صوفی تصرفات: جائزہ اور توجیہ

ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی

(عام غور وفکر کے لیے مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کرنا ماہ نامہ زندگی نو کی روایت رہی ہے، زیر نظر مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک پیش کش ہے۔ امید ہے اس سے غور وفکر کو تحریک ملے گی۔ادارہ)
تصوف اور صوفی تصرفات کے بارے میں متعدد نظریات پائے جاتے ہیں، وابستگی کے مختلف درجے ہیں اور تصرّفات کے مدارج بھی بہت ہیں۔ یہاں ہمارے پیش نظر ان نظریات کا تعارف نہیں بلکہ بعض ایسے پہلوؤں کو از سر نو سمجھنے کی کوشش ہے جن کی بنا پر تصوف کے یہ تصرفات اسلام سے اس طرح وابستہ کردیے گئے ہیں کہ تصوف کے یہ پہلوعین اسلام بن کر سامنے آتے ہیں۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اسلام کا صحیح تعارف وہی ہے جو قرآن کریم نے اس طرح پیش کردیا ہے کہ ایک عام مخاطب کے لیے بھی قابل فہم ہے اور سنت رسول سے بھی یہی تفہیم واضح ہوتی ہے۔ اس تفہیم میں انسانی کردار اور اس کی عملی بلندیاں تو نظر آتی ہیں اور اس کے اپنے ایسے انفرادی تجربات بھی کبھی کبھی سامنے آتے ہیں جنھیں عقل خالص تو تسلیم کرنے میں متردد ہوتی ہے البتہ عقل سلیم (حقیقت آگاہ عقل) روانی سے گزر جاتی ہے۔ لیکن جب یہ تجربات تصرّفات کے مقام تک پہنچنے لگتے ہیں تو عقل سلیم بھی انھیں تسلیم کرنے میں تکلف کرتی ہے۔ البتہ اسلامی روایت میں یہ تکلف اس وقت ختم ہو جاتا ہے یا باقی نہیں رہتا جب یہ انتہائی معتبر حوالوں سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ حوالے نہ تو رسول اللہ کے زمانے سے متعلق ہیں اور نہ ہی صحابہ کرام اور ان کے قریبی دور کے۔یہ سب بعد کے حوالے ہیں اور اس وقت کے ہیں جب بتدریج عمل صالح کی تعریف میں روحانیت یا روحانی عمل کو فوقیت حاصل ہونے لگی تھی اور یہ بتایا جانے لگا تھا کہ اخروی کام یابی کا حصول ذکر و اذکار، نوافل اور دوسری عبادتوں سے وابستہ ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ قرآن کریم اور سنت رسول میں بتائے گئے معیار سے خاصا مختلف تھا۔ لیکن مذکورہ بالا حوالے اس تکلف کو بتدریج دور کرتے گئے اور آہستہ آہستہ تصوف، اس کے تصرّفات، اور اس کا پورا نظام اسلامی روایت کا حصہ بنتا گیا اور ایک وقت وہ آیا کہ ہر بڑے عالم کا عملی صوفی ہونا اس کے علم کو معتبر کرنے کے لیے ضروری ٹھہرا۔ ذرا غور کریں کہ رابعہ بصری، جنید بغدادی، رومی، غزالی، ابن عربی، علی الہجویری اور شیخ احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ جیسے زعماء کے حوالوں کے ساتھ کوئی علمی نقطۂ نظر سامنے آئے گا تو تصوف خود بخود ہی معتبر اور اسلامی روایت بن جائے گا۔
اس مختصر پیش کش میں اس بحث کو ایک دوسرے انداز سے پیش کیا گیا ہے۔
