علما کی جدائی سے ویران ہے میخانہ

2020ء میں وفات پانے والی معروف علمی و فکری شخصیات کا تعارف

مجتبیٰ فاروق
پی ایچ ڈی اسکالر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدر آباد

 

اللہ تعالی اپنے بندوں سےمکمل طور پر علم چھین کر ختم نہیں کرتا بلکہ وہ اہل علم کو اٹھا کر علم کو بھی اٹھا لیتا ہے۔ اس طرح سے سال 2020علم اور اہل علم کے لیے بہت ہی نقصان دہ ثابت ہوا۔ملکی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک بڑی تعداد میں ممتاز اور نمایاں علماء و مفکرین ہم سے جدا ہو گئے۔ یوں تو سینکڑوں کی تعداد میں علماء و مفکرین کا انتقال ہوا لیکن زیر نظر مضمون میں ان اہل علم کا ذکر کیا گیا ہے جن کا علمی کام نمایاں ہے۔
معروف مفکر اور مترجم قرآن مراد ہاف مین
مراد ہاف مین قبولِ اسلام کے بعد بے لاگ اسلامی مفکرکی حیثیت سے مغرب کے افق پر جلوہ افروز ہوئے ۔مراد ہاف مین مترجم قرآن ، مصنف ،تجزیہ نگار ، داعی، مفکر اور ایک ڈپلومیٹ کی حیثیت سے نہ صرف عیسائی دنیا بلکہ عالم اسلام میں بھی معروف تھے۔
مراد ہاف مین 6 جولائی 1931 میں آسچا عنبرگ (جرمنی) میں ایک کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے نیویارک میں یونین کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد میونخ یونیورسٹی سے قانون میں Contempt of Court publication under Amarican and German law کے موضوع پر 1975ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد وہ جرمنی کے کئی سیاسی اور پالیسی ساز اداروں کے اہم عہدوں پر فائز رہے ۔
مراد ہاف مین 1980 میں مشرف بہ اسلام ہوئے ۔قبول اسلام کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ سفارت کاری نےمجھے مغربی فکر و تہذیب کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کا موقع دیا جس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مغربی تہذیب دریا برد ہونے کے قریب ہے ۔اسلام کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ قبول اسلام کے فورًا بعد میں نے عربی زبان سیکھی اور قرآن مجید کو پڑھنا شروع کیا اور جوں جوں اس کی گہرائی میں اترتا گیا اس کے ساتھ تعلقِ خاطر محکم سے محکم تر ہوتا گیا ۔اس طرح سے قرآن نے میری روحانی ضرورتوں کو پورا کیا اور میری زندگی کو متوازن بنا دیا ۔
ان کی پہلی کتاب 1985 میں بعنوان ایک جرمن مسلم کا روزنامچہ (Diary of German Muslim) ہے ۔ان کی دوسری اہم کتاب اسلام بطور متبادل (Islam The Alternative) ہے ،جس میں انہوں نے مغرب کو دعوت دی کہ آپ اسلام کے جھنڈے تلے ہی زندگی گزاریں اور اسلام ہی تمہاری تہذیب کا متبادل ہے ۔1996 میں ان کی ایک اور شاہکار کتاب Islam-2000 کے عنوان سے شائع ہوئی ۔مذکورہ کتاب کو سموئل ہنٹنگٹن کی کتاب The Clash of Civilizations کے بعد ضرور مطالعہ کرنا چائیے ۔1997 میں ان کا مکہ کا سفر (Journey to Makkah ) اور 2000 میں اسلام تیسری ہزاروی پر(Islam the Third Milliennum) جیسی نادر کتابیں شائع ہو کر تشنگانِ حق کو فیض یاب کرتی رہیں ۔یہ سبھی کتابیں جرمن ، عربی اور انگریزی کے علاوہ دیگر اہم زبانوں میں بھی دستیاب ہیں ۔ان کا سب اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک اہم ضرورت کے تحت قرآن مجید کا ترجمہ جرمن زبان میں کیا ہےجس سے ہزاروں لوگ استفادہ کر رہےہیں ۔مراد ہاف مین، بین الاقوامی سطح کے علمی و فکری جرائد میں لکھتےرہتےتھے ۔موصوف The Muslim World Book Review UK کے مستقل تبصرہ نگار تھے ۔ان کے ہر شمارے میں چار چار علمی اور فکری کتابوں پر تبصرہ شائع ہوتے تھے ۔اسلام، دعوت دین، احیائےاسلام، عورتوں کے حقوق، مادیت اور روحانیت اور مغربی تہذیب پر ان کے منفرد افکار ہیں جن سے ہر حال میں استفادہ کرنا چاہیے۔
