’’عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں‘‘

اصلی اور جعلی مذہبی رواداری کافرق

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

 

دوہرے پیمانے اور منافقت پر مبنی حب الوطنی
نئے سال میں آسٹریا سے ایک دلچسپ خبر آئی۔ وہاں ایک 27 سالہ نوجوان نے 650فٹ بلند فلیکرٹ نامی پہاڑ کی چوٹی پر گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر اپنی 32سالہ محبوبہ کے سامنے شادی کی پیش کش کی تو وہ خوشی سے ایسی پھولی نہ سمائی کہ پاؤں پھسلنے سے سیدھی زمین پر جا گری۔ اس سانحہ کے ساتھ یہ خبر بھی آئی کہ مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے محمد رفیق نے حلف لیا۔ محمد رفیق راجستھان کے ضلع چورو میں 25 مئی 1960کو پیدا ہوئے اور 1984میں راجستھان ہائی کورٹ سے وکالت کی شروعات کی۔ 15مئی 2006کو انہیں راجستھان ہائی کورٹ میں جج مقرر کیا گیا۔ 13نومبر 2019کو انہیں میگھالیہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا اور چار ماہ بعد اوڈیشہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے تبادلہ ہو گیا۔ جسٹس محمد رفیق کے مدھیہ پردیش میں چیف جسٹس بننے کے ساتھ یہ خبر بھی آئی کہ وہاں اسٹینڈ اَپ کامیڈین منور فاروقی کی ’ہند رکشک‘ نامی انتہا پسند تنظیم کے کارکنان نے پٹائی کی اور پھر تھانہ پہنچ کر ان کے خلاف معاملہ بھی درج کرایا۔ یعنی وہی 650 فٹ کی بلندی سے گرنے والی بات ہوگئی۔
سوال یہ ہے کہ کیا جسٹس محمد رفیق ہندو رکشک نامی تنظیم کی غنڈہ گردی پر لگام لگا سکیں گے؟ اس کا امکان کم ہے کیونکہ اکثر عدلیہ پولیس کی رپورٹ اور اس کے ذریعہ فراہم کردہ ثبوت کی بنیاد پر فیصلے صادر کرتی ہے۔ اس قابلِ مذمت واقعہ پر جس میں امیت شاہ کی تنقید کو ہندو دیوی دیوتاؤں کی تضحیک سے جوڑ کر بات کا بتنگڑ بنایا گیا پولیس افسر کا تشویشناک بیان ان کی دریدہ ذہنی کا گواہ ہے۔ مقامی ہندی نیوز پورٹلس کے مطابق سی ایس پی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہند رکشک تنظیم کے ذریعہ سونپی گئی ویڈیوز کی بنیاد پر معاملہ کی جانچ کی جا رہی ہے جس کے بعد قصوروار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یعنی پولس تفتیش کی بنیاد ہی بدمعاشوں کے ذریعہ پیش کردہ ویڈیوز ہیں۔ کسی عمارت کی اگر بنیاد ہی غلط ہو تو اس پر تعمیر ہونے والا مکان کیوں کر سیدھا ہو سکتا ہے؟
سی ایس پی نے ہندو رکشکوں سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت کس نے دی تھی؟ ان لوگوں نے پولیس کو پہلے کیوں نہیں بلایا؟ کیا انہیں اس قدر وفادار پولیس پر بھی اعتبار نہیں ہے؟ منرو کیفے کے مالک مکتاس جین کو بچانے کے لیے کہہ دیا گیا کہ انہوں نے پروگرام کی اجازت نہیں دی تھی، اور کیس کو سنگین بنانے کے لیے بلاتفتیش یہ الزام جوڑ دیاگیا کہ وہاں 18 سال سے کم عمر کے بچے بھی موجود تھے۔ سارا قصور جب مظلوم پر تھوپ دیا جائے تو انصاف کی امید کیوں کر ممکن ہے۔ ایسے میں محمد رفیق جیسا کوئی جج کیا کر سکتا ہے۔ آسٹریا میں پہاڑ کی چوٹی سے گرنے والے عاشق و معشوق زخمی تو ہوئے مگر بچ گئے لیکن کیا منور فاروقی ان بدمعاشوں کی پولیس سے سانٹھ گانٹھ کے بعد سزا سے بچ پائیں گے؟ بقول امیر قزلباش ؎