ہماری اس دنیا میں دو عالموں (worlds) کے وجود سے انکار ممکن نہیں ایک عالم مادہ ہے اور دوسرا عالم خیال۔ مادی عالم سے ہم بخوبی واقف ہیں۔عالم خیال سے مراد ہمارے خیالات کی دنیا ہے جس میں خیال کی پیدائش، اس کا سفر، اس کا ارتقاء اور اس کے ارتکاز کے ذریعہ بصارت میں اضافہ، دوسروں کے خیالات پر دسترس اور اس طرح پیغام رسانی، نظر کی بندش وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ دنیا ہے جس کا ہم اکثر تجربہ بھی کرتے ہیں۔
مادی دنیا میں ہماری ریسرچ و تحقیق نے زبردست کام یابیاں حاصل کی ہیں کیونکہ مادہ پر انسان نے سخت محنت کی ہے۔ ان کام یابیوں کے جس معیار پر آج انسان نے اپنے آپ کو فائز کر لیا ہے یہ اگر دو صدی قبل رونما ہوئی ہوتیں تو انھیں خالص معجزہ سمجھا جاتا۔ جس طرح چودہ سو سال قبل رسول اللہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ بالائے کائنات سے بھی کہیں دور سے ایک غیر مرئی وجود کی وساطت سے انھیں ایک الٰہی پیغام ملا ہے تو جیسا اس واقعہ کو اس زمانہ میں ایک معجزہ سمجھا گیا، انسان کے چاند پر پہنچنے اور مریخ پر اپنی مشینری اتارنے کا واقعہ بھی آج سے ایک دو صدی قبل اس نوعیت کا ایک معجزہ مانا گیا ہوتا۔ یہ سب اس بنا پر ہوا کہ انسان نے مادی دنیا کو اپنی تحقیق و جستجو کا مرکز توجہ بنایا اور تجربی ارتکاز کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ گیا کہ وہ کام یابیاں حاصل کر سکے۔
خیال کی دنیا بھی مادی دنیا کے مقابلے میں گو بہت کم لیکن انسانوں کے لیے سحر انگیز اور دلفریب رہی ہے۔ مادی دنیا پر ریسرچ و تحقیق انسانوں کی بھلائی کی راہیں کھولنے کے ساتھ حصول قوت کا ذریعہ بھی بنی لیکن اس میں زیادہ دل چسپی کی وجہ انسان کے لیے سود مند نظر آنے والے اس کے حاصلات تھے۔ لیکن خیال کی دنیا نہ تو نظر آتی تھی اور اور نہ ہی اس کے حاصلات مادی دنیا کی طرح نظر آنے والے تھے۔ البتہ قوت کا حصول اس کے ذریعہ بھی ممکن تھا۔ مادہ پر محنت کے نتیجہ میں مادی وجود پر غلبہ کی راہ ہموار ہوئی اور خیال کی دنیا میں محنت نے خیالوں کی دنیا پر غلبہ عطا کیا اور اس طرح اس کے عامل کو قوت بھی عطا کی۔
بحث آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ مادہ پر محنت کے لیے جس طرح مادی وسائل مثلا لیب اور تجربات کرنے کے لیے وسائل ضروری ہوتے ہیں اسی طرح خیال پر محنت کے لیے فرد یا افراد ضروری ہیں اور لیب کی جگہ ایک ایسا مقام ضروری ہوتا ہے جہاں بیٹھ کر مادی دنیا سے ممکن حد تک کٹ کر ایک فرد خیالات پر محنت کر سکے۔ ان مقامات کو مختلف نام دیے گئے مثلا زاویے، درگاہیں اور خانقاہیں وغیرہ۔