١٣جنوری ٢٠٢٠ء کویہ عظیم شخصیت خالق حقیقی سے جاملی ۔
تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن کے مؤلف ڈاکٹر لقمان سلفی
ڈاکٹرمحمد لقمان سلفی 1943میں پیدا ہوئے .انہوں نے العلوم احمد سلفیہ دربھگنہ سے عالمیت کی سند حاصل کی اور اس کے بعد جامعہ الامام ریاض سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے عربی اور اردو زبان میں کئی اہم کتابیں لکھیں. لیکن تفسیر ان کا سب سے اہم کارنامہ ہے
بر صغیر تراجم و تفاسیر کے سلسلے میں مالا مال ہے۔ ان ہی تراجم و تفاسیر میں ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کی تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن بھی شامل ہے ۔ تفسیری روایات میں یہ ایک قیمتی اضافہ ہے. قرآن کا یہ ترجمہ اور تفسیر نہایت آسان اور سلیس زبان میں ہے۔ اس تفسیر میں صحیح احادیث کا خاص التزام کیا گیا ہے اور بھر پور انداز سے استدلال کیا گیا ہے۔ موصوف کو احادیث کے ذخیرے پر گہری دسترست حاصل تھی۔ ان کا انتقال ٥ مارچ ٢٠٢٠کو ہوا۔
معروف داعیہ نورا ایلی
نورا ایلی سوئزرلینڈ کی ایک معروف نومسلمہ اور داعیہ تھیں۔ انہوں نے 2002 کے ان کھٹن حالات میں اسلام قبول کیا جب سوئزیر لینڈ میں اسلام پسندوں کا قافیہ تنگ کر دیا گیا تھا۔ نورا ایلی نے محض 18 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا ۔وہ سوئزرلینڈ جیسے ملک میں پردے اور حجاب کا اہتمام کرتے ہوئے نہایت متحرک رہتی تھیں۔ وہ گزشتہ پندرہ سال سے سوئزر لینڈ میں اسلامو فوبیا اور حجابوفوبیا کے خلاف جنگ لڑ رہی تھیں۔ 2006 میں جب سوئس حکومت نے حجاب پر پابندی عائد کی تب انہوں نے بڑے پیمانے پر اس کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ خواتین کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتی تھیں اور قرآن کے دیے گئے حقوق سے انہیں آگاہ کرتی تھیں۔ قرآن کے متعلق وہ کہتی تھیں کہ یہی ہمارے مسائل کا حل ہے اس کو سمجھنا اور اس ساتھ وقت گزارنا اس دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وہ ایک متحرک داعیہ تھیں اور نہایت ہی متقی اور عملی خاتون تھیں۔ وہ Swiss Central Islamic Council کے بانی ارکان میں سے بھی تھیں۔ کینسر کے طویل عارضے میں ان کا انتقال ٢٥ مارچ محض 35 سال کی عمر میں ہوا۔
جید عالم دین ڈاکٹر خالد محمود
ڈاکٹر خالد محمود ایک جید عالم دین ،محدث، فقیہ، مناظر تھے۔ ان کا بھی اسی سال مانچسٹر میں انتقال ہو گیا۔ انہوں نے مانچسٹر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور وہیں پر مقیم تھے ۔ان سے اس لیے بھی محبت ہے کہ وہ ختم نبوت کے اہم سپہ سالاروں میں سے تھے۔ ایسے لوگ ناپید ہیں جو اہل باطل کا مدلل اور خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دینے کا سیلقہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا شمار بھی ان ہی لوگوں میں ہوتا ہے ۔ وہ ایک کثیر التصانیف تھے، انہوں نے قرآنیات کے ساتھ حدیث،فقہ،تصوف، عقائد پر بھی کام کیا لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ فتنہ قادیانیت کے خلاف انہوں نے ہر محاذ پر کام کیا ۔قرآن کے تعارف پر ان کی کتاب کا نام ’’آثار التنزیل‘‘ ،حدیث کے تعارف پر ان کی کتاب کا نام ’’آثار الحدیث‘‘ ،فقہ کے تعارف پر’’ آثار التشریح‘‘، تصوف کے تعارف پر ’’آثار الاحسان‘‘ اور عقیدے کے تعارف پر ان کی کتاب کا نام ’’فی معنی ختم نبوت اور مطالعہ قادیانیت‘‘ ہے ۔ان کے علاوہ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف تھے ۔ان کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔۱۴ مئی ٢٠٢٠ء کو کو انتقال کر گئے.
