تیل کی دھار اور دو دھاری تلوار

پیداوار کے مسئلہ پر سعودی عرب اور امارات کے درمیان کشیدگی تجارتی جنگ میں تبدیل ہورہی ہے

مسعود ابدالی

 

اللہ کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت پیٹرولیم ہے۔ زمین سے نکالا جانے والا یہ سیال سونا کارخانوں کے پہیوں کو رواں رکھے ہوئے ہے۔ زمین پر دوڑنے والی گاڑیاں ہوں یا آسمان پر اڑتے طیارے اور سمندر کے سینے پر مونگ دلتے دیو ہیکل جہاز ، ساری حرکت حرکت تیل کی مرہون منت ہے۔ یہی رحمت سخت سردیوں میں خواب گاہوں کو گرم اور یخ پانی کے درجہ حرارت کو آرام دہ حد پر رکھ کر خلقِ خدا کو راحت فراہم کر رہی ہے۔ کروڑوں لوگوں کے لیے تیل روزگار اور خوشی وخوشحالی کی ضمانت ہے۔
لیکن انسان کی خود غرضی سے یہ عظیم الشان نعمت دنیا بھر میں کشیدگی اور قتل وغارت گری کا باعث بھی ہے۔ تیل پر قبضے کی شیطانی خواہش نے مشرق وسطیٰ کو یرغمال بنا رکھا ہے جسکی وجہ سے کروڑوں افراد ملوکیت وآمریت کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ اسی نامراد نے پوری روہنگیا قوم پر ان کی اپنی زمین تنگ کردی کہ اراکان سے متصل سمندر کی تہوں میں تیل وگیس کے چشموں پر چین کی نظر ہے تو دوسری طرف برما کے ساحل سے وسطی چین تک بچھائی جانیوالی تیل پائپ لائن کے قرب وجوار میں مسلمان آبادی ’تحفظ‘ کے حوالے سے اندیشہ ہائے دور دراز کا سبب تھی۔ تیل ہی نے کریمیا (Crimea) کے تاتاروں کو جلاوطنی کے عذاب میں مبتلا کیا کہ روس بحر اسود سے تیل وگیس کشید کرنا چاہتا ہے۔
اب یہی تیل مشرق وسطیٰ کے دو قریبی دوستوں میں دوری بلکہ شدید کشیدگی کی وجہ بن رہا ہے۔ حالانکہ سعودی عرب کے محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے محمد بن زید نظریاتی اعتبار سے انتہائی قریب اور عمر میں فرق کے باوجود یہ دونوں جگری دوست ہیں۔ ان کے مناصب میں بھی گہری مماثلت ہے یعنی کہنے کو دونوں ولی عہد ہیں لیکن انکا دبدبہ واختیار حقیقی فرمانروا جیسا ہے۔ قطر کا ’مزاج‘ درست کرنا ہو، اخوان المسلمون وحماس کی بیخ کنی، یمن میں طاقت کا استعمال یا بحر روم میں ترکی کا گھیراو تمام سیاسی ونظریاتی معاملات پر MBS اور MBZ کے نام سے مشہور ان دونوں شہزادوں میں یکسوئی پائی جاتی ہے۔
ان جگری دوستوں میں اختلاف تیل کی قیمتوں پر ہوا۔ کرونا وبا نے دنیا بھر کی معیشتوں کو بری طرح متاثر کیا اور اقتصادی سرگرمیاں تقریباً منجمد ہوکر رہ گئیں۔ نتیجے کے طور پر تیل اور گیس کے استعمال میں کمی آئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ گزشتہ برس اپریل میں امریکی تیل WTI کی قیمت منفی 37 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ گاہک نہ ملنے کی وجہ سے آڑھتیوں نے ٹینکر مالکان کو پیسے دے کر تیل اٹھوایا کہ گودام کا کرایہ ناقابل برداشت ہو گیا تھا۔