صوفیائی عمل میں مراقبہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے مراقبہ کی اصلیت دراصل ارتکاز یعنی concentration یا meditation اور استغراق ہے۔ یعنی ایسی کوشش جس کے نتیجہ میں خیالات کو مرتکز کرنے اور مستغرق کرنے کی تربیت ہو سکے اور پھر یہ بتدریج عمل کرنے والے کی عادت بن جائے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ارتکاز کا حصول مختلف مذاہب اور ثقافتوں میں دیکھنے کو ملتا ہے مثلا ہندو یوگی دور دراز علاقوں مثلاً جنگلوں اور بلند پہاڑوں میں رہ کر یہ عمل کرتے ہیں۔ بودھ بھکشوں کا یہ عمل انتہائی معروف ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ محض استغراق کے ذریعہ انھوں نے مادہ کی داخلی ساخت (ایٹم کے اسٹرکچر) کے بارے میں قبل از وقت پیش گوئیاں کی ہیں۔ یہی استغراقی عمل عیسائی راہبوں میں بھی موجود ہے اور غیر مذہبی ثقافتی روایتوں میں بھی میں ایک دل چسپ عمل رہا ہے۔ کیونکہ عمل بصارت یعنی دیکھنے کا عمل بھی خیالات سے جڑا ہوا ہوتا ہے اس لیے خیالات کا استغراق بصارت کو بھی متاثر کرتا ہے اور اس کی پہنچ میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔ اس ارتکاز خیال کی بدولت ہمارے صوفیا کے حاصلات تفصیل کے ساتھ مختلف کتابوں، قصوں اور بیانات میں مل جاتے ہیں۔ ان کا انکار ایک غیر علمی رویہ ہے۔ مثال کے طور پر بعض صوفیا کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ وہ مخاطب کے خیال کو پڑھ لیا کرتے تھے۔ بعض ایسے واقعات معلوم ہیں جو آج کی ٹیلی پیتھی سے مماثلت رکھتے ہیں۔ مشہور ہے کہ بعض صوفیا دو دراز کے علاقوں سے ان سے ملاقات کی غرض سے آنے والوں کے بارے میں کبھی کبھی پیش گوئی کر دیا کرتے تھے۔
اسی طرح ایک عمل نظر بندی اور عمل تنویم، ہپ نوسس بھی ہے۔ جو بعض اوقات جادوگروں کے ذریعہ بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ نظربندی کی طرف اشارہ حضرت موسی اور فرعون کے جادوگروں کے مقابلہ کے دوران بھی ملتا ہے۔ ان اعمال کے صدور کے لیے جو عملیات درکار ہیں بنیادی طور پر وہ ارتکاز خیال ہی سے عبارت ہیں۔ اور مغربی دنیا میں ایسے متعدد افراد کے حوالے دیے جاسکتے ہیں جنھوں نے اپنی حاصلات کا مشاہدہ دوسروں کو کرایا ہے یا ان کے حوالوں سے وہ تحریری ریکارڈ میں آ چکے ہیں۔
ہمارے پیش نظر شاہ ولی اللہ کی کتاب شفاء العلیل (القول الجمیل) کا اردو ترجمہ ہے جس میں مختلف مقاصد کے لیے بعض اعمال کا تذکرہ کیا گیا ہے مثال کے طور پر صفحہ 107 پر طریقہ تصرّف قلوب اور صفحہ 108 پر طریقہ کشف وقائع آئندہ کے حوالے سے عمل درج ہے۔ واضح رہے کہ ان اعمال کا مقصد دوسروں کے قلب کو متاثر کرنا اور ان پر تصرّف کرنا ہے یعنی ان میں وہ خیالات ڈالنا جنھیں آپ چاہتے ہیں۔ اسی طرح ’وقائع آئندہ‘ سے آئندہ کیا واقعہ پیش آنے والا ہے، کی جانکاری مقصد ہے۔ یہ دونوں دینی مقاصد کے لیے استعمال تو کیے جا سکتے ہیں لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے دینی نہیں ہیں۔ وہ طریقہ بھی ملاحظہ کر لیں جس کی شاہ ولی اللہ نے صراحت کی ہے۔