مولانا سعید احمد پالن پوری
مولانا سعید پالن پوری جید عالم دین تھے اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدرِمدرسین بھی تھے۔وہ ایک مثالی استاد اور شارح اور مصنف تھے ۔تدریسی مشغلہ کے ساتھ ساتھ تحقیق و تصنیف کا عمدہ ذوق تھا انہوں نے زبردست علمی کام انجام دیا ہے ۔1942 میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے کئی اساتذہ اور اداروں میں تعلیم حاصل کی اور اور اعلٰی تعلیم دار العلوم دیوبند سے حاصل کی ۔بنیادی طور پر ان کا میدان تفسیر ،حدیث ،فقہ اور منطق تھا لیکن فقہ اور فتاویٰ پر بھی ان کی زیادہ دلچسپی تھی وہ شارح شاہ ولی اللہ محدث بھی کہلاتے ہیں ۔انہوں نے شاہ صاحب کی شاہکار کتاب حجۃ اللہ البالغہ کی شرح ’’رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کے عنوان سے کی ہے۔یہ کتاب پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور انٹر نیٹ پر دستیاب ہے۔ اس کتاب کے مقدمہ میں لکھا گیا ہے کہ ایک بھاری قرضہ تھا،جو ڈھائی سوسال سے امت کے ذمہ باقی چلا آ رہا تھا۔اس کے علاوہ انہوں نے الفوز الکبیر کی شان دار شرح ’’الخیرالکثیر‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے ۔ الفوز الکبیر کی یہ مبسوط شرح ہے ۔
ان کا دوسرا اہم کام تفسیر ہدایت القرآن ہے، یہ آسان تفسیر ہے۔اس کے ۱ تا ۹ پارے مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی کے لکھے ہوئے ہیں اور اس کے بعد اس کو مولانا پالن پوری نے پایہ تکمیل پہنچایا ہے۔ ١٩مئی ٢٠٢٠ء کو آپ انتقال کر گئے ۔
افغان عالم دین اور مولانا قیام الدین کشاف
پشتو ایک معروف اور تاریخی زبان ہےاور یہ جنوب مرکز ایشیائی زبان ہے .اس زبان میں تفہیم القرآن کو منتقل کرنے کا اعزاز مولانا قیام الدین کشاف کو حاصل ہے ۔ تفہیم القرآن کے اس ترجمہ کو افغانستان کے علماء نے خوب سراہا اور عوام بھی استفادہ کر رہےہیں ۔مولانا کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں پشتو،اردو، فارسی اور عربی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ وہ نہ صرف ایک عالم دین تھے بلکہ بے باک مفکر اور فصیح البیان خطیب بھی تھے۔ان کے لیکچرس یوٹیوب پر موجود ہیں ۔خطابت کے ساتھ ساتھ انہیں تصنیف و تالیف سے بھی بے حد دلچسپی تھی ۔وہ ایک داعی ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ایکٹیوسٹ بھی تھے ،روسی جارحیت کے خلاف انہوں نے افغان قوم کی فکری تعمیر کا فریضہ بھی انجام دیا تھا ۔نیز ان کے کئی اداروں اور دینی تنظیموں کے ساتھ بہترین تعلقات اور مراسم تھے .٢٦ مئی ٢٠٢٠ء کو انتقال کر گئے ۔
معروف داعی ریاض موسیٰ ملیباری
ریاض موسیٰ ملیباری کیرالا کے رہنے والے تھے ۔ وہ گزشتہ چالیس سال سے غیرمسلموں میں دعوت و تبلیغ کا کام کر رہے تھے ۔انہوں نے دعوتی کام میں اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال کیا ۔انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،جواہر لال نہرو یونیورسٹی، آئی آئی ٹی کان پور اور ممبئی کے علاوہ اکثر مدارس کا دورہ کیا اور نوجوانوں کودعوتی کام کے لیے آمادہ کیا ۔اس کے لیے انہوں نے ایک کورس بھی ترتیب دیا تھا اور نوجوان یہ کورس کرنے میں کافی دلچسپی دکھاتے تھے،اور ان کی ہر طرح سے سرپرستی بھی کرتے تھے۔
