عظیم مقصد، عظیم قربانی

سنت ابراہیمی اہل ایمان کے لیے فدائیت، عزیمت اور استقامت کا درس

محب اللہ قاسمی ، نئی دلی

قربانی ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن انسانی زندگی میں اس کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ انسان کو اپنی اپنی زندگی میں قدم قدم پر قربانی دینی پڑتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بہتر انجام کے لیے اچھے اقدام کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے جو مختلف اوقات میں مختلف انداز کی ہوتی ہے۔ ہر قربانی کے پیچھے کوئی مقصد چھپا ہوتا ہے اور مقصد جتنا بڑا ہوتاہے قربانی بھی اتنی ہی عظیم ہوتی ہے۔
مثلاًانسانی زندگی کا مقصد اطاعت الٰہی ہے اور اللہ کے سامنے اپنا سر اطاعت خم کر دینا ہی اسلام ہے۔ لہذا مسلمان اپنی زبان سے یہ اقرارکرتا ہے کہ ’’میری نماز میری عبادات، میرا جینا ، میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘ یہی قربانی کا طریقہ سنت ابراہیمی ہے جن کی قربانیوں بھری زندگی سے ہمارے اندر بھی اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا جذبہ ابھرتا ہے۔
اپنے رب کی خاطر قربانی در حقیقت تقرب الٰہی کا مظہر ہے اور یہ جذبہ تعلق باللہ اور تقویٰ کے بغیرحاصل نہیں ہوتا۔ عید الاضحیٰ میں جانور کی قربانی کے وقت بھی یہی تصور ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ اللہ کا حکم ہے جسے انجام دیا جا رہا ہے اور اس کے حکم کے سامنے ہم اپنا سب کچھ قربان کر نے کے لیے تیار ہیں۔ اسی مقصد کو واضح کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے:
لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُم
نہ ان (قربانی کے جانوروں )کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون مگراسے تمہارا تقویٰ پہنچتاہے (سورۃ الحج:۳۷)
اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہوا کہ اللہ کو مقصودان جانوروں کا خون یا ان کاگوشت نہیں ہے ، بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقوی دیکھنا چاہتاہے کہ وہ خداپر کس قدر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے احکام کی کس قدرپابندی کرتے ہیں اور کس طرح وقت ضرورت قربانی پیش کرنے کےلیے تیاررہتے ہیں؟
تقویٰ کی صفت اللہ کو بے حد محبوب ہے، اسی صفت کے نتیجے میں انسان نیک اعمال کو دوسرے اعمال پر ترجیح دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی عمل کو تقوی کی صفت کے ساتھ انجام دیتاہے تووہ خالصۃً للہ ہوتا ہے۔ اس میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو روزہ جیسی اہم ترین عبادت کا مقصدقرار دیا ہے۔ اس طرح ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ المُتَّقِیْنَ
اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں (قربانی) قبول کرتاہے۔ (سورۃ مائدہ:۲۷)
عیدالاضحی کا مقصد بھی جذبہ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیزسے عزیز تر چیز کو حکم ربانی کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیداکرنا ہے ۔یہی قربانی ہے ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی تمام تر خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دے۔
دراصل یہ انسان کی عملی زندگی کا ایک امتحان ہے جس سے اس کے اندرنکھار اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے۔ عندالامتحان یکرم الانسان اویہان ۔ یعنی امتحان کے وقت ہی انسان باعث تکریم ہوتا ہے یا ذلیل۔
جوشخص جس قدر آزمائش سے دوچارہوگا اور اس میں وہ خداکے احکام کو ترجیح دے گا وہ شخص اسی قدر اللہ کا محبوب اور اس کا عزیز تربندہ ہوگا۔ قربانی خداکے تقرب کا ایک ذریعہ ہے۔ جو راہ عزیمت اختیار کرنے والوں کا نصیبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دینے کو اپنے لیے باعث فخر اور ضروری سمجھتا ہے۔