طریقہ تصرّف قلوب: اور تصرّف کرنا لوگوں کے دل میں تاکہ ان میں محبت آ جاوے یا ان کے محل ادراک میں تصرّف کرنا تاکہ ان میں واقعات متمثل ہو جاویں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بقوت ہمت طالب کے نفس سے بِھڑجاوے اور اس کو اپنے نفس سے متصل کرے۔ پھر محبت یا واقعے کی صورت کو خیال کرے اور ان کی طرف متوجہ ہو اپنے دل کی جمعیت سے تو اس پر اثر ہوگا جس کی طرف متوجہ ہو اور اس پر محبت ظاہر ہوجاوے گی اور واقعہ اس کے ذہن میں صورت پکڑ جاوے گا۔
اور وقائع آئندہ کے کشف کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دل کو خالی کرکے ہر چیز سے سوائے اس واقع کے دریافت کے انتظار کے پھر جب اس کے دل سے ہر خطرہ منقطع ہوجاوے اور انتظار اس مرتبہ پر ہو جیسے پیاسے کو پانی کی طلب ہوتی ہے اپنی روح کو ساعت بساعت ملاء اعلی یا اسفل کی طرف بلند کرنا شروع کرے بقدر اپنی استعداد کے اور ان ہی کی طرف یکسو ہوجاوے تو جلد اس پر حال کھل جاوے گا خواہ ہاتف کی آواز سے یا جاگتے میں اس واقعہ کو دیکھ کر یا خواب میں۔
میں نے یہ منتخب عبارت نقل کی ہے تاکہ یہ بتانا آسان ہو کہ ان اعمال میں اصل اثر ارتکاز یعنی استغراق کا ہے۔ اس کے حصول کی عملی شکل میں کوئی اسلامیت نہیں بلکہ خالصتاً ایک سیکولر عمل ہے۔ گو کہ کئی مراحل واضح نہیں ہیں اور عامل خاص محنت کے بعد ہی ان پر قدرت حاصل کرسکے گا۔ البتہ اتنا تو اندازہ ہے کہ ہمارے یہاں صوفیہ شدید محنت کرتے تھے اور انھیں یہ تصرّفات حاصل ہو جاتے تھے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ تصرّفات آج بھی ممکن ہیں۔ اس کے لیے صوفی تو کجا مسلمان ہونا بھی چنداں ضروری نہیں ہے۔
ہمارے بزرگوں نے اس میدان میں شدید محنت کی، بڑا گہرا ارتکاز کیا اور انھیں وہ تصرّفات حاصل ہوگئے جو اکثر سننے میں آتے ہیں۔ ارتکاز کی یہ محنت خالص ایک سیکولر عمل تھا جیسا کہ دوسری مذہبی یا غیر مذہبی روایتوں میں اس عمل سے گزرنے والوں کے حاصلات کے واقعات اور ان کے عمل کی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے۔ یہ علم کی ایک نئی شاخ تھی جس کے دریچے ہمارے ان بزرگوں نے کھولے لیکن افسوس یہ ہے کہ اسے انھوں نے ایک مذہبی تجربہ کی شکل میں پیش کیا جس کے نتیجے میں پیش کرنے والوں کی بزرگی تو قائم ہوسکی لیکن یہ بطور علمی روایت کے جڑ نہ پکڑ سکی۔ اور آج یہ ایک قسم کی شعبدہ بازی کی حیثیت میں زندہ ہے۔ کسی منظم علم کی حیثیت میں نہیں۔ اگر کیا جاتا تو یہ بڑا کارگر علم تھا جس کی جہتوں میں تنوع کے بڑے امکان تھے اور آج بھی ہیں۔
راقم کے خیال میں اسے مذہبی تجربہ کی حیثیت میں پیش کرنا غلطی تھی۔ اس کے ممکنہ اثرات کی تمنا نے عامۃ المسلمین کو قرآنی عملیت سے دور کردیا اور روحانی تجربہ ہی معیار دین ٹھہرا۔ لیکن میرا ایک اور خیال یہ ہے کہ یہ ان حضرات کی مجبوری بھی تھی کہ یہ تمام حضرات ایک ایسے ماحول کے پروردہ تھے جو نبی کریم کے ماحول سے کئی صدیوں کے فاصلے پر تھا اور روحانی ریاضتیں اسلام کے عمل صالح کا نمونہ بن چکی تھیں۔ پھر یہ بھی کہ ذکر الٰہی میں جو روحانی لذت ہے اس کی کشش نے بھی ان حضرات کو ایسے عمل کی طرف متوجہ کیا جو اللہ پر ارتکاز میں مددگار ہو سکیں۔