ریاض موسیٰ حقیقی معنوں میں اسلام کے ایک بے لوث خادم اور مخلص داعی تھے ۔ان کا کہنا ہے کہ امت کے سارے ادارے اور مدارس مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کوشش کرتے رہیں ساتھ ہی ساتھ ایک ٹیم غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت کے لیے تیار ہوکرسامنے موجود رہے۔اسلامی لٹریچر کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ یہ مسلمانوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے اورغیر مسلموں کے لیے جو لٹریچر تیار کیا جائے گا اس میں سیرت کے مطابق اسلم تسلم (اسلام قبول کرلو محفوظ رہوگے)بھی ہونا چاہیے ان کے مطابق اسلامی لٹریچر اس طرح کی کمی ہے اسی لیے یہ ناکافی ہے۔
دعوت کے میدان میں پیش آنے والے مختلف سوالات کے جوابات پر مشتمل ایک کتاب بھی تیار کی تھی جس کا نام ”دعوتی سوالات اور میرے جوابات ‘‘ہے ۔دعوتی کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب نہایت مفید ہے ۔ آپ٨ جون ٢٠٢٠ء کو انتقال کر گئے ۔
اکیسویں صدی کا شاہ ولی اللہ سید منور حسن
سید منور حسن ایک ایسے مربی اور رہنماء تھے جنہوں نے ہمیں کامیاب اور خوشحال زندگی گزارنے کا گُر سکھایا ۔وہ اکیسویں صدی کے ولی اللہ تھے اور ان میں وہ تمام صفات موجود تھیں ،جو ایک ولی اللہ اور خدا ترس انسان میں ہونی چاہئیں۔ان کے فکر وعمل میں ایک بہترین ڈسپلن تھااور یہی ڈسپلن وہ عام افراد میں میں پیدا کرنا چاہتے تھے ۔ سید صاحب نہ صرف نظریاتی انسان تھے بلکہ عملی میدان کے بھی شہ سوار تھے ۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب ان کی بیٹی کی شادی تھی، تو شادی کے موقع پر ان کی بیٹی کو اچھی خاصی رقم اور تحفے ملے ۔لیکن یہ درویش صفت انسان اپنی بیٹی کو ملنے والی رقم اور تحائف بیت المال میں یہ کہہ کر جمع کرا دیتے ہیں کہ بیٹی یہ تحائف اور رقومات منور حسن کی بیٹی کو نہیں بلکہ امیر جماعت کی بیٹی کو ملے ہیں، لہٰذا اس پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔
سید صاحب کا عملی نمونہ لبرلز یا دین بے زاروں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ دین پسند اور تحریکی افراد کے لیے بھی ہے ۔
جب بی بی سی کے ایک نمائندے نے سید منور حسن صاحب سے پوچھا کہ آپ اثاثوں کا اعلان کیوں نہیں کرتے ہیں تو منور حسن صاحب نے جواب دیا کہ میرےپاس کوئی اثاثہ نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ میری بیوی کے نام کراچی میں سو گز کے پلاٹ پر ایک مکان ہے جس میں ہم رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس کو اثاثہ کہا جاسکتا ہے بلکہ میں مقروض بھی ہوں۔
جب منور حسن صاحب جماعت اسلامی پاکستان کی پانچ سالہ ذمہ داری سے سبک دوش ہوئے تو لاہور سے کراچی واپسی کے لیے رخت سفر باندھااور ان کے ہاتھ میں صرف ایک بیگ تھا جس میں کچھ بنیادی سامان تھا .حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی کہ جب آس پاس کے لوگوں نے پوچھاکہ سید صاحب آپ کا باقی سامان کہاں ہے؟ تو سید صاحب نے جواب دیا کہ میری جمع پونچی صرف یہی ایک بیگ ہے جس میں صرف پہننے کے کپڑے ہیں اس کے علاوہ کوئی سازو سامان یا گاڑی وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا ۔انہوں نے اپنا سفری بیگ خاموشی سے اٹھایا اور سفر کے لیے روانہ ہوگئے ۔ان کے پاس ہر وقت حقیقی زادِ سفر رہتا تھا۔
کتنے بڑے آدمی تھے ،یہ کردار ہر ایک پیش نہیں کر سکتا ہے لیکن جو لوگ تحریک سے وابستہ ہیں ان کو ہر وقت اپنا جائزہ لینا چاہیے ۔ منور صاحب بالکل صاف ستھری زندگی گزارتے تھے ۔قحط الرجال اتنا ہے کہ اب ہمارے پاس منور حسن صاحب جیسے افراد بہت کم ہیں ۔ آپ٢٧جون ٢٠٢٠کو انتقال کر گئے ۔
معروف مفسرحافظ صلاح الدین صاحب