جانوروں کی قربانی کا طریقہ بہت پہلے سے رائج تھا ۔اس پر اللہ کا فرمان ہے:
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَلَہُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ
’’ہرامت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقررکردیاہے۔ تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جواس نے ان کو بخشے ہیں ۔‘‘ (سورۃ الحج:۳۴)
اسے سنت ابراہیمی سے بھی تعبیرکیاجاتاہے۔ صحابہ ؓ نے نبیؐ سے پوچھا یارسول اللہ! یہ قربانی کیاچیز ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ ‘‘ (ترمذی،ابن ماجہ)
قربانی کےواضح مفہوم کو ہم حضرت ابراہیم کی قربانیوں سے بھری بے مثال ،قابل رشک زندگی سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک شخص کوجس سے جتنی محبت اور لگاؤ ہوتا ہے، وہ اسی طرح اپنے محبوب کا امتحان بھی لیتاہے ۔ اس کرہ ارضی پررونماہونے والے تاریخی واقعات پر ہم نگاہ ڈالیں توہمیں بے شمار عاشقوں کے عشق کی رنگینیاں ، دلفریباں اور جلوہ سامانیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ عقیدت ومحبت ،الفت ومودت کی انگنت کہانیاں سننے کو ملتی ہیں اور عشق کے جنون میں ڈوبے تخت وتاج ، مال واسباب لٹادینے والے ،پتھروں ،چٹانوں سے دودھ کی نہریں جاری کرنے میں اپنی تمام ترجدوجہد صرف کردینے والے عشق کے مارے شہنشاہوں کی ہزاروں داستانیں تاریخ میں ملتی ہیں ۔
مگرفدائیت وللہیت ،استقامت وثبات قدمی،ابتلاوآزمائش سے لبریز،دل سوز،سبق آموزاورناقابل فراموش داستان جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی ہے اور جو ایثار و قربانی ، اطاعت ربانی اور مشیت خداوندی کی تعمیل کے جذبہ کی کار فرمائی ، اس عاشق الٰہی میں ملتی ہے، دیگرعشاق کائنات اس سے بالکل خالی وعاری ہیں ۔
اس عاشق نے اپنے محبوب کی تلاش میں حسین کائنات اور اس کی گل افشانیوں کوچھان مارا ۔ اس تلاش وجستجومیں اچانک اس کی نگاہ ایک تاریک شب کی سیاہ چادرمیں لپٹے ہوئے ،ایک ستارے پرپڑی توفرحت و انبساط سے اس کا حسین چہرہ کھل اٹھا ۔ اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کی زبان پر ھذا ربی کے کلمات آگئے۔ مگرجونہی ستارہ اس کی نگاہ سے اوجھل ہوا فوراً اس کی زبان حرکت میں آئی اور صاف طورپراس نے لااحب الافلین کہہ کر بے زاری کا اظہارکیا۔ اس کے بعد اس نے روشن چاند دیکھا تو ھذا ربی کہہ کرپکاراٹھا، لیکن جب ہوہ بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا تو اس نے اس کو بھی خداماننے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد جیسے ہی روشن صبح نے انگڑائی لیتے ہوئے اپنے چہرے سے نقاب کشائی کی توایک چمکتادمکتاآفتاب اپنی تابناکی کے ساتھ رونماہوا، اس کے اس انداز اور بڑے پن کودیکھ وہ ان الفاظ میں گویاہوئے ھذا ربی ھذا اکبر ۔ یہ میرا رب ہے ، یہ بہت بڑا ہے۔ مگریہ کیا کی سورج بھی غروب ہوگیا؟ یہ دیکھا تو انہوں نے اس سے بھی بے زاری ظاہر کردی اور اعلان کردیاکہ یہ میرا رب نہیں ہوسکتا۔
اس طرح اس عاشق نے اپنے خالق ومالک کو ڈھونڈلیا اور کہا کہ میرا رب تووہ ہے جس نے سورج،چاند ، ستارے اور کائنات کی تمام چیزوں کو پیداکیا ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے اور دنیا کی ہرچیز اس کی محتاج ہے۔ جب اس نے اپنے موحدہونے(خداکوایک ماننے والے)کا اعلان کیاتو سارے لوگ اس کے خلاف ہوگئے ۔ اب اللہ کی طرف سے آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہواتوہرجگہ آپ اپنی قربانی پیش کرتے چلے گئے ۔ چنانچہ بت پرست گھرانے کے فردہوتے ہوئے بھی بت شکن ہونے کے سبب انہیں بادشاہ وقت نمرود کے حکم سے آگ میں ڈالاگیا۔