چناں چہ ان حضرات نے اپنے ان تجربوں اور حاصلات کو اسی رنگ اور انھیں اصطلاحوں میں پیش کیا جن کے وہ پروردہ تھے۔ اور مزید یہ بھی کہ ان کا عمل ارتکاز بظاہر اس راستے کو بھی پرکشش اور خوب صورت بنا رہا تھا جو ذکر الٰہی کے ذریعہ قرب خداوندی تک لے جاتا ہے۔ اس لیے یہ پورا عمل انھیں ایک مذہبی عمل ہی لگا اور یہ روایت ہمارے یہاں ایک دینی روایت بن گئی۔ لیکن یہ ایک نئی روایت تھی۔
میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ جس طرح آج بعض سائنسی تحقیقات کو قرآن سے ہم آہنگ کر کے پیش کرنے میں ایک روحانی لذت اور کیفیت محسوس ہوتی ہے اسی طرح ہمارے ان بزرگوں کو عالم خیال میں اپنے تجربوں اور مشاہدات کو قرآنی اصطلاحوں میں پیش کرنا دل کو خوش کرنے والا ایک مذہبی تجربہ لگا ہوگا۔
جس طرح عالم مادہ پر سائنسی تگ وتاز نے علم کے نئے دریچے کھولے تھے عالم خیال پر صوفیانہ تگ و تاز ایک دوسرے دریچہ کو کھول رہی تھی۔ جن حضرات نے اس دریچہ پر کام کیا وہ سب بڑے اولو العزم افراد تھے لیکن افسوس کہ وہ اسے علمی تصرّفات کا ایک دریچہ نہ سمجھ سکے اور محض روحانی عمل قرار دے کر اسے ارتقاء سے روک دیا۔ ہمارے دور میں سائیکلوجی کے علم پر توجہ دی گئی لیکن اسے بھی جب دو سطحوں میں قید کردیا تو اس کا ارتقاء رک گیا۔ ایک یہ کہ انسانی مادی تجربات اور رویوں کو جس طرح سوشل سائنس میں مطالعہ کیا جاتا ہے سائیکولوجی کو بھی ان جیسا ہی سمجھ لیا گیا۔ اور دوسرا اسے سائنس کی طرح quantify کیا جانے لگا۔ عالم خیال مادہ سے مختلف ہے اس کے مطالعہ کا طریقہ بھی الگ تھا۔ جس کی ان بزرگوں نے نشان دہی کی تھی۔ یہ میدان کار بھی مختلف تھا جس کا روا رکھنا ضروری تھا۔
صوفیاکی قدر منزلت اور عوامی محبوبیت کی ایک وجہ ان کی انتہائی خوب صورت شاعری، نثر اور مختصر جملے اور فقروں کی ادائیگی بھی ہے۔ ان اصناف میں پائی جانے والی گہرائی اور نفس انسانی کو ششدر کرنے کی صلاحیت وطاقت انھیں ارتکاز کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ ارتکاز دراصل انھیں یکسو کر دیتا ہے اور بہت سے حقائق نسبتاً جلد آشکار ہوجاتے ہیں۔
دوسری ثقافتوں کے mystics اور ہمارے صوفیاعالم خیال کے حاصلات میں اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہی سطح پر ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ صوفیانے اصطلاحیں اور آلات (tools) وہ استعمال کیے ہیں جو ان کی ثقافتی روایات سے ماخوذ ہیں۔ یہ حضرات عالم خیال کے عظیم الشان اور عظیم المرتبت سائنس داں تھے۔ ان کا مطالعہ اس انداز سے اور اسی پس منظر میں کیا جانا چاہیے۔
لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ عالم خیال میں ان کی حصولیابیوں کو ان حضرات نے بالعموم ان مقاصد کے لیے استعمال کیا جو معروف معنی میں دینی تسلیم کیے جاتے ہیں۔■