میں سے کوئی بھی غیر مرئی محرک تبدیلی مذہب کے نام پر حکومت کو کسی بھی فرد کی گردن دبوچنے کا اختیار دیتا ہے۔ حالانکہ یہ مطلقاً تبدیلی مذہب اور تبلیغ دین پر فسطائی طریقے سے روک لگانے کا ایک بہانہ ہے، کتنے ہی واقعات شاہد ہیں کہ یہاں آئے دن غیر قانونی اور پر تشد اقدامات تو وہ لوگ کرتے ہیں جو ہندوتو کے تحفظ کے نام پر نہ صرف مذہب تبدیل کرنے والوں بلکہ ان کے والدین اور اس مذہب کے ماننے والوں پر بھی کھلے عام ظلم و ستم ڈھاتے ہیں اور حکومت اور پولیس ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کی بجائے اپنے رویے سے ان کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہے۔
ان کی دوسری مشکل یہ ہے کہ ان کا اپنا ہندتوا ان کی آرزوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اس میں نہ تو افاقیت و عالم گیریت ہے جو تمام اقوام عالم کو مساوی نظر سے دیکھتی ہے، نہ تو اس کے پاس انصاف و مساوات پر مبنی ایسا تصور معاشرت ہے جہاں ہر انسان بحیثیت انسان قابل احترام و لائق تکریم قرار پاتا ہے اور نہ ہی اس کے عناصر ترکیبی میں ایسی بین الاقوامیت ہے جس کی سرحدیں قومیت و فرقہ واریت سے ما ورا ہوتی ہیں۔ پہلی مشکل کا حل انھوں نے انصاف و جمہوریت کے منافی سیاہ قوانین میں نکالا ہے، جب کہ دوسری مشکل کا حل انھوں نے یہ نکالا ہے کہ اقلیتوں کو ہمیشہ ڈر اور خوف کی حالت میں رکھا جائے اور سماجی و سیاسی سطح پر انھیں اس حد تک حاشیے پر رکھ دیا جائے کہ ان کے لیے عزت و وقار تو دور رہا اپنے عام دستوری حقوق کا حصول بھی محال ہوجائے۔ میرے اس دعوے کا واضح ثبوت ہندوتو کے حامیوں کے وہ بیانات ہیں جو انھوں نے اس نئے قانون کے حق میں دیے ہیں۔ ان بیانات میں وہ ایک طرف تو اس قسم کی قانون سازی کو ہندوتو کی جیت کی شکل میں دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف وہ اسے مسلمانوں پر نکیل کسنے کے لیے ضروری قرار دے رہیں۔ ان کے بیانات میڈیا میں موجود ہیں جو چاہے ان کی تحقیق کر سکتا ہے۔ اس حوالے سےجب ان سے پوچھا گیا کہ جس قانون کی زد صرف ایک مخصوص فرقہ کے لوگوں پر پڑ رہی ہے وہ کیونکر حق بجانب ہو سکتا ہے؟ تو انھوں نے اس کے جواب میں بڑی بے شرمی سے کہا ’’ اس فرقے میں اس خوف کا ہونا ہی سب سے اہم ہے چاہے کوئی بے قصور شخص ہی کیوں نہ گرفتار ہو‘‘۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہندوتوا کے سر پرستوں نے تبدیلی مذہب پر بندش لگانے اور ’’اکثریت کے تحفظ‘‘ کے نام پر اقلیت کو خوف زدہ کرنے کا جو طریقہ ڈھونڈا ہے وہ نہ تو منصفانہ ہے اور نہ جمہوری بلکہ یہ اپنے ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے فسطائی اور ظالمانہ ہے اور اس سے اس ملک کو جو نقصان پہنچے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ البتہ تاریخ کا ایک معمولی طالب علم بھی بے جھجھک یہ تسلیم کرے گا کہ اس ملک کی تمام ظالم قوتوں اور ان کے پر جوش حامیوں کا انجام بھی وہی ہوگا جو عام طور سے ظالم اور فسطائی قوتوں کا ہوتا ہے۔