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
شیوراج سنگھ چوہان کے چوتھی بار وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد سے مدھیہ پردیش میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غنڈہ گردی کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ حال میں ضلع مندسور کے ڈورانا گاؤں میں وشوا ہندو پریشداور بجرنگ دل کے کارکنان نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنے کی خاطر ایک جلوس نکالا اور مسجد کو نقصان پہنچایا ۔ دی پرنٹ کےمطابق اس بابت پولیس نے پانچ لوگوں کو حراست میں لیا۔ رپورٹ کے بموجب اس واقعہ کے نتیجہ میں پتھر بازی ہوئی اور گولیاں چلائیں گئیں۔ یہ واقعہ سوشیل میڈیا پر نشر ہونے والی ویڈیوز کی بدولت سامنے آیا جس میں بلوائی مسجد پر چڑھائی کرکے بھگوا پرچم لہراتے اور نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کے کچھ گھروں کو بھی نقصان پہنچایا۔ آگے چل کر پانچ ہزار لوگوں کا بغیر اجازت جلوس نکال کر ہنگامہ کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور گھروں پر جئے شری رام لکھ دیا گیا۔
اسی طرح کی ایک مذموم واردات ضلع مندسور کے دھار میں بھی رونما ہوئی جو اس علاقے میں آر ایس ایس کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ وہاں فسادیوں نے ایک مسجد کو نقصان پہنچانے کے بعد وہاں ہنومان چالیسا پڑھنا شروع کر دیا۔ پولیس نے الٹا مسلمانوں پر پتھراؤ اور گولی باری کا الزام لگا کر بلوائیوں کو بے قصور بتا دیا نیز 27 افراد کو ابتدائی طور پر حراست میں لے لیا۔ یہ تو گویا چوری اوپر سے سینہ زوری والا معاملہ ہو گیا۔ اس طرح کے واقعات سیاسی سرپرستی اور انتظامیہ کے تعاون سے رونما ہوتے ہیں۔ یہ دونوں اگر نظم و نسق کو قائم کرنے کی اپنی ذمہ داری ادا کریں تو کسی فسادی کی کیا مجال کہ دنگا فساد کرے۔ جب تک فسادیوں کو یقین نہ ہو کہ ’یہ اندر کی بات ہے پولیس ہمارے ساتھ ہے‘ اس وقت تک کوئی فساد نہیں پھوٹتا اور اگر اچانک پھوٹ پڑے بھی تو پولیس کی مداخلت سے فوراً قابو میں آجاتا ہے۔اجین کے بیگم باغ میں مقامی انتظامیہ نے بلوائیوں کو تو کھلی چھوٹ دے دی مگر پتھراؤ کے الزام میں عبدالرفیق نامی ایک مسلمان کا دو منزلہ مکان منہدم کر دیا۔ اس مکان میں 19 لوگوں پر مشتمل عبدالرفیق کا خاندان بے گھر ہو گیا۔ معروف اخبار ’جن ستّا‘ کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے ان کو پناہ دینے والی ہم سایہ میرا بائی نے کہا کہ ’’عبدالرفیق کے ساتھ برا ہوا، ان کی غلطی نہیں تھی۔ وہ دیہاڑی مزدور ہے اور اس نے سرکاری پٹّے کی زمین پر گزشتہ 35 سال میں پائی پائی جوڑ کر دو منزلہ مکان بنایا تھا۔ رفیق کی کوئی غلطی نہیں تھی، اس کا مکان منہدم کر کے ایک غریب پر ظلم کیا گیا ہے‘‘۔ میرا بائی کے برخلاف پولیس کا بیان بالکل متضاد ہے۔ اس کی اطلاع کے مطابق بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے کارکنان پر میرا بائی کی چھت سے حنا اور یاسمین نام کی دو خواتین نے پتھر بازی کی اس لیے عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے اس نے خود ہی مکان کو ڈھا دینے کا فیصلہ کرلیا۔
