صلہ رحمی

مثالی خاندان کی تشکیل کے لیے صلہ رحمی کو فروغ دینا ضروری

سیف اللہ، کوٹا، راجستھان۔

 

قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے،
’’ اُن کی روِش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے‘‘ (الرعد: ۲۱)
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے‘‘ (النساء۱)
’’اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘ (البقرہ:۲۷)
’’رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں جو اُن رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت برا ٹھکانا ہے‘‘ (الرعد:۲۵)
سورہ محمد میں اللہ تبارک تعالی نے اس لعنت کے ساتھ انھیں اندھا اور بہرا بھی قرار دیا گیا۔
’’اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا ۔‘‘(محمد:۲۲ تا ۲۳)
’’رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل:۲۶ تا ۲۷)
‏فرمایا:’’پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کا حق) یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔ ‘‘(الروم:۳۸)
’’اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘۔(النحل:۹۰)
رسول اللہ ﷺ کے ارشادات-
فرمایا : جو کوئی ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور آخرت کے دن پر تو چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو کوئی ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اخرت کے دن پر تو چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں کو جوڑے- (بخاری)
ایک حدیث قدسی میں ہے ’’اللہ اپنے بندوں کو بڑے وجد انگیز انداز میں خطاب کرتا ہے ’میں اللہ ہوں اور میں رحمان ہوں- میں نے رحم (یعنی رشتہ) کو پیدا کیا اور اپنے نام (رحمان) سے نکال کر اس کا نام (رحم) رکھا ہے تو کوئی اسے جوڑے گا اسے میں اپنے لئے جوڑوں گا اور جو کوئی اسے کاٹے گا اسے میں اپنے سے جدا کردوں گا‘‘ (ابوداود)
ایک حدیث میں اسے رزق میں کشادگی اور عمر میں درازی کا ذریعہ بتایا گیا فرمایا ’’جو کوئی پسند کرتا ہے کہ اس کی روزی بڑھے اور اس کی عمر میں درازی نصیب ہو تو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ کو جوڑے۔‘‘(متفق علیہ)
جنت میں کسی ایسے شخص کو داخلہ نصیب نہ ہو گا جسے رشتے ناطے کا کوئی پاس نہ ہو اور وہ بے پروائی کے ساتھ اسے توڑتا پھرے۔
حضرت جبیرؓ بن مطعم رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں ’’رشتوں کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا‘‘ (متفق علیہ)
یہی نہیں بلکہ وہ بدنصیب ہے کہ اس کی نحوست سے پوری قوم رحمت ایزدی سے محروم ہو جاتی ہے ’’اللہ کی رحمت اس قوم پر نازل نہیں ہوتی جس کے اندر ایک بھی رشتہ کو کاٹنے والا ہے‘‘ (بیہقی)
آخرت کی سزا تو الگ ہے لیکن وہ دنیا کے اندر بھی اس کی سزا پانے سے کم ہی بچ سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کوئی دوسرا گناہ اس کا زیادہ حق دار نہیں کہ اللہ اس کے ارتکاب کرنے والے کے لئے دنیا میں سزا کی جلدی کرے جبکہ اخرت میں اس کے لئے جو خمیازہ اکھٹا ہے وہ اس سے الگ ہے۔ یہ گناہ ہے بغاوت و سرکشی اور رشتہ کو کاٹنا‘‘ (ترمذی، ابوداود)
رسول اللہ ﷺ نے حدیث کے اندر اس بات کی بہت ترغیب دی ہے کہ عام لوگوں پر صدقہ خیرات کرکے ادمی اگر ایک ثواب کماتا ہے تو اپنے نادار اور اعزہ پر خرچ کر کے وہ دوہرے ثواب کا مستحق بنتا ہے۔
‏ایک اور حدیث میں فرمایا گیا: مسکین پر صدقہ و خیرات کا ثواب ایک صدقہ کا ہے جبکہ رشتہ داروں پر اس کے نیک عمل کا صدقہ و خیرات کا اور صلہ رحمی کا دوہرا ثواب ہے۔ (ترمذی،نسائی، ابن ماجہ)
‏ایک اور حدیث میں فرمایا: رشتہ کو جوڑنے والا نہیں جو برابر معاملہ کرنے والا ہو بلکہ رشتہ جوڑنے والا وہ ہے کہ اگر دوسری طرف سے اس کے رشتہ کو کاٹا جائے تب بھی وہ اسے جوڑے اور جوڑے رکھے۔ (بخاری)
اللہ کا ارشاد ہے ’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اِسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دُنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، اُس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو‘‘ (لقمان:۱۴ تا ۱۵)
آج بھی ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اگر دعوت دین کو موثر قوت کی حیثیت سے آگے بڑھانا ہے اور اسے معتدبہ طاقت کی حیثیت اختیار کروانا ہے تو اس کے بغیر چارہ نہیں کہ کچھ خاندان اس کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور اس کام کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیں۔ خاندانوں کی یہ حمایت اور طاقت دین اور دعوتِ دین کو اور اس سے آگے بڑھ کر اقامتِ دین کو اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ داعیانِ حق اور اقامتِ دین کے دیوانے بھر پور طریقے پر اپنے اپنے دائروں میں ’صلہ رحمی‘ کے تقاضوں کو پورے کریں ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021