معروف مفسر قرآن،مصنف،محقق حافظ صلاح الدین یوسف بھی خالق حقیقی سے جاملے .صلاح الدین صاحب 1945 کو ہندوستان کے ایک معروف شہر جے پور (راجستھان) میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے فضلیت دارالعلوم تقوية الاسلام ،لاہور سے کی ۔اس کے بعد درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کیا ۔بعد میں تحقیق و تصنیف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ۔وہ ایک بے باک محقق اور عالم دین تھے ۔انہوں نے قرآنیات پر بھی کام کیا ہے ،احادیث کی تشریح وتوضیح پر بھی ، مسلم معاشرے میں بعض پھیلائی گئی علمی نوعیت کی غلط فہموں کا ازالہ بھی کیا ،انکار حدیث کے ٹولے پر بھی کاری ضرب لگائی ، توحیداور شرک کو بھی واضح کیا ،عورتوں کے بعض اہم مسائل پر بھی قلم اٹھایا ۔ ان سب کے باوجود ان کا اہم کام تفسیر احسن البیان ہے ۔یہ تفسیر انتہائی آسان اور عام فہم زبان میں لکھی گئی ہے .اس کا اسلوب بھی عمدہ ہے۔اس تفسیر میں منہج سلف کے مطابق قرآن کے معنیٰ و مفہوم کی تشریح
کی گئی ہے۔
خلافت و ملوکیت کی رد پر بھی انہوں نے ایک کتاب لکھی تھی ،وہ ایک اچھی کتاب ہے جس میں مولانا مودودی کی بعض آراء پر غور کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس میں جو دلائل پیش کیے گئے وہ بھی حرف آخر نہیں ہیں ۔
آپ ١٢ جولائی ٢٠٢٠ء کو اس فانی دنیا سے چل بسے ۔
معروف محدث پروفیسر ضیاء الرحمن اعظمی
ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن اعظمی 1943میں اعظم گڑھ کے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کا نام بانکے رام رکھا گیا تھا۔ بچپن سے ہی مذہبی ذہن تھا اور حقیقت کی تلاش میں سرگرداں رہتا تھا۔ کالج ہی کےدور میں ایک دن مولانا مودودی کی کتاب ”دین حق“ مطالعہ کرنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے براہ راست قرآن کا مطالعہ کرنا شروع کیااور اسلام قبول کیا۔
قبول اسلام کے بعد ام القریٰ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اس کے بعد ازہر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ضیاءالرحمٰن صاحب ایک زبردست محقق ،مصنف اور علوم الحدیث کے ماہر تھے ۔انہوں نے کئی برس مسجد نبوی میں دروس ِ احادیث کا فریضہ بھی انجام دیا ۔ان کا اصل میدان علوم الحدیث تھا ,جس کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی تھی ۔
انہوں نے ’’الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل۔‘‘ کی صورت میں ایک اہم علمی اور تحقیقی کام تیارکیا ہے۔ اس کتاب میں رسول اللہﷺ کی تمام صحیح حدیثوں کو مختلف کتب احادیث سے جمع کیا گیا ہے۔ہندی زبان میں بھی انہوں نے ایک اہم علمی کام انجام دیا ہے جس کا نام ’’ قرآن مجید کا انسائیکلوپیڈیا‘‘یہ کتاب چھ سو موضوعات پر مشتمل ہے ۔ان کا انتقال٣٠جولائی ٢٠٢٠ کو ہوا۔
فقہ اسلامی کے ماہر اور اسلامک بنکنگ کے موجدڈاکٹر حسین حامد
ڈاکٹر حسین حامد حسان عالم اسلام کے ایک عظیم مفکر اور فقہ اسلامی کے ماہر تھے ۔انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے قانون اور اکنامکس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد نیویارک یونیورسٹی امریکہ سے فقہ مقارنہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد الازہر یونیورسٹی سے اسلامی شریعہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔تکمیل تعلیم کے بعد درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کیااور سینکڑوں کی تعداد میں فقہ اسلامی اور اسلامی بنکنگ کے میدان میں افراد تیار کیے۔
ڈاکٹر حسین عالم اسلام کے ایک مایہ ناز مفکر تھے.انہوں نے اسلامائزیشن آف اکنامکس ، اسلامک لاء اور بنکنگ پر قابل تحسین کارنامے انجام دیے .انہوں نے اسلامی فکر میں بہترین اضافے بھی کیے اور رائج بنکنگ اور اکنامکس میں تجدیدی کام بھی کیا ہے .وہ واقعی ایک بہترین ماہر تعلیم(Academician) تھے ۔ان کا اصلی میدان اسلامی بنکنگ ، اسلامک لاء اور اسلامک اکنامکس تھا ۔