پولیس جب اپنی زیادتی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہاں پہنچی تو پتہ چلا کہ میرا بائی تو ہندو ہے چنانچہ اس نے اس کے پڑوسی عبدالرفیق کے خلاف کارروائی کر دی گئی اور اس کی بیوی نفیسہ اور بیٹیوں کو بولنے تک کا موقع نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج دیپک گپتا نے پولیس کے ذریعے مکان کو مسمار کیے جانے کے عمل کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ قانون کی حکمرانی کا مذاق ہے۔ پولیس کو اس طرح ڈھانچے کو گرانے کا اختیار نہیں ہے‘‘ کیا دنیا میں کہیں اس طرح کی اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہوگا جہاں انتظامیہ امن و امان قائم کرنے کے بجائے عدل و انصاف کی اس طرح دھجیاں اڑائے؟ سابق جج کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنے من کی بات کرسکتا ہے لیکن سبکدوشی سے قبل ان کو بے شمار خطرات اور اندیشے لاحق ہوتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ اقتدار کے خلاف فیصلہ کرنے والوں کا اس طرح تبادلہ کیا گیا کہ وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے۔
ان واقعات میں ایک طرف سنگھ پریوار کے بلوائی فساد بھڑکاتے ہیں سنگھی سرکار ان کی سرپرستی کرتی ہے سنگھ کی فرقہ پرستی سے متاثر انتظامیہ جبرو استبداد کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے۔ اس پر طرۂ امتیاز یہ کہ آر ایس ایس کے سربراہ فرماتے ہیں ہندو فطرتاً قوم پرست یعنی دیش بھکت ہوتا ہے۔ تو کیا دیش بھکتی یہی ہے جو ان سے دنگا فساد کرواتی ہے۔ موہن بھاگوت نے یہ بیان جے کے بجاج اور ایم ڈی سری نواسن کی کتاب ’’میکنگ آف ہندو پیٹریٹ: بیک گراؤنڈ آف گاندھیز ہند سوراج‘‘ کا اجرا کرتے ہوئے دیا۔ 1000 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں گاندھی جی کے 1891 سے 1909 کے درمیان لکھے گئے مضامین کی روشنی میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ وہ اس دور کے سب سے بڑے ہندو محب وطن (ہندو دیش بھکت) تھے۔ موہن بھاگوت نے یہ بھی کہا کہ حب الوطنی ہندو مذہب سے نکلتی ہے اور ہر ہندو فطرتاً دیش بھکت ہوتا ہے، وہ ملک دشمن نہیں ہوسکتا۔
یہ ایک معنیٰ میں سنگھ پریوار کی بہت بڑی نظریاتی شکست ہے کیونکہ کل تک گاندھی جی کو ملک کا سب سے بڑا دشمن سمجھنے والا سنگھ پریوار آج اچانک اپنے آپ کو گاندھی بھکت بناکر پیش کر رہا ہے۔ اس بیان کے تناظر میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں مثلاً اگر گاندھی دیش بھکت تھے تو ہندوتوا وادی گوڈسے نے انہیں قتل کرکے اس پر فخر کیوں جتایا؟ کیا وہ ہندو نہیں تھا یا اپنی فطرت سے منحرف ہو گیا تھا؟ اگر ایسا ہے تو اس کے استاد ساورکر کا مجسمہ بی جے پی نے ایوان پارلیمان میں کیوں نصب کیا اور سنگھ نے اسے ایسا کرنے سے کیوں نہیں روکا؟ گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی کھلے تعریف و توصیف کرنے والی پرگیہ ٹھاکر کو بی جے پی نے لوک سبھا کا ٹکٹ دے کر ایوان پارلیمان میں کیوں بھیجا؟ کیا پرگیہ ٹھاکر بھی ہندو نہیں ہے اور اپنی فطرت سے ہٹ گئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو بی جے پی اس کو اپنی پارٹی سے کیوں نہیں نکالتی؟