میں نے صورت حال کے اس مختصر تجزیہ میں حقائق کو سامنے رکھ کر کچھ نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی ہے جس میں ا نتباہ اور حقیقت بیانی دونوں عنصر شامل ہے۔ شاید یہ نتائج مستقبل کے منصوبوں کی تشکیل اور تنگ نظر ہندوتوا وادیوں کے تخریبی منصوبوں کی نشاندہی کے علاوہ ناسازگار حالات میں دعوتی منصوبہ بندی کے خدو خال کے تعین میں ہماری کچھ مد کر سکیں۔ یاد رہے آج کل تبدیلی مذہب کو لیکر ہر روز پولیس جس طرح مسلمانوں کی گرفتاریاں کر رہی ہے اور جسے چاہتی ہے تبدیلی مذہب قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں ملزم بنا کر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دے رہی ہے وہ حکومت اور اس کی تابع انتظامیہ کا معمول بنتا جا رہا اور اس قانون میں اتنا سقم ہے اور جان بوجھ کر لفظوں کو اتنا مبہم رکھا گیا ہے کہ اس کی مدد سے کل حکومت کسی بھی ایسے مسلمان کو اپنے تازیانے کا نشانہ بنا سکتی ہے جو اس ملک میں اپنی تہذیبی شناخت اور اپنی مذہبی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ زندہ رہنے پر مصر ہو۔ یہ ایسی آزمائش ہے جس سے عہدہ برا ہونے کے لیے مسلمانوں کو صبر و تحمل اور استقلال و ثابت قدمی اور ایثار و ہمدردی کی مثال قائم کرنی ہوگی اور ساتھ ہی ایسی حکمت عملی بنانی ہوگی جس سے مستقبل کو لیکر اکثریتی فرقہ کے لوگوں کے دلوں میں ہندوتوا کے مذہبی و سیاسی بازیگروں کے ذریعہ پیدا کی گئی خوف کی نفسیات کو مٹایاجاسکے۔ لیکن اس کا مطلب نہ تو حالات سے سمجھوتہ ہے اور نہ دعوت حق سے دستبرداری۔ بلکہ ہمیں کنورژن کے اس نئے قانون سے زیادہ ہندوتو کی آر ایس ایس برانڈ کی اس ذہنیت کو سمجھنا ہوگا جو اس طرح کے قانون اور قانونی تبدیلیوں کی اصل محرک ہے اور جو اپنی مخصوص ساخت کی وجہ سے صرف ہندوسانیوں کی مذہبی آزادی ہی نہیں بلکہ ان کے انسانی حقوق کی بھی دشمن بنی ہوئی ہے۔ اس ذہنیت کے تعارف میں میرے گذشتہ مضامین سے بھی شاید آپ کو کچھ مدد مل جائے جو اسی کالم کے تحت لکھے گئے ہیں لیکن اس ذہنیت کو سمجھنے اور اسے برتنے کا مسئلہ اب علمی و تحقیقی سے زیادہ عملی ہو چکا ہے اور اسے مزید نظر انداز کرنا مسلمان ہی نہیں پورے ملک کے لیے مہلک بن سکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس ذہنیت پر جو بھی گفتگو ہو وہ کھل کر ہو اور دو دو چار کی طرح واضح ہو تاکہ مخالف یا موافق کسی بھی خیمے میں غلط فہمیاں پلنے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ وقت اس کا بھی ہے کہ اب یہاں کے شہریوں کو حق و باطل کا فرق بتانے کے لیے کمزور و متذبذب نہیں بلکہ قطعی اور طاقت ور بیانیوں کا استعمال کیا جائے جس سے ان پر دین مبین کی سچائیاں ہی نہیں یہ بھی واضح ہو کہ اگر کسی گروہ کو اپنے نظریے کی نظریاتی قوت اور اپنے فکر کی مثبت اثر انگیزی پر بھروسہ ہے تو اسے دیگر مذاہب و نظریات سے خوف کھانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی، لیکن اگر کوئی فکر یا نظریہ حیات خود میں کھوکھلا ہے اور اسے محض منفی مقاصد کے تحت خیالی و دیومالائی روپ میں وجود میں لانے اور دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔ اس طرح کسی نظریہ کی موت یا اس کی شکست کے لیے دوسروں کو الزام دینا خود اپنی ناکامی کا اعتراف ہے۔