ڈاکٹر صاحب نے عالم اسلام کے بہت سے ممالک میں اسلامی بنکنگ اور لاء کے شعبوں میں سرپرستی اور مشیر کی حیثیت سے کام کیا، جن میں عمان ،سعودی عربیہ ،عرب امارات، اردن، قازقستان ،دبئی اور پاکستان بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے ان ممالک میں مالیاتی اور معاشی معاملات کو اسلامی قوانین کے تحت ترتیب دینے میں رہنمائی کی ہے اور ان بنکوں سے قابل ستائش نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں ۔ اور کوئی ایسا مسلم ملک نہیں ہے، جہاں انہوں نے اسلامی بنکنگ اور فینانس میں مشیر کی حیثیت سے کام نہ کیا ہو ۔
ڈاکٹر حسین حامد نے اسلامک بنکنگ ، لاءاور اکنامکس پر بیس سےزائد کتابیں اور چار سو کے قریب مقالات لکھے جو ہمارے لیے ایک عظیم علمی وفکری سرمایہ ہے ۔ ان کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کا روسی زبان میں معیاری ترجمہ کروانے کی سرپرستی بھی کی ۔٢٠اگست ٢٠٢٠ء میں ان کا انتقال ہوا۔
بابائے سیرت پروفیسر یٰسین مظہرصدیقی
ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی اس دور کے نمایاں اور سب سے بڑے سیرت نگار تھے ۔سیرت کے مختلف گوشوں پر ان کا جو کام ہے ،اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ انہوں نے سیرت کو ہر زاویے سے دیکھا، پرکھا اور تحقیقی نوعیت کا کام کیاہے ۔سیرت پر ان کی جوگہری نظر تھی ،وہ لاجواب ہے ۔ان کی سیرت نگاری کی سے سے بڑی خوبی یہ ہے ان کا ہر کام بالکل نیا ہے۔وہ سیرت کے نئے گوشوں پر کام کرنے کی ضرورت بھی محسوس کرتے تھے جس کا وہ اکثر اظہار بھی کرتے تھے ۔گزشتہ کئی سالوں سے وہ سیرت کے معاشی اور سماجی پہلوؤں پر کام کرنے پر زور دے رہے تھے ۔
انہوں نے سیرت رسول ﷺ پر بیس سے زائد کتابیں لکھیں ۔اس کے علاوہ ان کی سیرت پر تین سو کے قریب مقالات بھی شائع ہوچکے ہیں۔ نیز قرآن مجید اور تہذیب اسلامی کی تاریخ پر بھی ان کا علمی کام ہے ۔پروفیسر صدیقی صاحب برصغیر کی حد تک مولانا مودودی ،مولانا عبد الماجد دریا آبادی، مولانا تھانوی اور مولانا داؤد غزنوی سے متاثر تھےجس کا وہ اظہار بھی کرتے تھے۔ لیکن مولانا مودودی سے متاثر ہونے کے باوجود ان کی بعض آراء سے سخت اختلاف رکھتے تھے۔ پاکستان کا وہ اکثر دورہ کرتے تھے اور وہاں ہر جگہ ان کے سیرت پرلکچرس کا اہتمام ہوتا تھا۔ میں نے ایک دن اس کی وجہ پوچھی تو کہا کہ پاکستان میں میری زیادہ قدر قیمت ہے اسی لیے ہر سال بلاتے ہیں ۔
علمی دنیا کی یہ عظیم شخصیت ١٥ ستمبر ٢٠٢٠ء کو خالق حقیقی سے جاملی ۔
علوم القرآن اور علوم الحدیث کے ماہر ڈاکٹر نور الدین بن محمد عتر خالق
ڈاکٹر نور الدین شام کے ایک مشہور شہر حلب میں 1937 میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے علوم اسلامیہ کو اپنی فکر و تحقیق کا مرکز بنایا اور 1958 میں ’’طریقۃ الترمذی فی جامعہ والموازنہ بینہ وبین الصحیحین‘‘ کے عنوان پر جامعہ الازہر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد انہوں نے کئی اہم یونیورسٹیوں میں درس و تدریس کا فرضہ انجام دیا جن میں جامعہ ریاض اور دمشق یونیورسٹی قابل ذکر ہیں۔ شیخ نے سینکڑوں کی تعداد میں افراد تیار کیے اس اعتبار سے پورے عالم عرب میں ان کےشاگرد موجود ہیں ۔