موہن بھاگوت کو یہ بتانا ہوگا کہ اگر گاندھی جی کی حب الوطنی ان کے دھرم سے نکلتی ہے تو پرگیا ٹھاکر جیسے سنگھیوں کی قوم پرستی کہاں سے نکلتی ہے؟ سچ تو یہ ہے اس کا منبع و مرجع مسولینی کی فسطائیت ہے۔ ہندوتوا وادی اس سے اس قدر مرعوب تھے کہ فسطائیت کا مطالعہ کرنے کے بعد بہ نفس نفیس ملاقات کے لیے ڈاکٹر مونجے کو اٹلی روانہ کیا گیا تھا اور واپس آکر انہوں نے ہٹلر و مسولینی کی دل کھول کر تعریف بھی کی تھی۔ سنگھ کا لٹریچر ہٹلر کی توصیف سے بھرا پڑا ہے۔ بھاگوت کی اس بات کو اگر تسلیم کرلیا جائے کہ ہر ہندو کو مذہب کی بنیاد پر حب الوطن ہونا ہی پڑتا ہے اور غدار وطن نہیں ہوسکتا تو ناتھو رام گوڈسے سے لے کر پرگیا ٹھاکر اور خود ان کو بھی ہندوؤں کے زمرے سے خارج کرنا پڑے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ فسطائیت نواز موہن بھاگوت حب الوطنی کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں کیونکہ ملک سے محبت عوام سے الفت ہے اور سنگھ پریوار اس ملک کے لوگوں کا کھلا دشمن ہے۔ کسان تحریک اس کا ثبوت ہے۔ مسلم دشمنی میں تو یہ اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ ان لوگوں نے دہلی کے جامعہ علاقہ میں وطن کی خاطر جان نچھاور کرنے والے بریگیڈیئر محمد عثمان کی قبر کو پامال کرکے وہاں توڑ پھوڑ کی اور اس کی مرمت کے لیے فوج کو آنا پڑا۔ ابھی حال میں ان شر پسندوں نے ’نوشہرہ کا شیر‘ کے نام سے مشہور بریگیڈیئر عثمان کی قبر پر لگے سفید سنگ مرمر کے کتبے کا نصف حصہ تک توڑ دیا۔ فوج کی جانب سے قبر کی مرمت کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کےافسر برائے رابطہ عامہ محمد عظیم نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ بریگیڈیئر عثمان کی ریجمنٹ کے افسران نے جامعہ کے تکنیکی تعاون سے یہ کام انجام دیا۔اس موقع پر فوج نے کہا کہ بریگیڈیئر عثمان نہ صرف فوج بلکہ قوم کے ہیرو تھے۔
موہن بھاگوت کو معلوم ہونا چاہیے کہ جولائی 1912 کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے محمد عثمان 1932 میں انگلینڈ کی رائل ملٹری اکادمی سے تربیت یافتہ تھے۔ 1935 میں انہیں 23 سال کی عمر میں بلوچ ریجمنٹ کے اندر کمیشن دیا گیا اور آزادی کے وقت مسلمان ہونے کے ناطہ ان پر پاکستانی فوج میں شامل ہونے کا دباؤ تھا نیز مستقبل میں پاکستانی فوج کا سربراہ بنائے جانے کی پیشکش بھی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ بلوچ ریجمنٹ جب پاکستانی فوج کا حصہ بن گئی تو وہ ڈوگرا ریجمنٹ میں شامل ہو گئے۔بریگیڈیئر محمد عثمان نے 48۔ 1947 میں پاکستانی فوج کو ہراکر نوشہرہ کو ہندوستان میں شامل کیا اس لیے حکومت ہند نے انہیں مہاویر چکر کے اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔ موہن بھاگوت اپنی ۱۰۰ سال کی تاریخ میں کسی ایک سنگھی کا نام بتائیں جس نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہو تو ان کو بھی محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ مل سکتا ہے۔