مگرہوا یہ کہ جو آگ شعلے اگل رہی تھی وہ آپ کے لیے گلشن رحمت بن گئی، پھراللہ نے بڑھاپے کی عمر میں آپ کوایک نیک اور بردباراولادعطاکی ۔ لیکن پھر اس کے معاملہ میں بھی آزمائش کی۔ اسے اولاً توغیرذی ذرع وادی میں چھوڑدینے کا حکم ہوا۔ جب اس آزمائش میں بھی آپ کامیاب ہوگئے اور یہ لڑکاجب دوڑنے کھیلنے کی عمرکوپہنچا تواس کو بھی راہ خدامیں قربان کرنے کا حکم ہوا۔
قرآن کریم نے کچھ اس انداز سے اس کا نقشہ کھینچاہے:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ o
’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑدھوپ کرنے کی عمرکوپہنچ گیاتو(ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا’’بیٹا میں خواب میں دیکھتاہوں کہ تجھے ذبح کررہاہوں ۔ اب توبتا تیرا کیاخیال ہے؟‘‘اس نے کہا’’اباجان !جوکچھ آپ کوحکم دیاجارہاہے اسے کرڈالیے۔ آپ انشاء اللہ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورۂ الصافات:۱۰۲)
آپ اپنے جذبات وخواہشات کو بالائے طاق رکھ اس عظیم قربانی کی انجام دہی کے لیے بھی تیارہوگئے ۔
بچے کو ذبح کرنے کے لیے لٹایا اور گردن پر چھری پھیرنے کے لیے تیارہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب بندے کی اطاعت کا یہ جذبہ بے حد پسندآیا اور فرمایا:
فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ oوَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُoقَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّاکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنoإِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاءالْمُبِیْنُ o
’’آخرکو جب ان دونوں نے سرتسلیم خم کردیا اور ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کوماتھے کے بل گرادیا۔ اور ہم نے ندادی کہ اے ابراہیم ، تونے خواب کو سچ کردکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایساہی جزادیتے ہیں ۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔ ‘‘ (سورۃ الصافات:۱۰۳۔ ۱۰۶)
مگراللہ کا مقصدتواس جذبۂ اطاعت کو دیکھنا تھا ۔ بچے کی قربانی مقصودنہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
’’اورہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میں دے کر اس بچے کو چھڑالیا۔ اور اس کی تعریف وتوصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑدی۔ سلام ہے ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی جزادیتے ہیں ۔ ‘‘
(سورۃ الصافات:۱۰۷۔ ۱۱۰)
اگر غور کیا جائے تو اللہ کی طرف سے آج بھی مختلف مواقع پر قربانی کا مطالبہ ہوتا ہے۔ مگرانسان اسے نظر انداز کردیتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ ایسی ہی قربانی سے ہمارے نبی حضرت ابرہیم کو خلیل اللہ کا خطاب ملا تھا۔ جب تک قرآن کی تلاوت کی جاتی رہے گی تب تک لوگ ان پر سلام بھیجتے رہیں گے اور جب بھی عیدالاضحی کا تاریخی دن آئے گا لوگ ان کی تاریخ کو دہرائیں گے۔ اس لیے جو لوگ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کا مقصد جانتے ہیں وہ اطاعت الٰہی کے لیے تقرب الٰہی کی راہ اپنائیں اور اس راہ میں قربانی دینے کے لیے تیار رہیں ۔ کیوں کہ آج بھی ؎
آگ ہے، اولاد ہے، ابراہیم ہے، نمبرود ہے
کیا کسی کو، پھرکسی کا، امتحان مقصود ہے

 

***

 اگر غورکیاجائے تو اللہ کی طرف سے آج بھی مختلف مواقع پر قربانی کا مطالبہ ہوتاہے۔ مگرانسان اسے نظر انداز کردیتا ہے اور وہ بھول جاتاہے کہ ایسی ہی قربانی سے ہمارے نبی حضرت ابرہیم کو خلیل اللہ کا خطاب ملا تھا۔ جب تک قرآن کی تلاوت کی جاتی رہے گی تب تک لوگ ان پر سلام بھیجتے رہیں گے اور جب بھی عیدالاضحی کا تاریخی دن آئے گا لوگ ان کی تاریخ کو دہرائیں گے۔ اس لیے جو لوگ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کا مقصد جانتے ہیں وہ اطاعت الٰہی کے لیے تقرب الٰہی کی راہ اپنائیں اور اس راہ میں قربانی دینے کے لیے تیار رہیں


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 جولائی تا 16 جولائی 2022