درس و تدریس کے دوران انہوں نے تحقیق وتالیف کا کام بھی کیا اور آخری سانس تک تصنیفی کام جاری رکھا ۔وہ علوم القرآن کے ماہر تھے ،علوم الحدیث اور فقہ پرانہیں ید طولیٰ حاصل تھا ۔انہوں نے ان تینوں میدانوں میں پچاس کے قریب کتابیں لکھیں اور یوں ہمارے لئے ایک عظیم علمی سرمایہ چھوڑا ۔اصل کام تو یہی ہے جو انسان کو تا قیامت زندہ و جاوید رکھے ۔رواںسال رائل اسٹریٹجی رپورٹ نے پانچ سو بااثر شخصیات میں شیخ نورالدین کو شامل کیا ہے۔ڈاکٹر نورالدین جلیل القدر محدث بھی تھے اور علوم الحدیث پر ان کی بیس سے زائد کتابیں ہیں ۔شیخ ہر معاملے میں معتدل نظریہ رکھتے تھے۔موصوف ٢٣ستمبر ٢٠٢٠ء کو خالق حقیقی سے جاملے ۔
بین المذاہب مکالمہ کے ماہر ڈاکٹر عطاء اللہ صدیقی
ڈاکٹر عطاء اللہ صدیقی ایک معروف برطانوی مسلم مفکر ،مصنف، اسلامیات اور بین المذاہب مکالمہ کے ماہر تھے ۔انہوں نے برمنگھم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنےکے بعد درس وتدریس اور اسلامی تعلیمی تحریکات کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا ۔صدیقی صاحب نے مسلم -عیسائی تعلقات اور بین المذاہب مکالموں کو زبردست فروغ دیا اور اس کے لیے فکری اور علمی کام بھی کیا ہے ۔انہوں نے برطانیہ میں Markfiled Institute of Higher Education کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک کام کیا ہے اور اس کے وہ ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں اور اسلامک فاؤنڈیشن یو کے کے ساتھ بھی انہوں بے لوث کام کیا ہے ۔اس کے علاوہ کئی علمی اداروں کے ساتھ بھی وابستہ تھے ۔
ڈاکٹر صدیقی نے بین المذاہب مکالمہ ،اسلام اور تکثیریت ،اسلام اور مغرب ، مغربی دنیا میں اسلام جیسے موضوعات پر کام کیا ہے ۔وہ مسلم دنیا میں اسلامی تحیقیق کے بہتر معیار پر بھی کافی زور دیتے تھے ۔ان کا ماننا ہے کہ آج عالم اسلام میں تحقیق کے معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اسلام کو درہیش چیلنجز کا بحسن و خوبی مقابلہ کیا جاسکے اور اکیڈمک سطح پر اس کے لیے افراد کی ضرورت ہے۔اس بات کو اجاگر کرنے کے لیے انہوں نے عالم اسلام کے کئی ممالک کا سفر بھی کیا ہے ۔ آپ ٩ نومبر ٢٠٢٠ء کو انتقال کر گئے ۔
تفہیم القرآن کے سندھی مترجم پروفیسرمولانا امیر الدین مہر
مولانا امیر الدین مہر ١٩٢٣ میں مشہور اور تاریخی شہر جودھپور راجستھان میں پیدا ہوئے۔انہوں نے درس نظامی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کامشغلہ اختیار کیا اور زندگی کے آخری دم تک لوح و قلم کی آبیاری کرتے رہے ۔تقسیم کے وقت وہ پاکستان چلے گئے اور سندھ میں قیام پذیر ہوئے ۔وہ منصورہ سندھ میں ایک طویل عرصے تک بحیثیت استاد کام کرتے رہے اور طلباء کی ایک بڑی کھیت تیار کی ۔ اس کے علاوہ وہ مہتمم کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔وہ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ دعوہ اکیڈمی میں بھی ١٩٨٨ سے لے کر ٢٠٠٢ تک تدریسی فرائض ادا کرتے رہے .مولانا امیر الدین نہایت متحرک اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور فکر اسلامی کے داعی اور تحریک اسلامی کے عملی نمونہ تھے۔وہ پوری زندگی اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے اسلام کی سربلندی اور اشاعت میں محوِ جدوجہد رہے اور انتہائی صاف ،بے لوث اور تقوی کی زندگی گزارتے رہے ۔