موہن بھاگوت جیسے لوگوں کی ساری دیش بھکتی بھاشن اور پروچن تک محدود ہوتی ہے۔ یہ لوگ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کے دعوؤں کا جواب دینے کے لیے تو بریگیڈیئر کے کتبے پر لکھے یہ الفاظ ہی کافی ہیں کہ ’’ہندوستان کے ایک بہادر سپوت بریگیڈیئر محمد عثمان کے جسد خاکی کو یہاں سپرد خاک کیا گیا ہے۔ وقت اور نسلیں گزریں گی لیکن ان کا مقبرہ مادر وطن کے سچے اور بہادر بیٹے کی جرأت کے ایک وصیت نامہ کے طور پر موجود رہے گا۔ یہ مقبرہ آج اور آنے والی نسلوں کو ترغیب دیتا رہے گا۔‘‘ سچا محب وطن اپنی حب الوطنی کا ڈھول نہیں پیٹتا بلکہ عمل کرکے دکھاتا ہے۔ شور شرابے کی ضرورت بھاگوت جیسے لوگوں کو پیش آتی ہے۔
وطن عزیز میں سیکولرزم پربڑا فخر کیا جاتا ہے لیکن مذہبی رواداری کیا ہوتی ہے اس کا سبق اب ہم سایہ پاکستان سے سیکھنے کا وقت آگیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے اندر جس دن دو مساجد کی بے حرمتی کی گئی اسی دن پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ میں ٹیری کے مقام پر ایک مندر کے توڑ پھوڑ کا مذموم واقعہ رونما ہوا۔ اس بابت مقامی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس فضل شیر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ مندر سے متصل زمین پر تنازع چل رہا ہے جہاں نئی عمارت تعمیر پر علاقے کے لوگ مشتعل ہو گئے اور مندر کی عمارت کو آگ لگا کر مسمار کر دیا۔ مدھیہ پردیش کی مساجد کی طرح مندر کی مسماری کے ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں۔ ٹیری کے اس علاقے میں پہلے ہی ایک مندر ہوا کرتا تھا لیکن بعد میں وہاں پر شری پرم ہنس جی کے نام سے سمادھی بھی بنائی گئی جن کا 1919 میں انتقال ہوگیا تھا۔1997 میں ایک مقامی شخص نے دعویٰ کیا کہ اس کو 60 کی دہائی میں حکومت نے سمادھی کی زمین دے دی تھی۔ اس نے وہاں کچھ تعمیرات کا کام بھی کردیا تھا۔ پاکستان ہندو کونسل نے اس متنازع زمین پر 2015 میں سپریم کورٹ سے رجوع کرکے عدالت میں مقدمہ دائر کیا تو اسی سال عدالت عظمیٰ نے سمادھی کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ اس مندر کے خلاف پاکستان میں رام مندر جیسی کوئی سیاسی تحریک نہیں چلائی گئی اور نہ اس پر بابری مسجد کی مانند فیصلہ کرکے عدل و انصاف کا خون بہایا گیا بلکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس وقت کی خیبر پختونخوا حکومت کو حکم دیا تھا کہ سمادھی میں ہر قسم کی توڑ پھوڑ کو روک کر اس کی تاریخی حیثیت بحال کی جائے۔
حالیہ تخریب کاری کے حوالے سے معروف ہندو دانشور اور وزیر اعظم عمران خان کے ٹاسک فورس برائے مذہبی سیاحت کے رکن ہارون سربدیال نے بتایا کہ سمادھی کی مسماری سے ہندوؤں کے مذہبی احساسات کو شدید دھکا لگا ہے اور وہ سخت پریشان ہیں۔ سربدیال کے مطابق حالیہ واقعے میں ہندوؤں نے صرف اتنا کہا تھا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق یہ زمین ہندوؤں کی ہے جس پر لوگوں نے مشتعل ہوکر ایک مذہبی مقام کی بے حرمتی کردی۔ انہوں نے بجا طور پر مطالبہ کیا کہ ’حکومت اگر توہین مذہب کے قوانین پر عمل کرے تو یہ واقعہ بھی اس زمرے میں آتا ہے اور حکومت کو اس پر اقدام کرنا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے وہ بولے اسے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ورنہ مذہبی مقامات کی حفاظت میں بے بس کونسل کوتحلیل کر دیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں وقوع پذیر ہونے والےاس سانحہ کی مذمت ہونی چاہیے لیکن اس پر پاکستانی سپریم کورٹ کا از خود نوٹس لینا بھی قابلِ تعریف بھی ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے پہلے تو نیشنل اسمبلی کے رکن اور پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ رمیش کمار کو بلا کر ان سے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے ساتھ چیف جسٹس نے صوبے کے آئی جی اور سکریٹری سے 4 جنوری تک رپورٹ طلب کرکے سماعت کی خاطر 5 جنوری کا دن طے کیا۔ کیا ہماری عدالت سے اس طرح کی توقع کی جاسکتی ہے؟ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان مسجد کی بے حرمتی پر لگام لگانے کے بجائے پتھر بازی کے خلاف قانون بنوا رہے ہیں مگر خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے مندر پر حملے کو ’ایک افسوسناک واقعہ‘ قرار دیتے ہوئے اس میں شامل لوگوں کی فوری گرفتاری کے احکام جاری کر دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’عبادت کے مقامات کو اس طرح کے واقعات سے محفوظ رکھنے کا عزم ہم سب کو کرنا چاہیے‘‘ اس کے فوراً بعد پولیس نے 26 افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف کیس درج کیا اور بعد میں یہ تعداد 46 تک پہنچ گئی۔ پاکستان کی ہندو برادری کو انصاف کے لیے نہ تو سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑا اور نہ عدالت کے دروازے پر دستک دینی پڑی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار سے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ وہ پہلے ہی اس پر ازخود نوٹس لے چکے ہیں۔ رمیش کمار نےنامہ نگاروں کو بتایا کہ مجھے حکومت سے زیادہ عدلیہ پر اعتماد ہے۔ اس معاملے کی تفتیش کے لیے شعیب سڈل کی سربراہی میں کمیشن بنادیا گیا ہے اور انسداد دہشت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے نیز کئی افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کی بھی کال آئی اور انہوں نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کرکے کمیشن کو واقعے پر رپورٹ دینے کا حکم دیا۔ رمیش کمار کے بقول وزیر اعظم نے ملوث عناصر کو سزا دینے کا یقین دلایا۔ رمیش کمار کا کہنا تھا کہ ہندو برادری کو سپریم کورٹ آف پاکستان پر بھروسہ ہے، ہمارا مطالبہ چیف جسٹس اور وزیر اعظم نے پورا کر دیا ہے، امید ہے کہ مناسب اقدام کیا جائے گا اور ملوث عناصر کو سزا ملے گی۔ پاکستانی عدلیہ نے اس معاملے میں تیز رفتاری کے ساتھ اقدام کیا اور وزیر اعظم نے اعتماد بحالی کی خاطر جو پہل کی کیا وطن عزیز میں ایسی توقع کرنا ممکن ہے؟ یہ سوال صرف موہن بھاگوت سے نہیں بلکہ ہر باشعور شہری سے ہے۔
***

سچ تو یہ ہے کہ فسطائیت نواز موہن بھاگوت حب الوطنی کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں کیونکہ ملک سے محبت عوام سے الفت ہے اور سنگھ پریوار اس ملک کے لوگوں کا کھلا دشمن ہے۔ کسان تحریک اس کا ثبوت ہے۔ مسلم دشمنی میں تو یہ اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ ان لوگوں نے دہلی کے جامعہ علاقہ میں وطن کی خاطر جان نچھاور کرنے والے بریگیڈیئر محمد عثمان کی قبر کو پامال کرکے وہاں توڑ پھوڑ کی اور اس کی مرمت کے لیے فوج کو آنا پڑا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021