جہاں تک دین و عقیدہ کا معاملہ ہے تو یہ ہماری فطری آزادی کا حصہ ہے۔ عقیدہ اور مذہبی نظریے کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل کی دنیا یوں چلتے پھرتے یا کسی کے چند الٹے سیدھے جملے سن کر نہیں بدلتی، جو بھی اپنی قدیم دنیا سے دوسری دنیا میں جاتا ہے وہ سوچ سمجھ کر جاتا ہے اور وہ کسی مخصوص فکر و نظریہ کی تعلیمات و ہدایات سے متاثر ہو کر ایسا کرتا ہے نہ کہ حالات کی مجبوری میں۔ اگر کوئی اپنا مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرتا ہے تو اس میں نہ تو اس عقیدے کا قصور ہے اور نہ دین حق کے چشمہ صافی سے دوسروں کی پیاس بجھانے والے کی کوئی غلطی ہے۔ اس میں اگر کسی کا کوئی قصور ہے تو وہ صرف اس دل کا ہے جو عقل کی بات سنکر ایک نئے دینی فکر و عقیدہ کو اپنے اندر جگہ دیتا ہے اور پھر اس کے لیے سب کچھ تیاگنے پر تیار ہوجاتا ہے۔ جہاں سب کچھ انسانی دل پر منحصر ہو وہاں نہ تو زور زبردستی کا سودا چلتا ہے اور نہ کسی کو کسی دباؤ سے اپنا کوئی من پسند دین قبول کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس میں نہ کسی کی طاقت کام آتی ہے اور نہ دولت، چاہے وہ کوئی بڑی سے بڑی حکومت اور لشکر و فوج ہی کیوں نہ ہو۔ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جو بھی خدا کے بندوں اور ان کے من پسند دین کے بیچ حائل ہوگا وہ اپنے مقصد میں بالآخر ناکام و نامراد ہوگا۔
عمر گوتم پر ماس کنورژن ( بڑی تعداد میں مسلمان بنانے) کا الزام ہے اور اس ’جرم‘ کی سزا مذکورہ قانون میں الگ سے بیان ہوئی ہے جو ۳ سے ۱۰ سال مع جرمانہ ہے۔ عمر گوتم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دعوت کا عظیم کام کرنے کے لیے اپنا ایک حلقہ ضرور بنایا اور ان کی دعوت کے اثر سے سیکڑوں لوگ اسلام کے مذہبی نظریہ سے متاثر بھی ہوئے لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ اس کے لیے انھوں نے نہ تو کوئی خفیہ ’ریاکٹ‘ چلایا اور نہ ہی کسی کو جبراًاسلام دھرم میں داخل کرنے کی کوشش کی؛ اس کے باوجود ہندی ٹی وی چینل والے کچھ تو خود گڑھ کر اور کچھ پولیس کی دی ہوئی یک طرفہ جانکاریوں کے حوالے سے لگا تار کئی دنوں تک لوگوں کو چینخ چینخ کر بتاتے رہے ہیں کہ یہ غیر قانونی اور جبری تبدیلی مذہب کا کیس ہے۔ آخر غیر قانونی اور جبری کنورزن کی بات کیونکر سچ مانی جا سکتی ہے جب کہ ان کے پاس نہ تو جاہ و منصب کی طاقت ہے اور نہ دولت۔ یہ تو بس ان کے دین کی کشش تھی کہ سیکڑوں باشندگان ملک اس آب زلال کی طرف لپکتے چلے آئے، جو ابھی تک نہیں سمجھ سکے انہیں بالآخر یہ سمجھنا ہوگا کہ ندائے فطرت کی پکار پر لوگ پہلے بھی لبیک کہتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کہتے رہیں گے۔ عمر گوتم اور دوسرے مسلم و نو مسلم داعیان دین کے تعلق سے پولیس اور میڈیا کے دعوے جھوٹے قصوں سے بھلے ہی ہمارے کان کے پردے پھاڑ تےرہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ دعوی کرنے والے ایسے دوچار لوگوں کو بھی سامنے نہیں لاسکے جو عمر گوتم یا ان کے دعوتی مرکز کی وجہ سے ’زبردستی‘ مسلمان ہوئے ہوں۔ ظاہر ہے اگر ایسا ہوتا تو یقیناً اب جب کہ عمر گوتم خود حراست میں ہیں، کم سے کم ان میں سے کچھ لوگ ضرور سامنے آکر اصل حقیقت پیش کرتے اور حکومت اور پولس سے حوصلہ پاکر ’زبردستی‘کے اسلام سے پیچھا چھڑا لیتے؟ یا پھر ،جیسا کہ ہندوتو میڈیا سب کو رات دن برابر باور کرارہا ہے، وہ خاندان کے خاندان جو مسلم دور حکومت میں زبردستی مسلمان ہوئے تھے اب ان کے لیے کیا چیز مانع تھی کہ وہ اکثریت کا دھرم قبول کرکے یا ہندوتوا کی زبان میں ’گھر واپسی‘ کرکے اکثریت میں شامل ہوجاتے اور وہ تمام حقوق و فوائد حاصل کر لیتے جن سے مسلمانوں کو محروم کرنے کی تیاری ہے؟ لیکن نہ تو ایسا کچھ ہورہا ہے اور نہ ہندتوا کے سیوکوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود دور دور تک ایسا کچھ ہوتا نظر آرہا ہے۔ حکومت کی تفتیشی ایجنسیاں اور ہندوتو کے لوگ یہ افواہ بھی پھیلا رہے ہیں کہ دعوت کے اس کام میں بیرونی فنڈنگ بھی شامل ہے، یعنی لوگوں کو پیسے کا لالچ دے کر اسلام قبول کرنے کے لیے ورغلایا گیا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر ہندوتو کے محافظین کو کس نے روکا ہے کہ وہ ایسے تمام لوگوں کو پہلے سے زیادہ پیسہ دے کر ہندو دھرم میں واپس لے آئیں؟ کیا وہ ایسے تمام نہیں تو کم سے کم دوچار انسانوں کو ہی زیادہ مال دے کر اسلام سے پھیر سکتے ہیں یا ان کے ایمان کو خرید سکتے ہیں؟ ظاہر ہے اگر وہ ایسا کر سکتے تو انہیں حکومت اور پولیس یا لنگڑے قوانین کی مدد سے دعوت اسلام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ تصویر کا یہ پہلو زبر دستی ’دھرم پریورتن‘ کے اس نئے ’ریاکٹ‘ کے بارے حکومت و انتظامیہ کی تمام تر افتراپردازیوں اور ان کے جھوٹ کے کاروبار کا پردہ فاش کرنے کے لیے کافی ہے اور ساتھ ہی ان کے خود ساختہ پندوتو کی حقیقت اور ان کے بڑے بڑے مذہبی دعووں کی پول کھولنے کے لیے بھی یہ بیانیہ بہت کارآمد ہے۔ ضرورت ہے کہ ملک میں دیرپا اور نتیجہ خیز مذہبی ڈائیلاگ کا اصل الاصول اب اسی موضوع کو بنایا جائے تا کہ عام باشندوں میں سیاہ و سفید کی تمییز عام ہو اور قوم و مذہب کے نام پر ان کا استحصال کرنے والوں کا اصل روپ بھی ان پر عیاں ہو ۔
بہر حال یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے، اور نہ یہ کہانی ایسی پہلی کہانی ہے بلکہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور انہیں ان کے دستوری حقوق سے محروم کرنے کا یہ ہماری پولیس اور حکومتوں کا ایک پرانا حربہ ہے۔ جب بھی پولیس کو اپنے آقائوں کی مرادیں پوری کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف یا کسی مخصوص مسلم کے خلاف کوئی قدم اٹھانا ہوتا ہے تو وہ ایک عام سے کیس کو بھی بہت تشویشناک بنا کر پیش کرتی ہے اور ان کے اشارے پر کام کرنے والا ہندی میڈیا اس شخص کے لیے اتنی گھٹیا زبان استعمال کرتا ہے کہ ایک ناواقف شخص اولا یہی تاثر لیتا ہے کہ جیسے یہ کسی چور اور لٹیرے کی داستان ہو۔ حالانکہ حقیقت بس اتنی ہوتی ہے کہ ایک شخص جو کھلی کتاب کی طرح ہندوستان کے قانون و دستور کے مطابق رہتے ہوئے کوئی سماجی یا مذہبی کام کر رہا ہوتا ہے اور اس کا یہ کام آر ایس ایس اور ہندوتو کے علم برداروں کو برداشت نہیں ہوتا ہے تو ایک منصوبے کے تحت اچانک اسے ایک بھیانک مجرم یا دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے کے روپ میں میڈیا کے ذریعہ مشہور کردیا جاتا ہے تا کہ اس کے ساتھ ہورہے حکومت اور پولیس کے غیرقانونی سلوک کو جواز بخشا جا سکے۔ ظاہر پے ایک جمہوری ملک میں ایسے کسی شخص اور اس کے کام کے خلاف یہ کہہ کر کوئی کارروائی تو نہیں کی جا سکتی کہ اس کا کام ہندوتو کی منشا و مرضی کے خلاف ہے۔ بلکہ اس کے لیے تو انھیں اسی قسم کی سنسنی خیز کہانی کی صورت گری کرنی پڑتی ہے جو ذاکر نائک اور عمر گوتم جیسے مسلم داعیوں کے تعلق سے قصداً منظر عام پر لائی جا رہی ہیں تا کہ فسطائیت کے چوکیداروں کو ان پر اپنا شکنجہ کسنے میں آسانی ہو۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ محض مذہبی بغض و عناد کی وجہ سے گرفتاریوں کا یہ سلسلہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے اور اس پر مسلمانوں اور انصاف پسند طبقوں کا خاموش رہنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ یہ خاموشی جو اس وقت نظر آرہی ہے ایسی خاموشی ہے جس کی ہمیں اس سے بھی بڑی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
حکومت اور پولیس جو سوچے اور جو چاہے کرے جو اہل حق ہیں وہ خدا کے بندوں کو حق کی دعوت دینے سے کبھی باز نہیں آئیں گے۔ اسلام کوئی برادری نہیں بلکہ ایک آفاقی نظریہ حیات ہے، یہ ایک قوم نہیں بلکہ ایک ایسا فطری تصور حیات ہے جو آج بھی دنیا کے انسانوں کو ٹھیک اسی طرح سب سے زیادہ اپیل کر رہا ہے جس طرح اہل عرب کو کیا تھا۔ یہ کوئی انسانوں کا پیدا کیا ہوا اور گڑھا ہوا دین نہیں بلکہ یہ انسانوں کو پیدا کرنے والے کا دین ہے اور یہی سب کی کامیابی اور نجات کا دین ہے۔ اسلام ہر انسان کی میراث ہے جو کسی وجہ سے اسے کھودے اسے کھوئی ہوئی میراث دوبارہ دینا انسانیت پر ایک ایسا احسان ہے کہ اس سے بڑا کوئی اور احسان نہیں ہو سکتا۔ فطرت کی طرف بلانا جرم نہیں بلکہ جرم توایسا عظیم کام کرنے والوں کو گرفتار کرنا اور ان پر مختلف بہانوں سے ظلم و ستم کرنا ہے۔ یہ تو بس صراط مستقیم کی تلاش ہے اور اس راستے کی کھوج کا ایک حصہ ہے جو صرف صحیح و سالم فطرت کی طرف پلٹتا ہے۔ یہ فطرت کی ایک ایسی آواز ہے جس پر لبیک کہنے اور جس کی طرف بلانے کا ہر ایک کو حق ہے لیکن یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آسکتیں جو مذہب کے نام پر انسانوں کو دھوکا دیتے آرہے ہوں اور اس کی بنیاد پر نفرت کا کاروبار کرتے ہوں۔ جو کام فطرت سے ہم آہنگ ہو اور حقوق انسانی کے مساویانہ نظریات اور دستوری تقاضوں کے منافی نہ ہو وہ پولیس، میڈیا یا یو پی حکومت کے کہنے سے نہ تو کبھی ایک جرم قرار پائے گا اور نہ وہ خلاف قانون مانا جائے گا بلکہ فطرت اور قانون کے دشمن وہ ہیں جو محض اسلام دشمنی کی وجہ سے اس میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور یہ جتن کر رہے ہیں کہ انسانوں کو ان کی فطرت اور خالق فطرت کی طرف نہ پلٹنے دیا جائے ۔اس کام کے تعلق سے عقل و دل کی پکار وہی ہے جو قرآن کی ہے: ’’ بھلا اس شخص سے اچھی کس کی بات ہوگی جو اللہ کی طرف بلانے والا ہو ،کار خیر کرنے والا ہو اور کہے کہ میں اللہ کو تسلیم کرنے والوں( مسلمانوں) میں سے ہوں‘‘۔
***

یہ ایسی آزمائش ہے جس سے عہدہ برا ہونے کے لیے مسلمانوں کو صبر و تحمل اور استقلال و ثابت قدمی اور ایثار و ہمدردی کی مثال قائم کرنی ہوگی اور ساتھ ہی ایسی حکمت عملی بنانی ہوگی جس سے مستقبل کو لیکر اکثریتی فرقہ کے لوگوں کے دلوں میں ہندوتوا کے مذہبی و سیاسی بازیگروں کے ذریعہ پیدا کی گئی خوف کی نفسیات کو مٹایاجاسکے۔ لیکن اس کا مطلب نہ تو حالات سے سمجھوتہ ہے اور نہ دعوت حق سے دستبرداری۔ بلکہ ہمیں کنورژن کے اس نئے قانون سے زیادہ ہندوتو کی آر ایس ایس برانڈ کی اس ذہنیت کو سمجھنا ہوگا جو اس طرح کے قانون اور قانونی تبدیلیوں کی
اصل محرک ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 جولائی 2021