مولانا امیر الدین مہر نے تیس سے زیادہ کتابیں لکھیں ۔ان کا دلچسپ موضوع قرآنیات ،حدیث اور اسلام کا تصور خدمت خلق تھا ۔خدمت خلق کے تعلق سے ان کی بعض کتابیں اہل علم کے درمیان کافی معروف ہیں ۔ خدمت خلق کے علاوہ مولانا نے کئی موضوعات پر لکھا ہے ۔ انہوں نے اربعین امام نووی کی عام فہم انداز میں شرح بھی لکھی جو منتخب احادیث امام نووی کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔ مولانا امیر الدین مہرنے تفہیم القرآن کا سندھی زبان میں ترجمہ بھی کیاہے ۔تفہیم القرآن ایک شاہکار تفسیر ہے ۔مولانا مودودی چاہتے تھے کہ تفہیم القرآن کا ترجمہ ہر زبان میں ہونا چاہئے اوراس کے لیے مولانا خود بھی باصلاحیت افراد کا انتخاب کرتے تھے ۔انہوں نے سندھی زبان میں تفہیم القرآن کو منتقل کرنے کے لیے مولانا جان محمد بھٹو کو منتخب کیا اور انہوں نے اس کام کا آغازبھی کیا ۔جب تفہیم القرآن کی پہلی جلد مکمل ہوئی تب ان کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا ۔ ان کے بعد پروفیسر مولانا امیر الدین نے اس کام کو شروع کیا اور انہوں نے دوسری جلد سے اختتام تک تفہیم القرآن کا خوبصورت ترجمہ کیا جسے سندھ کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں ۔یہ مولانا امیر الدین کا سب سے اہم کارنامہ ہے ۔١٤دسمبر ٢٠٢٠ء کو آپ بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے ۔
تفہیم القرآن کے ترکی مترجم مولانا یوسف قراچہ
یوسف صالح قراچہ نے علامہ اقبال ، مولانا ابو الحسن علی ندوی ، مولانا مودودی اور علامہ شبلی نعمانی کے افکار کوترکی زبان میں منتقل کیا ہے ۔ انہوں نے ان مفکرین کی بہت سی کتابوں کو ترکی زبان میں نہایت آسان ترجمہ کیا ہے ۔انہیں عربی ،انگریزی ،اردو اور ترکی زبان پر کافی عبور حاصل تھا ۔ان کا انتقال ٢٤ دسمبر ٢٠٢٠ء کو ہوا۔ ان ک تفصیلی تذکرہ گزشتہ شمارے میں ہوچکا ہے ۔
قرآن مجید کی عظیم خادمہ السیدہ مریم
السیدہ مریم ابراہیم نیاس کا تعلق ایک افریقی ملک سینیگال سے ہے ۔وہ 22دسمبر 1932ء میں کوسی مبتینی(سینیگال) میں پیدا ہوئیں ۔ان کے والد شیخ ابراہیم نیاس سینیگال کے ایک معروف رہنما، عالم دین اور صوفی بزرگ گزرے ہیں ۔مریم نے ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد اور دوسرے اہل خانہ سے حاصل کی اور بچپن ہی میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا اور بتایا جاتا ہے کہ انہیں دس ہزار احادیث بھی حفظ تھیں ۔اس کے بعد مصر سے بھی تعلیم حاصل کی ۔صوفی سلسلہ سے ان کے تعلق تھا جس کی وجہ سے السیدہ مریم نے بھی اس صوفی سلسلہ کو اختیار کیا ۔السیدہ مریم نے بچوں اور خواتین کے لئے بڑے پیمانے پر مدرسے قائم کیے جن میں افریقہ کے کئی ممالک کی لڑکیاں داخلہ لیتی تھیں ۔نیز بڑی تعداد میں یتیم بچوں کو بھی ان مدسوں میں تعلیم و تربیت کا نظم ونسق ہے ۔السیدہ مریم نے بڑی تعداد میں خواتین اسکالرس کو تیار کیا ہے ۔السیدہ کو قرآن مجید کے ساتھ گہرا لگاوٗ تھا اور ہر وقت ان کے ہاتھ میں قرآن مجید رہتا تھااور اس کی تلاوت میں محو رہتی تھیں ۔اگر چہ ان کا صوفیانہ مزاج غالب تھا لیکن قرآن مجید کو ان کے ہاں بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔
السیدہ مریم نے ایک خودنوشت سوانح بعنوان ”علاقتی مع القرآن الکریم “بھی لکھی ہیں جس میں انہوں نے قرآن مجید سے تعلق کا ذکر کیاہے ۔انھوں نے تقریبا دس ہزار کے قریب بچوں کو قرآن مجید حفظ کروایا ۔وہ ترجمہ اور تفسیر بھی پڑھاتی تھیں ۔بہت ہی متحرک رہتی تھیں۔
وہ دورحاضر میں قرآن مجید کی ایک عظیم خادمہ تھیں ۔خواتین کی قرآن کی روشنی میں تعلیم و تربیت ان کی زندگی کا سب سے عزیز مشن تھا اور اسی کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی تھی ۔اس تعلق سے انہوں نے کئی ممالک کے اسفار بھی کیے۔ 1960 کی دہائی میں انھوں نے اپنے والد شیخ ابراہیم نیاس کے ساتھ بھی کئی عرب ممالک کے دورے کیے۔ یہ عظیم داعیہ اور قرآن مجید کی خادمہ ٢٦ دسمبر ٢٠٢٠ء کواٹھاسی سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں ۔
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021