امریکہ میں تیل کی صنعت کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے سابق صدر ٹرمپ نے اپنے دوستوں MBS اور MBZ سے تیل کی پیدوار میں کمی کا مطالبہ کیا۔ اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے روس کو سبق سکھانے کے لیے سعودی عرب نے پیدوار میں بھاری اضافہ کیا تھا۔ امریکی صدر کی درخواست پر سعودی وزیر توانائی عبدالعزیز بن سلمان پیداوار میں کمی پر راضی تو ہو گئے لیکن یہ شرط عائد کر دی کہ اوپیک کے ساتھ تیل برآمد کرنے والے غیر اوپیک ممالک خاص طور سے روس، میکسیکو، کینیڈا، ناروے اور امریکی تیل کمپنیاں بھی کٹوتی پر راضی ہوں۔ طویل بحث مباحثے کے بعد تیل کی عالمی پیداوار میں 97 لاکھ بیرل یومیہ کمی پر اتفاق ہو گیا جو تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔
تمام ممالک نے طئے شدہ کوٹے کی پاسداری کی اور قیمتیں 25 ڈالر فی بیرل پر مستحکم ہو گئیں۔ گزشتہ برس کے اختتام سے کرونا کی صورتحال بہتر ہونا شروع ہو گئی، امریکہ اور یورپ میں کورونا سے تحفظ کے لیے جدرین کاری (Vaccination) کا آغاز ہوا اور اس سال فروری سے مغربی دنیا کی معیشت میں استحکام کے آثار پیدا ہوئے جس کے نتیجے میں ایندھن کی کھپت بڑھ گئی اور تیل کی قیمتوں نے اوپر کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ طلب کے بڑھتے ہی بازار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اوپیک اور روس پیداوار میں آہستہ آہستہ اضافے پر رضا مند ہو گئے تاکہ نہ تو رسد میں بھاری کمی سے قیمتیں صارفین کی قوت خرید سے باہر ہو جائیں اور نہ موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پیداوار اتنی بڑھا لی جائے کہ قیمتوں پر دباو محسوس ہو۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ تیل کی قیمت میں صرف ایک ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہندوستان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کے لیے ساڑھے تیرہ کروڑ ڈالر ماہانہ کا نسخہ ہے
اوپیک کی نظر امریکہ کی سلیٹی چٹانوں پر بھی ہے اور سعودی، تیل کی قیمتیں اتنا زیادہ نہیں بڑھانا چاہتے جہاں سلیٹی چٹانوں سے ایندھن کی کشید منافع بخش ہو جائے۔ کھپت، رسد اور قیمتوں پر باریک بینی سے نظر رکھنے کے ساتھ یکسوئی برقرار رکھنے کے لیے اوپیک پلس (اوپیک اور تیل برآمد کرنے والے غیر اوپیک ممالک) کے اجلاس بہت باقاعدگی سے ہوتے رہے اور پیداوار میں کمی بیشی پر مکمل اتفاق رہا۔ دوسری طرف کرونا پر قابو نے دنیا بھر کی معیشتوں پر مثبت اثرات مرتب کیے اور ایندھن کی طلب قبل از کورونا کی سطح پر آگئی۔
جون کے وسط میں امریکہ کے ماہرینِ توانائی نے خیال ظاہر کیا کہ اس سال کے آخر تک تیل کی عالمی طلب نو کروڑ 41 لاکھ بیرل یومیہ سے بڑھ کر نو کروڑ 99 لاکھ بیرل روزانہ ہو جائے گی جبکہ سرمایہ کار اداروں کا کہنا ہے کہ اگلے برس جنوری تک دنیا کو روزانہ 58 لاکھ بیرل اضافی تیل کی ضرورت ہو گی۔
یکم جولائی کو اوپیک پلس کے اجلاس میں اس معاملے پر غور ہوا۔ بات چیت کے دوران کویت اور متحدہ عرب امارات تیل کی بڑھتی ہوئی کھپت کے تناظر میں پیداوار میں بھاری اضافے کے حامی تھے لیکن سعودی وزیر توانائی کا خیال تھا کہ خوش کن مفروضات کی بنیاد پر پیداوار میں اندھا دھند اضافہ خطرناک ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ میں تو کورونا کی وبا پر بڑی حد تک قابو پایا جاچکا ہے لیکن دنیا کے دوسرے حصوں میں صورتحال ابھی تک معمول پر نہیں آئی۔ یہ نامراد وائرس شکلیں بدل بدل کر جوابی حملے کر رہا ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ Delta Variant کیا آفت ڈھائے گا۔ سعودی وزیر تیل کا کہنا تھا کہ سابق صدر ٹرمپ نے ایران پر جو تجارتی پابندیاں عائد کی تھیں ان کے خاتمے کی بات چل رہی ہے اور اگر ایرانی تیل پر سے پابندی اٹھالی لی گئی تو 40 لاکھ بیرل اضافی تیل بازار میں آجائے گا۔ شہزادہ عبدالعزیز نے خدشہ ظاہر کیا کہ طلب میں اضافے کے حالیہ اشارے سراب ثابت ہو سکتے ہیں اس لیے ہمیں پیدوار بڑھاتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔
روس نے سعودی تجزیے سے اتفاق کیا اور طئے پایا کہ اگست کے آغاز سے تیل کی پیداوار میں ہر ماہ 4 لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کیا جائے اور دسمبر تک مجموعی پیداوار کو 20 لاکھ بیرل یومیہ بڑھا لیا جائے۔ اس دوران بازار پر کڑی نظر رکھی جائے گی تاکہ حسب ضرورت پیدوار میں کمی بیشی کرکے قیمتوں کو مستحکم رکھا جاسکے۔ اس تجویز پر اصولی اتفاق رائے ہو گیا اور وقفے کے دوران نام نہ بتانے کی شرط پر اوپیک کے ایک اعلیٰ افسر نے یہ خبر صحافیوں کو بھی بتا دی۔
وقفے کے بعد اجلاس جب دوبارہ شروع ہوا تو متحدہ امارات کے وزیر تیل سہیل المزروعی نے پیداوار کے لیے اپنے ملک کے کوٹے میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امارات کے سب سے بڑے گاہک ہندوستان میں تیل کی کھپت قبل از کورونا کی حد کو چھو رہی ہے اور کوٹے کا موجودہ حجم ہندوستان کی طلب پوری کرنے کے لیےکافی نہیں۔ جناب مزروعی کا کہنا تھا کہ ہماری پیدواری گنجائش 43 لاکھ بیرل روزانہ ہے اور گاہک بھی موجود ہیں، لہذا 28 لاکھ بیرل یومیہ کا کوٹہ امارات کے لیے قابل قبول نہیں۔ سعودی عرب نے کوٹے کی بات کو بے وقت کی راگنی قرار دیا۔ روس نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس مرحلے پر جب اوپیک پلس کا بنیادی ہدف تیل کی قیمتوں میں استحکام ہے کوٹے پر گفتگو پینڈورا باکس کھولنے کے مترداف ہے۔ بحث مباحثے کے بعد اجلاس دوسرے دن تک کے ملتوی ہو گیا۔ جمعہ کے اجلاس میں بھی متحدہ عرب امارات نے کوٹہ بڑھانے پر اصرار کیا اور کہا جاتا ہے کہ سعودی واماراتی وفد کے درمیان خاصی نوک جھونک ہوئی۔ متحدہ عرب امارات کا کہنا تھا کہ سیاحت کی صنعت قبل از کورونا کی سطح پر آگئی ہے اور جہاز راں کمپنیاں اپنے بیڑے میں توسیع کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ کی یونائیٹیڈ ایئرلائنز کا حوالہ دیا گیا جو 270 نئے طیارے خرید رہی ہے اور اس سودے کی مالیت 30 ارب ڈالر ہے۔ اسی کے ساتھ ہزاروں نئے ملازمین بھرتی کیے جا رہے ہیں۔ اماراتیوں کا کہنا تھا کہ خطیر سرمایہ کاری اعتماد کو ظاہر کرتی ہے اور معیشت میں بہتری کے واضح اشاروں کو سراب قرار دینا مناسب نہیں۔ سعودی عرب اور روس کوٹے پر گفتگو کے لیے رضامند نہ ہوئے اور اجلاس 5 جولائی تک کے لیے ملتوی ہو گیا۔ پیر کا اجلاس بھی کوٹے کے گرد گھومتا رہا۔ اماراتی وزیر تیل نے اعداد وشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک نے پیداواری گنجائش میں اضافے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں اور ہم اپنی سرمایہ کاری کو کیسے ضائع ہونے دیں۔ اس پر سعودیوں کی جانب سے جواب آٰیا کہ اضافی گنجائش کی شیخی نہ بگھارو، ہم اپنی پیداوار دگنی کرسکتے ہیں لیکن پھر اگر تیل پانی کے بھاؤ بکنے لگے تو ہم سے شکایت نہ کرنا۔ روس نے گنجائش کی بات کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں استحکام کے لیے تمام ممالک گنجائش سے کم تیل اپنے کنووں سے نکال رہے ہیں۔ کسی فیصلے کے بغیر یہ اجلاس بھی ختم ہو گیا۔ جب دوسرے دن دوبارہ بیٹھنے کی بات ہوئی تو سعودی عرب اور روس نے اصولی اتفاق کے بغیر اوپیک کے اجلاس میں شرکت سے معذرت کرلی۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ تیل کی پیداوار میں اضافہ ہے، یہ وقت کوٹے پر بات کرنے کا نہیں۔ بعد میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اوپیک کے معتمد عام محمد برکندو نے کہا کہ نشست کی تاریخ کا اعلان ’مناسب‘ وقت پر کیا جائے گا۔
اضافے پر اصرار کے باوجود متحدہ عرب امارات اب تک اپنے طئے شدہ کوٹے پر عمل کر رہا ہے جس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر اوپیک کی پیدوار میں اضافہ نہ ہوا تو اگلے چند ماہ میں قیمتوں میں اضافے کے ساتھ تیل کی قلت کا بھی خطرہ ہے اور ماہرین مندرجہ ذیل تین امکانات کی توقع کر رہے ہیں۔
1۔ پیداوار کی موجودہ مجموعی حد کو برقرار رہے گی، یعنی کسی کے لیے کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔ اس صورت میں سال کے اختتام تک تیل کی قیمتوں میں بھاری اضافے کا خدشہ ہے۔
2۔ متحدہ عرب امارات کو بہلا پھسلا کر موجودہ کوٹے پر راضی کر لیا جائے۔ اس صورت میں دسمبر تک پیدوار 20 لاکھ بیرل یومیہ بڑھ جائے گی جس سے قیمتوں میں استحکام پیدا ہو گا۔
3۔ یہ بھی ممکن ہے کہ متحدہ عرب امارات اوپیک کو نظر انداز کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر اپنے کنووں سے زیادہ تیل نکالنا شروع کر دے۔ اس صورت میں سعودی عرب اپنی پیداوار میں بھاری اضافہ کر کے امارات کو ’’سبق‘‘سکھانے کوشش کرے گا۔ اگر ایسا ہوا تو تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل سے نیچے آسکتی ہے۔
تیل کی پیداوار پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان کشیدگی اب ایک تجارتی جنگ کی شکل اختیار کرتی نظر آرہی ہے اور اس’جھگڑے‘میں اسرائیل کے اقتصادی مفادات کو بھی ضرب لگ سکتی ہے۔ بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل خلیج تعاونی کونسل (GCC) کے درمیان افراد اور اسباب کی آمدورفت پر کوئی پابندی نہیں۔ ان ممالک نے باہمی درآمدات کے لیے صفر یا بہت ہی کم محصولات طئے کیے ہیں۔ معاہدہ ابراہیم کے تحت جب اسرائیل نے متحدہ عرب امارات اور بحرین سے سیاسی روابط قائم کیے اس وقت دوسری باتوں کے علاوہ تل ابیب کی نظر خلیجی ممالک کی معیشت پر بھی تھی۔ اسرائیل نے سفارتی تعلقات بحال ہوتے ہی امارات اور بحرین کے Duty Free Zone میں سرمایہ کاری شروع کر دی جہاں بننے والی مصنوعات پر GCC نرخ سے درآمدی محصولات لاگو ہوتے ہیں۔
بلومبرگ اور رائٹرز کے مطابق اس ہفتے سعودی عرب نے اپنے کسٹم قوانین میں ایک ترمیم کا اعلان کیا ہے جس کے تحت GCC ترجیحی ورعایتی محصولات کا اطلاق Duty Free Zone میں بننے والی ان مصنوعات پر نہیں ہوگا جو ایسے کارخانوں میں بنتی ہیں جن کی ملکیت 25 فیصد سے زیادہ غیر مقامی ہو یا جن مصنوعات کے لیے 40 فیصد سے زیادہ خام مال باہر سے آتا ہو۔ بظاہر اس ترمیم کا مقصد خلیجی تاجروں اور محنت کشوں کا تحفظ ہے لیکن اس کا واضح ہدف امارات کے جبل علی فری زون جیسے مراکز ہیں جہاں اسرائیل بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
دوسری طرف تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے امریکہ کا دباو بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ بدھ 7؍جولائی کو امریکی صدر کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیون اور سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کی واشنگٹن میں ملاقات کے دوران دوسرے نکات کے ساتھ تیل کی پیداوار بڑھانے پر بھی بات ہوئی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ صدر بائیڈن کا دباو کتنا موثر رہے گا۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں MBS کے مبینہ کردار پر آج کل یہاں بحث عروج پر ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک طبقہ اِس پورے واقعے کی تحقیقات کے لیے صد بائیڈن پر دباو ڈال رہا ہے جس کی وجہ سے ریاض کسی حد تک دباو میں ہے۔ اس کے علاوہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت سے امریکی اقتصادیات کی بعد از کورونا تعمیرِ نو کا کام متاثر ہو سکتا ہے۔ ان عوامل کی بنا پر سعودی عرب کے لیے امریکہ کے مطالبے کو یکسر رد کر دینا ممکن نہیں ہوگا۔ جہاں تک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی باہمی چپقلش کا تعلق ہے تو GCC ترجیحی محصولات میں رد وبدل کرکے MBS نے اس تنازعے میں اسرائیل کو بھی ایک فریق بنا لیا ہے۔ محمد بن سلمان کے اماراتی ہم منصب، اسرائیل سے اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور ریاض کو توقع ہے کہ اسرائیلی رہنما اپنے اماراتی دوستوں کو اس معاملے میں’معقولیت‘ اختیار کرنے پر رضامند کر لیں گے ۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

تیل پر قبضے کی شیطانی خواہش نے مشرق وسطیٰ کو یرغمال بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے کروڑوں افراد ملوکیت وآمریت کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ اسی نامراد نے پوری روہنگیا قوم پر ان کی اپنی زمین تنگ کردی کہ اراکان سے متصل سمندر کی تہوں میں تیل وگیس کے چشموں پر چین کی نظر ہے تو دوسری طرف برما کے ساحل سے وسطی چین تک بچھائی جانے والی تیل پائپ لائن کے قرب وجوار میں مسلمان آبادی ’تحفظ‘ کے حوالے سے اندیشہ ہائے دور دراز کا سبب تھی۔ تیل ہی نے کریمیا (Crimea) کے تاتاروں کو جلاوطنی کے عذاب میں مبتلا کیا کہ روس بحراسود سے تیل وگیس کشید کرنا چاہتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 جولائی 2021